طالب غوث الاعظمؓ والے شالا کدے نہ ہووَن ماندے ھُو
تحریر:فائزہ گلزار سروری قادری ۔لاہور
سیّد الکونین، نورِ مطلق، محبوبِ سبحانی، بازِ اشہب، شہبازِ لامکانی، غوثِ صمدانی، غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کے القاب کی طرح آپؓ کی شانیں بھی بے حساب ہیں اور ہر شان اس قدر مکمل اور جامع ہے کہ اگر اس پر ہزاروں کتب بھی تحریر کی جائیں تو کم ہیں۔ آپؓ کا سلسلہ سروری قادری آپؓ کی ایک روشن برہان ہے۔ سلسلہ سروری قادری کے طالب مرید کی یہ شان ہے کہ اس کا مرتبہ ہمیشہ بلندی کی طرف ہی رہتا ہے۔ جبکہ دیگر سلاسل کے طالب مرید اگر رجعت کے باعث اپنے روحانی مقام و مرتبہ سے گر جائیں تو انہیں واپس اس مقام تک پہنچنے کے لیے دوبارہ پہلے والے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ خالص سروری قادری طالب مرید کو کسی غلطی کی بنا پر اگر خدانخواستہ کسی مقام پر رجعت ہو جائے اور اس کے مراتب سلب ہوجائیں تو سروری قادری مرشد کامل اکمل کی مہربانی سے بہت جلد وہ اپنے مراتب پر دوبارہ بحال ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لقائے حق تعالیٰ اور مجلسِ محمدیؐ کی دائمی حضوری کے مراتب صرف سلسلہ سروری قادری میں ہی حاصل ہوسکتے ہیں۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
٭ عارف باللہ محبوبِ ربّانی قدرت سبحانی پیر دستگیر شاہ عبدالقادر جیلانی قدس سرّہُ العزیز کا زندگی بھر یہ معمول رہا ہے کہ آپؓ ہر روز پانچ ہزار طالب مریدوں کو شرک و کفر سے پاک کرتے رہے، تین ہزار کو وحدانیت اِلاَّاللّٰہُ میں غرق کر کے فقر میں ’’اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ (فقر جب مکمل ہوتا ہے تو وہی اللہ ہے) کے مرتبے پر پہنچاتے رہے اور دو ہزار کو مجلسِ محمدیؐ کی حضوری میں پہنچاتے رہے۔ آفتاب کی طرح روشن حضوری کا یہ فیض بخش سلک سلوک قادری طریقہ میں باطنی توجہ، حاضراتِ اسم اللہ ذات، ذکرِکلمہ طیبہ، ذوق و سخاوت اور تصور و تصرف کے ذریعے ایک دوسرے تک منتقل ہوتا چلا آرہا ہے اور منتقل ہوتا رہے گا اور قیامت تک دونوں جہان کو روشن و فیضیاب کرتا چلا جائے گا۔ (کلید التوحید کلاں)
قصیدہ غوثیہ میں ہے:
مُرِیْدِیْ لاَ تَخَفْ اَللّٰہُ رَبِّیْ
عَطَانِیْ رِفْعَۃً نِلْتُ الْمَعَالِیْ
ترجمہ: اے میرے مرید کسی سے خوف نہ کھا۔ اللہ میرا پروردگار ہے اور مجھے اس نے وہ بلند مراتب عطا کر رکھے ہیں جہاں عوام کا پہنچنا محال ہے۔
شیخ عبدالرزاقؒ اور ابو الحسنؒ سے روایت ہے کہ سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرمایا کرتے تھے کہ میرے ہاتھ میں ایک کاغذ دیا گیا جس کا طول اس قدر تھا کہ جہاں تک نگاہ کام کر سکتی ہے اور اس پر اپنے دوستوں اور مریدوں کے نام جو قیامت تک میرے ساتھ اپنی نسبت کو درست رکھیں گے‘ لکھے ہوئے دیکھے۔ خالقِ دوجہان کی بارگاہ سے ندا آئی کہ تیرے طفیل ہم نے ان سب کو بخش دیا۔ پھر میں نے دوزخ کے مہتمم فرشتے ’’مالک‘‘ سے پوچھا کہ میرے دوستوں یا مریدوں میں سے کسی کا نام تیرے پاس ہے؟ تو اس نے جواب دیا ’’نہیں‘‘۔
مولانا جمیل الرحمن قادری رضویؒ آپؓ کی شان میں یوں رقمطراز ہیں:
مُرِیْدِیْ لاَ تَخَفْ کہہ کر تسلی دی غلاموں کو
قیامت تک رہے بے خوف بندہ غوثِ اعظمؓ کا
شیخ عبدالرزاقؒ اور شیخ عبدالوہابؒ سے منقول ہے:
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کا فرمان ہے ’’میں اپنے مرید اور مرید کے مرید کا (علیٰ ہذا القیاس سات مرتبہ تک) کفیل اور کارساز ہوں اور اس کے تمام کاموں اور مہمات کا ضامن ہوں۔ اگر میرا مرید مشرق میں کہیں بے پردہ ہوجائے اور میں مغرب میں ہوں تو بے شک میں اس کو ڈھانپ دیتا ہوں۔‘‘
حضرت شیخ ابوالقاسم عمر بزازؒ روایت فرماتے ہیں کہ حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانیؓ فرماتے تھے ’’جب حسین منصور حلاج نے لغزش کھائی تو اس زمانے میں اس کی دست گیری کرنے والا کوئی نہ تھا۔ لیکن اگر میں اس زمانے میں ہوتا تو ضرور اس کی دستگیری کرتا اور میں قیامت تک اپنے بھولے بھٹکے مریدوں اور دوستوں کی دستگیری کروں گا۔‘‘
آپؓ کے سلسلہ کی برتری آپؓ کے دور میں بھی اور آنے والے ہر زمانے میں اولیااللہ تسلیم کرتے آئے ہیں۔ شیخ ابوالبرکات موصلیؓ روایت فرماتے ہیں کہ انہوں نے اپنے چچا شیخ عدی بن مسافرؒ سے سنا ہے کہ جو شخص یہ خواہش رکھتا ہے کہ کسی شیخ ِ کامل کے مریدوں میں شامل ہو کر خرقہ حاصل کرے تو میں اسے پہنا سکتا ہوں (یعنی بیعتِ طریقت لے کر راہِ حق پر چلا سکتا ہوں)۔ لیکن حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کے مریدوں کو میں خرقہ نہیں پہنا سکتا کیونکہ وہ رحمت ِ بے نہایت اور عنایتِ بے غایت میں غرق ہیں اور کسی چیز کی احتیاج نہیں رکھتے اور نہ وہ کسی کی طرف التفات کریں گے کیونکہ سمندر کو چھوڑ کر حوض کی طرف کوئی نہیں آتا۔
حضرت شیخ عبدالرحیمؒ روایت فرماتے ہیں کہ سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کا فرمانِ عالی شان ہے کہ بغداد میں جب اس آدمی کی نسبت پوچھا جائے کہ جس کو مجھ سے نیاز مندی کا تعلق ہے تو کہا جاتا ہے:
’’البیضۃ لا یتالف والروح لا یقوم‘‘ یعنی میرے نیازمندوں میں سے وہ نیازمند جو ابھی وجودِ بشریت کے بیضے سے باہر نہیں نکلا اور حقیقی زندگی سے متصف نہیں ہوا ایک ہزار دوسرے لوگوں سے بہتر ہے اور جس کو اس کے معنی کا کچھ بھی شعور حاصل ہوا تو وہ ایک گراں بہا موتی ہے اور بلند پایہ بے بہا گوہر ہے۔
شیخ حماد بن مسلم الدباسؒ شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے اساتذہ میں سے ایک تھے۔ شیخ ابو نجیب سہروردیؒ روایت فرماتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے حضرت شیخ حماد بن مسلم الدباسؒ کی بابت خبر دی کہ لوگ ان کے ہاں سے رات کو شہد کی مکھی کی سی آواز سنا کرتے تھے اور اس بات کا ذکر کسی نے سیّدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی محی الدینؓ کی خدمت میں کیا۔ اس وقت ابھی آپؓ کی زیادہ شہرت نہ ہوئی تھی۔ ایک دفعہ آپؓ شیخ حماد بن مسلم الدباسؒ کی صحبت میں تشریف لے گئے اور پوچھا:
