دعوت اِلی اللہ اور سلطان العاشقین Dawat ilallah aur Sultan-ul-Ashiqeen


4.6/5 - (43 votes)

دعوت اِلی اللہ  اور سلطان العاشقین
 Dawat ilallah aur  Sultan-ul-Ashiqeen

تحریر: محترمہ نورین سروری قادری

’’دعوت اِلی اللہ اور سلطان العاشقین‘‘         بلاگ آڈیو میں سسنے کے لیے اس ⇐  لنک  ⇒ پر کلک کریں

دعوت کے معانی پکارنا اور بلانا کے ہیں۔ ’لسان العرب‘ میں ہے :
دعوت عربی زبان کا لفظ ہے جو  دَعَوَ سے مشتق ہے۔اس کے لغوی معنی پکارنااور بلانا کے ہیں۔لٰہذا دعوت اِلی اللہ کا مطلب ہے اللہ کی طرف بلانا۔ دعوت ایک ایسا عمل ہے کہ اللہ پاک نے اس کی نسبت اپنی طرف کرتے ہوئے فرمایا ہے:

وَ ادْعُ اِلٰی رَبِّکَ (سورۃ القصص۔87)
ترجمہ: اور تم (لوگوں کو) اپنے ربّ کی طرف بلاتے رہو۔

یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے دین کی دعوت پورے زور و شور سے دیتے رہو جس میں کوئی کمی یا کوتاہی نہ ہو جیسا کہ ایک اور جگہ ارشادفرمایا:
قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ قف عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ ط وَ سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ  (سورۃ یوسف۔108)

ترجمہ: (اے حبیب ِ مکرمؐ!) فرما دیجئے: یہی میری راہ ہے ، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں پوری بصیرت پر(قائم)ہوں، میں(بھی) اور وہ بھی جس نے میری اتباع کی اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔
دعوتِ اِلی اللہ کا تصور توحیدِخالص کا تصورہے۔یہ ایک خداکی عبادت و اطاعت کا تصور ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ وَ لَآ اُشْرِکَ بِہٖ ط اِلَیْہِ اَدْعُوْا وَ اِلَیْہِ مَاٰبِ۔   (سورۃ الرعد۔ 36)
ترجمہ: کہہ دو کہ بس مجھے تو یہی حکم دیا گیاہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ(کسی کو) شریک نہ ٹھہراؤں۔میں اسی کی طرف بلاتا ہوں اور اسی کی طرف مجھے لوٹ کر جانا ہے۔ 

اللہ پاک نے رسولوں کی بعثت جس مقصد کے لیے کی اس کے لیے قرآنِ پاک میں ’’دعوتِ الی اللہ‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ دعوت اِلی اللہ درحقیقت انسانوں کو خیرخواہی اور فلاح کی دعوت دینا ہے۔ یہ ذاتی یا خاندانی مفاد اور نام و نمود جیسے جذبات سے پاک ہوتی ہے۔دعوت اِلی اللہ مخلوق کو خالق کی عبادت و اطاعت کی دعوت ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ (سورۃ حمٰٓ السجدہ۔ 33)
ترجمہ: اوراس شخص سے زیادہ خوش گفتارکون ہو سکتاہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں (اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے)فرمانبرداروں میں سے ہوں۔

دعوت کی اقسام

دعوت کی دو اقسام ہیں:

دعوتِ عامہ:

دعوتِ عامہ ایک ایسا عمل ہے جسے ہر مسلمان مرد اور عورت بطور داعی ہمہ وقت سرانجام دے سکتا ہے۔

دعوتِ خاصہ:

داعیانِ حق کی ایک ایسی جماعت تیار کی جائے جو دعوتِ دین اور معرفتِ الٰہی کا فریضہ سرانجام دے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (سورۃآل عمران۔104)
ترجمہ: اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کونیکی کی طرف بلائیں اور (اللہ کی)معرفت کی دعوت دیںاور اس (معرفتِ الٰہی)سے منع کرنے والوں کو روکیں اوروہی لوگ بامراد ہیں۔ 

ارکانِ دعوت

دعوت کے چار ارکان ہیں:

1۔ موضوع دعوت
2۔ داعی/داعیہ
3۔ مدعو
4۔ وسائلِ دعوت

موضوع دعوت:

موضوع دعوت سے مراد وہ مقصد و مدعا ہے جس کی طرف دعوت دی جا رہی ہے۔جب تک موضوعِ دعوت کا علم نہ ہو دعوت کا عمل شروع نہیں ہوتا۔

داعی/داعیہ:

وہ فرد داعی/داعیہ کہلاتاہے جو کسی بھی دوسرے فرد کو دینِ حق، عبادت اور اعمالِ صالحہ کی ادائیگی اور بھلائی کے امور کی دعوت دیتا ہے۔

مدعو:

وہ شخص جسے کسی کام کی طرف دعوت دی جائے، مدعو کہلاتاہے۔ دعوت و تبلیغ مدعو کے بغیر ممکن نہیں۔

وسائلِ دعوت:

حالات و واقعات کے مطابق داعی ایسے تمام وسائلِ دعوت استعمال میں لا سکتا ہے جن سے مدعو دعوت کو قبول کر لے۔(دعوت و تبلیغ میں خواتین کا کردار)

دعوتِ اِلی اللہ ایک اہم دینی ذمہ داری کے ساتھ نہایت صالح قول و عمل اور تقربِ الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے۔یہی انبیا ورسل کا مقصدِ بعثت اور فریضۂ منصبی رہا ہے۔اس مشن کی اہمیت اور تقدس کے لیے یہی کافی ہے کہ انبیا و رسل اور ان کے وارثین و متبعین کو دعوت کا مشن دیا گیا ہے انہیں اس کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اللہ پاک نے متعدد آیات میں دعوت کا لفظ خود اپنی ذات کے لیے استعمال فرمایا ہے چنانچہ اللہ پاک سب سے پہلے خود ہی جنت و مغفرت کا داعی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اُولٰٓئِکَ یَدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ گ ج وَاللّٰہُ یَدْعُوْٓا اِلَی الْجَنَّۃِ وَ الْمَغْفِرَۃِ   (سورۃالبقرہ۔221)
ترجمہ: وہ (کافر اور مشرک) جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے۔ 

وَاللّٰہُ یَدْعُوْٓا اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ (سورۃ یونس۔ 25)
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ سلامتی والے گھر (جنت)کی طرف تم کو بلاتا ہے۔ 

جن و اِنس کی عقل کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ بذاتِ خود عبادات اور احکامات کی تفصیلات کو معلوم کر سکیں لہٰذا اللہ پاک نے انبیا و رسل کے سلسلہ کا آغاز فرمایا اور کتابیں نازل کیں تاکہ وہ لوگوں پر اس امر کو بیان کر سکیں اور اس کی توضیح و تفصیل سمجھائیں جو کائنات کی تخلیق کا باعث ہے تاکہ وہ صاحبِ بصیرت ہو کر اللہ پاک کی عبادت کر سکیں اور ان امور سے باز رہیں جن سے انہیں روکا گیا ہے۔انبیا و رسل انسانی مخلوق کے ہادی ،آئمہ ہدایت اور جن و انس کو اللہ کی اطاعت کی دعوت دینے والے ہیں جنہوں نے صراطِ مستقیم کی وضاحت فرمائی تاکہ کل روزِ حساب کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں کیا معلوم کہ اللہ نے ہم سے کیا مطالبہ کیا تھا۔ لٰہذا اللہ پاک نے انبیا و رسل بھیج کر ان کا عذر ختم کر دیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد یہ بارِ امانت صحابہ کرامؓ ، تابعین اور تبع تابعین نے اٹھایا، جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی راہ پر چلے اور جو حق کے داعی اور اللہ کی راہ کے مجاہد تھے۔جو غازی و مجاہدین ، ہدایت یافتہ داعیانِ اِلی اللہ اور صالحین و مصلحین بن کر چار دانگِ عالم منتشر ہو گئے۔اللہ پاک کے دین کو پھیلاتے اور شریعتِ الٰہیہ کی تعلیم دیتے گئے۔دینِ حق کو پھیلانے کا یہ سلسلہ مختلف ادوار سے گزرتے گزرتے سلسلہ سروری قادری تک پہنچا۔

سلطان العاشقین بطور داعی

سلسلہ سروری قادری حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے شروع ہو کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ذریعہ اُمتِ محمدیہ کو منتقل ہوا اور اُن سے خواجہ حسن بصریؓ کے ذریعہ سلسلہ در سلسلہ سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ اور پھر سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ سے ہوتا ہواسلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس تک پہنچا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے باطنی جانشین، نائب اور دعوتِ اِلی اللہ کے امانت دار ہیں اور دورِ حاضر میں یہ فریضۂ حق آپ مدظلہ الاقدس بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی دعوت کا موضوع ’’فقرِمحمدیؐ ‘‘ ہے،وہ فقر جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حقیقی ورثہ ہے۔ فقر دینِ حق ہے۔ فقر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فخرہے اور مومنین کے لیے روحانی و باطنی قوتوں کا منبع ہے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیماتِ فقر کو ساری دنیا میں پھیلانے کے لیے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس دن رات کوشاں ہیں۔

اسلوبِ دعوت:

موثردعوت و تبلیغ میں تین اسلوب بڑا فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکَمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ   (سورۃالنحل۔125)
ترجمہ: (اے رسولِ معظمؐ!) آپ اپنے ربّ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجیے جو نہایت حسین ہو۔
مذکورہ بالاآیتِ مبارکہ میں دعوت کے درج ذیل تین اسلوب حکمت، موعظتِ حسنہ اور جدالِ احسن بیان کیے گئے ہیں۔

حکمت:

حکمت و بصیرت دعوت و تبلیغ کا پہلا تقاضا ہے۔سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا دامن حکمت و بصیرت کے موتیوں سے مالا مال ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس لوگوں کو دینِ حق کی طرف حکمت کے ساتھ دعوت دیتے ہیں۔ ہر مدعو کی اپنی اپنی طبیعت، ذہنی سطح، مزاج، ذوق، ظرف اور اپنا پسِ منظر ہوتا ہے۔ لٰہذا آپ مدظلہ الاقدس ہر شخص کی ضرورت، ذہنی سطح، ذوق اور ظرف کا انتہائی خیال رکھتے ہیں جیسا کہ آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں مختلف لوگوں نے مختلف مواقع پر ایک ہی سوال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان سب کو حکمت کے تحت ایک ہی سوال کا جواب جدا جدا عنایت فرمایا۔

موعظتِ حسنہ:

اسلوبِ دعوت کا دوسرا تقاضا موعظتِ حسنہ یعنی اچھی نصیحت ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا اندازِ تخاطب شیریں، اُنس اور ہمدردی سے لبریز ہے کہ بات مدعو کے دل میں اُتر جاتی ہے۔مدعو آپ مدظلہ الاقدس کو اپنا مونس و غم خوار ہمدرد مانتے ہوئے آپ مدظلہ الاقدس کی طرف متوجہ ہو جاتاہے۔اسی کا نام موعظتِ حسنہ ہے اور اس امر کا تعلق بھی حکمت سے ہے۔یعنی مدعو کے مطابق کسی کو بطریقِ عقل اور کسی کو بطریقِ قلب بات سمجھانی پڑتی ہے۔

جدالِ احسن:

دعوت و تبلیغ کا تیسرا تقاضا جدالِ احسن ہے جو درحقیقت حکمت کا ہی شاخسانہ ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کے ہر ہر انداز سے حسن جھلکتا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنی رفعتِ ذہنی، کشادہ ظرفی اور بردباری کا اظہار فرماتے ہوئے مخالفین کی ذہنی سطح کے مطابق نہیں بلکہ اپنے اعلیٰ مقام و منصب کے لحاظ سے ذہنی و فکری سطح پر قائم رہتے ہوئے ان سے معاملہ فرماتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس اخلاقِ حسنہ کا پیکر ہیں آپ عبادات، معاملات اور اخلاقیات میں داعی اور سراپا صالحیت ہیں۔

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے اوصافِ حمیدہ

سراپا تقویٰ:

میرے مرشد کریم سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس سراپا تقویٰ ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی زندگی کا ہر لمحہ احکامِ الٰہیہ کی بجا آوری اور قولاً و فعلاً حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اقتدا میں بسر ہوتا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کا شمار صاحبانِ احسان میں ہوتا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقُوْا وَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ  (سورۃ النحل۔128)
ترجمہ: بیشک اللہ اُن لوگوں کو اپنی معیتِ(خاص) سے نوازتا ہے جو صاحبانِ تقویٰ ہوں اور وہ لوگ جو صاحبانِ احسان (بھی) ہوں۔ 

آپ مدظلہ الاقدس کا طرزِ عمل اور طرزِ دعوت نصیحت، خلوص اور اخلاص پر مبنی ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس ہمیشہ لوگوں کے ساتھ بھلائی اور اچھائی کے ساتھ پیش آتے ہیں۔آپ مدظلہ الاقدس کی طبیعت میں محبت، شفقت، نرمی، عدل اور اعتدال ہیں یعنی آپ سراپا تقویٰ اور محسن ہیں۔

شخصی وجاہت:

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی شخصی وجاہت ظاہری و باطنی صفات، نظریات، اخلاقی اقدار، افعال، احساسات اور جذبات سے منسوب ہے۔
ظاہری حسن و جمال کسی کی بھی توجہ مبذول کرسکتا ہے لیکن کردار دائمی حسن ہے جو زندہ و جاوید بناتا ہے۔ لٰہذا جو دعوتِ حق آپ مدظلہ الاقدس دوسروں کو دے رہے ہیں اس کا عکس آ پ مدظلہ الاقدس کے کردار میں واضح نظر آتا ہے۔

صداقت:

راست گوئی اور صداقت داعی کے لیے لازمی صفات ہیں جو کہ آپ مدظلہ الاقدس کی سیرت و کردار میں واضح نظر آتی ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس ہمیشہ سچ بولنے، جھوٹ سے پرہیزاور نیکی کی راہ اختیار کرنے کا درس دیتے ہیں۔

صبر و استقامت:

دین کی دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں پیش آنے والے مصائب و آلام، تنگی و ترشی اور ناسازگار حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کرتے ہوئے آپ مدظلہ الاقدس نے اپنی توجہ ہمیشہ دینِ حق کو پھیلانے کی طرف مبذول رکھی۔ آپ مدظلہ الاقدس نے ہمیشہ اللہ پاک کے اس فرمان مبارک کو پیشِ نظر رکھا:
وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْھِمْ وَلَا تَکُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَ  (سورۃ النحل۔127)
ترجمہ: اور (اے حبیبِ مکّرمؐ) صبر کیجیے اور آپ کا صبر کرنا اللہ ہی کے ساتھ ہے اور آپ ان (کی سرکشی) پر رنجیدہ خاطر نہ ہوا کریں اور آپ ان کی فریب کاریوں سے (اپنے کشادہ سینہ میں) تنگی (بھی)محسوس نہ کیا کریں۔ 

آپ مدظلہ الاقدس مکمل طور پر استقامت کے ساتھ صبر کامظاہرہ کرتے ہوئے وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْھِمْ  کی عملی تفسیر بنتے ہوئے اپنے مخالفین کی چالوں، سازشوں اور دھوکہ دہی پر مایوس اور غمزدہ نہ ہوئے بلکہ ان تمام مشکلات پر وسیع النظر، وسیع القلب اور وسیع العزم ہیں اور صبر و استقامت کے ساتھ دین کو پھیلانے میں دن رات مصروفِ عمل ہیں۔

دینی عصبیت و حمیت:

ضرورتِ دین کی خاطر آپ مدظلہ الاقدس نے جان تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا کیونکہ جب تک ایک داعی کے اندر اپنے دین کے لیے عصبیت و حمیت نہ پائی جائے وہ کامیاب داعی نہیں بن سکتا۔
آپ مدظلہ الاقدس مضبوط قوتِ ارادی کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ تواضع و انکساری کی صفت سے بھی مزین ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی تعلیم ’’اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس‘‘ ، آپ کی تلقین ’’فَفِرُّوْٓا اِلَی اللّٰہ‘‘،آپ مدظلہ الاقدس کا عمل ’’صرف اللہ کے لیے‘‘، آپ مدظلہ الاقدس کا وصف ’’ تقویٰ‘‘اورآپ مدظلہ الاقدس کا باطن ’’آئینہ حق‘‘ ہے۔
اَمر حق کی تعلیم دینے اور اَمر باطل سے روکنے والا داعی ہر حال میں کامیاب و کامران ہوتا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (سورۃآل عمران۔104)
ترجمہ: اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کونیکی کی طرف بلائیں اور (اللہ کی)معرفت کی دعوت دیںاور اس (معرفتِ الٰہی)سے منع کرنے والوں کو روکیں اوروہی لوگ بامراد ہیں۔ 

مذکورہ بالا آیتِ کریمہ کو مد نظر رکھتے ہوئے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے ’’ تحریک دعوتِ فقر‘‘ کے نام سے ایک دینی جماعت تیار کی جس کا مقصد لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دینا اور برائی سے بچاتے ہوئے صراطِ مستقیم پر چلانا ہے۔
اس پرُفتن دور میں تحریک دعوتِ فقر ہی ہدایت کی راہ پر رہنمائی کرنے والی واحد کرن ہے۔اس جماعت کا مقصد معرفتِ الٰہی کے فریضہ کی ادائیگی ہے۔ یہ جماعت ایک باقاعدہ اور مربوط نظام کے تحت کمالِ حکمت و تدبر کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے تاکہ دعوت و تبلیغ کا کام پوری دنیا میں پھیلے اور اسلام کی روح سے آشنائی ہو۔

تعمیر مسجدِ زہراؓ :

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں ہی مساجد کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مساجد میں دعوتِ و تبلیغ کا طریقہ جاری فرمایا۔آپ مدظلہ الاقدس نے بھی آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے دین اسلام کی اشاعت و ترویج کے لیے فقر کا مرکز ’’مسجدِ زہراؓ‘‘ قائم فرمائی تاکہ دعوت و تبلیغ کا فریضہ خوش اسلوبی سے ادا کیا جا سکے۔

 خانقاہ سلطان العاشقین کا قیام:

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اشاعتِ اسلام کے لیے مذہبی اجتماعات کو بھی دعوت کا ذریعہ بنایاتاکہ ایک ہی وقت میں بہت سے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچایا جا سکے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے دینِ حق کو پھیلانے کے لیے خانقاہ سلطان العاشقین تعمیر فرمائی جہاں ہر اتوار بزمِ سلطان العاشقین کا انعقاد کیا جاتا ہے اور مختلف روحانی محافل شرعی اصولوں کے عین مطابق منعقد کی جاتی ہیں۔ ان محافل کا مقصد لوگوں کو فقر، راہِ فقر اور تعلیماتِ فقر کے بارے میں قرآن و حدیث، اہلِ بیتؓ، اصحابِؓ کبار اور فقرا کاملین کی تعلیمات کی روشنی میں آگاہ کرنا ہے۔ان روحانی محافل میں طالبانِ مولیٰ صحبتِ مرشد اور نگاہِ مرشد سے فیض یاب ہوتے ہیں۔

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس عوام الناس کو ظلمتِ کفر سے نکال کر نورِ ہدایت کی طرف لاتے ہیں۔ جاہل کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کرنورِ علم سے روشناس کراتے ہیں۔ گناہوں سے لت پت لوگوں کو گناہ کے اندھیروں سے نکال کر نورِ اطاعت و اتباع کا عادی بناتے ہیں۔یہی دعوت کا مطلوب و مقصود ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس لوگوں کو ظلمات اور تاریکیوں سے نکال کر نور اور روشنی کی طرف لاتے اور حق کی طرف راہنمائی فرماتے ہیں تاکہ وہ اسے اختیار کر کے عذابِ جہنم اور غضبِ الٰہی سے بچ سکیں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمنُوْا لا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُّمٰتِ اِلَی النُّوْرِ   (سورۃ البقرہ۔ 257)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا کارساز ہے، وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے۔ 

انبیا و رسل کو اس لیے مبعوث فرمایاگیا تاکہ وہ لوگوں کو کفر و جہالت کی ظلمات سے نکال کر ایمان کے نور میں لے آئیں۔ آپ مدظلہ الاقدس بھی اسی طرح دعوت و تبلیغ کرتے ہیں اور اس نیک کام میں بڑی جانفشانی کا مظاہرہ فرماتے ہیں تاکہ وہ لوگوں کو جہالت و لاعلمی کی گھنگور گھٹاؤں سے نکال کر نور و ضیا میں لاکھڑا کریں۔ انہیں شیطان کی اطاعت اور نارِ جہنم سے بچائیں، نفسانی حرص و ہوا کی پرستش سے نکال کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت و عبادت کا پابند بنا دیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمارے قلوب اور اعمال کی اصلاح فرمائے اور ہم سب کو اپنے دین کی صحیح سمجھ اور اس پر ثابت قدمی عطا فرمائے۔آمین

استفادہ کتب:
۱۔ سلطان العاشقین: ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
۲۔ دعوت و تبلیغ میں خواتین کا کردار: مصنف ڈاکٹر طاہر القادری 

 

26 تبصرے “دعوت اِلی اللہ اور سلطان العاشقین Dawat ilallah aur Sultan-ul-Ashiqeen

  1. وَ ادْعُ اِلٰی رَبِّکَ (سورۃ القصص۔87)
    ترجمہ: اور تم (لوگوں کو) اپنے ربّ کی طرف بلاتے رہو۔

  2. اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمارے قلوب اور اعمال کی اصلاح فرمائے اور ہم سب کو اپنے دین کی صحیح سمجھ اور اس پر ثابت قدمی عطا فرمائے۔آمین

  3. دعوت اِلی اللہ درحقیقت انسانوں کو خیرخواہی اور فلاح کی دعوت دینا ہے

  4. بہت اچھا مضمون ہے۔ نہایت بہترین انداز میں لکھا گیا ہے۔

  5. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا دامن حکمت و بصیرت کے موتیوں سے مالا مال ہے۔

  6. اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمارے قلوب اور اعمال کی اصلاح فرمائے اور ہم سب کو اپنے دین کی صحیح سمجھ اور اس پر ثابت قدمی عطا فرمائے۔آمین

  7. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس عوام الناس کو ظلمتِ کفر سے نکال کر نورِ ہدایت کی طرف لاتے ہیں۔ جاہل کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کرنورِ علم سے روشناس کراتے ہیں۔

  8. میرے مرشد کریم سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس سراپا تقویٰ ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی زندگی کا ہر لمحہ احکامِ الٰہیہ کی بجا آوری اور قولاً و فعلاً حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اقتدا میں بسر ہوتا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کا شمار صاحبانِ احسان میں ہوتا ہے

  9. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس عوام الناس کو ظلمتِ کفر سے نکال کر نورِ ہدایت کی طرف لاتے ہیں۔ جاہل کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کرنورِ علم سے روشناس کراتے ہیں۔ گناہوں سے لت پت لوگوں کو گناہ کے اندھیروں سے نکال کر نورِ اطاعت و اتباع کا عادی بناتے ہیں۔یہی دعوت کا مطلوب و مقصود ہے۔

  10. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا تحریک دعوتِ فقر کا پیغام عوام الناس تک پہنچا رہے ہیں

  11. دعوت الی اللہ انبیا کرام کا پیشہ ہے اورسلطان العاشقین نے انبیا کرام کی سنت کو زندہ رکھا اور دنیا بھر میں مععرفت الٰہی کا فیض عام فرمایا

  12. سلطان العاشقین مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ ہیں۔ اللہ پاک کا شکر ہے کہ ان سے منسلک کیا۔

  13. امر بالمعروف ونہی عن المنکر دراصل دعوت الی اللہ ہی کی صورتیں ہیں جنہیں اس مضمون میں بطریق احسن بیان کیا گیا ہے۔

  14. وَاللّٰہُ یَدْعُوْٓا اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ (سورۃ یونس۔ 25)
    ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ سلامتی والے گھر (جنت)کی طرف تم کو بلاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں