مرشد کامل اکمل کا طریقۂ تربیت
حدیث مبارکہ ہے :
اَلشَّیْخُ فِیْ قَوْمِہٖ کَنَبِیٍّ فِیْ اُمَّتِہٖ ترجمہ: شیخ (مرشد ِ کامل) اپنی قوم (مریدوں) میں ایسے ہوتا ہے جیسے کہ ایک نبی اپنی اُمت میں۔
یعنی مرشدکامل اکمل اپنے مریدین کی تربیت بالکل اسی طرح سے کرتا ہے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فرمائی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد مبارکہ ہے :
میری امت کے آخری دور میں ہدایت اسی طرح پہنچے گی جیسے میں تمہارے درمیان پہنچا رہا ہوں۔ (مسلم)
حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کا طریقہ تربیت کیا تھا؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو طویل ورد اور وظائف میں مشغول فرمایا تھا؟ اس کا جواب ہمیں قرآنِ مجید کی اس آیت مبارکہ سے ملتا ہے:
ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَۃَ(الجمعہ۔2)
ترجمہ: وہی اللہ ہے جس نے معبوث فرمایا اُمیوں میں سے ایک رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) جو پڑھ کر سناتا ہے ان کو اس کی آیات اور (اپنی نگاہِ کامل سے) ان کا تزکیۂ نفس (نفسوں کو پاک) کرتا ہے اور انہیں کتاب کا علم (علم ِ لدُّنی) اور حکمت سکھاتا ہے۔
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صحابہ کرامؓ کو قرآن پاک کی تعلیم دیتے اور پھر نگاہِ کامل سے ان کاتزکیہ فرماتے تاکہ ان کے قلوب پاک ہو کر قرآن کے نور کو جذب کرنے کے اہل ہو سکیں۔ جب نفس کا تزکیہ ہوجاتا تو تصفیہ ٔ قلب خودبخود ہو جاتا اور جلوۂ حق آئینہ ٔ دل میں صاف نظر آنے لگتا اور دل جلوہ ٔ حق کے لیے بے قرار رہنے لگتا۔ یہ بے قراری دراصل عشق ِ الٰہی کا آغاز ہے اور عشق ِ حقیقی کا یہ شعلہ محبوبین ِ الٰہی کی نورانی صحبت کے بغیر نہیں بھڑکتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت عمرؓسے فرمایا کہ تم میں سے کسی کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوتا جب تک وہ مجھ سے اپنی جان ،مال اور اولاد سے زیادہ محبت نہیں رکھتا تو یہ سن کر حضرت عمر ؓنے عرض کیا کہ حضور(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم )! میں اپنے اندر یہ کیفیت محسوس نہیں کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’ کیا تم محسوس نہیں کرتے‘‘؟ اِس خطاب سے حضرت عمر ؓکے مراتب بلند ہو گئے اور فوراًعرض کیا کہ اب محسوس کرتاہوں۔ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت معاذبن جبل ؓ(یا کسی اور صحابیؓ) کویمن کا عامل مقرر کرکے بھیج رہے تھے۔ انہو ں نے عرض کیا ’’ حضور( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)! میرے اندر عامل بننے کی صلاحیت نہیں ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اِن کے کندھے کو چھواتو وہ فوراً چلا اُٹھے ’’حضور(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)! اب وہ صلاحیت میں اپنے اندر محسوس کرتا ہوں ۔‘‘یہ ہے باطنی توجہ سے تزکیۂ نفس کرنا اور روحانی مراتب بلند کرنا۔
یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نگاہِ کامل اور صحبت کافیض ہی تھا جس کی بدولت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں موجود تمام عیوب نہ صرف ختم ہو گئے بلکہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرتِ کاملہ کا ہی عکس بن گئے۔ تابعین نے روحانی پاکیزگی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی صحبت میں رہ کر پائی اور تبع تابعین نے تابعین کی صحبت سے۔ فیضانِ نبوت کا یہ سلسلہ خلافت در خلافت اب تک جاری ہے۔ چونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رسالت تا قیامت قائم ہے اس لیے قیامت تک ہر دور میں علمائے حق، عارفین اور اولیائے کاملین رحمتہ اللہ علیہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے روحانی وارث ہوتے رہیں گے۔ ان ہستیوں نے علم، اخلاق، تقویٰ ، ایمان اور روحانی قوتیں وغیرہ سب کچھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ورثے میں پایا ہے۔
آج کل کے مادہ پرست دور میں لوگوں کے پاس اتنا وقت اور ہمت نہیں رہی کہ وہ نفسانی بیماریوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے محنت، ریاضت اور سخت مجاہدات کریں اور ورد وظائف وغیرہ میں مصروف رہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ زیادہ وردو وظائف سے نفس پاک ہونے کی بجائے عبادات کے غرور میں مبتلا ہو کر مزید میلا اور موٹا ہو جاتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات کے مطابق اس کے لیے بہترین اور آسان ترین طریقہ ذکر اور تصور اسم اللہ ذات ہے اورسلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اس روئے زمین پر اور مشائخ سروری قادری میں وہ واحد ہستی ہیں جو اپنے ہر طالب کو بیعت کے پہلے روز ہی سلطان الاذکار (اسم ِ اعظم) ’’ھُو‘‘ عطا فرما دیتے ہیں اور اسم اللہ ذات کا نقش تصور اور مشق ِ مرقومِ وجودیہ کے لیے عطا فرما کر فقر کی انتہا پر پہنچنا آسان کر دیتے ہیں۔