صحبتِ دبا س را ایں ساز چیست
ہر زماں ایں نغمہ و آواز چیست
ترجمہ: حماد بن مسلم الدباسؒ کی صحبت میں ہر وقت یہ ساز اور نغمے کی کیسی آواز آتی رہتی ہے؟
حضرت شیخ حمادؒ نے فرمایا ’’میرے بارہ ہزار مرید ہیں اور میں ہر رات ان کو یاد کرتا ہوں اور ان کی حاجتیں خدا تعالیٰ سے چاہتا ہوں اور جو کوئی ان میں سے گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے تو میں اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتا ہوں کہ اسے اسی مہینے میں توبہ دے یا اسے جہان فانی سے اٹھا لے تاکہ دیر تک گناہوں میں مبتلا نہ رہے‘‘۔
پس شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے اپنی بارگاہ میں مرتبہ دے تو میں اس بات کی درخواست کرتا ہوں کہ میرے مرید قیامت تک بغیر توبہ کے نہ مریں اور میں ان کا ضامن ہوں گا۔ شیخ حماد رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بات کا مشاہدہ کروایا ہے۔
یہ مراتب تو ان خوش نصیبوں کے ہیں جنہوں نے آپؓ کے دست ِ اقدس پر بیعت کی ہو لیکن آپؓ کی شان اس قدر بلند ہے کہ اگر کوئی آپؓ سے صرف عقیدت بھی رکھے تو وہ بھی ان ہزاروں لاکھوں لوگوں سے بہتر ہے جو آپؓ سے کچھ نسبت نہیں رکھتے۔ حضرت شیخ عمرانؒ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم نے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کی خدمت میں عرض کی کہ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو آپؓ کا مرید بتائے لیکن آپؓ کے ہاتھ پر بیعت نہ کی ہو اور نہ ہی آپؓ سے خرقہ پہنا ہو تو کیا وہ بھی آپؓ کے اصحاب میں شمار کیا جائے گا؟ آپؓ نے فرمایا: ہاں بے شک۔ جو کوئی اپنے آپ کو میری طرف منسوب کرے اس کو حق تعالیٰ قبول کرلیتا ہے اور اس کے گناہوں کو بخش دیتا ہے خواہ وہ کیسے ہی ہوں اور میرے دوستوں میں سے ہو جاتا ہے۔
آپؓ کے اس قدر بلند مراتب کی وجہ سے تمام اولیا اللہ، صوفیا اور فقرا کاملین آپؓ کی محبت کا دم بھرتے ہیں اور آپؓ کی غلامی کو اپنے لیے باعث ِ صد افتخار سمجھتے ہیں۔ شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان پیر سیّد محمد بہادر علی شاہ کاظمی المشہدی رحمتہ اللہ علیہ آپؓ سے یوں عرض گزار ہیں:
خدا قدرت دِتی تینوں
نوازش چا کریں جینوں
دیو حق الیقین مینوں
ونجن خطرات گردانی
بنام اللہ سنو فریاد یا محبوبِ سبحانیؓ
ایک اور مقام پر آپؒ فرماتے ہیں:
آئیم سائل میں در تیرے
دیو مطلوب سب میرے
تیرا کیتا نہ کوئی پھیرے
توئیں معشوقِ رَبانی
بنام اللہ سنو فریاد یا محبوبِ سبحانیؓ
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کی محبت اور عقیدت حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ سے بے مثل و بے مثال ہے۔ آپؒ جابجا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کی شان میں رطب اللسان اور آپؓ کی بارگاہ میں دست ِ نیاز دراز کیے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آپؒ فرماتے ہیں:
طالب غوث الاعظمؓ والے، شالا کدے نہ ہووَن ماندے ھُو
جیندے اندر عشق دی رَتی، سدا رہن کرلاندے ھُو
جینوں شوق مِلن دا ہووے، لے خوشیاں نِت آندے ھُو
دوہیں جہان نصیب تنہاندے باھوؒ، جیہڑے ذاتی اِسم کماندے ھُو
مفہوم: سیّدنا غوث الاعظمؓ کے طالب (مرید) کبھی بھی پریشان نہیں ہوتے اور جس کے اندر رَتی بھر بھی عشقِ حق تعالیٰ ہو وہ ہمیشہ دیدارِ یار کے لئے فریاد کرتے رہتے ہیں اور اس کے لیے بے قرار و بے چین رہتے ہیں۔ وہ محبوبِ حقیقی سے ملاقات کی خوشی میں راہِ فقر میں آنے والی آزمائشیں اور مشکلات بڑی خوشی سے برداشت کرتے ہیں۔ دونوں جہانوں میں وہی بانصیب ہیں جو اسم ِ اللہ ذات کا ذکر اور تصور کرتے ہیں۔
آپؒ مزید فرماتے ہیں:
٭ مرشد کو ایسا صاحب نظر ہونا چاہیے جیسا کہ میرے پیر محی ّالدینؓ ہیں کہ ایک ہی نظر میں ہزارہا طالبوں مریدوں میں سے بعض کو معرفتِ’’ اِلاَّاللّٰہُ‘‘ میں غرق کردیتے ہیں اور بعض کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی دائمی حضوری بخش دیتے ہیں۔ (شمس العارفین)
٭ معرفت ِ فقر و فنا و بقا و صفائے باطن کی حقیقت اور حقائق ِ حق کو وہ شخص جان سکتا ہے جو باطل کو چھوڑ کر حق رسیدہ ہو چکا ہو۔ مگر ہزاروں ہزار طالبوں اور مرشدوں میں سے کوئی ایک جامع سروری قادری ہی ایسا نکلتا ہے جو اللہ جل شانہٗ کی وحدت میں غرق ہوکر مجلسِ محمدیؐ کا ملازم اور شاہ عبدالقادر جیلانیؓ کا غلام بنتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
راتیں رَتی نیندر نہ آوے، دِہاں رہے حیرانی ھُو
عارف دِی گل عارف جانے، کیا جانے نفسانی ھُو
کر عبادت پچھوتاسیں، تیری زایا گئی جوانی ھُو
حق حضور اُنہاں نوں حاصل باھوؒ، جنہاں ملیا شاہ جیلانیؓ ھُو
مفہوم: عشق ِ محبوب میں رات کو نیند نہیں آتی اور دن بھی اسی طرح حیرانی میں گزر جاتا ہے۔ عارف کی بات کو عارف ہی سمجھ سکتا ہے اور عارف کی بات نفس پرست لوگوں کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔ معرفت ِ الٰہی کے حصول کی کوشش کر ورنہ دورِ جوانی گزر جانے کے بعد اس کے ضائع جانے پر تجھے پشیمانی ہو گی ۔ حضورِ حق تعالیٰ تو ان کو حاصل ہوتا ہے جن کے مرشد سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ ہیں۔
پیرانِ پیر دستگیردین و دنیا کے ہر معاملے میں اپنے طالبوں کی دستگیری فرماتے اور ان کا بیڑا پار لگاتے ہیں۔ ظاہر و باطن کے ہر معاملے میں آپؓ کی مدد شامل ِ حال رہتی ہے۔ راہِ فقر میں طالبانِ مولیٰ اگر کسی مقام پر پھنس جائے اور سچے دل سے سیّدنا غوث الاعظمؓ کی بارگاہ میں مدد کے لیے عرض کرے تو آپؓ ضرور اس کی مدد فرماتے ہیں۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ اپنے پنجابی بیت میں بڑی خوبصورتی سے عرض گزار ہیں:
سن فریاد پیراں دا پیرا، میری عرض سنیں کن دَھر کے ھُو
بیڑا اَڑیا میرا وِچ کپراندے، جتھے مچھ نہ بہندے ڈر کے ھُو
شاہِ جیلانیؓ محبوبِ سبحانی، میری خبر لیو جھَٹ کر کے ھُو
پیر جنہاندا میراںؓ باھُوؒ، اوہی کدھی لگدے تَر کے ھُو
مفہوم: یا پیرانِ پیر سیّدنا غوث الاعظمؓ! میری عرض اور التجا ذرا غور سے سنیے۔ راہِ فقر میں، میں اس منزل تک پہنچ گیا ہوں جہاں پہنچنے سے بڑے بڑے عاشق ڈر تے اور خوف زدہ رہتے ہیں لیکن میں اس منزل پر گہرے بھنور میں پھنس گیا ہوں اور اگلی منزل کا راستہ نہیں مل رہا ۔ یا شاہِ جیلانی ؓ! میری خبر گیری کیجیے اور مجھے اس آزمائش سے نکالیے کیونکہ اس جگہ پر آپؓ کے علاوہ اس میری کوئی اور مدد نہیں کر سکتا۔ اے باھُوؒ! غمگین اور افسردہ نہ ہو جن کا پیر سیّدنا غوث الاعظم شاہِ میراںؓ ہو وہی تمام مشکلات کو طے کرتے ہوئے فقر کی آخری منزلاِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ (جہاں فقر کی تکمیل ہوتی ہے وہیں اللہ ہوتا ہے) پر پہنچ جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو آپؓ کی شان و مراتب کو سمجھنے اور آپؓ سے محبت و عقیدت رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور تا دمِ آخر آپؓ کے مریدوں میں شامل فرمائے۔ (آمین) یہ سب کچھ صرف اپنی ذاتی محنت سے ممکن نہیں ہے بلکہ اس کے لیے خلوصِ نیت، عاجزانہ طلب اور سروری قادری مرشد کامل اکمل کی راہبری اشد ضروری ہے۔ جب کوئی طالب باطن میں آپؓ سے سوال کرے تو آپؓ اس کی ہمیشہ دستگیری فرماتے ہیں اور اُس طالب کو اُس دور کے مرشد کامل اکمل کی بارگاہ میں ضرور بالضرور پہنچاتے ہیں۔ اس کے آگے کا سفر طالب کی اپنی نیت، طلب اور مرشد کامل اکمل پر یقین کی پختگی کے سہارے طے ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں طالبانِ مولیٰ کے لیے سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کا فیض شبیہ غوثِ الاعظم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی صورت میں جاری ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس ہزاراں ہزار طالبوں کو بیعت اور بغیر بیعت کے ذکر و تصور اسم اللہ ذات کے فیض سے نواز کر قرب و دیدارِ الٰہی، معرفت اِلاَّاللّٰہُ اور مجلسِ محمدیؐ کی دائمی حضوری کے مراتب سے سرفراز فرما رہے ہیں اور ناقص طالبوں کو خالص بنا رہے ہیں اور یہ عام مشاہدہ ہے کہ اگر کوئی طالب آپ سے ذرّہ برابر بھی عقیدت رکھے تو آپ مدظلہ الاقدس کی خاص مہربانی سے اس کا خاتمہ بالخیر ہوتا ہے اور وہ اُخروی روسیاہی سے محفوظ رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ مدظلہ الاقدس کے مراتب کو چار چاند لگائے اور آپ کی صحت اور عمر میں خیر اور برکت عطا فرمائے اور آپ کے درِ اقدس سے فقر کے فیض کو تاقیامت جاری و ساری رکھے۔ آمین
استفادہ کتب:
شمس العارفین ۔ تصنیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
کلید التوحید کلاں ایضاً
شمس الفقرا تصنیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
خلاصۃ المفاخر فی مناقب شیخ عبدالقادرؒ از علامہ عبداللہ بن اسعد الیافعی الشافعیؒ مترجم سید محمد فاروق القادری