اللہ تک پہنچنے کی سواریاں Allah Tuk Pohnchne Ki Sawariyan


3.7/5 - (16 votes)

اللہ تک پہنچنے کی سواریاں Allah Tuk Pohnchne Ki Sawariyan 

تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی معرفت و پہچان کے لیے پیدا فرمایا ہے اس لیے وہ ان کے اپنی طرف آنے کا منتظر رہتا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے اپنی طرف آنے کے راستے طالبانِ مولیٰ کے لیے وَا کر دیئے ہیں تاکہ وہ اللہ کا قرب حاصل کر سکیں۔ اللہ پاک نے اپنی طرف آنے کے لیے انسان کے لیے دو سواریاں بنائیں یعنی فقرا ور فاقہ۔ اگر فقر و فاقہ کے لغوی مفہوم دیکھے جائیں تو فقر سے مراد ہے تنگدسی و محتاجی اور فاقہ سے مراد ہے مفلسی، غربت، کھانے کو کچھ نہ ہونا۔ فقر و فاقہ کے لغوی معانی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو تنگدستی اور مفلسی میں انسان اللہ تعالیٰ کو شاذ و نادر ہی یاد کرتاہے بلکہ اکثر اوقات مفلس و تنگدست افراد کو گلے و شکوے ہی کرتے دیکھا گیا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ سے کسی نے ارکانِ اسلام کے متعلق پوچھا تو فرمایا:

پنج رکن اسلام دے تے چھیواں فریدا ٹک
جے لبھے نہ چھیواں تے پنجے ای جاندے مک

مفہوم:اسلام کے پانچ رکن بیان کیے جاتے ہیں لیکن اے فرید! ایک چھٹا رکن بھی ہے اور وہ ہے’ ’روٹی‘‘۔ اگر یہ چھٹا نہ ملے تو باقی پانچ بھی چلے جاتے ہیں۔

اگر مفلس و تنگدست انسان اللہ کو یاد کرتا بھی ہے تو محض اپنی مفلسی و محتاجی دور کرنے کے لیے۔ وہ اس کے حضور گریہ کناں ہوتا ہے تو اپنی غریبی مٹانے کے لیے۔ پس مفلسی و تنگدستی کے ان حالات میں انسان اللہ کا قرب کیسے پا سکتا ہے! پس وہ انسان طالبِ مولیٰ نہیں ہوتااور نہ ہی فقر و فاقہ ’تنگدستی و مفلسی‘ کے معانی کے اعتبار سے انسان کے لیے اللہ کے قرب کی طرف جانے والی سواریاں ہو سکتی ہیں۔

فقر و فاقہ کے اصطلاحی معانی پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ فقر سے مراد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وہ ورثہ ہے جس پر آپؐ نے فخر فرمایا۔ لہٰذا فقر سے مراد وہ نعمتِ عظمیٰ ہے جس کے حاصل ہونے پر انسان اللہ کے سوا کسی کا محتاج نہیں رہتا جیسا کہ حدیثِ مبارکہ ہے:
اَلْفَقْرُ لَا یُحْتَاجُ اِلَّا اِلَی اللّٰہ 
ترجمہ: فقر اللہ کے سوا کسی کا محتاج نہیں۔

اصطلاحی معنوں میں فاقہ سے مراد ہے انسان کے پاس اللہ کی ذات کے علاوہ کچھ نہ ہو۔ یعنی انسان کا اللہ کے ساتھ تعلق اس قدر مضبوط ہو کہ اس کے پاس خواہ ظاہری طور پر کثیر مال و دولت ہو یا نہ ہو لیکن اس کے دل میں اللہ کی محبت کے سوا کچھ موجود نہ ہو۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ ایسے انسان کے لیے غریب کی اصطلاح بھی استعمال فرماتے ہیں ’’غریب وہ ہے جس کے وجود سے غیر اللہ نکل گیا ہو اور اس کے اندر ھوُ (اللہ تعالیٰ) کے سوا کچھ نہ ہو۔‘‘

فقر و فاقہ کے اصطلاحی معنی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انہیں انسان کے لیے سواری بنایا ہے کہ جو اِن دو چیزوں کو اختیار کر لے یعنی اللہ کے قرب کے لیے فقر کی راہ اختیار کرے اور غیر ماسویٰ اللہ سے نجات حاصل کر کے باطنی طور پر اس قدر غریب اور مفلس ہو جائے کہ اس کے پاس طلبِ مولیٰ اور محبتِ مولیٰ کے سوا کچھ نہ بچا ہو تو اس انسان کے لیے اللہ کا قرب پانا کچھ مشکل نہیں۔ یہ دونوں سواریاں انسان کے لیے قرب، معرفت اور وصال کے راستے کو آسان کر دیتی ہیں بہ نسبت ورد ،وظائف اور زہد و ریاضت کے۔ زہد و ریاضت اور چلہ کشی کا راستہ بہت طویل ہے جس میں اکثر انسان کو بارہ سال یا چوبیس سال تک ریاضت کرنی پڑتی ہے تب جا کر صرف اللہ کا عرفان اور قرب حاصل ہوتا ہے وصال تو بہت دور کی بات ہے۔ جیسا کہ حضرت بہاؤ الدینؒ نقشبند بارہ سال اسمِ اعظم کو اپنے دل پر نقش کرنے کے لیے جدوجہد کرتے رہے لیکن پھر بھی ناکام رہے اور بالآخر سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کے مزار مبارک پر حاضر ہو کر التجا کی:

یا دستگیرِ عالم دستم مرا بگیر
دستم چناں بگیر کہ گوئندت دستگیر

ترجمہ: اے جہان بھر کی دستگیری کرنے والے! میری بھی دستگیری فرمائیں اور اس طرح دستگیری فرمائیں جس شان کا آپؓ کو دستگیر کہا جاتا ہے۔

اس پر سیدّنا غوث الاعظمؓ نے اپنا دایاں ہاتھ مبارک اپنی قبر سے باہر نکال کر اسمِ اللہ ذات کی صورت میں ان کے سامنے کیا اور فرمایا:

اے نقشبندِ عالم نقشم مرا بہ بند
نقشم چناں بہ بند کہ گوئندت نقشبند

ترجمہ: اے نقشبندِ عالم! میرے والا نقش (اسمِ اللہ ذات) جما اور ایسا جما کہ رہتی دنیا تک لوگ تجھے نقشبند کے نام سے یاد کریں۔
اس کے ساتھ ہی حضرت بہاؤ الدین نقشبندؒ کے قلب مبارک پر اسم اللہ  ذات نقش ہوگیا۔ 

میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس اسمِ اللہ  ذات کے متعلق فرماتے ہیں:
اسمِ ’’اللہ ‘‘ اسمِ ذات ہے اور ذاتِ سبحانی کے لیے خاص الخاص ہے۔ علمائے راسخین کا قول ہے کہ یہ اسم ِ مبارک نہ تو مصدر ہے اور نہ مشتق، یعنی یہ لفظ نہ تو کسی سے بنا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی لفظ بنتاہے اور نہ اس اسمِ پاک کامجازاً اطلاق ہوتا ہے جیسا کہ دوسرے اسما مبارک کا کسی دوسری جگہ مجازاً اطلاق کیا جاتا ہے۔ گویا یہ اسمِ پاک اس قسم کے کسی بھی اشتراک اور اطلاق سے پاک، منزّہ ومبرّا ہے۔ اللہ پاک کی طرح اسمِ اللہ بھی احد، واحد اور ’’لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ‘‘ہے۔(حقیقت اسم  اللہ ذات)

 یہ اللہ  کا ذاتی نام ہے جس کے وِرد سے بندے کا اپنے ربّ سے خصوصی تعلق قائم ہوتا ہے۔ یہ اسمِ پاک قرآنِ پاک میں چار ہزار مرتبہ آیا ہے۔ عارف باﷲ فقرا کے نزدیک یہی اسمِ اعظم ہے۔ یہ نام تمام جامع صفات کا مجموعہ ہے کہ بندہ جب اللہ کو اس نام سے پکارتا ہے تو اس میں تمام اسمائے صفات بھی آجاتے ہیں گویا وہ ایک نام لے کر اسے محض ایک نام سے نہیں معناً تمام اسمائے صفات کے ساتھ پکارلیتا ہے ۔یہی اس اسم کی خصوصیت ہے جو کسی اور اسم میں نہیں ہے۔ (حقیقت اسم اللہ ذات)

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
واضح رہے کہ تصور اسمِ اللہ ذات کی مشق سے دنیا وآخرت کی زندگی سے نجات اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی دائمی حضوری نصیب ہوتی ہے۔ تصور اسمِ اللہ ذات کرنے والے کا وجود ظاہر و باطن میں نص و حدیث کے موافق ہو جاتا ہے۔ اس کی زبان اللہ کی تلوار بن جاتی ہے اور وہ   اَلْمُفْلِسُ فِیْ اَمَانِ اللّٰہ  کے مصداق اللہ تعالیٰ کی امان میں ہوتا ہے۔ تصور اسمِ اللہ ذات کرنے والا ذاکر اللہ تعالیٰ کا خزانہ اور اس کا بھید ہوتا ہے کیونکہ وہ شرک،کفر، بدعت اور حرص و ہوا سے فارغ ہوتا ہے۔ اس کی آنکھ حق بین ہوتی ہے۔ وہ اہلِ دنیا باطل و بے دین سے بیزار ہوتا ہے۔ اس کا سینہ علمِ معرفت و توحید سے پرُ ہوتا ہے۔ وہ بے ریا و بے تقلید ہوتا ہے۔ اس کا ہاتھ سخی ہوتاہے۔ اس کا قدم شریعت کی سیدھی راہ پر ہوتا ہے۔ وہ امرِ معروف پر کمر بستہ رہتا ہے اور نفس سے جہاد کرتا ہے۔ اس کے وجود میں اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ نہیں رہتا۔ اس کے وجود میں تصور اسمِ اللہ ذات ہوتا ہے اس لیے وہ جو کچھ دیکھتا ہے حضورِ قلب سے دیکھتا ہے اس کے تمام اعضا تصورِ اسمِ اللہ ذات میں لپٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ اسمِ اللہ ذات میں نور ہی نور ہے۔ اس کا وجود مغفور ہوتا ہے اوروہ ہمیشہ اپنے نفس پر غالب اور قلندر صفت ہوتاہے۔ (کلید التوحید کلاں)

جب اسمِ اللہ ذات طالبِ اللہ کے وجود میں تاثیر کرتا ہے تو اس پر رنگِ معرفت چڑھتا ہے اور وہ مرتبۂ کمال پر پہنچ جاتا ہے،اس کے وجود سے دُوری مِٹ جاتی ہے اور وہ اپنی مراد کو پا لیتا ہے۔ اب وہ چشمِ عیاں سے جب بھی دل کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اسے اپنے وجود کے ہر ایک بال پر اسمِ اللہ ذات کا نقش نظر آتا ہے بلکہ وجود کے انگ انگ پر اسمِ اللہ ذات لکھا ہوا نظر آتا ہے اور اس کے گوشت پوست، بالوں، ہڈیوں، رگوں اور مغز و دل کی زبان پر اسمِ اللہ ذات کا وِرد جاری ہو جاتاہے اور اسے دَرودیوار و بازار اور درختوں پر واضح طور پر اسمِ اللہ ذات لکھا ہوا نظر آتا ہے،وہ جدھر بھی نظر اُٹھاتا ہے اُسے اسمِ اللہ ذات لکھا نظر آتا ہے،وہ جو کچھ سنتا ہے یا بولتا ہے اسے اسمِ اللہ ذات ہی کی آواز سنائی دیتی ہے۔ (شمس العارفین)

پس فقر کے راستہ پر اسمِ اللہ ذات کے ذکر و تصور کی مشق سے ہی انسان کو اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے بشرطیکہ سروری قادری مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ سے حاصل ہوا ہو۔ اسی لیے اللہ کے قرب کے لیے فقر و فاقہ کی راہ اختیار کرنے کا اللہ تعالیٰ نے خود حکم فرمایا۔
’’الرسالۃالغوثیہ ‘‘میں سیدّنا غوث الاعظمؓ کی اللہ تعالیٰ سے الہامی گفتگو کے دوران اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یَا غَوْثَ الْاَعْظَمْ جَعَلْتُ الْفَقْرُ وَ الْفَاقَۃُ مَطِیَّۃِ الْاِنْسَانِ فَمَنْ رَکَبَھُمَا فَقَدْ بَلَغَ الْمَنْزِلَ قَبْلَ اَنْ یَقْطَعَ الْمَفَاوِزَ وَ الْبَوَادِیْ 
ترجمہ: اے غوث الاعظمؓ! میں نے فقر اور فاقہ دونوں کو انسان کے لیے سواری بنایا پس جو کوئی ان دونوں پر سوار ہوا وہ جنگلوں اور وادیوںکو طے کرنے سے پہلے ہی منزلِ مقصود پر پہنچ گیا۔

راہِ فقر مرشد کامل اکمل اور اسمِ اللہ ذات کے ذکر و تصور کے بغیر طے نہیں ہوتی جبکہ وظائف و چلہ کشی کی زہد و ریاضت سے اللہ کا قرب پانا بہت دشوار ہے جیسا کہ بہاؤ الدینؒ نقشبند کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
لَیْلَۃُ الْفَاقَۃِ مِعْرَاجُ الْفُقَرَآئِ 
ترجمہ: فاقہ کی رات فقرا کے لیے معراج ہوتی ہے۔

معراج کا لغوی معنی تو عروج ہے لیکن اصطلاحی معنوں میں معراج سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف عروج کر کے اس کے حضور پہنچنا ہے جس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو معراج نصیب ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ تعالیٰ کے دیدار اور انتہائی قرب سے مشرف ہوئے۔ فقرا کے لیے فاقہ کی رات معراج یعنی دیدار کی رات ہوتی ہے یعنی جب فقرا اللہ کی خاطر سب کچھ قربان کر کے خالی ہاتھ ہو جاتے ہیں تو انہیں اللہ تعالیٰ کا دیدار حاصل ہوتا ہے۔ 

جنگلوں اور وادیوں کو طے کرنے سے مراد بھی چلہ کشی اور ریاضت و مجاہدہ ہے۔ لہٰذا جو طالبِ مولیٰ فقر و فاقہ کو اختیار کرتا ہے اس کے لیے اللہ کے قرب و وِصال کا راستہ مختصر ہو جاتاہے اور وہ زہد و ریاضت کی طویل مشقت میں مبتلا ہوئے بغیر محض فقر و فاقہ کی راہ اختیار کر کے مرشد کامل اکمل کی مہربانی و نظرِکرم اور اسمِ اللہ ذات کے ذکر و تصور کے فیض سے اللہ کی پہچان و معرفت حاصل کر کے اس کا قرب و وصال پا لیتا ہے۔

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس سے اسمِ اللہ ذات کا ذکر و تصور فی سبیل اللہ حاصل کرنے کے لیے خانقاہ سلطان العاشقین تشریف لائیں۔

استفادہ کتب:
۱۔الرسالۃ الغوثیہ:  تصنیف لطیف سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ
۲۔کلید التوحید کلاں:  تصنیف لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۳۔شمس العارفین:  ایضاً
۴۔حقیقت اسمِ اللہ ذات:  تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس

 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں