قرآن پاک ۔۔سر چشمہ ہدایت
تحریر: محترمہ نمرہ سروری قادری۔ لاہور
’’ہم نے اس قرآن کو رحمت اور شفاعت بنا کر بھیجا ہے یہ قرآن روح کی تازگی اور اسے شفادینے کے لیے آیا ہے ۔ یہ قرآن جسمانی طور پر بھی شفا دیتا ہے ‘‘۔
قرآنِ پاک اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل کیا جس طرح اللہ کو اپنے محبوب سے بے حد محبت اور عقیدت ہے اسی طرح قرآن سے بھی ہے۔ حتیٰ کہ اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے،قرآنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ
ترجمہ:’’ یہ کتاب ہم نے نازل کی اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔‘‘ (الحجر۔9)
ذرا غور کریں کہ جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ خود لے وہ یقیناًعام چیز نہیں ہو گی۔ آخر اس کتاب میں کچھ تو خاص ہو گا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے سب سے پیارے نبیؐ پر نازل کیا اور اس کی حفاظت کا ذمہ بھی خود لیا، اسی وجہ سے اتنی صدیاں گزرنے کے باوجود قرآن کا ایک حرف بھی تبدیل نہیں ہوا اور یہ آج بھی اُسی حالت میں ہے جس حالت میں اللہ نے اسے نازل کیا ۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج کے مسلمان نے یا تو اسے گھروں میں برکت کے لیے طاقوں میں سجا کر رکھ لیا ہے یا محض ثواب کے حصول کے لیے زبانی پڑھنے تک محدود کر رکھا ہے۔ اگر کوئی اس کا ترجمہ و تفسیر پڑھ لیتا ہے تو خود کو اس کا عالم سمجھ کر دین کو اس علم کی بنیاد پر نیا رخ دے دیتا ہے۔ اسی طرح دینِ اسلام میں نئے نئے فرقے بنے جو دوسرے مسلمانوں پر قرآن کے ظاہری علم کی بنیاد پر کفر کے فتوے لگاتے رہتے ہیں۔ ایسے عالم قرآنِ پاک کی اصل روح سے سراسر ناواقف ہیں اور اُ ن کا نفس انتہائی بیماریوں کا شکار ہے اور دل مردہ ہو چکے ہیں اسی لیے قرآن سے ہدایت حاصل کر کے اپنی اصلاح کرنے کی بجائے ان کا تمام تر زور دوسروں پر تنقید کرنے پر ہوتا ہے۔ قرآنِ پاک بس ان کے حلق تک اٹک کر رہ گیا ہے روح اور قلب پر اس کی تاثیر تو بہت دور کی بات ہے۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ قرآن کی فضیلت کیا ہے ؟ اور اسے کیوں نازل کیا گیا ہے ؟ قرآنِ مجید تو اللہ تعالیٰ تک جانے کا راستہ بتاتا ہے اور ہر دور کے ہر مسئلے کو حل کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ ہم نے کبھی اس بات کو سوچنے کی بھی کوشش نہیں کی کہ اس کے نزول کو 23 سال کے عرصے میں مکمل کیوں کیا گیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ قرآن آہستہ آہستہ سیکھا جائے تاکہ دل میں اُتر جائے اور ہر مسئلے کے حل کے مطابق قرآنِ پاک کی آیات اُترتی گئیں اور اللہ تعالیٰ ہر مسئلے کے متعلق انسانوں کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعے سمجھاتا رہا۔ قرآن نہ صرف اُس دور کے مسائل کا حل تھا بلکہ آج کے مسائل کا حل بھی قرآنِ پاک میں موجود ہے اور ہر زمانے کے لیے سر چشمۂ ہدایت ہے۔
اللہ ربّ العزت کے حقیقی عاشقوں کو قرآنِ پاک پڑ ھنے سے وہ لذت اور سکون ملتا ہے جو بیان سے باہر ہے۔ جس سے آج کل کی نسل ناواقف ہے بلکہ اُن کی زندگیا ں قرآن کی اصل روح سے ناآشنا ہیں۔ ہمیں اس بات پر غور کرنا ہو گا کہ ہماری نوجوان نسل قرآنِ پاک سے اس قدر کیوں دور ہے؟ اسے کس طرح قرآنِ پاک کے قریب کیا جائے؟کیونکہ قرآن پاک کو سمجھے بغیر وہ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ علامہ اقبال ؒ بہت خوبصورت انداز میں آج کے مسلمان کا حال بیان کرتے ہیں :
بجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے
آج ہمیں اندھیروں سے نکلنے کے لیے قرآن کی اصل روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور قرآن کی اصل روح کو صرف مرشد کامل اکمل ہی سمجھا سکتا ہے کیونکہ آج کے علما تو خود ہی اس کی حقیقت سے ناواقف ہیں وہ کسی کو کیا سمجھائیں گے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے مرشد کامل اکمل کو تلاش کیا جائے پھر اُس سے اپنا تزکیۂ نفس کروایا جائے اور اُس سے قرآن کے حقیقی معنوں کو سمجھا جائے۔ پھر ہی قرآن ہماری روح تک پہنچ سکتا ہے اور ہم اندھیروں سے نکل کر اُجالوں کی طرف آ سکتے ہیں۔ قرآن کا ہر لفظ کیا بلکہ ہر حرف اپنے اندر پوشیدہ معنی رکھتا ہے جس سے ہم ناواقف ہیں اور واقف ہونے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔
اللہ نے خود قرآنِ پاک کو نور یعنی روشنی اور ہدایت قرار دیا تاکہ ہم اس کے ذریعے اللہ تک جانے والے راستے کی تلاش کریں اور احکامِ الٰہی کے مطابق اس پر چل کر اپنی منزل کوپا لیں یعنی اللہ کے دیدار اور اس کے قرب کو پالیں۔ یہ پاک کتاب ہی ہمیں اس بات کا حکم دیتی ہے کہ اللہ تک جانے والے راستے پر چلنے کے لیے ہمیں اس کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہوگا اور اس کے لیے صحابہ کرام کی سیرت ہمارے لئے مشعلِ راہِ ہے۔ صحابہ کرامؓ نے سب سے پہلے اپنا تزکیۂ نفس کروایا پھر دین کو سمجھا اور تب ہی وہ دین کی اصل روح تک پہنچ سکے۔ صحابہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحبت میں بیٹھا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعلیمات کو اس قد ر غورسے سنا کرتے تھے کہ انہیں وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا تھا اور ذرّہ برابر بھی حرکت نہ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ پرندے اُن کے سروں پر آکر بیٹھ جاتے تھے۔ آج ہمیں بھی اس چیز کی ضروت ہے کہ ہم انسانِ کامل کے احکام کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لیں تب ہی ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ انسانِ کامل وہ ہے جو فنا فی اللہ اور فنا فی الرسول ہو اور جس کا ہر عمل سنتِ نبویؐ کے عین مطابق ہو، جس کی محفل میں بیٹھ کر ہمیں بھی صحابہؓ کی طرح وقت کی خبر نہ رہے ہمیں بھی انسانِ کامل کی اس قدر اطاعت کرنی چاہیے جس قدر صحابہؓ نے کی جس کے نتیجے میں وہ پوری دنیا پر چھا گئے اور اپنی منزلوں تک پہنچ گئے۔
آئے تو ابوبکر تھے اللہ نے صدیقؓ بنادیا
آئے تو عمر تھے اللہ نے فاروقؓ بنا دیا
آئے تو علی تھے اللہ نے حیدرؓ بنا دیا
آئے تو عثمان تھے اللہ نے غنیؓ بنا دیا
ذرا خود ہی غور فرمائیں آج ہمارے معاشرے میں کتنے انسان موجود ہیں جو حافظِ قرآن ہیں، پانچ وقت کی نماز بھی اداکرتے ہونگے، روزے بھی رکھتے ہونگے، زکوٰۃ بھی ادا کرتے ہونگے، حج بھی کیا ہوگا لیکن کیا ان کا نفس پاک ہے؟ کیا وہ جھوٹ، غیبت اور باقی گناہوں سے پاک ہیں ؟ کیا وہ عیب پوشی کرتے ہیں؟ نہیں بلکہ دوسروں کے عیب تلاش کر کے تنقید کرتے رہتے ہیں اور اپنی عبادتوں پر فخر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ میں نے ان کے دلوں پر پردہ ڈال دیا ۔ انہیں حق اور سچ کی باتیں سمجھ ہی نہیں آتی اور وہ دین کی اصل روح سے غافل ہیں۔
قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے ۔
ترجمہ:’’اور جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ (دنیا میں) بہکے گا اور نہ (آخرت میں) بدنصیب ہوگا۔ اور جس نے میرے ذکر (قرآن) سے منہ موڑ لیا، دنیا میں اس کے لیے روزی تنگ کر دی جائے گی اور قیامت کے دن ہم اس کو اندھا اٹھائیں گے۔ وہ کہے گا ’مالک تو نے مجھ کو اندھا کیوں اٹھایا ؟ اور میں تو دنیا میں دیکھتا بھالتا تھا۔‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’ایسا ہی (ہوا کہ دنیا میں) ہماری آیتیں تیرے پاس آئیں پس تونے ان کو بھلا دیا اسی طرح آج کے دن تو (بھی) بھلا دیاجائے گا ‘‘ ۔(سورۃ طٰہٰ 123-126)
قرآنِ پاک کی ان آیات سے واضح طور پر پتا چلتا ہے کہ جن لوگوں نے دنیا میں قرآن کی روشنی سے استفادہ نہ کیا اور اس کی ہدایت سے غافل رہے وہ آخرت میں بھی اندھے اٹھائے جائیں گے۔
قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے :
ترجمہ:اور جو شخص حد سے گزر جائے اور اپنے ربّ کی آیتوں پر ایمان نہ لائے اس کو ہم ایسی ہی سزادیں گے ۔ اور بے شک آخرت کا عذاب بہت سخت اور دیر پا ہے۔ (سورۃ طٰہٰ۔ 127)
ذرا خود پر غور فرمائیں کہ ہم نے اپنی اتنی زندگی کہاں اور کس کے حکم کے مطابق گزار دی۔ آج ہم نے اپنی زندگی اپنے اصولوں کے مطابق ڈھال لی اور اس پاک کتاب کے روشن احکامات سے دور ہو گئے۔ آج ہم نے اپنی زندگی کو اپنی مرضی کے مطابق بنا لیا اپنے لیے بہتر لباس، رہائش، گاڑی کا انتخاب بھی کر لیا لیکن پھر بھی ہماری زندگی سے سکون کہاں چلا گیا؟ وہ سکون وہ راحت وہ خوشی صرف اور صرف اللہ کی رضا اور قرب میں ہے۔ اللہ کی ذات اور ہماری ذات کے درمیان فاصلہ تو پیاز کی جھلّی سے بھی زیادہ باریک ہے پھر ہم اس سے کیوں اتنا دور ہیں۔ ہم نے کتنی نما زیں ادا کی ہوں گی، کیا ہمیں سکون ملا؟ کیا ہم نے اپنے نفس کو تمام گندگیوں سے بچا لیا ؟ کیا ہم ایک مکمل انسان بن گئے؟ کیا ہم نے اپنے ربّ کی ذات کو پہچان لیا جو ہماری زندگی کا مقصد ہے؟ یقیناًنہیں۔ یہ صرف ایک کامل مرشد کی ذات ہی کروا سکتی ہے ۔
*مرشد رفیق کو کہتے ہیں چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے :الرفیق ثم الطریقترجمہ:’’ پہلے رفیق تلاش کرو پھر راہ چلو ‘‘ ۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :
کامل مرشد ایسا ہووے، جیہڑا دھوبی وانگوں چھٹے ھُو
نال نگاہ دے پاک کریندا، وچ سجی صبون نہ گھتے ھُو
قرآنِ مجید میں بھی باربار اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے ۔
ترجمہ:’’ اے انسان! تو اللہ کی طرف کوشش کرنے والا اور اس سے ملاقات کرنے والا ہے ‘‘ ۔( الانشقاق ۔6)
ترجمہ:’’ پس دوڑ اللہ کی طرف۔ ‘‘ ( الذریت ۔50)
* آیا تم صبر کئے بیٹھے ہو ؟ ( اور اللہ کی طرف بڑھنے کی کوشش نہیں کر رہے ہو ؟ ) حالا نکہ تمہارا ربّ تمہاری طرف دیکھ رہا اور تمہارا منتظر ہے ‘‘۔ (الفرقان ۔20)
یہ راز اور حقیقت بے حد خوب صورت ہے بس ہمیں سمجھنے کی کوشش کرنی ہے۔ اور ایسے سجدے اور ایسے ظاہری علمِ قرآن سے پناہ مانگنی ہے جو ہماے اندر سکون کی بجائے تکبر پیدا کر دے۔
علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں:
منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر
ہر شیشہ ٹوٹ جاتا ہے پتھر کی چوٹ سے
پتھر ہی ٹوٹ جائے وہ شیشہ تلاش کر
سجدوں سے تیرے کیا ہوا صدیاں گزر گئیں
دنیا تیری بدل دے وہ سجدہ تلاش کر
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ اقدس ساری دنیا میں قرآنِ پاک کی صحیح تعلیمات کی تبلیغ کے لیے دن رات محنت کر رہے ہیں۔ ان سے تزکیۂ نفس کروانے والے طالبانِ مولیٰ قرآن کی حقیقی روح کو سمجھ کر اپنی زندگیاں اس کے مطابق ڈھال رہے ہیں اور دنیا و آخرت میں فلاح پا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کو صحت دے اور ہمیں ان کے غلاموں میں ہمیشہ شامل رکھے۔ (آمین)