مرشد کامل اکمل
تحریر: روبینہ فاروق سروری قادری ۔لاہور
شریعت کیا ہے؟ شریعت کا لغوی معنی واضح اور سیدھا راستہ ہے۔ شریعت قرآن و سنت پر مبنی اوامر و نواہی کا وہ نظام ہے جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے عمل کو منظم کرتا ہے۔ یعنی شریعت ایک مکمل اور جامع ضابطہ حیات ہے لیکن عموماً شریعت سے مراد یہ لیا جاتا ہے کہ پانچ وقت کی نماز پڑھنا، رمضان المبارک کے روزے رکھنا، حج کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا اور حلال و حرام میں تمیز کرنا۔
مسلم معاشرے میں والدین اپنے بچوں کو بچپن سے یہ تو بتانا شروع کر دیتے ہیں کہ سچ اور جھوٹ کیا ہے؟ حلال و حرام کیا ہے؟ شریعت ہمیں کن کاموں کے کرنے کا حکم دیتی ہے اورکن کاموں سے روکتی ہے لیکن شریعت کا اصل مقصد والدین اپنے بچوں کو نہیں بتاتے کیونکہ بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ شریعت کا اصل مقصد کیا ہے؟
شریعت کا اصل مقصد اللہ کو پہچان کر اس کی عبادت کرنا اور اُس کا قرب پانا ہے۔ جو لوگ واقعی اُسے پہچاننا اور پانا چاہتے ہیں وہ سچے، وفا شعار اور قربانی دینے والے ہوتے ہیں۔ اُن میں عاجزی و انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ وہ شکوک و شبہات سے پاک اور اللہ پر یقین رکھنے والے، صادق اور امین ہوتے ہیں۔ جو وعدہ کر لیں اُس پر پورا اُترنے والے ہوتے ہیں۔ امانت میں خیانت نہیں کرتے۔ ایسے لوگ ضرور اپنے مقصد تک پہنچ جاتے ہیں۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ ایسے لوگوں کے بارے میں اپنے کلام میں فرماتے ہیں:
ثابت صدق تے قدم اگیرے، تائیں ربّ لَبھیوے ھُو
لُوں ُلوں دے وِچ ذکر اللہ دا، ہر دم پیا پڑھیوے ھُو
اللہ کو پہچاننے کے لیے سب سے پہلے مرشد کامل اکمل تلاش کرنا لازمی ہے۔ مرشد کامل اکمل کے بغیر نہ تو ہم اللہ کو پہچان سکتے ہیں اور نہ ہی اللہ کا قرب پا سکتے ہیں۔ جبکہ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ دنیاوی تعلیم کے لیے تو گھر سے نکل پڑتے ہیں اور کسی استاد کی شاگردی بھی اختیار کر لیتے ہیں لیکن اللہ کو پہچاننے اور پانے کے لیے گھر بیٹھ کر صرف قرآنِ پاک پڑھ لینا یا عبادت کر لینا ہی کافی سمجھتے ہیں جبکہ یہ سب کافی نہیں ہے۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
خودی میں گم ہے خدائی تلاش کر غافل
یہی ہے تیرے لیے اب صلاحِ کار کی راہ
اس شعر میں خودی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنی روحانی اور باطنی حقیقت کو جاننا اور پہچاننا چاہیے۔ اُس کے بعد ہم اللہ کو پہچان سکتے ہیں کیونکہ انسان صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ یا گوشت پوست کا جسم نہیں ہے اور نہ ہی اس کا مقصد صرف کھانا پینا، شادی کرنا، بچے پیدا کرنا ہے۔ اسے غور و فکر کرنا چاہیے کہ اس کی اصل ذات کیا ہے، وہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جانا ہے۔ اپنی حقیقت کو جانے کہ اس جسم کے اندر ایک روح بھی ہے جس کی غذا اللہ کے انوار و جمال کا مشاہدہ ہے۔ یہ وہ روح ہے جس کو فرشتوں نے سجدہ کیا تھا‘ ابلیس نے انسان کو مٹی کا وجود سمجھا اور اس کے اندر چھپی روح کی حقیقت کو نہ سمجھا اس لیے گمراہ ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کا راز روح میں پوشیدہ ہے۔ روح جسم میں پوشیدہ رہ کر بھی اپنا اظہار چاہتی ہے تاکہ اس کے راز کو تلاش کیا جا سکے۔ باہر کچھ بھی نہیں سب کچھ انسان کے اندر ہی ہے۔ دنیا کا علم ہو یا روح کا سب انسان کے اندر موجود ہے۔
علم دو قسم کا ہوتا ہے ایک وہ جو کتابوں کے صفحات پر لکھا جاتا ہے اور مدارس میں پڑھا یا جاتا ہے۔ اور ایک علم وہ جو دل کی تختی پر لکھا جاتا ہے جو پڑھنے پڑھانے سے نہیں مرشد کامل کی صحبت میں بیٹھنے سے ملتا ہے، جو عقل کی مشق سے نہیں عشق کے مجاہدوں سے ملتا ہے اور جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا ہے۔
ایک علم زبان سے جاری ہوتا ہے اور دوسرا علم دل سے پھوٹتا ہے اور جو دل سے پھوٹتا ہے یہی نفع بخش ہے اور دوسرا ابن ِ آدم پر حجت ہے اس پر عمل کرنا لازم ہے اور اگر نفع چاہتے ہو تو نفع اس علم سے ہوگا جس کاچشمہ دل سے پھوٹتا ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے:
’’ میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دو طرح کے علوم حاصل کئے ان میں سے ایک وہ جو صبح شام آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں دوسرا وہ ہے کہ اگر میں عام کر دوں تو میری گردن قلم کر دی جائے‘‘۔
ا س علم کے لیے فقط خاص دل چاہیے۔ اس علم کے لیے کوئی اہل ِ سینہ چاہیے جو ہجر ِ محبوب میں شکستہ ہو، جس کے اندرعشق کی آگ بھڑکی ہو اور جس نے ہر غیر کو جلا کر راکھ کر دیا ہو۔ جب تک اس علم کا چشمہ دل سے نہ پھوٹے اس وقت تک قرآنی اثرات اور معارف تک رسائی نصیب نہیں ہوتی جیسا کہ جب تک دودھ کو لسی کی جاگ نہ لگائیں تو دہی نہیں جمتی اور جب تک دہی نہیں جمتی اس میں سے مکھن نہیں نکلتا۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جاگ بنا دُدھ جمدے ناہیں باھُو، بھانویں لال ہووَن کڑھ کڑھ کے ھُو
جب تک ہمارے نیک اعمال کو عشق کے چند قطروں کی جاگ نہ لگے، کسی اہل دل کی نگاہ کی جاگ نہ لگے تب تک یہ اعمال خلوص کی دولت سے مالا مال نہیں ہو سکتے یعنی کسی اہل ِ دل کی صحبت ہی ہے جو سارے حال کو بدل دیتی ہے۔ قرآنی علم کی بارش ہر سینے پر یکساں ہوتی ہے مگر جس سینے کی زمین تزکیہ، تصفیہ، عشق ِ الٰہی، عشق ِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اور مرشد کامل اکمل کی نگاہ کے ذریعے صاف ہوچکی ہو وہاں جب علم ِقرآن کی بارش ہو تو معرفت کی ہریالی اُگتی ہے اور جو سینہ غلاظتوں، گندگی، بغض، بے ادبی اور بد اعتقادی کا ڈھیر ہے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے لاتعلقی کا ڈھیر ہے، جس کے اندر نورِ ایمان نہیں، نورِ تزکیہ نہیں، نورِ تصفیہ نہیں وہاں جب قرآن کے اس نورانی علم کی بارش پڑتی ہے تو بجائے ہدایت کے گمراہی اور تعفن پیدا ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید کی معرفت عشق کی جاگ کے بغیر میسر نہیں آتی لہٰذا جہاں آپ قرآن سنیں، قرآن کی تفسیر، تعلیم اور ذکر جو کچھ بھی سنیں اگر وہ عشق کی جاگ کے بغیر محسوس ہو تو اس جگہ سے بچیں کیونکہ عشق کے بغیر ہدایت نہیں ملتی اور اسی لیے اللہ پاک نے شرط بھی صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلِیْھِمْ (ترجمہ:’’اللہ کے انعام یافتہ بندوں کی راہ‘‘) کی لگائی نہ کہ اہل ِ منطق، اہل ِ فلسفہ یا اہل ِ تفسیر کی۔ بلکہ جن پر اللہ کا انعام ہوا اُن کے پیچھے چلنے کا حکم ہوا۔ انعام کیا ہے؟ سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی قربت عطا کی، اپنا عشق اور اپنی ذات عطا کی، اللہ نے ان کے اندر ایسی جلوہ گری فرمائی کہ ان کی زبان پر بھی اللہ تعالیٰ خود بولتا ہے ان کے ہاتھ، پاؤں، آنکھیں ان کا دل حتیٰ کہ ان کا سارا وجود ذاتِ الٰہی کا مظہر بن جاتا ہے۔ وہ اللہ کے نور میں اس طرح مستغرق رہتے ہیں جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا ’’پس تم جدھر دیکھو تمہیں اللہ کا چہرہ نظر آئے گا‘‘۔
پس معلوم ہوا کہ علما تو محض علم سکھاتے ہیں لیکن مرشد کامل ہی وہ واحد ہستی ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کے راستہ کو مرید پر کھول سکتا ہے۔ چونکہ اس نے وہ راستہ طے کیا ہوتا ہے اسی لیے وہ راستے کی ہر اُونچ نیچ کو جانتا ہے۔ مرشد کے بغیر ہر قسم کی عبادت و ریاضت اور مجاہدہ بے اثر ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
مرشد باطن کی ہر منزل اور ہر راہ کا واقف ہوتا ہے۔ مرشد کامل اکمل کے بغیر اگر تُو تمام عمر بھی اپنا سر ریاضت کے پتھر سے ٹکراتا رہے تو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
وصالِ حق تعالیٰ مرشد کامل اکمل کی راہنمائی کے بغیر ناممکن ہے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کے قرب و وصال کی راہ چونکہ شریعت کے دروازہ سے ہو کر گزرتی ہے اس لیے شریعت کے دروازے کے دونوں طرف شیطان اپنے پورے لاؤ لشکر سمیت بیٹھا ہے اوّل تو وہ کسی آدم زاد کو شریعت کے دروازے تک آنے ہی نہیں دیتا اگر کوئی باہمت آدمی شریعت (نماز، روزہ ، زکوٰۃ، حج) کے دروازے تک پہنچ جاتا ہے تو شیطانی گروہ اسے شریعت کی چوکھٹ پر روک رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور اسے شریعت کی ظاہری زیب و زینت کے نظاروں میں محو رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ شریعت کی روح تک کسی کو نہیں پہنچنے دیتا۔ (شمس الفقرا)
مرشد کا کام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قرب تک جانے والے راستہ کو مرید پر نہ صرف کھول دے بلکہ آسان کر دے اور نفس و شیطان کی چالوں اور حیلوں سے طالب کو محفوظ رکھے کیونکہ وہ اس راستہ کا ہادی، راہبر اور راہنما ہے۔ اسے محض ظاہری عبادات و ریاضت میں مشغول نہ رکھے بلکہ ذکر و تصور اسم اللہ ذات کی مشق سے معرفت ِ الٰہی کی راہ پر گامزن کرے جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ اپنے کلام میں فرماتے ہیں:
الف اللہ چنبے دی بوٹی، میرے من وچ مرشد لائی ھُو
نفی اَثبات دا پانی مِلیس، ہر رگے ہر جائی ھُو
اندر بوٹی مُشک مچایا، جاں پُھلاّں تے آئی ھُو
جیوے مرشد کامل باھُوؒ، جَیں ایہہ بوٹی لائی ھُو
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ اس بیت میں یہ بتا رہے ہیں کہ جیسے چنبیلی کے پودے کی پہلے پنیری (بوٹی) لگائی جاتی ہے اور جب وہ آہستہ آہستہ نشو ونماپاکر ایک مکمل پودا بن جاتا ہے تو چنبیلی کے پھولوں سے لد جاتا ہے اور اُس کی خوشبو سارے ماحول میں پھیل جاتی ہے۔ اسی طرح جب مرشد طالب کو ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات عطا فرماتا ہے تو گویا اس کے دل میں ایک پنیری لگا دیتا ہے جو مرشد کی نگہبانی میں آہستہ آہستہ طالب صادق کے پورے وجود میں پھیل کر اس کو منور کر دیتا ہے۔ تمام غیراللہ اُس کے دل سے نکل جاتا ہے اور اثبات (اِلَّا اللّٰہ) کے راز سے اسم سے مسمّیٰ تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ راز اور اس کے اسرار رگ رگ، ریشہ ریشہ اور مغزو پوست تک سرایت کر جاتے ہیں۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو اسرار مجھ پر کھل چکے ہیں جی چاہتا ہے ان کو ساری دنیا پر ظاہر کردوں لیکن خواص کے یہ اسرار عام لوگوں پر ظاہر نہیں کیے جاسکتے اس لیے ان اسرار اور رازوں کو سنبھالتے سنبھالتے جان لبوں تک آچکی ہے۔ جدھر بھی نظر دوڑاتا ہوں اب مجھے اسم ِ اللہ ذات ہی نظر آتا ہے۔ (ابیاتِ باھُوؒ کامل)
مرشد کا انتخاب کر لینے کے بعد اس کے ہاتھ پر بیعت کرنا بھی ضروری ہے ۔ بیعت کے بعد پتہ چلتا ہے کہ مرشد ناقص ہے یا کامل اکمل۔ بیعت کے بعد اگر ذکر ِاللہ سے مرشد کا تصور حاصل ہو تو مرشد کامل ہے یعنی وہ ذاتِ حق تعالیٰ کا مظہر ہے لیکن اگر مرشد کاتصور نہ ملے تو وہ کامل نہیں ہے لہٰذا طالب اس بیعت کو توڑ سکتا ہے۔ بیعت کے بعد جو طالب اپنے مرشد کامل پر مکمل یقین رکھے اور ان کے ہر حکم کو دھیان میں رکھے اور اس کو پورا کرنے میں اپنی تمام قوت صرف کر دے تو وہ ضرور بالضرور اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔
لیکن اللہ کی معرفت اور قرب کے اس راستے پر چلنے کے لیے عقل نہیں بلکہ عشق کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ عقل سے یہ راستہ طے نہیں ہوتا۔
عقل عیار ہے، سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ ملاّ ہے، نہ زاہد، نہ حکیم
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور اللہ کی معرفت کو کبھی بھی عقل سے نہیں حاصل کیا جا سکتا بلکہ عشق کی قوت سے ان کو پہچانا جا سکتا ہے۔
بے خطر کود پڑا آتش ِ نمرود میں عشق
عقل ہے محو ِ تماشائے لب ِ بام ابھی
عشق اپنے محبوب کو پانے کے لیے آگ میں بھی کود پڑتا ہے جبکہ عقل سوچ بچار میں وقت ضائع کر دیتی ہے اور دلائل مانگتی ہے۔
پس طالب ِ مولیٰ کو اگر کسی مرشد ِ کامل اکمل کی رفاقت اور راہبری حاصل نہ ہو تو وہ بھٹک کر ہلاک ہو جاتا ہے۔ جس طرح شریعت کا علم استاد کے بغیر ہاتھ نہیں آتا اسی طرح باطنی علم کا حصول مرشد کامل کی رفاقت کے بغیر ناممکن ہے۔ کیونکہ مرشد کی تلقین اور نگاہ ہی ایسا کیمیا ہے جو طالب کے وجود کی کثافت دور کر کے اسے روشن ضمیری کے قابل بنا دیتی ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:
میں تاں ُبھلی ویندی ساں باھوؒ، مینوں مرشد راہ وکھایا ھُو
سبھے مطلب حاصل ہوندے باھُوؒ، جد پیر نظراک تکے ھُو
باجھوں ملیاں مرشد کامل باھُوؒ، ہوندی نہیں تسلا ھُو
لیکن آج کے دور کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ مریدوں کی کثیر تعداد ایسی ہوتی ہے جو دیکھا دیکھی یا کسی اثر کے تحت آکر بیعت تو کر لیتے ہیں لیکن بیعت کے مقصد کو آگے بڑھانے کی قطعاً آرزو نہیں ہوتی، نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں اور نہ کچھ سیکھنا چاہتے ہیں۔ سو ایسے مریدوں کو ہدایت کیسے مل سکتی ہے۔ اور زیادہ تر مرید وہ ہوتے ہیں جو صرف اپنی مشکلات کے حل یا بیماری سے شفا کے لیے دعا کی غرض سے حاضر ہوتے ہیں اور جب ان کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے تو مرشد سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھتے۔ ہر مرید کی اصلاح ہو سکتی ہے مگر مطلب پرست مرید خود ہی آگے نہیں بڑھنا چاہتے۔ ایسے لوگ محض یہ چاہتے ہیں کہ پیر صاحب کوئی ایسا ورد وظیفہ بتا دیں یا تعویز دے دیں کہ کام ہو جائے۔ جبکہ مرید کے ذمہ یہ بات ہوتی ہے کہ اپنا آپ اور اپنے مال کو پیر کی ملکیت سمجھے اور اس کے عوض پیر کا یہ حق ہے کہ مرید کے ہر معاملے کی حفاظت کرے حتیٰ کہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہو۔حضرت سخی سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:
مرشد کامل اکمل طالب کے ہر حال، ہر قول، ہر فعل اور حالت ِ معرفت اور قرب و وصال اور ہر دلیل و وہم و خیال سے باخبر رہتا ہے اور طالب کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے مرشد کو ظاہر و باطن میں ہر وقت حاضر و ناظر سمجھے اور اس پر کامل اعتقاد رکھے۔
حاصل تحریر یہ کہ مرشد کی رہنمائی اور راہبری کے بغیر اللہ کی معرفت اور قرب حاصل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی عبادات و ریاضات سودمند ثابت ہوتی ہیں۔ پس اگر مرشد کی تلاش کا مقصد اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی پہچان ہے تو پھر طالب کو ایسا مرشد ضرور ملے گا جو اسے اللہ تعالیٰ سے ملا دے کیونکہ اللہ تعالیٰ سورہ عنکبوت میں فرماتا ہے:
ترجمہ:جو لوگ ہماری طرف آنے کی جد و جہد اور کوشش کرتے ہیں ہم اُن کو اپنی طرف آنے کے راستے دکھا دیتے ہیں۔ (العنکبوت۔69)
دورِ حاضر کے مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ہیں جنہوں نے بطور مجدد راہِ فقر کو موجودہ دور کے تقاضوں کے عین مطابق دنیا بھر میں عام کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے ہیں جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ آپ مدظلہ الاقدس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی نورانی صحبت اور کیمیا اکسیر نگاہِ کامل کی بدولت لاکھوں لوگ اپنے نفوس کا تزکیہ کروا کر عشق ِ حقیقی کی دولت سے سرشار ہو چکے ہیں۔ تعلیماتِ فقر کو جس قدر آسان فہم انداز میں آپ مدظلہ الاقدس نے عام فرمایا وہ اپنی مثال آپ ہے جبکہ اس سے پہلے راہِ فقر کو سمجھنا اور اس پر چلنا بے حد دشوار تھا۔ طالبانِ مولیٰ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے اس احسان پر اللہ کے مشکور ہیں اور دیگر طالبانِ مولیٰ کو بھی دعوت دے رہے ہیں کہ فقر کی حقیقت کو سمجھنا چاہتے ہیں تو سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس سے اکتسابِ فیض ضرور کریں۔