الف
حضرت سخی سلطان باھُوؒ عین الفقر میں تحریر فرماتے ہیں:
یہ فقیر باھوؒ کہتا ہے کہ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کی ذات میں فنا فی اللہ ہوئے بغیر جتنے بھی مقامات ہیں تمام شیطان کے ہیں۔
نقل ہے کہ ایک روز شیخ جنید بغدادی ؒ اور شیخ شبلی ؒ دونوں شہر سے باہر صحرا سے گزررہے تھے کہ نماز کا وقت ہو گیا۔ وہ وضو کر کے نماز اداکرنے ہی لگے تھے کہ ایک لکڑہارا بھی آگیا۔ اس نے سر سے لکڑیوں کا گٹھا اتارا، وضو کیا اور ان کے ساتھ جماعت میں شامل ہوگیا۔ مشائخ نے اپنی فراست سے جان لیا کہ یہ لکڑہاراایک ولی اللہ بزرگ ہے اور اسے پیش ِامام بنا لیا۔ یہ بزرگ بہت طویل رکوع وسجود کرتے۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے بزرگ سے پوچھا ’’آپ نے نماز کے دوران رکوع و سجود میں اتنی دیر کیوں لگائی؟‘‘ ان بزرگ نے جواب دیا ’’میں تسبیح پڑھتاتھااور جب تک لَبَّیْکَ عَبْدِیْ کا جواب نہیں سن لیتا تھا سر نہیں اٹھاتا تھا اسی لیے دیر ہوجاتی تھی‘‘۔
جس نماز میں جواب باصواب نہیں ملتا وہ نماز نہیں بلکہ صرف دل کی پریشانی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ حیُّ القیوم ہے، (اس کی عبادت) بت پرستی نہیں کہ جس طرح کفار مٹی اور پتھر کے مردہ بتوں کو سجدہ کرتے ہیں (اور انہیں کوئی جواب با صواب نہیں ملتا)۔اسی سے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:
لَاصَلٰوۃَ اِلَّا بِحُضُوْرِ الْقَلْبِ ترجمہ: حضور ِ قلب کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
نماز اللہ تعالیٰ سے یکتائی ہے نہ کہ پریشانی اور جدائی۔ یہ فقیر باھوؒ کہتا ہے کہ اہل ِ نماز کو مقررہ اوقات ِ نماز کے دوران سجدوں میں لَبَّیْکَ عَبْدِیْ کی صداآتی ہے، جبکہ عارف باللہ کو ہر لحظہ، ہر گھڑی اور ہر وقت لَبَّیْکَ عَبْدِیْ کی صداآتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ (البقرہ 152-) ترجمہ:پس تم میرا ذکر کرو میں تمہار اذکر کروںگا۔
اگر میں ایک دفعہ اللہ کہوں تو اللہ تعالیٰ جواباً بیس مرتبہ بذریعہ الہام لبیک عبدی، لبیک عبدی کہتاہے۔ الہام کے ان مراتب تک پہنچنا بھی آسان ہے، مرد کو تو مقامِ فنافی اللہ میں غرقِ توحید ہونا چاہیے۔
حضورِ قلب کی کیفیت مرشد کامل اکمل کی صحبت سے مستفید ہو کر اور تزکیۂ نفس کی دولت حاصل کیے بغیر حاصل نہیں ہوتی اور نہ ہی راہِ حق کے مقامات طے ہوتے ہیں۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی پاکیزہ صحبت سے مستفید ہو کر حضورِ قلب حاصل کرنے اور راہِ حق کے باطنی مقامات طے کرنے کے لیے ذکر و تصور اسم اللہ ذات کی مشق کریں۔