اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ
بیشک صدقات فقرا کے لیے ہیں
تحریر: مریم گلزار سروری قادری ۔لاہور
اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جو مال فقرا اور مساکین کو دیا جاتا ہے یا خیر کے کسی کام میں خرچ کیا جاتا ہے اسے’’صدقہ‘‘ کہتے ہیں۔
صدقہ کی بنیاد صدق ہے اس لئے سچائی تو اس عبادت کی روح ہے۔ کوئی بھی مال اس وقت تک صدقہ نہیں ہوسکتا جب تک انفاق فی سبیل اللہ کا خالص جذبہ موجود نہ ہو۔ جب خالص جذبہ موجود ہوگا تو ہی اللہ کی رضا حاصل ہوگی۔
اللہ کی رضا حاصل کرنا بنی آدم پر تمام انعامات اور نعمتوں میں سب سے بڑا انعام اور نعمت ہے کیونکہ رضائے الٰہی سے بڑی کوئی نعمت نہیں۔ اس کے متعلق اللہ پاک قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ: اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے جنتوں کا وعدہ فرما لیا ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور ایسے پاکیزہ مکانات (کا بھی وعدہ فرمایا ہے) جو جنت کے خاص مقام پر سدا بہار باغات میں ہیں اور پھر اللہ کی رضا اور خوشنودی (ان سب نعمتوں سے) بڑ ھ کر ہے (جو بڑے اجر کے طور پر نصیب ہوگی) یہی زبردست کامیابی ہے۔ (التوبہ۔7 )
صدقہ و خیرات ایک ہی چیز کے دو نام ہیں یعنی جو مال اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کسی خیر کے کام میں خرچ کیا جائے وہ صدقہ و خیرات کہلاتا ہے۔
اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی اہمیت قرآن کی روشنی میں
قرآنِ پاک میں بہت جگہوں پر اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے (یعنی صدقہ دینے) کا حکم آیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
٭ جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں اگیں (اور پھر) ہر بالی میں سو دانے ہوں (یعنی سات سو گنا اجر پاتے ہیں) اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے (اس سے بھی) اضافہ فرما دیتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے۔ (البقرہ۔261 )
٭ بیشک صدقہ و خیرات دینے والے مرد، صدقہ وخیرات دینے والی عورتیں اور جنہوں نے اللہ کو قرضِ حسنہ کے طور پر قرض دیا ان کے لئے (صدقہ و قرضہ کا اجر) کئی گنا بڑھا دیا جائے گا اور ان کے لئے عزت والا ثواب ہوگا۔ (الحدید۔18 )
٭ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں سے جہاد کرتے رہے وہ اللہ کی بارگاہ میں درجہ کے لحاظ سے بہت بڑے ہیں اور وہی لوگ مراد کو پہنچے ہوئے ہیں۔ (التوبہ۔20 )
٭ جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں پھر اپنے خرچ کئے ہوئے کے پیچھے نہ احسان جتلاتے ہیں اور نہ اذیت دیتے ہیں ان کے لئے ان کے ربّ کے پاس ان کا اجر ہے اور (روزِ قیامت) ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (البقرہ۔262 )
٭ اور جو لوگ اپنے مال اللہ کی رضا حاصل کرنے اور اپنے آپ کو (ایمان و اطاعت پر) مضبوط کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک ایسے باغ کی سی ہے جو اونچی سطح پر ہو اس پر زور دار بارش ہو تو وہ دوگنا پھل لائے اور اگر اسے زور دار بارش نہ ملے تو (اسے) شبنم (یا ہلکی سی پھوار) بھی کافی ہو اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔ (البقرہ۔265 )
مندرجہ بالا آیاتِ قرآنی سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔
اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی اہمیت احادیث مبارکہ کی روشنی میں
احادیث مبارکہ کے ذریعے بھی صدقات کی اہمیت بیان کی گئی ہے:
٭ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص ایک کھجور کے برابر پاک کمائی سے خرچ کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ پاک چیز کو ہی قبول فرماتا ہے‘ تو اللہ تعالیٰ اس کو داہنے ہاتھ میں لیتا ہے پھر اس کو بڑھاتا ہے جیسا کہ تم سے کوئی اپنے بچھڑے کو پالتا ہے یہاں تک کہ وہ پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
٭ حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اپنی حیات میں ایک درہم خرچ کرنا مرتے وقت سو درہم خیرات کرنے سے افضل ہے۔‘‘ (ابوداؤد)
٭ حضرت اسماء بنت ِ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا کہ (خوب) خرچ کیا کر (اللہ کی راہ میں) اور شمار نہ کر یعنی گنتی نہ کیا کر (اگر ایسا کرو گی) تو اللہ تعالیٰ بھی تجھ پر محفوظ کر کے رکھے گا(یعنی کم عطا کرے گا) خرچ کر جتنا بھی تجھ سے ہوسکے۔ (کنز العمال)
اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی اہمیت فقرا کاملین کے اقوال کی روشنی میں
سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ مومن شخص تو صرف زادِ راہ لیتا ہے اور کافر خوب مزے اڑاتا ہے۔ مومن مسافر شخص جتنا زادِراہ لیتا ہے اور اپنے تھوڑے سے مال پر بھی قناعت کرتا ہے اور بہت زیادہ مال کو آگے آخرت کی طرف بھیجتا رہتا ہے اور اپنے نفس کیلئے اسی قدر رہنے دیتا ہے جیسا کہ مسافر کا توشہ ہوتا ہے کہ وہ جس کو آسانی کے ساتھ اٹھا سکتا ہے اور اس کا تمام مال آخرت میں ہے۔
ایک اور جگہ آپ رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
٭ جو شخص فلاح چاہے اس کو چاہیے کہ حق تعالیٰ کے لیے اپنا مال اور اپنی جان خرچ کرے اور اپنے دل (قلب) سے مخلوق اور دنیا کو ایسے نکال دے جیسے بال آٹے اور دودھ سے۔
مزیدفرمایا:
٭ ہر چیز کو اللہ تعالیٰ سے مانگو جو سب چیزوں کا خالق ہے۔ اپنا سب کچھ اسی کی طلب میں خرچ کرو۔ اولیا کرام نے قربِ خداوندی کی طلب میں اپنی جانوں کو خرچ کر دیا اور انہوں نے جان لیا کہ کیا چیز طلب کر رہے ہیں لہٰذا اپنی جانوں کا خرچ کرنا ان پر آسان ہو گیا۔ جو سمجھ لیتا ہے کہ کیا چیز طلب کر رہا ہے وہ جو کچھ بھی خرچ کرے اس پر آسان ہوجاتا ہے۔
شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے:
٭ میں پوری زندگی دو بندوں کو تلاش کرنے پر بھی تلاش نہ کر سکا ایک وہ جس نے اللہ کے نام پر دیا ہو اور غریب ہوگیا ہو دوسرا وہ جس نے ظلم کیا ہو اور اللہ کی پکڑ سے بچ گیا ہو۔
ہر وہ چیز یاکام جس کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ان کے یقینا بہت فضائل بھی ہوتے ہیں اسی طرح صدقہ دینے کے بھی بہت سے فضائل ہیں:
اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔
انسان کو دونوں جہانوں کی بھلائی نصیب ہوتی ہے۔ (اب یہ انسان پر ہے کہ وہ دنیا کی فانی بھلائی چاہتا ہے یا آخرت کی غیر فانی بھلائی۔)
صدقہ قبر کی گرمی سے بچاتا ہے۔
صدقہ اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کر تاہے۔
مشکلات ٹل جاتی یا آسان ہوجاتی ہیں۔
صدقہ گناہوں کی مغفرت کا سبب بنتا ہے۔
صدقہ بری موت سے بچاتا ہے۔
صدقہ گناہوں کو بجھا دیتا ہے۔
صدقہ علاج بھی ،دوا بھی اور شفا بھی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ مال خرچ تو کرنا چاہیے مگر کہاں اور کیسے؟ کون لوگ اس مال کے حق دار ہیں؟ کیا ہم صحیح ہاتھوں میں اپنا مال دے رہے ہیں؟ ان سب سوالات کا جواب بھی ہمیں قرآنِ پاک کی اس آیت سے ملتا ہے:
ترجمہ:بے شک صدقات تو فقرا، مساکین اور عاملین (زکوٰۃ اکٹھا کرنے والے) ، قلوب کی تالیف ،گردنیں چھڑانے ، قرض داروں کے قرض ادا کرنے اور اللہ کی راہ کے مسافروں کے لیے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے فرض کئے گئے ہیں۔اور اللہ علم و حکمت والاہے۔ (التوبہ۔60)
مندرجہ بالا آیت مبارکہ سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ صدقات کن کو دئیے جائیں اور ان کا اصل حق دار کون ہے۔ اس آیت ِ مبارکہ کے مطابق سب سے اوّل اور سب سے زیادہ حق دارفقرا کاملین ہیں لیکن یہ بھی واضح رہے کہ فقرا کی بات ہو رہی نہ کہ گداگروں کی۔ عام طور پر جو لوگ گلیوں، بازاروں، سڑکوں وغیرہ پر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر مختلف واسطے دیتے ہوئے نظر آتے ہیں انہیں فقیر کہا جاتا ہے جبکہ یہ سراسر غلط ہے۔ یہ لوگ اپنے نفس سے مغلوب پیشہ ور گداگر یا بھکاری ہوتے ہیں اور لوگ فقرا کا حق ان لوگوں کو دے دیتے ہیں۔ اسلام میں کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کو سختی سے منع کیا گیا ہے اور اس کی سخت مذمت کی گئی ہے کیونکہ گداگری ایک لعنت ہے اسلام میں محنت سے روزی کمانے کا کہا گیا
ہے جبکہ لوگوں نے گداگری کو پیشہ بنا لیا ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ ان لوگوں کے متعلق کلید التوحید کلاں میں فرماتے ہیں :
یہ لوگ فقیر نہیں جو کتے کی طرح ہر دروازے سے لقمے مانگتے پھرتے ہیں۔ یہ تو بدمذہب و بدنظر و تارکِ نماز اہل ِ بدعت خبیث شرابی اور شیطان صفت لوگ ہیں جن کے نصیب میں معرفت ِ الٰہی کی نعمت نہیں۔ جو لوگ ان سے دوستی رکھتے ہیں ان سے دوستی دراصل خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے دشمنی ہے۔
اس فرمان سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان گداگروں اور بھکاریوں کا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا۔ ان میں سے کچھ تو سنگین سے سنگین جرائم میں بھی ملوث ہوتے ہیں یہ لوگ فقیر کیسے ہوسکتے ہیں؟ یہ لوگ فقیر ہرگز نہیں۔
فقیر سے مراد وہ ولی ٔ کامل ہے جو فنا فی اللہ ہو چکا ہو جیسا کہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر273 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’ صدقات تو ان فقرا کے لیے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی اللہ کی راہ میں وقف کردی ہے اور زمین میں چل پھر کر کسب ِ معاش نہیں کرتے۔ تم نادان ہو جو انہیں صورت دیکھ کر پہچان نہیں سکتے (یعنی تمہارے پاس نورِ بصیرت نہیں ہے جس سے انہیں پہچان سکو) کہ وہ خوشحال ہیں۔ لوگوں سے لپٹ کر اور گڑگڑا کر سوال نہیں کرتے دراصل صدقہ و خیرات کے مستحق یہی لوگ ہیں اوراللہ اسے خوب جانتا ہے۔‘‘
ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فقیر سے قیامت کے دن ایسے معذرت کرے گا جیسا کہ آدمی آدمی سے کرتا ہے اور فرمائے گا کہ میری عزت و جلال کی قسم! میں نے دنیا کو تجھ سے اس لیے دور نہیں کیا تھا کہ تو میرے نزدیک ذلیل تھا بلکہ اس لیے ہٹایا تھا کہ تیرے لیے آج بڑا اعزاز ہے۔ اے میرے بندے! ان جہنمی لوگوں کی صف میں چلا جا اور جس نے میرے لیے کھانا کھلایا ہو، کپڑا دیا ہووہ تیرا ہے۔ وہ اس حالت میں ان میں داخل ہوگا کہ لوگ منہ تک پسینہ میں غرق ہوں گے اور وہ ان کو پہچان کر جنت میں داخل کرے گا۔ (ریاض الریاحین)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روایت کی ہے فقرا مالداروں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں جائیں گے۔ (ترمذی۔ ابن ِ ماجہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
ہر چیز کی ایک کنجی ہے اور جنت کی کنجی فقرا و مساکین کی محبت ہے۔ ان کے پاس بیٹھا کرو کیونکہ یہ لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہم مجلس ہوں گے۔ (کلید التوحید کلاں)
ایک اور حدیث ہے:
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کا فرمان ہے :
’’صدقہ فقیر کے سامنے عاجزی سے اور باادب پیش کرو کیونکہ خوش دلی سے صدقہ دینا قبولیت کا نشان ہے۔‘‘
سیّدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ اپنی تصنیف فیوضِ غوثِ یزدانی میں تحریر فرماتے ہیں
’’اپنا کھانا متقی پرہیز گاروں کو کھلاؤ۔ جب تو اپنا کھانا متقی لوگوں کو کھلائے گا اور دنیاوی کاموں میں اُن کی مدد کرے گا تو اُن کے عمل میں شریک ہو جائے گا اور اُن کے اجر میں سے کچھ بھی کم نہ کیا جائے گا کیونکہ تو نے اُن کے مقصود کی مدد کی اور اُن کے دنیوی بوجھ کو اُن سے اٹھا لیا اور جب تو اپنا کھانا کسی منافق، ریاکار اور گناہگار کو کھلائے گا اور دنیا کے کاموں میں اس کی مدد کرے گا تو تُو اس کے عمل میں شریک ہو جائے گا اور اس کے عذاب میں کچھ کمی نہ ہوگی کیونکہ تو نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہ کرنے میں اس کی مدد کی۔‘‘
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فقیر کے متعلق اپنی مختلف تصانیف میں ذکر فرماتے ہیں:
فقیر کو گدا کیوں سمجھتا ہے؟ فقیر تو سلطان ہے اور اس کی بادشاہی ملک ِ بقا تک ہے۔ (نور الہدیٰ)
فقیر کی نظر بھی خزانہ ہوتی ہے اور اس کے قدموں میں بھی خزانہ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود لا یحتاج رہتا ہے۔(نور الہدیٰ)
فقیر اسے کہتے ہیں جو مولیٰ اور راہِ مولیٰ کے سوا کسی بھی دوسری چیز کو مقدم نہیں سمجھتا یعنی اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ (محکم الفقرا)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے حقیقی و روحانی وارث اور سلسلہ سروری قادری کے امام اور اکتیسویں (31) شیخ ِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فقیر ِ کامل کے متعلق فرماتے ہیں:
صاحب ِ فقر کو اصطلاحِ فقر میں فقیر کہتے ہیں۔
فقیر وہ ہے جس میں قرآن کی روح بے پردہ نظر آئے ۔
فقرا کی شان اور حقیقت کو بیان کرنے کے لئے یہ مضمون ناکافی ہے۔ فقرا کی حقیقت کو جاننے والی ہستیوں نے فقرا کے متعلق بہت زیادہ تحریرفرمایا ہے جس کو اس چھوٹی سی تحریر میں قلم بند کرنا محال ہے۔
اللہ نے انسان کو اس دنیا میں اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے۔ اور اس کی بھلائی کے تمام راستے بھی بتا دئیے ہیں اگرانسان ان باتوں پر عمل نہ کرے تو وہ خسارے میں ہے۔ جہاں اللہ نے قرآن میں انسان کی بھلائی کا ذکر کیا ہے وہیں اس کی بات نہ ماننے پر سخت وعید بھی فرمائی ہے۔
٭ ترجمہ: ’’اے ایمان والو! جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی اور نہ شفاعت اور کافر ہی ظالم ہیں۔‘‘ (البقرہ۔254 )
٭ ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو۔ جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کو دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زور دار مینہ برسے اور وہ اسے بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے ان ریاکاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالیٰ کافروں کی قوم کو (سیدھی) راہ نہیں دکھاتا۔(البقرہ۔ 264 )
ترجمہ: اور اس دن (اعمال کا) تولا جانا حق ہے، سوجن کے (نیکیوں کے) پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ کامیاب ہوں گے اور جن کے (نیکیوں کے) پلڑے ہلکے ہوں گے تو یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو نقصان پہنچایا اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیتوں کے ساتھ ظلم کرتے تھے۔ (اعراف۔8-9 )
ترجمہ: منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے (کی جنس) سے ہیں یہ لوگ بُری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور اچھی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھ (اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے) بند رکھتے ہیں، انہوں نے اللہ کو فراموش کر دیا تو اللہ نے بھی انہیں فراموش کر دیا، بیشک منافقین ہی نافرمان ہیں۔ (التوبہ۔67 )
ترجمہ: بلاشبہ ہم نے تمہیں عنقریب آنے والے عذاب سے ڈرا دیا ہے۔ اس دن ہر آدمی ان (اعمال) کو جو اس نے آگے بھیجے ہیں دیکھ لے گا اور (ہر) کافر کہے گا اے کاش! میں مٹی ہوتا (اور اس عذاب سے بچ جاتا)۔ (النبائ۔40 )
اگر انسان غور کرے تو اسے اندازہ ہوجائے کہ وہ اپنے نفس کے پیچھے لگ کر اللہ کے حکم کی نافرمانی کرتا ہے اور پھر نقصان اٹھاتا ہے لیکن افسوس! وہ گلہ پھر بھی اللہ سے ہی کرتا ہے اور جانتے ہوئے بھی انجان بن جاتا ہے۔
بیشک اللہ تو سب جانتا ہے کہ کون، کب اور کہاں جھوٹ بول رہا ہے اور اپنے مال کو اللہ کی راہ میں دینے سے چھپا رہا ہے۔ انسان کو تفکر کرنا چاہیے کہ وہ ذات جس کے قبضہ ٔ قدرت میں ہر چیز ہے اسے کس چیزکی کمی ہوسکتی ہے؟ اسے کسی چیز کی کمی نہیں بس وہ اپنے بندوں کا ہی بھلا چاہتا ہے۔ لیکن وہ انسان بہت ہی خسارے میں ہے جس نے ساری زندگی بخل کرنے میں گزار دی اور اس کے مرنے کے بعد وہ مال و دولت اس کی نہ رہی بلکہ وہ تو دوسروں میں بانٹ دی جاتی ہے۔ اس شخص کو جب احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنا مال اللہ کی راہ میں دے دیتا تو بہتر تھا لیکن وقت ختم ہو چکا ہوتا ہے۔پھر وہی محاورہ رہ جاتا ہے:
اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیا چگ گئیں کھیت
اس لئے انسان کو چاہیے کہ وقت ختم ہونے سے پہلے پہلے اللہ کے حکم کو بجا لائے اور اس کا ہی دیا ہوا مال اس کے اصل حقداروں کو دے دے اس سے پہلے کہ اس کے پاس وقت ہی نہ رہے ۔بیشک اللہ کی لاٹھی بے آوازہے۔
بےشک میرے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الراحمن مدظلہ اقدس کے عطا کردہ اسم اللہ ذات مشق مرقوم وجودیہ اور خفی ذکر یاھو سے اللہ پاک اور حضرت محمد ﷺ کا دیدار (ملاقات) اور پہچان ہوتی ہے
اس طرح انسان کا مقدصد حیات حاصل ہوتا ہے
تحریک دعوت فقر پاکستان لاہور ذندہ باد
https://www.tehreekdawatefaqr.com/biography
Masha ALLAH
سبحان اللہ
https://www.tehreekdawatefaqr.com/biography