جشنِ میلادِ مصطفیؐ
محبوبِ خداکی ولادت باسعادت کی خوشی منانا سب سے اعلیٰ عمل ہے کیونکہ اللہ پاک نے خود اپنے محبوب کی ولادت کی خوشی منائی اور پوری کائنات میں چراغاں کیا۔ ہمارے اوپر بھی فرض ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت میں سے ہیں جن کی اُمت میں شامل ہونے کے لئے تمام انبیا کرام اپنی نبوت چھوڑنے پر تیار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت میں شامل ہونے کی دعا کرتے رہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادت کی خوشی تمام صحابہ کرام ؓمنایا کرتے اور اس کے بعد تابعین اور تبع تابعین کا بھی یہی طرزِ عمل رہا۔ اولیا و فقرا کاملین نے بھی اس روایت و سنت کو زندہ رکھتے ہوئے اپنے اپنے انداز میں ولادتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خوشی میں میلاد النبیؐ کی محافل سجائیں۔ پھر کتنے افسوس ‘دکھ اور کرب کی بات ہے کہ ہم اپنی سالگرہ منائیں، اپنی بیوی کی سالگرہ منائیں، اپنی اولاد کی سالگرہ منائیں اور اپنی شادی کی سالگرہ منائیں‘ مذہبی اور سیاسی جماعتیں اپنے سالانہ اجتماع منعقد کرکے اپنے لیڈروں کی تعریفیں کریں ۔اپنی طاقت عوام کو دکھائیں جھنڈے لہرائیں‘ اپنی جماعت کا یومِ تاسیس منائیں‘ صد سالہ ‘پچاس سالہ قیام کا جشن منائیں، جلوس نکالیں،ہم اپنے ملک کی آزادی کا جشن منائیں‘ حکمران اپنی حکومتوں کی سالگرہ منائیں لیکن اعتراض ہو تو صرف میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے منانے پر۔
آئیں! عہد کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادت اس شان سے منائیں گے جس شان کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مالک ہیں۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہم سب سے پہلے سجدہ شکر بجالائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اُمتی بنایا درودو سلام پڑھیں‘ نعت خوانی کریں اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شانِ رسالت اور حقیقت ِمحمدیہ کو بیان کریں تاکہ شفاعت کے حقدار ٹھہریں اور اس طرح سے نئی نسل بھی آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقت سے آگاہی حاصل کرلے گی، عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے متصف ہوگی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت و عشق ہی وجہ شفاعت ہے کیونکہ:
سبحان اللہ