Alif | الف
توفیقِ الٰہی
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے :
راہِ فقر میں توفیقِ الٰہی (فضلِ الٰہی) تمام کامیابیوں اور کامرانیوں کی بنیاد ہے۔ طالب کے لئے ضروری ہے کہ ہمیشہ راہِ حق میں آگے بڑھنے کی کوشش کرے لیکن ہر کامیابی کو توفیقِ الٰہی سمجھے۔ انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ ہمت اور کوشش کے عوض عدل و انصاف کی طلب گار ہوتی ہے مگر صادق طالبِ مولیٰ خدا سے عدل نہیں فضل کی التجا کرتا ہے۔
راہِ فقر میں کامیابی اللہ کے فضل اور کرم کے بغیر ممکن نہیں ہے لیکن اس کے فضل و کرم کے لئے نیت میں اخلاص کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔
راہِ فقر راہِ عشق ہے۔ عاشق عشق بس عشق کی خاطر کرتے ہیں۔ صلے میں کچھ مانگنا عشق کی فطرت نہیں۔ طالب تو اس راہ میں مقامات و درجات کا بھی طالب نہیں ہوتا۔ اسمِ اللہ ذات کا ذکر اور تصور بھی اللہ تک پہنچنے کا بہانہ یا وسیلہ ہے اس لئے وہ اس کے عوض کسی بھی چیز کی امیداور خواہش ترک کر کے سب کچھ فضلِ ربیّ پر چھوڑ دیتا ہے اور اللہ سے صرف نعمتِ دیدار کا ہی طلب گار ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا تَوْفِیقِیْ اِلَّا بِاللّٰہ (سورۃ ھود ۔88)
ترجمہ: اور میری توفیق اللہ (کی مدد) سے ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
توفیق قدرتِ الٰہی کا ایک نور ہے۔ قربِ الٰہی کی توفیق سے وجود کی تحقیق حاصل ہوتی ہے۔ توفیق کی قوت سے اہلِ توفیق طالب اپنے وجود میں صورتِ نفس، صورتِ قلب، صورتِ روح اور صورتِ سرّ کے ساتھ ہمکلام رہتا ہے۔ بعد ازاں وہ حق اختیار کر لیتا ہے اور باطل کو چھوڑ دیتا ہے۔(نور الہدی کلاں)
اللہ کی راہ نہ علم میں ہے اور نہ جہالت میں بلکہ اللہ کی خالص محبت میں ہے۔ یہ راہ اسے نصیب ہوتی ہے جس کی رفیق توفیقِ الٰہی ہو۔(عین الفقر)
مرشد کامل توفیقِ الٰہی کا دوسرا نام ہے۔ توفیقِ الٰہی کے بغیر کوئی بھی کام سرانجام نہیں دیا جا سکتا۔ (عین الفقر)
سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ بھی مرشد کامل کو ہی توفیقِ الٰہی کا مترادف قرار دیتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:
راہِ فقر میں توفیقِ الٰہی اصل میں مرشد کامل کو کہتے ہیں۔ جب تک توفیقِ الٰہی شاملِ حال نہ ہو کوئی کام کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتا۔
یہ بات یا درکھنی چاہیے کہ توفیقِ الٰہی (مرشد کامل) ،اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اسکی مدد شامل حال نہ ہوتو راہِ فقر میں کامیابی ناممکن ہے۔