بغض و کینہ سکونِ قلب کی موت Bughz aur Keena Sukoon e Qalb ki maut

Spread the love

5/5 - (2 votes)

بغض و کینہ سکونِ قلب کی موت
 Bughz aur Keena Sukoon e Qalb ki maut 

تحریر: مسز انیلا یاسین سروری قادری

’’بغض و کینہ سکونِ قلب کی موت ‘‘           بلاگ آڈیو میں سسنے کے لیے اس ⇐  لنک  ⇒ پر کلک کریں.

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات اور کامل دین ہے جس میں کامیابی کا دارومدار اس کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔ کوئی بھی انسان ان ضابطوں سے ہٹ کر کبھی حقیقی کامیابی نہیں پاسکتا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَ۔ اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ۔  (سورۃ الشعرا: 88-89)
ترجمہ: جس دن نہ کوئی مال نفع دے گا اور نہ اولاد۔مگر وہی شخص (نفع مند ہوگا) جو اللہ کی بارگاہ میں سلامتی والے (بے عیب) دل کے ساتھ حاضر ہوا۔ 

قلب کی بیماریوں کے ساتھ اگر انسان اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگا تو شرمسار ہوگا۔ انہی بیماریوں میں سے دو اہم بیماریاں بغض اور کینہ ہیں۔

معنی و مفہوم: 

بغض کراہت اور ناپسندیدگی کے معنی میں آتا ہے۔ بغض کے حقیقی معنی نفس کا کسی چیز سے دور ہٹنا اور ناپسندیدگی کے باعث اس سے دور بھاگنا کے ہیں۔امام الوقت مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
کینہ کا مطلب دشمنی کو دل میں چھپا کر رکھنا ہے۔ پوشیدہ دشمن ظاہری دشمن سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ کسی کے خلاف دل میں انتقامی جذبہ رکھنا جبکہ وہ قصور وار بھی نہ ہو، ایک طرح سے منافقت ہے یہی بیماری بغض اور کینہ کہلاتی ہے۔ (تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین)

بغض قلب میں چھپا ایسا ناسور ہے جس کے شر سے اہلِ دنیا کلی طور پر اور اہلِ عقبیٰ جزوی طور پر محفوظ نہیں۔ بغض کا بیج اس وقت نفس میں پروان چڑھتا ہے جب حالتِ غصہ کے اظہار کی طاقت نہ ہو بلکہ دل میں بدلہ لینے یا برا چاہنے کی خواہش جنم لے۔

حالتِ اعتدال میں تو یہ مرض زیادہ واضح طور پر ظاہر نہیں ہوتا لیکن جیسے ہی دوسرے شخص کو (جس کے بارے میں بغض رکھا ہو، اُسے) اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں سے نوازے توکینہ پرور انسان کی ذہنی اور قلبی کیفیت شدید منفی اور انتقامی ہو جاتی ہے۔ وہ نعمت کے چھن جانے یا برباد ہو جانے کے دَرپے رہتا ہے۔ 

میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
 عموماًکینہ ان لوگوں میں زیادہ ہوتاہے جو کسی کمزوری کی وجہ سے بدلہ لینے کی طاقت نہ رکھتے ہوں اس لیے دل ہی دل میں بغض کو فروغ دیتے رہتے ہیں۔ (تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین)

امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
بعض اوقات آدمی بظاہر غصے پر قابو پا لیتا ہے لیکن دل میں کینہ باقی رہتا ہے ۔کینہ غصے سے بدتر ہے کیونکہ دل میں کینہ رہنے سے ہمیشہ کے لیے برا سمجھنے کی بنیاد پڑتی ہے۔(احیا العلوم جلد سوم)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطَانُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَ الْبَغْضَآئَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَ عَنِ الصَّلٰوۃِ ج فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ۔  (سورۃ المائدہ۔91)
ترجمہ: شیطان یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور کینہ ڈلوا دے اور تمہیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے۔ کیا تم (ان شرانگیز باتوں سے) باز نہ آؤ گے؟ 

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہٗ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو اور اللہ کے بندے (ایک دوسرے کے) بھائی بن کر رہو۔ کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے تعلق ترک کیے رکھے۔ (صحیح مسلم 6526)

خاتم النبییٖن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
آپس میں پھوٹ اور بغض و عداوت کی برائی سے اجتناب کرو کیونکہ یہ (دین کو) مونڈنے والی ہے۔ آپس کی پھوٹ کی برائی سے مراد آپس کی عداوت اور بغض و حسد ہے۔ (سنن ترمذی 2508)

بغض و کینہ انسانی شخصیت کو تباہ کر دیتا ہے

اللہ پاک نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا،اپنا نائب اور خلیفہ مقرر کیا لیکن انسان صرف اسی وقت اس منصب پر فائز رہ سکتا ہے جب وہ خود کو بغض اور دیگر نفسانی بیماریوں سے محفوظ رکھے کیونکہ بغض و کینہ انسانی شخصیت کو تباہ کر دیتے ہیں۔ بغض و کینہ کی روش اختیار کرنے سے انسان درج ذیل ذہنی و جسمانی مسائل سے دوچار ہو سکتا ہے:
کینہ پرور انسان ہر وقت بے چینی و اضطراب میں مبتلا رہتا ہے نتیجتاً وہ بے شمار ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے اور نعمتِ الٰہی کی ناشکری کا مرتکب بنتا ہے۔

 بغض و کینہ دل کو منفی اور انتقامی خیالات کی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور دل میں کرب و اضطراب کے احساسات پروان چڑھنے لگتے ہیں جس سے انسان فشارِ خون (بلڈ پریشر) اور دل کے عارضہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
 حالتِ بغض و کینہ سے غصہ، حسد، افسردگی اور ذہنی دباؤ بڑھتا جاتا ہے اور انسان مجموعی طور پر خوشی و اطمینان سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔
 بغض و کینہ کی وجہ سے انسانی سوچ ہمیشہ منفی خیالات کی طرف مائل رہتی ہے جس کے عملی اثرات یہ ہوتے ہیں کہ انسان کو زندگی کے کئی معاملات میں فیصلہ سازی کے فقدان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نتیجتاً وہ ہمیشہ ناکامی سے ہم کنار رہتا ہے۔

بغض و کینہ چونکہ قلب میں مخفی ایک روحانی بیماری ہے اور کینہ پرور انسان بظاہر بڑا خوشامدی اور ملنسار بن کر رہتا ہے لیکن باطنی طور پر درجہ بدرجہ منافقت کی طرف بڑھتا جاتا ہے۔ منافقین کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ج وَ لَنْ تَجِدَلَھُمْ نَصِیْرًا۔  (سورۃالنسائ۔ 145)
ترجمہ: بیشک منافق لوگ دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور آپ ان کے لئے ہرگز کوئی مددگار نہ پائیں گے۔ 

حضرت سعید بن مسیبؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جو بہت زیادہ نمازیں پڑھنے اور صدقہ دینے سے بہتر ہے؟
انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! وہ عمل کیا ہے؟
آپؐ نے ارشاد فرمایا: وہ عمل دو بندوں کے درمیان صلح کرا دینا ہے۔  تم بغض اور عداوت سے الگ رہو کیونکہ یہ دین کو خراب کر دیتا ہے۔ (عوارف المعارف)

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
کینہ ایسی نفسانی بیماری ہے جس سے دین اور ایمان خراب ہو جاتا ہے، عبادت میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور دل کی پاکی جاتی رہتی ہے۔ راہِ فقر میں تو یہ بیماری طالب کا سفر ہی الٹا کر دیتی ہے کیونکہ بغض و کینہ اس کو اللہ سے غافل کر دیتا ہے اور وہ وقت جو طالب کو تلاشِ حق میں یا عشقِ حق میں لگانا چاہیے وہ انتقام کے منصوبے سوچنے کی نذر ہو جاتا ہے۔(تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین)

کس سے بغض و کینہ رکھنا جائز ہے؟

ایسا انسان جو حدود اللہ کی پیروی نہ کرے،احکامِ الٰہی کی نافرمانی کا مرتکب ہو تو صرف ایسے انسان کے لیے نفرت اور بغض کے جذبات کا دل میں آنا جائز ہے۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے: 
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہٗ کا بیان ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’اعمال میں سے افضل عمل اللہ کے لیے محبت کرنا اور اسی کے لیے بغض رکھنا ہے۔ (سنن ابوداؤد 4599)

حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
محبت فی اللہ کی طرح بغض فی اللہ بھی ضروری ہے۔ مثلاً تم اگر کسی شخص سے اس لیے محبت کرتے ہو کہ وہ اللہ کا اطاعت گزار بندہ ہے اب اگر اس سے معصیت سرزد ہو اور وہ اطاعت گزار بندے کی بجائے گنہگار بن جائے تو اس سے بغض رکھنا اور نفرت کرنا بھی ضروری ہوگا یہ دونوں لازم اور ملزوم ہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے۔ (احیا العلوم جلد دوم)

بغض و کینہ کی شدت نفرت اور شدید ترانتقامی سوچ کا پیش خیمہ اور راحتِ قلب و ایمان کی تباہی کا باعث بنتی ہے۔

 آفتابِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
کینہ پرور ہمیشہ انتقام کے لیے موقع کی تلاش میں رہتا ہے۔ بعض اوقات تو اس کی شدت اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ دشمن کے مرنے کے بعد اس کی اولاد سے بدلہ لینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ (تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین)

انسان دنیا میں تمام تر تگ و دو راحتِ قلب کے حصول کے لیے کرتا ہے۔ یاد رکھیں!جب تک قلب کی اصلاح نہیں ہوگی اور نفس پاکیزگی حاصل نہیں کرے گا اس وقت تک نہ تو دنیا کا عیش و آرام، مال و دولت اور اولاد باعثِ فرحت و راحت بن سکے گی اور نہ ہی دل میں اطمینان اور طبیعت میں سکون پیدا ہو سکے گا۔ کیونکہ راحتِ قلب اللہ تعالیٰ کی معرفت سے ہے، معرفت قلب کی یکسوئی سے ممکن ہے اور اگر قلب میں ہی کینہ، شکوک و شبہات اور دیگر نفسانی امراض قلعہ بند رہیں گے تو یہ معرفتِ حق اور راحت و اطمینان سے کیسے ہمکنار ہو گا؟

جیسے کھانا بدن کی غذا ہے اور اگر یہ نہ ملے تو بدن ضعیف اور لاغر ہو جاتا ہے ایسے ہی معرفتِ حق تعالیٰ روح کی زندگی ہے لیکن روح کی بالیدگی کے لیے قلب کا نفسانی ناسور سے پاک ہونا ضروری ہے جو کہ روح کو مردہ اور قلب کو زنگ آلود کر کے چشمِ بصیرت کو اندھا کر دیتے ہیں۔ ارشاد ِربّانی ہے:
وَ مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیْلًا۔ (سورۃا بنی اسرائیل۔ 72)
ترجمہ: اور جو شخص اس (دنیا) میں (حق سے) اندھا رہا سو وہ آخرت میں بھی اندھا اور راہِ (نجات) سے بھٹکا رہے گا۔ 

سیدّنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں:
اللہ پاک نے مجھ سے فرمایا’’اے غوث الاعظمؓ! انسان میرا راز ہے اور میں انسان کا راز ہوں۔‘‘
پھر فرمایا ’’اے غوث الاعظمؓ! انسان کا جسم،اس کا نفس، اس کا دل، اس کی روح،اس کے کان، اس کی آنکھیں،اس کے ہاتھ، اس کے پاؤں اور اس کی زبان ہر ایک چیز کو میں نے اپنی ذات سے اپنے لیے ظاہر کیا ہے۔ وہ نہیں ہے مگر میں ہی ہوں اور میں اس کا غیر نہیں ہوں۔‘‘ (الرسالۃ الغوثیہ) 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَ نَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ گ ج وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (سورۃ قٓ ۔ 16)
ترجمہ: اور بیشک ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم اُن وسوسوں کو (بھی) جانتے ہیں جو اس کا نفس (اس کے دل و دماغ میں) ڈالتا ہے۔ اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔

پھر فرمایا:
فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ (سورۃالحجر۔ 29)
ترجمہ: پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لا چکوں اور اس پیکر ِ (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس کے لئے سجدہ میں گر پڑنا۔ 

جب اللہ پاک اپنی آخری کتاب قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر انسان کو بتا رہا ہے کہ وہ عظیم الشان ذات انسان کے اندر موجود ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ انسان اللہ کا قرب و دیدار نہیں پا رہا؟ اس کے لیے کوشش ہی نہیں کرتا؟معاذاللہ!کیااللہ پاک کی ذات انسان کے لیے اتنی غیر اہم ہو گئی ہے کہ انسان اللہ کو صرف اس لیے یاد کرے کہ وہ اِس عارضی زندگی(جو کہ اصل میں امتحان گاہ ہے)اوراسکی آسائشوں کی تکمیل کرے اور دنیا کے لیے کی جانے والی دعائیں قبول ہو جائیں یا صرف جنت کی لالچ اور دوزخ کے خوف سے ہی اللہ تعالیٰ کو یاد کیا جائے؟؟؟

 انسان کو اپنے اندر لازمی غور کرنا چاہیے کہ ہمیں صرف اللہ کی رضا کے لیے ہی اللہ کی عبادت کرنی چاہیے،اللہ کے لیے ہی ہر محبت اور ہر عمل کرنا چاہیے پھر ہی اصل کامیابی ہے۔ لیکن انسان کی باطنی اور ظاہری سوچ و عمل کی درستی کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ انسان خود کو باطنی اور روحانی بیماریوں جیسا کہ تکبر،حسد، کینہ،بغض، جھوٹ، چوری وغیرہ سے محفوظ رکھنے کے لیے مرشد کامل اکمل تلاش کرے اور اسکی صحبت اختیار کرے۔ قرآنِ مجید میں بھی مرشد کامل اکمل کی تلاش کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ (سورۃ المائدہ۔ 35)
ترجمہ: اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو اوراس (کے حضور)تک  (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ پکڑو۔ 

پھر فرمایا: فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ  (سورۃ الانبیائ۔ 7)
ترجمہ: پس اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تم (خود)نہیں جانتے۔

پس انسان کے لیے لازم ہے کہ تزکیۂ نفس کے حصول کے لیے اہلِ ذکر مرشد کامل اکمل کی تلاش کرے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی۔  (سورۃ النجم۔ 39)
ترجمہ: انسان کو وہی کچھ ملے گاہے جس کی اس نے کوشش کی ہوگی۔

مسلمانوں کی زبوں حالی کی اصل وجہ ہی اولیا اللہ سے دور ہونا اور قلب و روح کا نفسانی بیماریوں میں مبتلا ہو نا ہے۔ اسلام علمِ ظاہر و باطن کا مجموعہ ہے کسی بھی ایک کو ترک کر کے نہ تو باطن کی اصلاح ہو سکتی ہے اور نہ ہی ایمانِ کامل پایا جا سکتا ہے۔ تحریک دعوتِ فقر آپ کو عصرِحاضر کے صاحبِ مسمیّٰ مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں حاضر ہو کر تزکیۂ نفس اور راحتِ قلب کے حصول کی دعوت دیتی ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ نَفْسِ وَّ مَا سَوّٰھَا۔ فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰھَا۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکَّھَا۔ وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا۔  (سورۃ الشمس۔ 7-10)
ترجمہ: اور انسانی جان کی قَسم اور اسے ہمہ پہلو توازن و درستی دینے والے کی قَسم! پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دی۔ بیشک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشو و نما کی)۔ اور بیشک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا (اور نیکی کو دبا دیا)۔ 

استفادہ کتب:
۱۔ تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین: ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنزرجسٹرڈ
۲۔ احیا العلوم : تصنیفِ لطیف امام غزالیؒ
۳۔ عوارف المعارف: تصنیفِ لطیف امام شہاب الدین سہروردیؒ

 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں