شان غوث الاعظمؓ بزبان باھو– Shan-e-Ghous-ul-Azam Bazaban-e-Bahoo


Rate this post

شان غوث الاعظمؓ بزبان باھوؒ

تحریر: ڈاکٹر عبدالحسیب سرفراز سروری قادری۔ ساہیوال

اللہ سبحا نہٗ تعالیٰ نے بنی نو ع انسا ن کی رشد و ہد ایت کے لئے ہر دور میں انبیا و رسو ل بھیجے لیکن آقائے دو جہا ں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد نبو ت کا سلسلہ ختم ہو چکا ۔ سو یہ ذمہ دار ی اللہ پا ک نے اپنے فقر ا کاملین کے سپر د فر ما ئی جس طرح تما م رسو لو ں اور انبیا کر ام میں سب سے بلند مر تبہ اور مقا م ہمارے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلا م کا ہے بالکل اسی طرح تمام اولیا کرام میں سب سے اعلیٰ و ارفع مرتبہ سلطان الفقر، سیّد الکونین ، نورِمطلق، قطبِ ربا نی، محبوبِ سبحانی، شہبازِ لامکا نی غو ث الاعظم سیّدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلا نیؓ کا ہے۔
آپؓ کا وجود مبا رک شر یعت ، طریقت ، حقیقت اور معر فت کا مرکب ہے بالکل اسی طرح جس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلا م کی ذات مبا رک ہے ۔ آپؓ حسنی حسینی سیّد ہیں۔ آپؓ کا شجر ہ نسب گیارہویں پشت میں بابِ فقر سیّدنا علی المرتضیٰ کر م اللہ وجہہ اور بارہویں پشت میں حضو ر علیہ الصلوٰۃو السلام سے جاملتا ہے ۔ جبکہ شجر ہ فقر چودہ واسطوں سے سیّدنا علی المرتضیٰ اور پند رہ واسطو ں سے مولائے کائنات اور فقر کے سر دار آقا ئے دو جہا ن صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے جا ملتا ہے ۔
آپؓ کا قدم مبارک تمام اولیا کی گردن پر ہے۔ سیّدنا غو ث الا عظمؓ کے مر شد کر یم حضرت شیخ ابو سعید مبا رک ؒ آپؓ کی شا ن اور آپ کے فر ما ن قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللّٰہ (یعنی میرا یہ قد م ہر ولی اللہ کی گر دن پر ہے ) کے بارے پیش گو ئی کرتے ہوئے فرمایا کرتے :

’’اس جو ان کے قد م ایک دن تما م اولیا اللہ کی گر د ن پر ہو ں گے اور اس کے زما نے کے تما م اولیا اس کے آگے انکسا ری کر یں گے ‘‘۔
شیخ شہا ب الدین سہر وردی ؒ فر ما تے ہیں :
’’ میں نے اپنے چچا سے پو چھا کہ اے چچا! آپ شیخ عبدالقا در جیلانیؓ کا اس قد ر کیو ں ادب کر تے ہیں؟فر ما یا ’’میں ان کا ادب کیو ں نہ کر وں جبکہ اللہ نے ان کو تصرفِ کا مل عطا فر ما یا ہے ۔ عالمِ ملکوت پر بھی ان کو فخر حاصل ہے میرا کیا تما م اولیا اللہ کے احوالِ ظا ہر و باطن پر ان کو تصرف دیا گیا ہے جس کو چا ہے رو ک لیں جس کو چاہیں چھوڑ دیں‘‘۔
آپؓؓ کی جلیل القدر اور اعلیٰ وارفع ذاتِ با برکت کی شا ن و عظمت بیان کر نے کیلئے کئی دفاتر درکار ہیں۔ آپؓ کی ذات مبارکہ کسی تعریف و توصیف کی محتا ج نہیں۔ آپؓ کی شا ن ستا روں سے بھی بلند ہے۔ کو ئی بھی ولی چاہے وہ روحانیت اور فقر کے کسی بھی مقام و مرتبہ پر فائز ہو اسے ولا یت آپؓ کے در سے ہی عطا ہو تی ہے۔ ہر ولی آپؓ کے مقا م و مر تبہ اور درجہ سے بخوبی واقف ہے اس لیے ہر ولی نے اپنے اپنے علم، مقا م اور رتبہ کی بنا پر آپؓ کو خراجِ عقید ت پیش کیا اور آپؓ کی شا ن کو بیا ن کیا :
اما م المحدثین شیخ عبدالحق محدث دہلو ی فر ما تے ہیں :
غوث الاعظمؓ دلیل راہ یقین
بالیقین رہبر اکابر دین
تر جمہ : غوث الا عظمؓ راہ یقین کی دلیل ہیں ۔ آپؓ بلا شبہ اکا برِ دین کے رہبر و راہنما ہیں ۔
اوست در جملہ اولیا ممتاز
چوں پیمبرؐ در انبیا ممتاز
ترجمہ: آپؓ تما م اولیا اللہ میں اس طرح منفر د ہیں جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تما م انبیا میں ممتا ز اور نما یا ں ہیں ۔
حضرت سلطا ن باھو ؒ کی تصانیف میں جا بجا سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقا در جیلا نیؓ کے لئے بے پناہ عشق و محبت اور عقیدت کا اظہار کیا گیا ہے۔ آپ ؒ حضرت عبدالقادر جیلا نی کو شیخِ ما (یعنی میر ے مر شد ) فر ما تے ہیں۔ آپؓ سلطا ن الفقر سو م کے مر تبہ پر فا ئز ہیں۔ سلطا ن الفقر کی عظمت وشان اور تخلیق کے بارے میں حضرت سلطا ن باھو ؒ اپنی تصنیف رسالہ روحی شریف میں فر ماتے ہیں:
تر جمہ : جا ن لے کہ جب نورِ احدی نے وحد ت کے گو شۂ تنہا ئی سے نکل کر کائنات (کثرت)میں ظہور کا ارادہ فرمایا تو اپنے حسن کی تجلی کی گرم بازاری سے(تما م عالمو ں کو) رونق بخشی، اس کے حسنِ بے مثا ل اور شمع ءِ جما ل پر دونو ں جہا ن پروانہ وارجل اٹھے اور میم احمد ی کا نقاب اوڑھ کر صورتِ احمدی اختیار کی، پھر جذبا ت اور ارادات کی کثرت سے سات بار جنبش فرمائی جس سے سات ارواحِ فقر ا با صفا فنا فی اللہ بقا باللہ تصورِ ذات میں محو، تما م مغز بے پوست حضرت آدم ؑ کی پیدائش سے ستر ہزارسال پہلے، اللہ تعالیٰ کے جمال کے سمندر میں غرق آئینہ یقین کے شجر پر رونما ہوئیں۔ انہو ں نے ازل سے ابد تک ذاتِ حق کے سوا کسی چیز کی طرف نہ دیکھا اور نہ غیر حق کو کبھی سنا ۔ وہ حر یمِ کبریا میں ہمیشہ وصال کا ایسا سمندر بن کر رہیں جسے کو ئی زوال نہیں ، کبھی نوری جسم کے ساتھ تقد یس و تنز یہہ میں کو شا ں رہیں اور کبھی قطرہ سمندر میں اور کبھی سمندر قطرہ میں اور اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ  کے فیض کی چادر ان پر ہے ۔ پس انہیں ابدی زندگی حا صل ہے اور وہ اَلْفَقْرُ لَایُحْتَاجُ اِلٰی رَبِّہٖ وَلَا اِلٰی غَیْرِہٖ کی جا ودانی عزت کے تا ج سے معزز ومکرم ہیں۔ انہیں حضرت آدم ؑ کی پیدا ئش اور قیامِ قیا مت کی کچھ خبر نہیں۔ ان کا قد م تما م اولیا اللہ، غو ث و قطب کے سر پر ہے ۔ اگر انہیں خدا کہا جائے تو بجا ہے اور اگر بندۂ خدا سمجھا جائے تو بھی روا ہے ۔ اس راز کو جس نے جا نا اس نے پہچا نا ان کا مقا م حر یمِ ذاتِ کبریا ہے۔ انہو ں نے اللہ تعالیٰ سے سوائے اللہ تعالیٰ کے کچھ نہ مانگا ، حقیر دنیا اور آخرت کی نعمتو ں ، حور و قصو ر اور بہشت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا اور جس ایک تجلی سے حضرت مو سی ؑ سراسیمہ ہو گئے اور کوہِ طور پھٹ گیا تھا، ہر لمحہ ، ہر پل جذباتِ انوارِ ذات کی ویسی تجلیات ستر ہزار بار ان پر وارد ہو تی ہیں لیکن وہ نہ دم مارتے ہیں اور نہ آہیں بھرتے ہیں بلکہ مزید تجلیات کا تقاضا کرتے ہیں اور وہ سلطان الفقر (فقر کے بادشاہ )اور دونوں جہانوں کے سردار ہیں۔ (رسا لہ روحی شریف )

اگرچہ سیّدنا غوث الاعظم کی شان اور بلند مر تبہ کو الفاظ کے احاطہ میں لانا کسی ذی روح کے بس میں نہیں لیکن سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ نے رسالہ روحی شریف کی مندرجہ بالا عبارت میں سلطان الفقر اور سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کی عظیم المرتبت ہستی کو سمجھنے میں آسا نی پیدا کر دی ہے۔ سلطان الفقر ارواح وہ ہیں جن کی تخلیق براہِ راست آقائے دوجہا ن حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نور سے ہو ئی اور نورِ حقیقت یعنی حقیقتِ محمدیہ ان ارواح یعنی سلطان الفقر میں بد رجہ اُتم اور کامل طور پر بالکل اسی طرح ظا ہر ہوئی جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں اور یہ ارواحِ سلطا ن الفقر کبھی بھی آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جدا نہ ہوئیں۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو ؒ آپؓ کی شان شبِ معراج کے واقعہ میں بیا ن کر تے ہو ئے مزید فر ما تے ہیں :
* جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم براق پر سوار ہو کر حضرت جبرائیل ؑ کی پاپیادہ پیشوائی میں معراج کے لئے روانہ ہو ئے اور کو نین کی شش جہا ت سے نکل کر عر ش سے اوپر لا ھوت لامکان میں فنا فی اللہ ہو کر قربِ حق تعالیٰ کے مقام قابَ قوسین پرپہنچے تو وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک نہا یت حسین و جمیل نور الہدیٰ صو رتِ فقر کو دیکھا تو پو چھا کہ الٰہی یہ صورتِ فقر کون ہے جو تیری بارگاہ میں معشوق کا درجہ رکھتی ہے ؟ فرمانِ الٰہی ہو ا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم!آپ کے لئے خوشخبر ی ہے کہ یہ صورتِ فقر محی الدین شاہ عبدالقادر جیلانیؓ کی ہے جو آپ کی آل میں اور حضرت علی المرتضیٰؓ کی حسنی و حسینی اولا د ہے ۔ اس پر حضور علیہ الصلوٰ ۃنے فر مایا فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے کیونکہ مجھے شا ہ محی الدین پر فخر ہے۔ ‘‘ (نو ر الہدیٰ کلاں)
* عارف باللہ مظہرِ متبرکات قدرت سبحانی محبوبِ ربانی پیر دستگیر حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی قد س سرہُ العزیز دورانِ حیا ت ہر روز پانچ ہزار مر یدوں اور طالبوں کو اس شان سے بامراد فرماتے رہے کہ تین ہزارکو مشا ہد ۂ نورِ واحدانیت اور معر فتِ ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ میں غر ق کر کے ’’اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ‘‘(جہا ں فقر کی تکمیل ہو تی ہے وہیں اللہ ہوتاہے۔مقا م فنا فی اللہ بقا باللہ) کے مر تبے پر پہنچاتے رہے اور دو ہزار کو مجلسِ محمد ی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی حضوری سے مشرف فرما تے رہے ۔ (شمس العا رفین )

* مر شد کو ایسا صا حبِ نظر ہونا چا ہیے جیسا کہ میر ے پیر محی الد ین ہیں کہ ایک ہی نظر میں ہزار ہا ہزار طالبو ں مر ید وں میں سے بعض کو معر فت ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘میں غر ق کر دیتے ہیں اور بعض کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی دائمی حضور ی بخش دیتے ہیں۔ (شمس العارفین)
کلید التوحید کلاں میں سیّدنا غوث الاعظمؓ کی شان میں مدحت بیان کرتے ہوئے سلطا ن العا رفین فرماتے ہیں :
شفیعِ اُمت سرورؐ بود آں شاہ جیلانیؓ
تعال اللہ چہا قدرت خدایش داد ارزانی
تر جمہ : شہنشاہِ جیلان شاہ عبدالقادر جیلانیؓ اُمتِ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے شفیع ہیں۔ سبحان اللہ! ان کے ربّ نے انہیں کیسی شاندار قدرت عطاکر رکھی ہے۔
سکندر می کند دعویٰ کہ ہستم چاکر آن شاہ
افلاطون پیشِ علم تو مقر آمد بہ نادانی
ترجمہ :سکندر بھی ان کی غلامی کا دم بھرتاہے۔ اے شاہ جیلانؓ! افلاطون کو آپ کے علم کے سامنے اپنی لاعلمی کااعتراف ہے۔
حقیقت از تو روشن شد طریقت از تو گلشن شد
سپہر شرع را ماہی زہی خورشید نورانی
ترجمہ :حقیقت آپؓ سے روشن ہوئی ‘طریقت آپؓ سے گلشن بنی‘ آپ آسمانِ شریعت کے چاند اور نورانی خورشید ہیں ۔
ز باغ اصفیا سروی ز بزمِ مصطفیؐ شمع
علیؓ را قرأۃ العینی بدین محبوبِ سبحانی
ترجمہ: آپؓ باغِ صو فیا کے سرور اور بزمِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شمع ہیں‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں اور حق سبحانہٗ تعالیٰ کے محبوب ہیں۔
دلا گشتی مرید او بہ بین لطف مزید او
چہ اوصافِ حمیدہ او گہ و بیگاہ می خوانی
ترجمہ: اے دل!توان کا مرید ہو جا تا کہ تجھ پر ان کا لطف وکرم مزید بڑھے اور تو دیکھے کہ و ہ کتنے اوصافِ حمیدہ کے مالک ہیں ۔
زباں را شست شو باید بہ آبِ جنت الکوثر
و زاں پس نام محی الدینؓ بہ پاکی بر زبان رانی
ترجمہ:پہلے اپنی زبان کو آبِ کو ثر سے دھو کر پاک کرلے اور پھر محی الدین ( قدس سرہُ العزیز)کانام لے۔
بزرگ و خورد و مرد و زن مریدت شد ہمہ عالم
خطا پوشی عطا پاشی و دین بخشی جہان بانی
ترجمہ:اے شاہ جیلانؓ!جہاں بھر کے بوڑھے ‘بچے ‘عورتیں اور مرد آپؓکے مرید ہیں ‘ خطا پوشی‘ عطا پاشی دین بخشی‘ اور جہا ں بانی آپؓ کا خاص وصف ہے۔
تو شاہِ اولیا و اولیا محتاج درگاہت
مشائخ راس زد بر درگہت از فخر دربانی
ترجمہ : آپ شاہِ اولیا ہیں اور اولیا آپ کے در کے سوالی ہیں مشائخ آپ کے در پرسر جھکاتے ہیں اور آپؓ کی دربانی پر فخر کرتے ہیں۔
مطیعِ حکم تو دیوان ملائک چوں پری بندہ
شہنشاہِ شہنشاہان امامِ انس و روحانی
ترجمہ :تمام دیو وملائک وپر یاں وجن آپؓ کے زیرِ فرمان ہیں ‘آپؓ شہنشاہوں کے شہنشاہ اور انسانوں اور روحانیوں کے امام ہیں۔
چہ عبدالقادری قدرت چنان داری بیک لحظہ
برآری آشکارہ از کرم حاجاتِ پنہانی
ترجمہ : آپ عبدالقادرؓ ہیں اور ایسی قدرت کے مالک ہیں کہ کرم نوازی فرماتے ہیں تو پنہاں حاجات بھی لحظہ بھر میں پوری فرمادیتے ہیں ۔
ملاذاً دستگیری تو معاذاً دل پذیری تو
بلطفِ خود رہائی دہ ز گردابِ پریشانی
ترجمہ:آپ کی دستگیری ودل پذیری میری جائے پناہ ہے‘بر اہِ لطف وکرم مجھے گردانی سے رہائی دلادیں۔
جگر ریشم درون خستہ دل اندر لطفِ تو بستہ
تو ہم از غایت احسان دوا بخشی و درمانی
ترجمہ : میرا جگر زخمی ہے ‘اندرون خستہ حال ہے ‘ دل آپؓ کے لطف وکرم کا منتظر ہے‘ انتہائی احسان فرما کر میرا علاج فرمائیں اور دوا دیں۔
ترا چوں من ہزاراں بندہ ہا ہستند در عالم
مرا جز آستانت نیست اگر خوانی و گردانی
آپ کے مجھ جیسے ہزاروں غلام دنیا میں موجودہیں لیکن میرے لیے آپؓ کے آستانے کے سوااور کوئی جائے پناہ نہیں ‘ آپ کی مرضی ہے کہ پناہ دیں یادھتکار دیں۔
فقائے بندہ عاجز فتادہ بر سر کویت
عجب نہ بود اگر ایں ذرّہ را خورشید گردانی
ترجمہ :یہ عاجز بندہ آپ کے کو چہ میں آن گراہے عجب نہیں کہ اس ذرے کو خورشید بنا دیاجائے ۔ (کلید التوحید کلاں)
سلطان العا رفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کو جب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے باطنی طور پر بیعت فرمایا تو اس کے بعد باطنی تربیت کے لیے غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے سپرد فرمایا۔ حضر ت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ نے آپ ؒ کو باطنی طور پر مالا مال فرما دیا۔ آپ ؒ فرماتے ہیں ’’جب فقر کے شاہسوار نے مجھ پر نگاہِ کر م ڈالی تو ازل سے ابد تک کا تمام راستہ میں نے طے کرلیا‘‘۔
مزیدفرماتے ہیں :
چوں نباشد پیرِ میراںؓ زندہ دین
آں وزیرِ مصطفیؐ روح الامین
ترجمہ : پیرِ میراںؓ دین کو ز ندہ کرنے والے کیوں نہ ہوں کہ وہ روح الامین اور وزیر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں۔
شاہ عبدالقادرؓ است رہبرِ خدا
دم بدم آں جاں بجاں است مصطفیؐ
ترجمہ:شاہ عبدالقادرؓ راہبرِ خدا ہیں اس لئے ہر وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہم مجلس رہتے ہیں۔
باھوؒ از غلامانِ مریدش خاک پا
گوئے برد از غوث و قطب اولیا
ترجمہ:باھوؒ ان کے خاکِ پا مرید غلاموں میں سے ایک غلام ہے اس لیے کہ یہ دوسرے غوث و قطب اولیا سے بلند مرتبہ ہے۔(کلید التوحید کلاں)
باھوؒ شد مریدش از غلامانِ بارگاہ
فیض فضلش می دہاند از الٰہ
باھو!ؒ سگِ درگاہ میراںؓ فخر تر
غوث و قطب زیر مرکب بر
ترجمہ : با ھوؒ ان کی بارگاہ میں شامل ہوکر ان کا مرید ہوگیا ہے اس لیے طالبان مولیٰ کو بارگاہ الٰہی سے فیض و فضلِ ربی دلواتا ہے ۔ اے باھو ؒ ! درگاہِ میراںؓ کا کتا ہونا بھی بڑے فخر کی بات ہے کہ زمانے بھر کے غوث و قطب بھی حضرت میراںؓ کی سواری بننے پر فخر کرتے ہیں۔ (کلیدالتوحیدکلاں)
میر ے مرشدپاک سلطا ن العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے ’’ابیاتِ باھو کا مل‘‘ میں سلطان باھوؒ کے پنجابی ابیات کی شرح بیان فرمائی ہے۔ پنجابی ابیات میں بھی سلطا ن العارفین نے سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادرؓ سے اپنی محبت کا اظہارکیا ہے۔سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن ان ابیات کی شرح میں بیان فرماتے ہیں:
سن فریاد پیراں دیا پیرا، میں آکھ سنانواں کینوں ھُو
تیرے جیہا مینوں ہور نہ کوئی، میں جیہاں لکھ تینوں ھُو
پھول نہ کاغذ بدیاں والے، در توں دھک نہ مینوں ھُو
میں وِ چ اَیڈ گناہ نہ ہو ندے باھُو، توں بخشیندوں کینوں ھُو
مفہوم: سلطان العارفین سیّدنا غوث الاعظمؓ کی بارگاہ میں التجا کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یا پیران پیر سیّدنا غوث الاعظمؓ میری التجا ذرا غورسے سنیے آپؓ کے علاوہ اور کون ہے جس سے میں یہ عرض کروں میرے جیسے تو لاکھوں آپؓ کے در کے بھکاری ہیں لیکن آپؓ جیسا فیض رساں تو زمانے میں کوئی اور نہیں ہے۔آپؓ سے التجا ہے کہ آپؓ میرے گناہوں اور خطاوں پر توجہ نہ کریں اور نہ ہی مجھے اپنے در سے دھتکاریں میںآپؓ کا در چھوڑ کر کہاں جاؤں گا۔ اگر میرے دامن میں اتنے گناہوں کا بوجھ نہ ہوتا تو آپؓ جیسا کریم اور حلیم کیوں اور کسے بخشواتا اور کیوں خطاؤں سے در گز ر فرماتا۔ یہ میرے گناہ ہی ہیں جس کی وجہ سے آپؓ کی صفتِ حلیم وکریم حرکت میں آئی ہے ۔
سن فریاد پیراں دیا پیرا ، میری عرض سنیں کن دھر کے ھُو
بیڑا اڑیا میرا وچ کپراندے ، جتھے مچھ نہ بہندے ڈرکے ھُو
شاہِ جیلانیؓ محبوبِ سبحانی ، میری خبر لیو جھٹ کر کے ھُو
پیر جنہاندا میراںؓ باھُوؒ ، اوہی کدھی لگدے تر کے ھُو
مفہوم: یا پیران پیر سیّدنا غوث الا عظمؓ میری عرض اور التجا غور سے سنیے ،راہِ فقر میں مَیں اس منزل تک پہنچ گیا جہاں پہنچنے سے بڑے بڑے عاشق ڈرتے اور خوف زدہ رہتے ہیں لیکن میں اس منزل پر گہرے بھنورمیں پھنس گیا ہوں اور اصل منزل کا راستہ نہیں مل رہا۔ یا شاہِ جیلانیؓ! میری خبر گیری کیجئے اور مجھے اس آزمائش سے نکا لیے کیونکہ اس جگہ پر آپؓ کے علاوہ میری مدد کو ئی اور نہیں کر سکتا ۔ اے باھو! غمگین اور افسردہ نہ ہو جن کے پیر سیّدنا غوث الا عظم شا ہ میراںؓ ہوں وہ تمام مشکلات کو طے کرتے ہو ئے فقر کی آخری منزلاِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ (جہاں فقر کی تکمیل ہو تی ہے وہیں اللہ ہو تا ہے ) پر پہنچ جا تے ہیں۔
طالب غوث الاعظمؓ والے ، شالا کدے نہ ہوون ماندے ھُو
جنیدے اندر عشق دی رتی، سدا رہن کرلاندے ھُو
جینوں شوق ملن دا ہووے، لے خوشیاں نت آندے ھُو
دو ہیں جہاں نصیب تنہاندے باھوؒ ، جیہڑ ے ذاتی اِسم کماندے ھُو
مفہوم: سیّدنا غوث الاعظمؓ کے طالب (مرید) کبھی بھی پر یشان نہیں ہو تے اور جس کے اندر رتی بھر بھی عشق حق تعالیٰ ہو وہ ہمیشہ دیدارِ یار کے لیے فریاد کرتے رہتے ہیں اور اس کے لئے بے قرار اور بے چین رہتے ہیں اور محبوبِ حقیقی سے ملاقات کی خوشی میں راہ فقر میں آنے والی آزمائش اور مشکلا ت بڑی خوشی سے برداشت کرتے ہیں۔ دونوں جہانوں میں وہی با نصیب ہیں جو اسمِ اللہ ذات کا ذکر اور تصور کرتے ہیں ۔
سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ سیّدنا غوث الاعظم سے عقیدت و محبت کے باعث آپؓ کے فراق میں یوں رقمطراز ہیں۔
بغداد شریف ونج کراہاں ، سودا نے کتوسے ھُو
رتی عقل دی دے کراہاں ، بھار غماندا گھدوسے ھُو
بھار بھریرا منزل چوکھیری، اوڑک ونج پہتیوسے ھُو
ذات صفات صحی کتوسے باھوؒ ، تاں جمال لدھوسے ھُو
مفہوم: بغداد شریف جاکر ہم نے نیا سودا کیا ہے عقل کے بدلے غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے عشق اور اُن کے ہجر و فراق کے غموں کا طوق گلے میں ڈال لیا ہے حالا نکہ عشق اور ہجر کا یہ راستہ بڑا کٹھن ، دشوار اور منزل بہت دورتھی لیکن غوث الاعظمؓ کی غلامی میں ہر منزل تک پہنچ گئے اور جب ہم نے ذات وصفات کی معرفت حاصل کر لی تب ہی واصلِ جمال ہوئے۔
بغداد شہر دی کیا نشانی، اُچیاں لمیاں چیراں ھُو
تن من میرا پرزے پر زے ، جیوں درزی دیاں لیراں ھُو
اینہاں لیراں دی گل کفنی پاکے، رلساں سنگ فقیراں ھُو
بغداد شہردے ٹکڑے منگساں با ھوؒ ، تے کرساں میراںؓ میراںؓ ھُو
مفہوم: بغداد شہر کی کیا نشانی ہے ؟ وہاں ’’ فقر ‘‘ کے پُر پیچ راستے ہیں جن پر چلتے چلتے سیّدنا غوث الا عظمؓ کے ہجر و فراق میں دل اور جسم زخمی ہو چکے ہیں اور دن رات آپؓ کے ہجر و فراق میں دل بے قرارا ور تڑپتا رہتا ہے ۔ جسم اور روح درزی کے کٹے ہو ئے کپڑے کے ٹکڑوں کے مصداق پر زے پر زے ہے ۔ محبت اور فراق میں دل اور جان کے ان ٹکڑوں کا کفن پہن کر میں بغداد شہر کے ’’ فقر ا ‘‘ کے ساتھ مل جاؤں گا اور شہرِ یار بغداد کی گلیوں میں وصالِ یا رکی بھیک مانگوں گا اور ایسی حالت میں و صالِ یار میں امداد کے لئے غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کو پکاروں گا۔ (ابیا ت با ھوؒ کا مل)
اپنے آقا و مولیٰ ، ہادی ر ہنما سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الا قدس کے تو سط سے اللہ پاک کے حضور عرض اور دعا ہے کہ ہم سب کو بھی سیّدنا غوث الاعظمؓ سے سچا عشق عطا کرے ۔ آمین


اپنا تبصرہ بھیجیں