الف-Alif
مرشد کامل اکمل ۔ تعلیماتِ اقبالؒ کی روشنی میں
علامہ اقبالؒ راہِ فقرپر سفر کے لیے مرشد کامل اکمل کی راہبری لازمی سمجھتے ہیں کیونکہ مرشد کے بغیر باطن کا راستہ ہی نہیں ملتا خواہ ساری عمر عبادت و ریاضت میں مصروف رہے۔ آپؒ فرماتے ہیں:
اگر کوئی شعیبؓ آئے میسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے
آپؒ اسمِ اللہ ذات کے تصور کے ساتھ ساتھ مرشد کی نگاہ کو لازمی سمجھتے ہیں:
فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے
نگاہِ مرشد کے بارے میں مزید فرماتے ہیں:
الٰہی سحر ہے پیرانِ خرقہ پوش میں کیا!
کہ اِک نظر میں جوانوں کو رام کرتے ہیں
مرشد کی بارگاہ کے آداب بیان کرتے ہوئے آپؒ فرماتے ہیں:
دین نگردد پختہ بے آدابِ عشق
دین بگیر اس صحبتِ اربابِ عشق
ترجمہ: آدابِ عشق کے بغیر دین کی کنہ حاصل نہیں ہوتی اور اصل دین تو اربابِ عشق (مرشد کامل) کی صحبت و نگاہ سے حاصل ہوتا ہے یعنی دین ظاہری علم اور کتب سے حاصل نہیں ہوتا۔
علامہ اقبالؒ جہاں مرشد کامل اکمل کے دامن سے وابستہ ہونے کی تلقین کرتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر فقر اور خودی کے راز تک رسائی حاصل نہیں ہو سکتی، وہاں آپ روائتی پیروں، گدی نشینوں اور سجادہ نشینوں سے دور رہنے کی تلقین بھی فرماتے ہیںکیونکہ ان کے پاس گفتگو اور قیل و قال کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔
باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری
اے کشتۂ سلطانی و ملائی و پیری!
آپؒ کی تعلیمات کے مطابق ان صیادوں کے پھندوں سے بچنا چاہیے ورنہ دینِ حق تو دور کی بات طالب کو ان سے اگر کچھ نہ ملے یا ناکامی ملے تو وہ گمراہ ہو جاتا ہے۔
خداوند یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری
(سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی مشہورِ زمانہ تصنیف ’’فقرِ اقبالؒ‘‘ سے شکریہ کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔)