حبِ دنیا ۔زہرِ قاتل
تحریر: انیلا یٰسین سروری قادری۔ لاہور
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باَھُوؒ فرماتے ہیں ’’دنیا کی محبت زہر ِ قاتل کی طرح ہے جس طرح زہرِ قاتل انسان کی جان لے لیتا ہے اسی طرح دنیا کی محبت ایمان لے لیتی ہے۔‘‘ (گنج الاسرار)
اب سوال یہ ہے کہ دنیا کسے کہتے ہیں؟ اور یہ زہر (دنیا) محبت کی صورت میں کیسے انسان کے دِل میں اپنی جگہ بناتا ہے؟ جبکہ انسان کی اصل تواس کی روح ہے اور روح کی حقیقت عالمِ لاھُوت میں پوشیدہ ہے تو یہ ناسوتی دنیا کیسے انسان کے دِل میں اپنی جگہ بنا سکتی ہے؟
اس دنیا کے متعلق مجددِّ دین، شبیہ ِ غوث الاعظم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
عام طور پر مال و دولت کی فراوانی کو دنیا سمجھا جاتا ہے مگر دنیا کی تعریف یوں کی گئی ہے ’’ہر وہ چیز دنیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی یاد سے ہٹا کر اپنی طرف مشغول یا متوجہ کر لے ۔‘‘ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے:
مَا شَغَلَکَ عَنِ اللّٰہِ فَھُوَ صَنَمُکَ
ترجمہ:جو چیز تجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہٹا کر اپنے ساتھ مشغول کر لے وہ تیرا بت ہے۔ (شمس الفقرا)
یعنی ہر وہ چیز، سوچ اور عمل جس کا مقصد رضائے حق تعالیٰ نہ ہو وہ دنیا ہی ہے۔ پس ہر کسی کے لیے دنیا کا مفہوم الگ الگ ہو سکتا ہے۔ جس چیز کا حصول اور محبت انسان کو اللہ تعالیٰ سے غافل کر دے وہی اس کی دنیا ہے۔ یہ حُبِّ دنیا انسان کی لگاتار خواہشات کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے، قرابت داری کے حصول کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کرنے کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔انسان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اللہ کے عشق میں غرق ہو کر عالم ِ لاھُوت میں قرب و دیدارِ حق تعالیٰ سے مشرف ہو لیکن یہ دنیا خواہشاتِ نفس کی صورت میں انسان کے دِل پر اس قدر شدید حملہ کرتی ہے کہ اسے اللہ پاک کی جانب سے مکمل طور پر غافل کر کے اس کی روح کو سیاہ اور بے ایمان کر دیتی ہے۔ جس کی وضاحت میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نہایت ہی خوبصورت انداز میں اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف ’شمس الفقرا‘ میں ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
دل میں دو دروازے ہیں ایک اوپر ایک نیچے، اوپر کا دروازہ جسم سے متصل ہے اور نیچے کا روح سے۔ خَنّاس ان دو دروازوں کے اردگرد مکڑی کا جالا سا بُن کر رہتا ہے اور وساوس کو اژدھے کی صورت دِل میں پھونکتا رہتا ہے۔ خَنّاس (دنیا) کی صورت اژدھے کی مانند ہوتی ہے اس کی دُم پر زہریلے کانٹے ہوتے ہیں جس سے وہ دل کو مسموم کرتا رہتا ہے اور دِل میں سیاہی پیدا کر دیتا ہے۔ (شمس الفقرا)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:
سچا طالب وہ ہے جو ایک پل کے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے جدانہ ہو اور حرص و حُبِّ دنیا سے فانی ہو کیونکہ لایعنی مشغولیت کے باعث (قلب کا) پردہ فاسد ہو جاتا ہے حتیٰ کہ اگر ایسے شخص کو وعظ و نصیحت، جملہ قرآن و حدیث اور مشائخ کے اقوال بھی سنائے جائیں تو کچھ فائدہ نہ ہو گا کیونکہ حرص و حُبِّ دنیا اور اوصافِ ذمیمہ کے باعث اس کا دِل مردہ ہو چکا ہوتا ہے۔ (محکم الفقرا)
حُبِ دنیا نفس پر حملہ آور ہو کر اس کی خواہشات کو بڑھاتی ہے۔ اس طرح انسان اپنی خواہشات کو پورا کرنے کی دھن میں لگ جاتا ہے جس کے باعث قرب و دیدارِ حق تعالیٰ کی طلب ابتدا میں کم ہوتی جاتی ہے اور پھر یہ زہر انسان کے وجود میں اس قدر سرایت کر جاتا ہے کہ اس کی عالم ِ لاھُوت میں قرب و دیدار ِ حق تعالیٰ کی طلب مکمل طور پر دم توڑ جاتی ہے۔ حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:
بیت:
ادھی لعنت دُنیا تائیں، تے ساری دنیاداراں ھُو
جیں راہ صاحب دے خرچ نہ کیتی، لین غضب دیاں ماراں ھُو
پیوواں کولوں پتر کوہاوے، بھٹھ دُنیا مکاراں ھُو
جنہاں ترک دُنیا کیتی بَاھُوؒ، لیسن باغ بہاراں ھُو
جس طرح زہر کی ایک بوند پورے تالاب کو زہریلا کر دیتی ہے اسی طرح ذرّہ برابر حُبّ ِدنیا کا زہر روح کی موت کا باعث بن جاتا ہے۔
یہاں یہ مطلب ہر گز نہیں کہ حقوق العباد کو ترک دیں اور ضروریاتِ زندگی سے منہ موڑ کر جنگلوں، پہاڑوں، ویرانوں اور بیابانوں میں نکل جائیں کیونکہ ایسا کام تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی نہیں کیا تھا اور نہ ہی ایسا رویہ اختیار کرنے کا حکم فرمایا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
لَا رَھْبَانِیَۃُ فِی الْاِسْلاَمِ (قرطبی،الجامع لاحکام القرآن، 87:18، فتح الباری،111:9 ، مسند احمد)
ترجمہ: ’’اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔‘‘
بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ: اس اُمت کی رہبانیت جہاد فی سبیل اللہ ہے ۔ (مسند احمد،مسند ابی یعلٰی)
یعنی اُمت ِ محمدیہ کے لیے قرب ودیدارِ الٰہی کے حصول کا راستہ رہبانیت نہیں بلکہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔
بے شک آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا میں رہ کر ہی اسلام کا ایسا اعلیٰ ترین نظام متعارف فرمایا جو تاقیامت ہر بشر کے لیے مشعل ِ راہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعلیمات ہی حقیقی فقر ہیں۔ سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطا ن محمد اصغر علی ؒ فرماتے ہیں:
تُو کاروبارِ دنیا کر مگر اللہ کے لئے، دنیا کا رزق کھا مگر اللہ کے لئے، دنیا میں چل پھر مگر اللہ کے لئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تم جہان بھر سے علیحدگی اختیار کر لو ہاں البتہ جو کام بھی کرو اس میں یادِ خدا ہو اور قلب اللہ کی طرف متوجہ ہواور ہاتھ دنیا کے کام کی طرف۔(شمس الفقرا)
حقیقت ِ دنیا احکامِ الٰہی کی روشنی میں
اللہ ربّ العزت نے بھی قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر دنیا کی حقیقت کو بیان فرمایا ہے ان میں سے چند آیات کے تراجم درج ذیل ہیں:
لیکن تم لوگ دنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو حالانکہ آخرت کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ پائیدار ہے۔ (سورۃ اعلیٰ16-17)
یہ دنیوی زندگی کھیل کود کے سوا کچھ نہیں اور اصل زندگی آخرت کی ہے۔ اگر یہ لوگ جانتے ہوتے۔ (العنکبوت۔ 64)
اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کر نے پائیں اور جو لوگ ایسا کریں گے وہ بڑے گھاٹے کا سودا کرنے والے ہونگے۔ (المنافقون۔9)
ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر (دنیا کا عیش) حاصل کرنے کی ہوس نے تمہیں غفلت میں ڈال رکھا ہے۔ (التکاثر۔1)
یعنی دُنیا سمیٹنے کی دُھن میں لگ کر تم آخرت کو بھولے ہوئے ہو۔
جس نے سرکشی اختیار کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ ( النازعات37-39:)
قرآنی آیات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ پاک نے دُنیا کو انسان کی آزمائش کے لیے بنایا ہے نہ کہ عارضی آسائشوں میں گم ہو کر فکر ِ آخرت سے غفلت اختیار کرنے کے لیے۔ اس لئے نزولِ قرآن کامقصد بھی یہی ہے کہ انسان کو دنیا کے مصائب اور حقیقت سے خبردار کیا جائے تاکہ انسان اس دنیا کی چالوں کو سمجھ جائے اور آخرت کی فکر کرے۔
حقیقتِ دنیا احادیثِ نبویؐ کی روشنی میں
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیاتِ مبارکہ قرآنِ حکیم کا عین ہے۔ تعلیماتِ قرآن حکم ِالٰہی ہیں اور حیاتِ نبویؐ اس کا عملی نمونہ ہے۔ دُنیا کا کوئی بھی ایسا نظام نہیں جس کا عملی حکم آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیاتِ طیبہ سے نہ ملتا ہو چاہے اس کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے، معاشی یا معاشرتی نظام سے ہو یا سیاسی و سماجی نظام سے۔ الغرض حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں اسی دنیا میں رہ کر احکامِ الٰہی کے مطابق ہی عملی طور پر نافذ فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی حُبِّ دنیا کی سخت ممانعت فرمائی ہے۔ چند احادیث درج ذیل ہیں:
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اگر دنیا کی اللہ کے یہاں مچھر کے برابر بھی حیثیت ہوتی تو اللہ تعالیٰ کافر کو اس دنیا سے پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہیں کرتا۔‘‘ (سنن الترمذی)
ایک مرتبہ سیّدنا عمر فاروقؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے، سیّدنا حضرت عمر فاروقؓ چٹائی کے نشانات آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پہلو مبارک پر دیکھ کر رو پڑے۔ آپؐ نے استفسار فرمایا: کس بات پر روتے ہو؟ سیّدنا حضرت عمر فاروقؓ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! قیصرو کسریٰ کو دنیا کا ہر آرام مل رہا ہے آپؐ اللہ کے رسول ہیں (آپؐ پھر ایسی تنگ زندگی گزارتے ہیں)۔ آپؐ نے فرمایا: ’’کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ ان کے حصّہ میں دنیا ہے اور ہمارے حصّہ میں آخرت ہے۔‘‘ (صحیح البخاری، کتاب تفسیر القرآن)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان فرماتے ہیں ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے میرے کندھے کو پکڑ کر فرمایا کہ دنیا میں مسافر کی طرح رہو۔‘‘ (صحیح البخاری)
دُنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔ (مکاشفۃ القلوب)
دنیا ملعون ہے اور جو کچھ اس میں ہے سب ملعون ہے سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ (مکاشفتہ القلوب)
دنیا مردار ہے اور اس کا طالب کتا ہے۔ (عین الفقر)
دُنیا کا عیش و عشرت کفار کا فخر ہے۔ (عین الفقر)
مندرجہ بالا احادیث اس بات کو مزید واضح کر دیتی ہیں کہ دنیا ایک زہر ہے جسے اگر رائی کے دانے کے برابر بھی چکھ لیا جائے تو یہ ظالم انسان کی ایسی باطنی موت کا باعث بنتی ہے کہ اُسے کبھی اللہ کی یاد ہی نہیں آنے دیتی۔ ایسے لوگوں کے بارے میں ہی ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’ جس شخص نے میرے ذکر سے اعراض کیا پس اس کی باطنی (یعنی روح کی) روزی تنگ کر دی جاتی ہے اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے۔‘‘ (سورۃ طٰہٰ:124 )
مزید فرمایا:
ترجمہ:’’ اور جو لوگ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں ہم عنقریب انہیں ہلاکت کی طرف لے جائیں گے اس طریقے سے کہ‘ جس سے وہ لاعلم ہیں۔‘‘ (الاعراف۔182)
جو قربِ دیدارِ حق تعالیٰ کے طلبگار ہوتے ہیں وہ کبھی بھی اس فانی دنیا کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ وہ ہمیشہ اطاعت ِ خدا اور اطاعت ِ رسولِ خداؐ میں مگن رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات (تعلیماتِ فقر) کو مکمل طور پر اپنایا اور اپنے قلوب ایسے منور کیے کہ دنیا کی رنگینیاں ذرّہ برابر بھی انہیں متاثر نہ کر سکیں اور آج بھی یہ ہستیاں عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو ؒ فرماتے ہیں:
اگرچہ ابوجہل نے صحابہ کرام ؓ کو مال و زر اور دنیاوی بادشاہی کا لالچ دیا جنہیں دین عزیزتھا انہوں نے ان (فانی چیزوں) کی طرف نظر بھی نہ کی اور اپنی جان اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد ؐ کے لیے قربان کر دی۔ (عین الفقر)
جان لے! یہ دنیا کا مال ہی تھا جس نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے دشمنی اور جنگ کی تھی۔ اگر ابو جہل مفلس ہوتا تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اتباع کرتا۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کو دنیا نے ہی شہید کیا۔ اگر یزید مفلس ہوتا تو حضرت امامین پاکؓ کی اتباع کرتا۔ امامین ِ پاک اُم المومنین حضرت بی بی فاطمۃ الزہرارضی اللہ عنہا اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آنکھوں کا نور ہیں اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد ہیں۔ پس اہل ِ دنیا ابوجہل اور یزید ہیں نہ کہ رابعہ بصریؒ اور بایزیدبسطامیؒ ۔ دنیا امامین پاکؓ اور صحابہ کرامؓ کی قاتل ہے۔ (عین الفقر)
پس یہ دنیا اور اس میں موجود ہر چیز عارضی ہے اور صرف اور صرف انہیں اللہ پاک نے انسان کی آزمائش کے طور پر ہی تخلیق فرمایا ہے تاکہ اس امتحانِ عشق میں کھرے اور کھوٹے کی پہچان کی جا سکے۔ اس دنیا میں آنے کے بعد انسان کی مثال ایک ایسے مسافر جیسی ہو جاتی ہے جو ایک صحرا میں بھٹک رہا ہے اور اس کی ضرورت (قرب و دیدارِ حق تعالیٰ) اس صحرا سے پوری نہیں ہو سکتی اور کیونکر ہو گی جبکہ اس مسافر کو صحرا میں سیراب کرنے کے لیے کوئی مستقل کنواں ہی میسر نہیں (یعنی یہ دنیا انسان کا ابدی ٹھکانہ ہی نہیں ہے)۔ با لفرض اگر تھوڑا بہت پانی میسر آ بھی جاتا ہے تو وہ حیاتِ جاودانی نہیں ہوتا۔ حیاتِ جاودانی کے حصول کے لیے اس مسافر کو ناخدا کی رہنمائی کی ضرورت پڑے گی کیونکہ ناخدا (رہنما) کے بغیر جدوجہد بھی بے سود اور بے کار ہے۔ جب مسافر اپنے وجود کو رہنما کے زیر ِ سایہ سخت کوشش اور مجاہدے کے ذریعے اس صحرا سے باہر نکال لے گا تو حیاتِ جاودانی (عالم ِ لاھُوت میں قربِ الٰہی) کو پا لے گا وگرنہ صحرا میں بھٹک کر مر جائے گا اور اس کا انجام اتنا بھیانک ہو گا کہ آخر (آخرت) میں اس کے وجود کو صحرائی بچھو، چوہے اور گدھ کھائیں گے۔ اب یہ اس مسافر کی مرضی ہے کہ وہ اپنے لیے کونسی راہ اپنانا چاہتا ہے اور کیسے اس فانی سفر کو طے کرتے ہوئے توشۂ آخرت اکٹھا کرتا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔‘‘ جو دنیا کے زہر سے بچ کر اپنے ایمان کو سلامت رکھنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ فقرا کی صحبت اختیار کرے اور ظالموں (اہل ِ دنیا) سے بچے کیو نکہ فقرا کاملین کی صحبت سے حلاوتِ ایمان نصیب ہوتی ہے اور اہل ِ دنیا کی صحبت سے دل ذکر ِ اللہ سے غافل اور روح سیاہ ہوتی ہے۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے ’’ترجمہ: اور مت رجوع کرو ظالموں کی طرف ورنہ اُن کے ظلم کی آگ تمہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔‘‘ (ھود۔113)
ظالم کون ہے؟ ہر وہ انسان جو تعلیماتِ محمدیؐ یعنی فقر محمدیؐ سے روگردانی کیے ہوئے ہے بلاشبہ وہ اپنے نفس اور باطن کے لیے ظالم ہی ہے۔ وہ دنیا اور شیطان کا پیروکار ہے اور ذکر ِ اللہ (ذکر و تصور اسمِ اَللّٰہُ ذات) سے منہ موڑے ہوئے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا یوں منہ موڑ کر غفلت کرنا اس کو یومِ آخرت میں شرمندگی کے سوا کچھ نہیں دے گا۔
بیشک اللہ پاک نے انسان کی تقدیر لکھ دی ہے لیکن نصیب تو انسان خود اپنی سوچ اور فیصلوں سے بناتا ہے۔ اگر وہ اپنی سوچ کے محدود دائرے میں ہی رہے گا، اللہ پاک پر توکل ہی نہیں کرے گا، بس دنیا کو ہی معبود بنائے رکھے گاتو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اللہ پاک سے مدد مانگے بغیر ہی اپنی سوچ درست رکھ سکتا ہے؟ جب سوچ میں دنیا ہی رہے گی تو فیصلے کیسے درست ہو سکتے ہیں؟ جب فیصلے درست نہیں تو انجام بھی درست نہیں، پھر سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں رہتا۔
سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ فرماتے ہیں:
اللہ کے سوا ہر شے غیر اللہ ہے۔ تُو اللہ کے مقابلے میں غیر اللہ کو قبول نہ کر، اس لیے کہ اُس نے تجھے اپنے لیے پیدا کیا ہے۔ غیر اللہ میں مشغولیت و محویت کی وجہ سے اللہ سے اعراض کر کے اپنے اوپر ظلم نہ کر ورنہ اللہ تجھے ایسی آگ میں جھونک دے گا جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ (فتوح الغیب۔مقالہ13)
اے بھلائی سے غائب ہونے والو، دنیا میں مشغول ہونے والو! عنقریب دنیا تم پر حملہ کر دے گی اور تمہارا گلا گھونٹ دے گی اور تم نے جو کچھ باتوں سے جمع کیا ہے وہ تمہیں کچھ بھی فائدہ نہیں دے گا اور وہ تمام لذتیں جن سے تم مزے اڑاتے تھے کچھ کام نہ دیں گی بلکہ یہ تمام کا تمام تمہارے اوپر وبال ہی ہو گا۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 18)
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمداصغر علیؒ فرماتے ہیں:
پس تو دنیا میں رہتے ہوئے اس سے دامن بچا کے ایسے نکل جا جیسے کہ مرغابی پانی میں رہتے ہوئے بھی پانی میں غرق نہیں ہوتی اور دنیا سے اپنا نصیب اس طرح حاصل کر کہ جیسے بگلا پانی کے کنارے پر رہ کر اس کے اندر سے اپنا رزق حاصل کرتا ہے اور خود کو پانی میں غرق نہیں کرتا۔ (شمس الفقرا)
پس اگر انسان اپنے ساتھ بھلائی کا ارادہ رکھنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ دنیا کی فریب کاریوں سے اچھی طرح واقفیت حاصل کرے تاکہ یہ زہر ِقاتل انسان کا ایمان نہ لے لے۔ کوئی بھی انسان دنیا کے زہر سے اُس وقت تک محفوظ نہیں ہو سکتا جب تک وہ اس کی محبت سے نکلنے اور اس سے بچنے کے لیے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیماتِ فقر (جو کہ اصل میں شریعت، طریقت، معرفت اور حقیقت پر مبنی ہیں) کو اپناتا نہیں ہے۔ کیونکہ ان میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑ کر انسان نہ تو مرنے کے بعد عذاب سے بچ سکتا ہے اور نہ ہی آخرت میں اپنے آپ کو آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شفاعت کا حقدار بنا سکتا ہے۔
بعد از ختم ِ نبوت صحابہ کرامؓ اور بعد از صحابہ کرامؓ تابعین و تبع تابعین اور پھر ان کے بعد فقرا کاملین ہی وہ واحد ہستیاں ہیں جو حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیماتِ فقر کے فیض کو (بحکم ِ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام) اب تک صحیح روح کے ساتھ عوام الناس میں بانٹ رہے ہیں۔ موجودہ دور کے فقیر ِ کامل اور سلطان الفقر پنجم سلطان العارفین حضرت سخی سلطان بَاھُورحمتہ اللہ علیہ کے سلسلہ سروری قادری کے روحانی وارث سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس قدمِ محمدی ؐ پر فائز ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کے دست ِ اقدس پر ہزاروں لوگ مشرف بہ اسلام ہو کر اپنے باطن کو حُبّ دنیا کے زہر سے پاک کر چکے ہیں اور لاکھوں صادق مریدین قرب و دیدارِ حق تعالیٰ کی منازل طے کر رہے ہیں۔ الغرض آپ مدظلہ الاقدس کے روحانی مقام اور آپ مدظلہ الاقدس کی شانِ اقدس کو مختصر الفاظ کے سہارے سے بیان کرنا ناممکن ہے۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں التجا ہے کہ وہ ہمیں بھی آپ مدظلہ الاقدس کی صدق، اخلاصِ نیت و استقامت والی غلامی نصیب فرمائے اور آپ مدظلہ الاقدس کے زیر ِ سایہ حُبّ دنیا کے زہر سے محفوظ رہنے اور قرب و دیدارِ حق تعالیٰ کی منازل طے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
استفادہ کتب:
عین الفقر۔ تصنیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باَھُوؒ
محک الفقر کلاں۔ ایضاً
شمس الفقرا۔ تصنیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
ابیاتِ باھُوؒ کامل ۔ ایضاً
مکاشفۃ القلوب تصنیف حجۃ الاسلام امام غزالیؒ
حق فرمایا