حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی فکرِ حق اور جہدِ مسلسل
تحریر: وقار احمد سروری قادری
سرورِ کونین ‘محبوبِ خدا‘ وجۂ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیاتِ طیبہ کی ہر ہر ادا دلربا اور ہر ہر بات بے مثل و لاثانی ہے۔ اللہ ربّ العزت نے چالیس سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو شرفِ نبوت بخشا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بچپن اور جوانی بھی اُسی طرح طیب و طاہر ہیں جس طرح بعثت کے بعد کی زندگی۔عام بچوں کے برعکس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طبیعت دنیاوی کھیل تماشوں کی طرف بالکل مائل نہ ہوتی تھی بلکہ سنجیدگی، متانت، صبر و تحمل، صداقت، صاف گوئی،تفکر اورتدبر بچپن ہی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شخصیت میں نمایاں تھے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جس معاشرے میں آنکھ کھولی وہ جہالت و بربریت کی انتہا کو چھو رہا تھا۔ شراب، جوا، بدکاری جیسے قبیح افعال باعثِ عزت و شرافت سمجھے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ عبادت جیسا مقدس فریضہ بھی عریانی و فحاشی سے پاک نہ تھاکیونکہ خانہ کعبہ کا برہنہ طواف اُس دور کی ریت تھی۔ان تمام تر حالات کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طبیعت کبھی اس طرف مائل نہ ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب بچوں کو کھیلتا دیکھتے تو ان سے الگ تھلگ ہو کر بیٹھ رہتے۔ جب لڑکے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کھیلنے کے لیے بلاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے کہ میں کھیلنے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا۔ (مدارج النبوت، ج:2، ص:21)
بچپن میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بت پرستی اور مشرکانہ روایات سے کوسوں دُور رہتے تھے۔ غیر اللہ کے نام پر ذبح شدہ جانوروں کا گوشت تناول نہیں فرماتے تھے الغرض حضورِ اکرم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم زمانۂ معصومیت سے ہی عرب کے نظامِ باطل سے باغی تھے۔جوں جوں عمرپختگی کی طرف بڑھتی گئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طبیعت اس معاشرے سے مزید بیزار ہوتی چلی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کومکہ مکرمہ کے قریب کسی ایسی جگہ کی تلاش تھی جہاں اس غلاظت اور جہالت سے بھرپورمعاشرے کی مشرکانہ روش اور احمقانہ شور و غوغا سے نجات مل سکے اور خلوت نشینی میں مکمل یکسوئی سے کائنات کے مظاہر اور خالقِ کائنات پر غور و فکرکیا جاسکے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مکہ مکرمہ سے تقریباً ساڑھے چار کلومیٹر دور جبلِ نور میں واقع غارِ حرا میں تشریف لے جاتے۔ اپنے ساتھ کھانے پینے کا کچھ سازوسامان لے جاتے اور کئی کئی روز خالقِ کائنات کے تفکر میں گزار دیتے۔ یہی وہ غار ہے جہاں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر سب سے پہلی وحی نازل ہوئی اور ہدایت کا چشمہ پھوٹا۔
سورج اور چاند کی گردش میں، رات اور دن کے آنے جانے میں ، زندگی اور موت کے مظاہر میں اور تخلیقِ کائنات کے متعلق غور و فکر کرنا انبیا کرام علیہم السلام کی ایک نمایاں خوبی ہے جیسا کہ جدالانبیا، خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی بچپن میں اپنے والدین سے ایسے حکمت آمیزسوالات پوچھتے کہ ان کے والدین کے پاس کوئی جواب نہ ہوتا۔ آپ علیہ السلام نے بچپن میں ہی بتوں کی عبادت سے بغاوت کر دی تھی کہ بت انسان کے اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے ہیں جو نہ تو سن سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کا نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں۔نہ صرف یہ کہ خود ان باطل خداؤں کے سامنے جھکنے سے انکا رکیا بلکہ اپنے والد کوبھی دعوتِ حق دی۔بلاشبہ یہ خالقِ کائنات اور اسکی پیداکردہ کائنات میں غوروفکر ہی کی بدولت تھا جو کم عمری میں وہ حقیقت بیان کی جو اس وقت کے بڑے بڑے عقلمند اور دانا لوگ سوچنے سے قاصر تھے۔
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم امام الانبیا ہیں اورتمام سابقہ انبیا کے اوصاف کا بہترین اور کامل اظہار ہیں۔سابقہ انبیا میں جو اوصاف موجود تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُن تمام اوصاف کی مکمل و اکمل اور جامع تصویر ہیں۔یوں تو تمام انبیا پیغامِ الٰہی کے لیے کوشاں اور حق کے غالب آجانے کے معاملے میں دلسوزتھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی فکرِ حق کا یہ عالم تھا کہ ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذہن میں یہی سوچ گردش کرتی رہتی کہ کس طرح اللہ ربّ العزت کی واحدانیت کے پیغام کو عام کیا جائے۔
اہلِ مکہ کے مسلسل انکارپر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بہت غمگین تھے۔ مرض جتنا پرانا ہو اسکا علاج اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔ اہلِ مکہ بھی صدیوں سے اپنے باپ دادا کے دین کو حق مانتے چلے آئے تھے۔کفار کے لیے نئے دین پر لبیک کہنا اور کئی خداؤں کی بجائے صرف ایک اللہ پر ایمان لانا بہت مشکل تھا چنانچہ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں کئی مقامات پر اللہ ربّ العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
* وَاِنْ یُّکَذِّبُوْکَ فَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ ط (سورۃ فاطر۔4)
ترجمہ: اور اگر وہ آپؐ کو جھٹلائیں تو آپؐ سے پہلے کتنے ہی رسول جھٹلائے گئے۔
مفسرین کا کہنا ہے کہ مندرجہ بالا آیت کے نزول کا سبب یہ ہے کہ ہادئ برحق صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بارہا اہلِ مکہ کو دینِ حق کی طرف بلایا لیکن انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بات پر کان نہ دھرے اُلٹا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا تمسخر اُڑایا۔ ان حالات کے پیشِ نظر ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس قدر غمگین ہو گئے کہ اس کے آثار آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہونے لگے۔ اللہ ربّ العزت نے اپنے محبوب کی دلجوئی کے لیے قرآن کی مندرجہ ذیل آیت کا نزول فرمایا:
*لَعَلَّکَ بَاخِعُ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ ۔ (سورۃ الشعرا۔3)
ترجمہ: (اے پیغمبرؐ ) شاید آپ ؐ (اس غم میں) اپنی جانِ (عزیز) ہی دے بیٹھیں گے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔
اعلانِ نبوت کے ابتدائی دورمیں صرف مٹھی بھر افراد نے ہی اسلام قبول کیا جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دعوت و تبلیغ کا کام خفیہ طریقے سے جاری تھا۔ بعثت کے تیسرے سال حکمِ خداوندی آن پہنچا کہ :
*وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ۔ (الشعرا۔ 214)
ترجمہ: اور(اے حبیبِ مکرمؐ) آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو (ہمارے عذاب سے) ڈرائیے۔
اس آیت کے نزول کے بعد جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تحریک کو ایک نئی جہت مل گئی۔کبھی اپنے عزیز و اقارب کو دعوتِ طعام کے بہانے بلا کر اللہ تعالیٰ کے وحدہٗ لا شریک ہونے کا اعلان کرتے تو کبھی حرم میں جا کر لوگوں کو شرک اور بت پرستی چھوڑ کر صرف اور صرف ایک خدا یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کا پیغام دیتے ۔
باوجودیکہ اہلِ مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دعوتِ حق کو یکسر مسترد کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بات سننے اور ساتھ دینے پر بھی پابندیاں عائد کر دیں لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے مشن سے پیچھے نہ ہٹے۔کفارِ مکہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دعوتِ حق سے روکنے کے لیے ہر وہ حربہ آزمایا جو ان کی ناقص عقل میں آسکتا تھا؛ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر کوڑا پھینکا ، راستے میں کانٹے بچھائے ، پتھراؤ کیا ، گالیاں بکیں،ڈرایا دھمکایا،نعوذ باللہ قتل کرنے کے منصوبے بھی بنائے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دعوت پر لبیک کہنے والوں کو طرح طرح کی ایذا پہنچائیں کہ وہ اس نئے دین سے پھِر جائیں اور واپس اپنے باپ دادا کا دین اپنا لیں۔ ان حالات کودیکھتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نبوت کے پانچویں سال مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دی۔ ہجرت کے پیچھے دو حکمتیں کارفرما تھیں: اوّل یہ کہ مسلمانوں کو کفارِ مکہ کے ظلم و ستم سے نجات دلوانا، دوم:کفارِ مکہ کے سرد روّیے کے پیشِ نظراشاعتِ اسلام کے لیے مکہ مکرمہ سے باہر پیغامِ حق پہنچانا۔جب کفارِ مکہ کو ہجرت کے متعلق پتہ چلا تو انہوں نے مہاجرین کو واپس مکہ لانے کی بھرپور کوشش کی اور دو رکنی وفد حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس روانہ کیا۔گو کہ نجاشی مذہب کے اعتبار سے عیسائی تھا لیکن ایک انصاف پسندبادشاہ تھا لہٰذا اُس نے مہاجرین کا موقف سننے کے بعد انہیں وفد کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ اس موقع پر تو کفار کو منہ کی کھانی پڑی لیکن اپنے غم و غصے کے اظہار کے لیے مکہ میں موجود مسلمانوں پر ستم ظریفی کے مزید پہاڑ توڑنا شروع کردیے۔
اگر قطرہ قطرہ پانی کسی پتھر پر پڑتا رہے تو بالآخر پتھر کو پگھلا دیتا ہے لیکن کفارِ مکہ کے دل تو پتھر سے بھی زیادہ سخت تھے، نہ تو قرآن کی آیات کا کوئی اثر اُن کے دلوں پر ہوتا تھا اور نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جہدِ مسلسل اور بے پایاں صبر و استقامت سے ان کی سوچ میں کوئی تبدیلی آئی۔ان کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا ہونا تودور کی بات اُلٹا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور مسلمانوں کو ایذا پہنچانے کے نِت نئے طریقوں کی تلاش میں رہتے۔اہلِ مکہ کا یہ رویہ بلا شبہ نبی آخر الزماں کے لیے بے حدپریشانی کا باعث تھااور پریشانی کیوں نہ ہو، اعلانِ نبوت کو پانچ سال کا طویل عرصہ گزر چکا تھا۔ وہ ہستی جسے اللہ پاک نے روشن دلیل بناکر بھیجا لیکن اہلِ مکہ تھے کہ ظلمت و تاریکی میں جاہلانہ زندگی گزارنے پر بضد تھے، وہ ہستی جو رحمت اللعالمین بن کر ظلم و بربریت کی سر زمین پر تشریف لائی ہو تو کیسے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی امت کو اللہ تعالیٰ کے عذاب و عتاب میں گرفتار ہوتا دیکھ سکتی تھی۔وہ ہستی جو سابقہ کتب کی تصدیق کرنے والی ہو لیکن اسکی اپنی قوم اس پر نازل ہونے والی آخری الہامی کتاب قرآنِ مجید کا انکار کردے۔ وہ ہستی کہ کفار جس کے صادق اور امین ہونے کی گواہی تو دیں لیکن جب وہی صادق اور امین خدائے بزرگ و برتر کی واحدانیت کا پرچار کرے تو اسے نعوذباللہ جھوٹا اور مجنون قرار دے دیا جائے۔اسی حالتِ زار اور اپنے محبوب کی بے چینی کے متعلق اللہ پاک نے قرآن میں ارشاد فرمادیاکہ:
*فَاِنَّ اللّٰہَ یُضِّلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَیَھْدِیْ مَنْ یَّشَآ ءُ صلے ز فَلَاتَذْھَبْ نَفْسُکَ عَلَیْھِمْ حَسَرٰتٍ (سورۃ فاطر۔ 8)
ترجمہ: پس بے شک اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ ٹھہرا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت فرماتا ہے، سو (اے جانِ جہاں!) ان پر حسرت اور فرطِ غم میں آپؐ کی جان نہ جاتی رہے۔
مزید فرمایا کہ:
*فَذَکِّرْ وقف اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَّکِّرُ ٗ ۔ لَسْتَ عَلَیْھِمْ بَمُصَیْطِرٍ ۔ اِلَّا مَنْ تُوَلّٰی وَکَفَرَ ۔ فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ۔
ترجمہ: پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نصیحت فرماتے رہیے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو نصیحت ہی فرمانے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان پر جابر و قاہر (کے طور پر) مسلط نہیں ہیں۔ مگر جو رُو گردانی کرے اور کفر کرے تو اسے اللہ سب سے بڑا عذاب دے گا۔
اگرچہ دعوت و تبلیغ کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آ رہے تھے لیکن اللہ پاک کے حکم کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی کوشش کو جاری و ساری رکھا۔اللہ پاک نے ہمارے ذمہ صرف کوشش ہی رکھی ہے اور نتیجہ اپنے ہاتھ میں۔لہٰذا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس ابتر حالت سے مایوس ہو کر بیٹھ نہیں گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے لمحہ بھر کے لیے بھی یہ نہ سوچا کہ میں کوشش کرکے حجت تمام کر چکا اب اگر کوئی ایمان نہیں لاتا تو یہ اس کا اور اللہ کا معاملہ ہے بلکہ اللہ پاک کے حضور اسلام کی تقویت کے لیے دعا فرمائی تاکہ مسلمانانِ مکہ بھی باعزت طریقے سے زندگی گزار سکیں۔
* حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دعا فرمائی ’’اے اللہ ! تو عمر بن ہشام (ابو جہل) یا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہٗ دونوں میں سے اپنے ایک پسندیدہ بندے کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ ان دونوں میں سے اللہ تعالیٰ کو محبوب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہٗ تھے جن کے بارے میں حضور بنی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دعا قبول ہوئی اور مشرف بہ اسلام ہوئے۔ (اس حدیث کو امام ترمذی‘ احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔)
نبوت کے چھٹے سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دعا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہٗ کے حق میں قبول ہوئی۔
* حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے اسلام قبول کیا تو مشرکین نے کہا کہ آج کے دن ہماری قوم دو حصوں میں بٹ گئی ہے(یعنی آدھی رہ گئی ہے)۔ (اس حدیث کو امام حاکم‘ احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے نیز امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔)
اسی سال حضرت حمزہ رضی اللہ عنہٗ نے بھی اسلام قبول کیا ۔ ان دونوں حضرات، عمر اور حمزہ رضی اللہ عنہم کے قبولِ اسلام سے کفار کو شدید دھچکا لگا اور اسلام کو بہت تقویت ملی۔ مسلمان کھلم کھلا دعوت و تبلیغ کا کام کرنے لگے جس سے اسلام شرفا اور امرا میں بھی یکساں مقبول ہونے لگا۔
* حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ بے شک حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کا قبولِ اسلام (ہمارے لیے ) ایک فتح تھی اور انکی خلافت ایک رحمت تھی۔ خدا کی قسم ! ہم بیت اللہ میں نماز پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے ‘ یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ‘ اسلام لے آئے۔ پس جب اسلام لائے تو انہوں نے مشرکینِ مکہ کا سامنا کیا یہاں تک کہ ہم نے (برملا) اسلام کی دعوت دی اور خانہ کعبہ میں نماز بھی پڑھی۔ (اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔)
بے شک یہ کامیابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی فکر حق میں کسی حد تک راحت کا باعث بنی۔ دوسری طرف اسلام کی بڑھتی ہوئی کامیابی سے کفارِ مکہ خوفزدہ ہو گئے کہ اگر اس جماعت کو نہ روکا گیا تو ان کے باپ دادا کا دین صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔ چنانچہ مخالفت اور بھی زور و شور سے شروع ہوگئی۔دینِ فطرت دینِ اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوشش میں جب کفارِ مکہ سے کچھ نہ بن پڑا تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپؐ کی دعوت پر لبیک کہنے والے قرابت داروں اور رفقا کا مکمل سماجی بائیکاٹ کرکے تقریباًتین سال تک شعبِ ابی طالب میں محصور کر دیا۔یہ محاصرہ سات نبوی کو شروع ہوا اور دس نبوی میں اختتام پذیر ہوا۔اس دوران مسلمانوں نے جن تکالیف کا سامنا کیا وہ ناقابلِ بیا ن ہیں، درختوں کے پتے کھا کر، کھجور کی گٹھلیاں چوس کر، چمڑے کے ٹکڑے چبا چبا کر گزارا کیا۔ قربان جائیں اُس ناز آفریں در یتیم ؐ پرکہ جس کے پائے استقلال میں ذرّہ بھر بھی لغزش نہ آئی۔ اس مشکل وقت میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سوچ صرف اور صرف ایک ہی نکتہ پر مرکوز تھی کہ آخر کس طرح دورانِ محاصرہ دعوت و تبلیغ کا کام کیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک مرتبہ پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حبشہ کی جانب ہجرت کرنے کی ہدایت فرمائی تاکہ دین کی اشاعت کا سلسلہ کسی طور پر بھی رکنے نہ پائے۔
دس نبوی میں شعبِ ابی طالب کا جان لیوا محاصرہ تو اختتام پذیر ہو گیالیکن اس سال نبی آخر الزماں کوپے در پے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے شفیق چچا ابو طالب کا انتقال ہو گیا جو اس وقت اپنے خاندان اور قبیلہ بنو ہاشم کے سربراہ تھے۔ اگرچہ حضرت ابو طالبؓ نے اسلام قبول نہیں کیا لیکن ان کی سربراہی کی پوری مدت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کوقبیلے کے فرد کے طور پر تحفظ حاصل تھا۔ حضرت ابو طالبؓ کے انتقال کے بعد خاندان کی سربراہی ابو لہب کے پاس چلی گئی جو شروع دن سے اسلام کا بدترین مخالف تھا۔ ابتدا میں تو ابو لہب نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اطمینان دلایا کہ وہ پہلے کی طرح اپنا تبلیغی مشن جاری رکھ سکتے ہیں لیکن کچھ عرصے کے بعد اس نے اسلام کے لیے نفرت کا برملا اظہار شروع کر دیا۔ جس طرح پہلے بطور فردِ قبیلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تبلیغ کے دوران ایذا پہنچاتا اور مخالفت کرتا تھا اب بطور سردار بھی مخالفت کرنے لگا بلکہ اس کی سربراہی میں قبیلے کے باقی کفار کو بھی پَر لگ گئے۔لہٰذا حضرت ابو طالبؓ کی موت سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ کے مشن کو ایک بڑا دھچکا لگا۔ ابھی اس واقعہ کو بہت کم مدت گزری تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی غم خوار و غم گسار شریکِ حیات حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا بھی انتقال ہو گیا۔ (بعض مفسرین کے مطابق حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوطالبؓ کے انتقال کے تین روز بعد انتقال فرما گئیں لیکن بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہا کا انتقال حضرت ابوطالبؓ کی موت کے قریباً ڈھائی ماہ بعد ہوا لیکن سال پر اتفاق ہے کہ دونوں کا انتقال دس نبوی میں ہی ہوا)۔ پے در پے ان دو حادثات نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو شدید صدمہ پہنچایا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دس نبوی کو ’عام الحزن‘ یعنی غم کا سال قرار دیاکیونکہ ان دونوں ہستیوں کے ہوتے ہوئے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو سماجی و معاشی دونوں لحاظ سے دینِ اسلام کی اشاعت میں بہت مدد وتعاون حاصل تھا۔ دونوں ہستیاں با اثر اور کفار کے ناپاک ارادوں کو کسی حد تک لگام دینے والی تھیں لیکن یکے بعد دیگرے انکی اموات نے کفارِ مکہ کو جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مخالفت کی کھلم کھلا اجازت دے دی۔ ابو لہب جسے بطور سردارِ قبیلہ ہر فرد کے تحفظ کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے تھا‘ وہ بذاتِ خود بھرپور مخالفت میں جٹ گیاجسے دیکھ کر باقی افراد بھی جری ہو گئے۔
نبوت کے دسویں سال ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے وادی طائف کا رُخ کیالیکن طائف کے لوگ تو اہلِ مکہ سے بھی زیادہ سنگدل اور بے رحم ثابت ہوئے۔ سرداروں نے بستی کے آوارہ لڑکوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پیچھے لگا دیا جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اس قدر پتھر برسائے کہ نعلین پاک خون سے تر ہو گئے۔ اللہ ربّ العزت نے ایک فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ فرشتے نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حکم دیں تو دو پہاڑوں کو آپس میں ملا دوں اور یہ بستی والے نیست و بابود ہو جائیں۔ رحمتہ العالمین نے ارشاد فرمایا ’’ نہیں ، مجھے امید ہے کہ ان کی آنے والی نسلیں ضرور اسلام قبول کر لیں گی۔‘‘
دس سال مسلسل انتھک کوششوں کے بعد محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو وہ انعام نصیب ہوا جس کے لیے تمام انبیا علیہم السلام نے نبوت چھوڑنے کی خواہش کی یعنی معراج النبیؐ پر حق سبحانہٗ و تعالیٰ کا دیدار۔ حق تعالیٰ سے بعبدہٖ کی حالت میں ملاقات اور دیدار ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خاصہ ہے جسے اہلِ تصوف ’فقرِ محمدیؐ‘ کہتے ہیں۔ فقرِ محمدیؐ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقی وراثت اور دینِ اسلام کا مغز ہے۔
یہاں طالبانِ مولیٰ اور عشاقِ حقیقی کے لیے قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اللہ ربّ العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کوبھی ایک کڑے امتحان اور سخت آزمائش سے گزار کر دیدارِ الٰہی کی نعمت عطا کی۔ مشرکین و کفارِ مکہ نے ستم رسانی میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی ہوگی۔ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خالصتاً دینِ اسلام کے پرچار اور حق کی سر بلندی کے لیے تمام اذیتیں برداشت کیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نعوذ باللہ جادوگراور جھوٹاکہا گیا، دھکے دیے گئے، بھوک پیاس کی شدت سے نڈھال کیا گیا، جان سے مار ڈالنے کی دھمکیاں دی گئیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہ تو کسی سے ڈرے اور نہ ہی اپنے مقصد سے پیچھے ہٹے ۔ لہٰذا طالبانِ مولیٰ کو بھی اپنے محبوب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیروی میں ہر طرح کی آزمائش کے لیے تیار رہنا چاہیے کیونکہ راہِ فقر اللہ تعالیٰ سے عشق کا سفر ہے اور عشق میں قدم قدم پراللہ اپنے عاشق کو پرکھنے کے لیے امتحان لیتا ہے۔اس راہ میں تو صرف وہی دعویدار کامیاب ہوتے ہیں جو اپنے رب کی رضا کی خاطراپنی جان ، مال ، اولاد سب کچھ قربان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
عشق بھی صراف کی مثل ہے جو کھوٹے سونے کو کھوٹا ثابت کرتا ہے اور کھرے کو کھرا ۔ (عین الفقر)
اہلِ مکہ نے محض اپنی جھوٹی انا اور ضد کی خاطر دعوتِ اسلام کو ٹھکرا دیا لیکن اللہ پاک نے اہلِ مدینہ کے دل میں اسلام کی محبت پیدا کر دی۔مدینہ سے آئے ہوئے چند افراد کی ملاقات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ہوئی جن میں سے دو افراد مشرف بہ اسلام ہوئے جو مزید آٹھ افراد کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کا سنگِ میل ثابت ہوئے۔ نبوت کے بارھویں اور تیرھویں سال بالترتیب بارہ اور بہتر افراد نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دستِ اقدس پر بیعت کر کے اسلام قبول کیا جو بیعت عقبہ اولیٰ اور بیعت عقبہ ثانی کے نام سے مشہور ہے۔ اہلِ مدینہ کے دلوں میں اسلام کے لیے محبت و عقیدت دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی اور بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کے ہمراہ مدینہ ہجرت فرما گئے۔ یہاں سے دینِ اسلام کے نئے دور کا آغاز ہوا جس میں مکی دور کے برعکس اسلام بہت تیزی سے پھیلا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مدینہ میں ایک ایسی اسلامی فلاحی ریاست کی بنیادرکھی جس میں اسلام کی تعلیمات کو عملی جامہ پہنایا ۔ اپنی نگاہِ کامل اور صحبت سے اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تزکیۂ نفس فرما کر وہ باطنی قوت عطا فرما دی کہ مٹھی بھر مسلمان ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں باطل قوتوں کی صفیں تار تار کر دیتے۔دلوں سے حبِّ دنیا نکال کر عشقِ حقیقی موجزن کر دیااور وہ سوچ و فکر عطا کر دی جس کی بدولت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنا مال اپنی جان سب کچھ راہِ حق میں لٹانے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔
مدینہ منورہ میں آٹھ سال کے قلیل عرصہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو وہ کامیابی ملی جو مکہ مکرمہ کے تیرہ سالہ صبر آزما دور میں نہ مل سکی۔ ہجرت کے آٹھویں سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار مسلمانوں کے ہمراہ مکہ تشریف لائے ۔ تاریخ اسے فتح مکہ یا فتح مبین کے نام سے یاد کرتی ہے۔ وہی کفارِ مکہ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جان کے درپے تھے ، شرم سے گردنیں جھکائے اپنی جانوں کی امان کے منتظر تھے۔ وہی کفارِ مکہ جنہوں نے وجۂ کائنات‘ امیر الکونینؐ پر مکہ کی زمین تنگ کردی تھی ،امید کر رہے تھے کہ اب ہمیں بھی نکال باہر پھینک دیا جائے گا اور ایک ایک ایذا کا حساب لیا جائے گالیکن عفو ودرگزر کے پیکر رحمتہ اللعالمین نے عام معافی کا اعلان کر دیا۔
ذرا غور کیجیے ! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اہلِ مکہ پر شدید محنت کرتے رہے لیکن اس محنت کا ثمر اہلِ مدینہ کی اسلام سے محبت کی شکل میں ملا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات قادرِ مطلق ہے ۔ ہدایت اس کے ہاتھ میں ہے وہ جس کا دل چاہے ہدایت کی طرف موڑ دے اور جس سرکش و نافرمان کے لیے ہدایت کا دروازہ بند کر دے تو پھر کون ہے جو اسے ہدایت دے سکتا ہے۔
آج تاریخ ایک مرتبہ پھر خود کو دہرا رہی ہے۔ ہم مسلمان ہونے کے باوجوداہلِ عرب کے دورِ جاہلیت جیسی زندگیاں گزار رہے ہیں کیونکہ ہمیں ظاہرپرستی نے باطنی لحاظ سے دیمک کی طرح کھوکھلا کر دیا ہے۔
آج کا مسلمان بھی دینِ اسلام کی روح یعنی ’فقرِ محمدیؐ ‘ سے اتنا ہی لاعلم اور نا واقف ہے جتنا غیر۔بلاشبہ ہادی برحق محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا مشن بہترین مشن اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ورثہ فقر بہترین ورثہ ہے۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اس پُرفتن دور میں فقرِ محمدیؐ کی شمع اُسی فکر سے روشن کیے ہوئے ہیں جس فکرِ حق نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہر لمحہ بے چین رکھا۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ذکر و تصور اسم اللہ ذات کی نعمت کو عام کر رہے ہیں تاکہ مخلوقِ خدا اپنے خالق کو پہچانے اور اپنے ربّ کی معرفت حاصل کرکے دین و دنیا کی کامیابیاں سمیٹے۔
استفادہ کتب:
عین الفقر تصنیفِ لطیف حضرت سخی سلطان باھُوؒ
خلفائے راشدین تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس