بانی سلسلہ سروری قادری
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ
تحریر: مسز ڈاکٹر سحر حامد سروری قادری۔لاہور
راہِ فقر اور راہِ سلک سلوک میں ایک ایسی ہستی جو روشن آفتاب کی مثل ہے اور جس کی چمک رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گی وہ ہستی جو عین بعین قدمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ہے وہ ہستی کوئی اور نہیں عارفوں کے سلطان حضرت سخی سلطان باھوؒ کی ذاتِ مبارکہ ہے۔ سلطان الفقر، سیّد الکونین، سلطان العارفین برہان الواصلین، حضرت سخی سلطان باھوؒ فقیر مالک الملکی اور مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ ہیں۔ فقرا میں فقیر مالک الملکی سب سے اعلیٰ مرتبہ ہے اور صاحبانِ تلقین و ارشاد میں مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ سب سے آخری مرتبہ ہے۔ یہ مرتبہ سب مراتب کا جامع ہے اسکے بعد کوئی مرتبہ نہیں۔
دیدارِالٰہی اور مجلس محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کے باطنی طریق پر آپؒ کی ذاتِ مبارکہ عارفین کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپؒ نے سلسلہ قادری کو سروری قادری کے نام سے منظم فرمایا اور اپنی بہترین کتب کی صورت میں ایسا ورثہ طالبانِ مولیٰ کے نام کیا جو رہتی دنیا تک انکی رہنما رہیں گی۔
مصطفی ثانی مجتبیٰ آخرزمانی
سیّدنا غوثِ اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ نے جس طرح دورانِ وعظ فرمایا تھا: قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللّٰہ (ترجمہ: میرا یہ قدم تمام اولیا اللہ کی گردن پر ہے) ۔اسی طرح سلطان باھوؒ نے فرمایا:
’’ جب سے لطفِ ازلی کے باعث حقیقتِ حق کی عین نوازش سے سر بلندی حاصل ہوئی ہے اور حضور فائض النور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے تمام خلقت، کیا مسلم ، کیا کافر، کیا با نصیب، کیا بے نصیب، کیا زندہ اور کیا مردہ‘ سب کو ہدایت کا حکم ملاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی زبانِ گو ہر فشاں سے مجھے مصطفی ثانی اور مجتبیٰ آخر زمانی فرمایا ہے۔‘‘ (رسالہ روحی شریف)
مصطفی اور مجتبیٰ دونوں کے لغوی معنی ’’چنا ہوا‘‘ کے ہیں لیکن یہ دونوں القاب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لیے خاص ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے آپ ؒ کو مصطفی ثانی اور مجتبیٰ آخر زمانی فرمایا ہے کیونکہ آپؒ نے خود فرمایا جب گمراہی عام ہو گی تو آپؒ کی تعلیمات روشنی کا مینار ہوں گی۔
سلسلہ نسب اور اجداد
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ اعوان قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اعوانوں کا شجرہ نسب حضرت علی کرم وجہہ اللہ سے جا ملتا ہے۔اعوان حضرت علیؓ کی غیر فاطمی اولاد ہیں۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ہر تصنیف کے آغاز میں نام مبارک کے ساتھ اعوان کا اضافہ اس بات کا اظہار ہے کہ آپ قبیلہ اعوان سے تعلق رکھتے ہیں۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے اجداد و ادیٔ سون سکیسر کے گاؤں انگہ میں رہائش پذیر رہے اور وہیں مدفون ہیں۔
والدین
حضرت سلطان باھُوؒ کے والد محترم کا اسم گرامی حضرت بازید محمد ؒ تھا۔ حضرت بازید محمدؒ شاہجہان کے لشکر میں ایک ممتاز عہدے پر فائز تھے۔ ڈھلتی عمر کے ساتھ آپ شاہی دربار چھوڑ کر اپنے علاقے میں چلے آئے اور ایک رشتہ دار خاتون حضرت بی بی راستی ؒ سے نکاح فرمایا۔آپؒ کی والدہ محترمہ ایک عارفہ کاملہ تھیں۔ وادیٔ سون سکیسر میں وہ جگہ اب تک محفوظ ہے جہاں آپ رحمتہ اللہ علیہا ایک پہاڑی کے دامن میں چشمہ کے کنارے اسمِ اللہ ذات میں محو رہا کرتی تھیں۔ آپؒ اپنی والدہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
راستیؒ از راستی آراستی
رحمت و غفران بود بر راستیؒ
ترجمہ: راستیؒ راستی سے آراستہ ہے اللہ کی رحمت و مغفرت ہو راستیؒ پر۔
ولادت باسعادت
حضرت سخی سلطان باھو ؒ کی برگزیدہ ہستی پردۂ کائنات پر یکم جمادی الثانی 1039 ھ (17 جنوری 1630ء) بروز جمعرات بوقتِ فجر قصبہ شور کوٹ ضلع جھنگ میں جلوہ افروز ہوئی۔ آپؒ کی والدہ نے حکمِ الٰہی آپ کا نام ’’باھُوؒ ‘‘ رکھا۔
نام باھوؒ مادر باھوؒ نہاد
ز آنکہ باھوؒ دائمی با ھُو نہاد
ترجمہ: باھُوؒ کی ماں نے نام باھُورکھا کیونکہ باھوؒ ہمیشہ ھُو کے ساتھ رہا۔
آپ ؒ کا فرمان مبارک ہے ’’اگر بائے بشریت حائل نبودے باھوؒ عین یاھو است‘‘ یعنی اگر بشریت کی ’با‘ درمیان میں حائل نہ ہو تو باھو عین یاھو ہے۔ آپؒ کی زبان مبارک الہامی ہے آپکا ہر حرف گویا لوحِ قرآنی ہے۔
لقب
’’سلطان ‘‘ کا لقب آپکے نام کا حصہ ہے اسکی شرح کرتے ہوئے شیخ اکبر محی الدین ابنِ عربیؒ انسانِ کامل کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’ انسان کامل سے مراد قطبِ زماں ہے اور وہ اپنے وقت کا سلطان ہے۔‘‘ (شرح فصوص الحکم الایقان)
سلطان الفقر ششم فرماتے ہیں ’’ذکرِ ھو سلطان الاذکار ہے اور جو ھو میں فنا ہو جائے وہی سلطان ہے‘‘ اور حضرت سخی سلطان باھو ؒ تو سلطانوں (عارفین) کے سلطان ہیں آپکے مقام کا کیا موازنہ۔ آپؒ عوام الناس میں ’’حق باھو‘‘ کے نام سے معروف ہیں۔ جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں:
اَلْمُلَقَّبُ مِنَ الْحَقِّ بِالْحَقِّ (حق کی طرف سے اسے (باھوؒ کو) یہ لقب ملا ہے کہ وہ (باھو)حق کے ساتھ ہے۔‘‘ یعنی بارگاہِ ایزدی سے آپ کو ’’حق باھُو‘‘ کا لقب عطا ہوا۔
مرتبہ سلطان الفقر
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ سلطان الفقر کے مرتبہ پر فائز ہیں۔ سلطان الفقر، آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے معراج شریف میں حاصل ہوئے تحفے’’فقر‘‘ کے سلطان کو کہتے ہیں۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
* ’’اے محمدؐ! میں نے سلطان الفقر کا مرتبہ آپ کو عطا کیا ہے اور آپ کے فقرا کو بھی، آپ کے اہلِ بیت کو بھی ، آپ کے متقی اور صالح اُمتیوں کو بھی۔
سلطان الفقر نورِ حق کی ایک فنا فی اللہ صورت ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا دائمی قرب و وصال اور مجلسِ محمدی کی دائمی حضوری حاصل ہوتی ہے۔ بلاشبہ آپؒ سے بڑھ کر اسکا اہل کون ہو سکتا ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* سلطان الفقر کا نور آفتاب سے زیادہ روشن اور اس کی خوشبو کستوری و گلاب اور عنبر و عطر کی خوشبو سے زیادہ فرحت بخش ہے۔ جو شخص دورانِ خواب سلطان الفقر کی زیارت کر لیتا ہے وہ ہر چیز سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس خوش نصیب کو باطن میں دستِ بیعت کر کے تلقین فرماتے ہیں۔ میرا یہ قول میرے حال کے عین مطابق ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
* جان لے جب نورِ احدی نے وحدت کے گوشۂ تنہائی سے نکل کر کائنات (کثرت) میں ظہور کا ارادہ فرمایا تو اپنے حسن کی تجلی سے رونق بخشی، اس کے حسن و جمال بے مثال اور شمعِ جمال پر دونوں جہان پروانہ وار جل اٹھے اور میم احمدی کا نقاب اوڑھ کر صورتِ احمدی اختیار کی۔ پھر جذبات اور ارادات کی کثرت سے سات بار جنبش فرمائی جس سے سات ارواحِ فقرا باصفا فنا فی اللہ، بقا باللہ تصورِ ذات میں محو، تمام مغز بے پوست حضرت آدمؑ کی پیدائش سے ستر ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ کے جمال کے سمندر میں غرق آئینہ یقین کے شجر پر رونما ہوئیں۔ (رسالہ روحی شریف)
یہ سات مبارک ارواح سلطان الفقر کے لا زوال مرتبہ پر ازل سے فائز ہیں ان میں سے پانچ ناموں کا انکشاف آپ رحمتہ اللہ علیہ نے رسالہ روحی شریف میں کر دیا ہے۔ جب تک باقی دو ارواح پردہ ظاہر پر رونما نہیں ہو جاتیں قیامت نہیں آ سکتی۔ ان میں سے ایک روح سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کی ہے۔
بچپن کی نورانیت
حضرت سخی سلطان باھوؒ مادر زاد ولیٔ کامل ہیں۔ آپؒ ازل سے ہی دیدارِ الٰہی میں ہمہ تن مستغرق ہیں۔ ایسی نورانی ذات کے مقام و مرتبے کو احاطہ تحریر میں لانا گویا ناممکن ہے۔بچپن سے ہی آپؒ کی چشم مبارک میں نورِ ازل چمکتا ہے اور پیشانی نورِ حق سے منور ہے۔ آپؒ رمضان المبارک کے مہینے میں دن کے وقت دودھ نہیں پیتے تھے۔ جو ذات ابتدائے تخلیق سے ہی مالکِ کل جہاں کے دیدار میں محو ہو وہ خود بھی عشق اور اسکی نظر بھی عشق۔ اسی لیے آپؒ کی چشم مبارک کیمیا تھی کہ جس بے نصیب پر پڑتی وہ بانصیب ہو جاتا، جس مردہ دل پر پڑتی وہ دل یادِ الٰہی میں دھڑکنے لگتا اور جس کافر پر پڑتی وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتا۔ جب بھی آپؒ کے گھر سے باہرتشریف لانے کی منادی کرائی جاتی تو غیر مسلم اپنے گھروں ، دکانوں اور فصلوں میں چھپ جاتے کیونکہ آپ ؒ کی نگاہِ کامل جس کافر پر پڑتی وہ مسلمان ہو جاتا اور جس بدنصیب پر پڑتی وہ مشاہدۂ حق تعالیٰ میں محو ہو جاتا۔
حصولِ علمِ ظاہری
آپؒ نے کسی بھی قسم کا کتابی اور ظاہری علم حاصل نہیں کیا لیکن وارداتِ غیبی کے سبب علمِ باطن کی فتوحات اس قد ر تھیں کہ کئی دفاتر درکار ہیں آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مانند آپ ؒ بھی اُمیّ تھے۔ آپؒ فرماتے ہیں ’’ہمیں مکاشفات اور تجلیاتِ انوارِ ذاتی کے سبب علمِ ظاہری کے حصول کا موقع نہیں ملا اور نہ ہی ہمیں ظاہری ورد و وظائف کی فرصت ملی ہے‘‘۔ مگر اس قدر استغراق کے باوجود آپؒ شریعتِ محمدی اور سنتِ نبویؐ پر اس قدر ثابت قدم رہے کہ زندگی بھر آپ سے ایک مستحب بھی فوت نہیں ہوا۔
تلاشِ حق ۔بیعت
حضرت سخی سلطان باھوؒ اس قدر بلند پایہ ولیٔ کامل تھے کہ آپ 30 برس تک مرشد کی تلاش میں سرگردان رہے مگر آپ رحمتہ اللہ علیہ کو اپنے پایہ کامرشد نہ مل سکا۔ اسی تلاش میں آپؒ ایک دن نکلے کہ ایک گھڑ سوار سے ملاقات ہوئی۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں اور وہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کو مجلسِ محمدی میں لے گئے جہاں اہلِ بیتؓ اور خلفائے راشدینؓ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہمراہ موجود ہیں۔ آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ازخود آپؒ کو دستِ بیعت فرمایا اور حضرت فاطمہؓ نے آپکو اپنا نوری حضوری فرزند قرار دیا۔ آپؒ نے حضرت امام حسنؓ اور امام حسینؓ کے قدم چومے اور گلے میں انکی غلامی کا حلقہ پہنا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
’’ مخلوقِ خدا کو خالقِ کائنات کی جانب بلاؤ اور انہیں تلقین و ہدایت کرو۔ تمہارا درجہ دن بدن بلکہ گھڑی بہ گھڑی ترقی پر ہوگا اور ابدالآباد تک ایسا ہوتا رہے گا کیونکہ یہ حکمِ سروری و سرمدی ہے۔‘‘بعد ازاں آپؒ کو آقائے نامدار سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کے سپرد فرمایا۔ آپؒ رحمت اللعالمین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہِ عالیہ میں حاضری کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’جو کچھ میں نے دیکھا ان ظاہری آنکھوں سے دیکھا اور اس ظاہری بدن کے ساتھ دیکھا اور مشرف ہوا۔‘‘
رسالہ روحی شریف میں بھی آپؒ نے اپنی بیعت کا تذکرہ فرمایا۔ اس باطنی بیعت کے بعد آپؒ ظاہری مرشد کی تلاش میں سرگردان ہو گئے۔ آخر کار شاہ حبیب اللہ قادری کی طرف سے کئی آزمائشیں سر کرنے کے بعد آپؒ اپنے مرشد کامل حضرت شیخ عبدالرحمن جیلانی قادری ؒ کے پاس حاضر ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق آپؒ کو سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کی جانب سے باطنی تربیت کے بعد ظاہر میں حضرت شیخ عبدالرحمن جیلانی قادری ؒ سے دستِ بیعت کا حکم ہوا۔ آپؒ نے اپنے مرشد کامل سے ایک ہی ملاقات میں اپنا ازلی نصیبہ اسمِ اللہ ذات کی صورت میں پا لیا۔
بطور آزاد فقیر
آزاد فقیر مصلحتوں اور آداب و رسوم کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہوتا ہے، آزاد فقیر کسی جگہ کا پابند ہو کر رہنے پر مجبور نہیں ہوتا اسکا فیض ہر حال اور ہر صورت جاری رہتا ہے۔ عام طور پر وہ سیر وسفر میں رہتے ہوئے فقر کی نعمت لوگوں میں بانٹتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ بھی عوام الناس کو معرفت اور فقر کی تعلیم و تلقین کے لیے ہمیشہ سفر میں رہے۔ فرماتے ہیں:
نفس را رسوا کنم بہر از خدا
ہر ہر درے قدمے زنم بہر از خدا
ترجمہ:’’ میں رضائے الٰہی کی خاطر اپنے نفس کو رسوا کرتا ہوں اور رضائے الٰہی ہی کی خاطر ہر در سے بھیک مانگتا ہوں۔‘‘ (نورالہدیٰ کلاں)
منتقلی امانتِ الٰہیہ
کئی حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ آپؒ کو اپنی ظاہری حیات مبارکہ میں کوئی ایسا طالب نہ مل سکا جس کو آپ وہ امانت منتقل کر سکیں جس کو اٹھانے سے فرشتوں نے بھی انکار کردیا تھا۔ محرمِ راز کے متعلق سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:
’’ میں 30 سال تک اس طالبِ حق کی تلاش میں رہا جسکو وہاں پہنچاؤں جہاں میں ہوں (یعنی امانت الٰہیہ منتقل کر سکوں) لیکن مجھے کوئی ایسا طالبِ حق نہ مل سکا۔‘‘
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا:
دل دا محرم کوئی نہ ملیا جو ملیا سو غرضی ھُو
اس بارِ امانت اور سلسلہ کو بعد از وصال آپؒ نے طالبِ حق سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانیؒ کو منتقل فرمایا جو آپ ؒ کے وصال کے چوراسی (84) سال بعد مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور آپؒ کے وصال کے ایک سو انتالیس (139) سال بعد آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم پر آپؒ کے مزار مبارک پر تشریف لائے اور امانتِ الٰہیہ اور نعمتِ فقر حاصل کی اس طرح سلسلہ سروری قادری جہاں پر رکا تھا وہیں سے شروع ہوگیا۔
وصال اور مزار مبارک
حضرت سخی سلطان باھوؒ نے تریسٹھ برس کی عمر پائی اور یکم جمادی الثانی 1102 ھ (یکم مارچ 1691 ) بروز جمعرات بوقتِ عصر وصال فرمایا۔ آپ ؒ کا مزار مبارک گڑھ مہاراجہ سے دو میل کے فاصلے پر موجود ہے۔ آپکے مزار مبارک کی بے شمار کرامات مشہور و معروف ہیں۔
نام فقیر تنہاں دا باھوؒ ، قبر جنہاں دی جیوے ھُو
تصانیف
سلطان العارفین ؒ علم و فقر کا وہ خزانہ ہیں جو طالبانِ مولیٰ کے لیے تاابد ایک راہنما ہے۔ آپؒ نے 140 کتب تصنیف فرمائیں جن میں سے بتیس (32) دستیاب ہیں۔ یہ کتب رہتی دنیا تک کے طالبانِ حق کیلئے مشعلِ راہ ہیں ۔ ابیاتِ باھوؒ پنجابی زبان میں ہے باقی تمام کتب فارسی میں ہیں۔ حضرت سلطان حامدؒ نے مناقبِ سلطانی میں کتب کی جو فہرست دی ہے وہ بہت کم ہے ان کتب کے لمبے عرصے تک پردہ اخفا میں رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپؒ یہ کیمیائے گنج نااہلوں سے دور رکھنا چاہتے ہوں یاپھر ان کے ظاہر ہونے کا ایک خاص وقت مقرر ہو اسی لیے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپؒ کو آخری زمانے کی ہدایت کیلئے مصطفی ثانی اور مجتبیٰ آخر زمانی کا لقب عطا فرمایا ہے۔ آپؒ کی تصانیف کی تو یہ شان ہے کہ کوئی بھی باوضو ہو کر صدقِ دل سے ان کا مطالعہ کرتا ہے تو آپؒ ازخود راہِ حق کی جانب اس کی راہنمائی فرماتے ہیں اور فیض کا ایک عمیق سمندر کتب سے قاری میں منتقل ہو جاتا ہے۔ آپؒ رسالہ روحی شریف میں فرماتے ہیں ’’ اگر کوئی ولی واصل عالمِ روحانی یا عالمِ قدس شہود میں رجعت کھا کر اپنے مرتبے سے گر گیا ہو تو وہ اس رسالہ کو وسیلہ بنائے تو یہ رسالہ اس کیلئے مرشد کامل ثابت ہوگا اگر وہ اسے وسیلہ نہ بنائے تو اسے قسم ہے اور اگر ہم اسے اسکے مرتبے پر بحال نہ کریں تو ہمیں قسم ہے۔‘‘
فیضِ عظیم
حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کا عظیم کارنامہ اسم اللہ ذات اور اسم محمد کے فیض کا عام کرنا ہے۔ اس سے پہلے یہ نعمت صرف خواص طالبانِ مولیٰ تک محدود تھی لیکن آپ رحمتہ اللہ علیہ نے گلی گلی کوچہ کوچہ پھر کر اس فیض کو لوگوں تک پہنچایا اوراس کے ساتھ ظاہری و باطنی پاکیزگی کے لیے مشقِ مرقومِ وجویہ بھی عطا فرمائی۔ یہ مشق ایک طالب کی ظاہری اور باطنی صفائی کا بہترین ذریعہ ہے۔ اللہ تبارک تعالیٰ تک رسائی اور اس کا قرب مرشد کامل کے توسط سے مشق مرقومِ وجودیہ اور اسم اللہ ، اسم محمدکے ذریعے ہی ممکن ہے۔
سلطان باھُوؒ اور دورِ حاضر میں مجددِ دین
انسانیت کیلئے فقیر مالک الملکی اور مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ حضرت سخی سلطان باھوؒ کی خدمات بے مثال ہیں۔ آپؒ کے فیض کا سلسلہ وصال کے بعد بھی جاری و ساری ہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان عالیشان ہے :
* ’’جب گمراہی عام ہو جائے گی، باطل حق کو ڈھانپ لے گا، فرقوں اور گروہوں کی بھر مار ہو گی ہر فرقہ خود کو حق پر اور دوسروں کو گمراہ سمجھے گا اور گمراہ فرقوں اور گروہوں کے خلاف بات کرتے ہوئے لوگ گھبرائیں گے اور علمِ باطن کا دعویٰ کرنے والے اپنے چہروں پر ولایت کا نقاب چڑھا کر درباروں اور گدیوں پر بیٹھ کر لوگوں کو لوٹ کر اپنے خزانے اور جیبیں بھر رہے ہوں گے تو اس وقت میرے مزار سے نور کے فوارے پھوٹ پڑیں گے۔‘‘
گمراہی کے اس دور میں جو برگزیدہ ہستی آپؒ کے نائب ہیں اور آپؒ کی روحانی راہنمائی میں آپ کی تعلیماتِ حق کو لے کر کھڑے ہیں وہ کوئی اور نہیں میرے مرشد کامل اکمل آفتابِ فقر شانِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں جنہوں نے آپؒ کی تعلیماتِ فقر کو زمانے بھر میں عام کرنے کا عَلم اٹھایا اور بلاشبہ اس عزم کو بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔
رہا دنیا سے پرے فقر کے افکار کا موسم
ہواءِ عشق لائی ہے وہی اسرار کا موسم
سلطان نجیب ابھرا آفتابِ فقر کی مانند
نویدِ صبح آئی آ گیا دیدار کا موسم
آپ مدظلہ الاقدس دن رات طالبانِ مولیٰ کی راہِ حق پر راہنمائی کیلئے کوشاں ہیں۔ آپ نے سلسلہ سروری قادری کو اس طور سے منظم کیا کہ شاید ہی اسکی کوئی مثال موجود ہو۔ آپ نے اپنے زیر نگرانی سلطان العارفینؒ کی کتب کے نہ صرف تحقیق شدہ تراجم کروائے بلکہ انگریزی میں بھی متعدد کتابیں شائع کیں اور مزید شائع ہو رہی ہیں۔ کرۂ ارض پر دینِ اسلام کی حقیقت کا بول بالا کرنے کا جو عَلم آپ نے اٹھایا ہے وہ تاقیامت طالبانِ مولیٰ کا راہنما ہوگا اور ایک بار پھر فقر کی تعلیمات پوری دنیا میں عام ہونگی۔ یہ تعلیمات نہ صرف کتب بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی دنیا کے کونے کونے میں پہنچائی جا رہی ہیں اس مقصد کیلئے آپ مدظلہ الاقدس ملک بھر میں تبلیغی دورے بھی کرتے ہیں۔ بے شک آپ نے موجودہ دور کے فقیرِ کامل ہونے کا حق بخوبی ادا کیا جو تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف میں لائقِ تحریر ہے۔
چڑھ چناں تے کر رُشنائی، ذکر کریندے تارے ھُو
گَلیاں دے وِچ پھرن نمانے، لعلاندے ونجارے ھُو
شالا مسافر کوئی نہ تھیوے، ککھ جنہاں توں بھارے ھُو
تاڑی مار اڈا ناں باھوؒ ، اساں آپے اُڈّن ہارے ھُو
مفہوم:اے میرے فقر کے چاند! تُو جلد طلوع ہو اور نگاہِ کامل سے اس دنیا کو‘ جو ظلمت اور تاریکی میں ڈوب چکی ہے، نورِ الٰہی سے منور کر دے اور طالبانِ مولیٰ حق تعالیٰ کی طلب میں اس گمراہ دنیا میں بھٹک رہے ہیں اور تیرے جیسے ہادی کا انتظار کر رہے ہیں اور تیرے منتظر یہ طالبانِ مولیٰ جو معرفتِ الٰہی کے غواص اور جو ہر شناس ہیں ، در بدر تیری تلاش اور جستجو میں پھر رہے ہیں ۔یہ تو اِس دنیا میں مسافر ہیں اور حق تعالیٰ کی طلب میں عاجزی اور انکساری کی وجہ سے لوگوں میں بے قدرے ہو رہے ہیں ۔ اے باھُوؒ !یہ اہلِ دنیا ہم عالمِ ارواح کے باسیوں کو تنگ کرکے اِس دنیا سے جانے پر مت مجبور کریں ہم تو پہلے ہی اِس عالمِ فنا سے عالمِ بقا کو جانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں لیکن شریعت نے ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو راہِ حق پر استقامت عطا کرے اور ہمیں حضرت سلطان باھو ؒ کی تعلیمات کو دورِ حاضر کے مرشد کامل اکمل کے زیرِ سایہ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین