نمرہ سرفراز۔اوکاڑہ
سوال: حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات میں جاسوس طالب کا بہت ذکر ہے۔ یہ طالب کی کونسی قسم ہے؟
جواب: مرشد کامل اکمل کی بارگاہ میں آنے والے سبھی مریدطالبِ مولیٰ نہیں ہوتے بلکہ طالبِ دنیا و عقبیٰ اور جاسوس و ناقص طالب بھی آتے ہیں اور مرشد صفت ’’ستار ‘‘کے ذریعے ان پر پردہ ڈالے رکھتا ہے اور وقت مقررہ تک ان کو مہلت دیتا رہتا ہے۔ جاسوس طالب وہ ہے جو مرشد میں عیب تلاش کرتا رہے اور مرشد کی نیک و بد کی ٹوہ میں رہتا ہے اور ساتھ ساتھ طالبانِ مولیٰ کو اللہ سے گمراہ اور بدگمان کرتا ہے۔
حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
* ’’جاسوس طالب تو لاکھوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں لیکن طالبِ حق ایک دو ہی ملتے ہیں۔‘‘ (کلید التوحید کلاں)
جاسوس طالب کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
* ’’خبردار ، بدخصلت طالب پرُفریب شیطان ہوتا ہے جو لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم پڑھنے سے بھی دفعہ نہیں ہوتا۔ بدکردار (جاسوس و ناقص) طالب اور فاحشہ طبیعت باعثِ خرابی ہوتے ہیں کہ یہ دونوں دشمنِ جان ہیں بلکہ دشمن ایمان و یقین ہیں۔ (محک الفقر کلاں)
لئیق الرحمن۔ اسلام آباد
سوال: خرطوم کا کیا مطلب ہے اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
جواب: خرطوم کے لغوی معنی تیز نشے والی انگوری شراب کے ہیں لیکن اس سے مراد کوئی بھی خلافِ شریعت و طریقت و فقر ایسا خبط ہے جو ذہن پر اس طرح چھا جائے کہ ہر روحانی اور اخلاقی احساس ختم کر دے‘ خرطوم کہلاتا ہے۔ شریعت اور فقر کے اپنے اصول و ضوابط اور قاعدے قوانین ہیں جن پر چل کر ہی انسان اپنی منزل تک پہنچتا ہے۔ اگر ان اصول و ضوابط کے خلاف کوئی خبط ذہن پر سوار ہو کر پختہ ہو جائے تو اسے خرطوم کہتے ہیں۔
اس کا علاج صرف ذکر و تصور اسم اللہ ذات اور مشقِ مرقوم وجودیہ ہے جو کسی صاحبِ مسمّٰی مرشد سے حاصل ہوتے ہیں۔
مسکان یوسف۔ لاہور
سوال: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عورت کی بیعت ضروری نہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مرشد کی ضرورت نہیں والدین ہی مرشد ہیں۔ برائے مہربانی وضاحت فرما دیں کیا عورت کی بیعت ضروری نہیں؟
جواب: عورت کی بیعت کو غلط قرار دینا یا یہ سوچنا کہ مرد و خواتین دونوں کو بیعت کی ضرورت نہیں‘ بالکل گمراہ اور غلط سوچ ہے۔ اللہ کے قرب و وصال اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری ہر اس مرد و عورت کا حق ہے جو اس کا طالب ہے۔ جس دل میں طلبِ مولیٰ کے علاوہ دوسری کوئی طلب نہ ہو وہی اصل مرد ہے چاہے ظاہری طور پر وہ عورت ہی کیوں نہ ہو لیکن درحقیقت وہ مرد ہے۔ ظاہری لحاظ سے اگر عورت کی بیعت کی بات کی جائے تو اس کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: اے پیغمبر! جب تمہارے پاس مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کو آئیں کہ خدا کے ساتھ شرک کریں گی نہ بہتان باندھیں گی اور نہ نیک کاموں میں تمہاری نا فرمانی کریں گی تو ان سب سے بیعت لے لو اور ان کے لئے خدا سے بخشش مانگو۔ (سورۃ الممتحنہ۔12)
لہٰذا بیعت فرض ہے اور اس کیلئے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ یہ ایک قلبی معاملہ ہے اور قلب پر فقط اللہ کا حق ہے کسی غیر کا نہیں۔ یہ انتہائی جاہلانہ سوچ اور انداز ہے کہ والدین ہی مرشد ہیں۔ کیا مرشدی کوئی بہت آسان کام ہے کہ خوبصورت لباس پہن کر دین کی چندباتیں سیکھ کر کسی گدی پر بیٹھ جائے، یہ ہرگز مرشدی نہیں بلکہ فقرا کاملین فرماتے ہیں:
مرشد کادل ایک آئینہ ہے طالب کو اس میں اپنی حقیقت اور اصل صورت دکھائی دیتی ہے۔ (سلطان العاشقین)
اور آئینہ تو پاک صاف اور شفاف ہوتا ہے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ والدین بھی مرشد ہیں تو کیا وہ اس شخص کواس بات کی ضمانت دے سکتے ہیں کہ اس کے والدین بے عیب اور پاک ہیں اور قدمِ محمد ؐ پر ہیں؟ یہ لوگ اپنے ماں باپ کے بارے میں یہ ضرورکہہ سکتے ہیں کہ والدین کا ادب واحترام اور فرمانبرداری کرنا تو فرض ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ والدین سے گناہ سرزد نہیں ہوتا۔
مرشد کے دل کے بارے میں تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:
ترجمہ:’’شیخ و مرشد کامل اپنی قوم (مریدوں) میں ایسے ہوتا ہے جیسا کہ ایک نبی اپنی امت میں‘‘ اس لئے ایسے لوگوں کی بات محض گپ شپ اور وقت کی بظاہر بربادی ہے۔
جان محمد۔ پشاور
سوال: عشقِ مجازی سے کیا مراد ہے؟
عشقِ مجازی دراصل عشقِ مرشد ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ مبارکہ مجازی صورت میں انسانِ کامل میں جلوہ گر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان رسالہ روحی شریف میں درج ہے ’’اور میرا ظہور مکمل ہو ا اس ذات (انسانِ کامل) میں‘‘۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا ظہور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صورت میں ہوا پھر ہر دور میں اکمل ترین افراد کی صورت میں ہوتا رہا اور ہو رہا ہے۔ عشقِ مجازی (عشقِ مرشد) اسم اللہ ذات کے ذکر اور تصور سے پیدا ہوتا ہے یعنی طالب جب اسم اللہ ذات کا تصور شروع کرتا ہے تو سب سے پہلے اسے تصورِ مرشد حاصل ہوتا ہے اور اس طرح مرشد سے عشق کا آغاز ہوتا ہے اسکے دو فوائد ہیں اوّل یہ کہ اس میں استدراج اور دھوکا نہیں ہوتا ہے کیونکہ اسم اللہ ذات سے یہ تصور حاصل ہوا ہے اوردوسرایہ کہ اس سے طالب (مرید) کو یقین ہوجاتا ہے کہ میرا مرشد کامل ہے اور میں صراطِ مستقیم پر ہوں ۔پھر یہ عشق مرشد سے آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عشق کی طرف اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے عشق یعنی عشقِ حقیقی میں تبدیل ہو جاتا ہے اور طالب فنا فی اللہ بقا باللہ کی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ تصور اسم اللہ ذات کے بغیر عشقِ مجازی میں استدراج اور فریب ہے اور عشقِ مجازی کے بغیر عشقِ حقیقی کا دعویٰ سراسر جھوٹ ہے۔
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments