امیر الکونین | Ameer-ul-Konain


Rate this post

امیر الکونین

قسط نمبر12

اے جانِ عزیز! کسی درس میں کتابوں کا علم حاصل کرنے والوں کو عالم یا استاد کہتے ہیں اسی طرح ذکر کرنے والے کو ذاکر، فکر کرنے والے کو صاحبِ فکر اور مراقبہ کرنے والے کا نام صاحبِ مراقبہ ہوتا ہے ہر ایک کا نام اس کے کسب (ہنر) کے مطابق ہوتا ہے۔ اسی طرح عارف ولی، صاحبِ مکاشفہ، صاحبِ محاسبہ، صاحبِ مجاہدہ، صاحبِ مشاہدہ، صاحبِ مجادلہ، صاحبِ محاربہ، صاحبِ قرب، صاحبِ نور، صاحبِ حضور، باطن صفا اولیا، صاحبِ نفس، صاحبِ غوث، صاحبِ قطب، صاحبِ روح، ابدال، اوتاد، صاحبِ سرّ، صاحبِ درویش کو کسب کی نسبت نام دئیے گئے ہیں لیکن مراتبِ فقیر کیا ہیں؟ تمام جملہ مراتب اور منصب اور ان کا مجموعہ سب مل کر بھی فقر کی ابتدا یا بو تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ سب فقیر (کے مراتب) سے بے خبر ہیں اور غرق فی اللہ توحید فقیر کی حقیقت کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ ان سب کے مراتب فقر سے دور ہیں بلکہ انہوں نے فقر کا مشاہدہ بھی نہیں کیا۔ اگرچہ وہ فقر کے متعلق بات چیت کرتے ہیں لیکن ابھی تک حجاب میں ہیں اور ان حجابات کو ہٹانے سے قاصر ہیں۔ پس فقیر سرِّ ھویت ہے جس کے مراتب کی کوئی حد اور شمار نہیں اور لاھوت لامکان اس پر عیان ہے۔ اس بنا پر فقیر کے مراتب عظیم الشان ہیں۔ فقیر کا ذکر دیدارِ الٰہی ہے کہ اس دیدار کے دوران اسے قرب، نورِ فقر، مشاہدۂ حضورِ فقر کے مراتب حاصل ہوتے ہیں۔ (اگر کوئی پوچھے کہ) یہ مراتبِ دیدار کس اعتبار سے ہیں تم جواب دو کہ بے حجاب مرتبہ فنا فی اللہ کے اعتبار سے۔ حدیث :
*اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ ۔
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔
فقیر وہ ہے جو روزِ اوّل ہی مشرفِ دیدار ہو۔ فقر کے متوسط مراتب نور میں غرق ہونا ہے اور فقر کے انتہائی مراتب مشاہدہ اور دیدار سے یقین اور اعتبار کے مراتب پر پہنچنا ہے۔ مشرفِ دیدار ہونے کی راہ کونسے علم سے حاصل ہوتی ہے اور اس کے لیے کونسا روحانی راستہ گواہ ہے؟ مشرفِ دیدار کے لیے راہ علمِ ا سم اللہ ذات ہے جو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں اسم اللہ ذات کے ذکر و تصور اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریقے کی پیروی سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ عیاں نظر و نگاہ سے حضوری بخشنے کی راہ ہے جو قرب و دیدارِ حق سے آگاہی بخشتی ہے جو کہ برحق ہے۔جمعیت حق بخشتی اور باطل سے بیزار کرتی ہے کیونکہ اس کی اصل باطن پر ہے اور مشاہدہ اور دیدار سے مشرف ہونے کا گواہ کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ ہے۔ چنانچہَ لآ اِلٰہَ کہنے سے وجود سے فنا حاصل ہوتی ہے جو نابود کرتی ہے اور اِلَّا اللّٰہُ کہنے سے اس کی تاثیر لاھوت لامکان میں توحید تک لے جانے کے لیے وسیلہ بن جاتی ہے اور دیدارِ ربّ العالمین سے مشرف کرتی ہے اور اِلَّا اللّٰہُ  کہنا نجات کا ذریعہ بن جاتا ہے اور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ  کہنے سے بندے اور ربّ کے درمیان کوئی حجاب و پردہ باقی نہیں رہتا۔ یہ مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا  اور فنا و بقا کے مراتب ہیں۔ یہ لقائے الٰہی سے مشرف ہونے کی راہ ہے جو شریعت میں روا ہے اور یہ دیدار معرفت کی ایسی حالت میں حاصل کیا جاتا ہے جو نیند سے غالب تر ہے۔ معرفت کے یہ احوال جن میں طالب لقائے الٰہی سے مشرف ہوتا ہے حق ہیں کہ یہ برحق ہیں اور حق سے مشرف کرتے ہیں۔ جو کوئی کلمہ طیبہ، اسم اللہ ذات اور دیدار کا منکر ہے وہ مردود اور مردار دنیا کا طالب ہے۔ جو خود کو کلمہ طیبہ سے دور رکھتا ہے وہ کافر ہو جاتا ہے۔ جو کوئی خود کو کلمہ طیبہ سے دور رکھتا ہے وہ مرتد ہو کر مردود ہو جاتا ہے جس کادنیا و آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور وہ اللہ کی بارگاہ سے نامقبول ہو کر ہلاک ہو جاتا ہے۔ جو مرشد و پیر کلمہ طیبہ  لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ  کی کنہ سے مشرفِ حضوری نہیں کرتا اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں منصب نہیں دلاتا وہ احمق ہے جو خود کو پیر و مرشد کہلواتا ہے۔ ہاں کوئی شک نہیں کہ زن مرید پیر بہت ہیں اور قصاب کی مثل آدم کش طالبِ دنیا مرشد بھی بے شمار ہیں۔ ہزاروں میں سے کوئی ایک ہی پیرو مرشد ایسا ہوتا ہے جو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچانے والا اور دیدارِ پروردگار سے مشرف کرنے والا ہوتا ہے۔ 
دونوں جہان علمِ قرآن کی طے میں ہیں اور علمِ قرآن کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کی طے میں ہے اور کلمہ طیبہ اسم اللہ ذات کی طے میں ہے۔ کلمہ طیبہ اور اسم اللہ ذات وجود کے ساتوں اندام کو یکبارگی پاک و پاکیزہ کر دیتے ہیں جس سے وجود پر پڑا حجاب اُٹھ جاتا ہے اور طالب دیدار سے مشرف ہو جاتا ہے۔ اس بات میں تعجب نہ کر اور نہ ہی انکار کر کیونکہ یہ علمِ غیب اور علمِ باطن عطا کرتا ہے جو باطن میں پہنچاتا ہے اور علمِ ظاہر کی تفسیر ہے جس کی تاثیر سے طالب کا وجود پاک و طاہر ہو جاتا ہے۔ اللہ کا علم ہی کافی ہے۔ جو کوئی اللہ کے سوا کسی چیز کی طلب کرتا ہے وہ اہلِ ہوس ہے۔ جان لو کہ علم جاننے کو کہتے ہیں۔ بعض علوم ایسے ہیں جن کے کثرتِ مطالعہ سے محض سردردی حاصل ہوتی ہے اور وہ سردردی والا علم تمام مغز کو خرچ کر کے دماغ کو خواہشاتِ نفس، تکبر، انا اور خودپسندی سے بھر دیتا ہے اور تمام گفتگو غیر ضروری ہو جاتی ہے اور حال کے مطابق نہیں رہتی۔ اس علم کے حصول کے بعد لوگ معرفتِ الٰہی اور قرب و وصال کی طلب نہیں کرتے یا سردردی کے باعث دماغ میں عقل و شعور قائم نہیں رہتا۔ اللہ کے علم کے حصول کے بعد طالبِ مولیٰ اس کے نور میں غرق ہو کر اس کا قرب پاتا ہے اور مجلسِ محمدی کی حضوری میں پہنچ جاتا ہے اور عالم کو اس علم سے جمعیت حاصل ہوتی ہے اور اس کی عقل و دانش اور شعور قائم رہتا ہے۔ علم کے حصول بعد طالب کو معرفتِ اللہ اور قرب و وصال کی طلب کرنی چاہیے جس سے وہ نورِ حضور سے مشرف ہوتا ہے۔ اللہ کا علم اس راہ پر راہبر اور گواہ ہے جو مشاہدہ، لازوال حضوری اور وصال عطا کرتا ہے۔ جب تک ظاہر باطن ایک نہ ہو جائے سیّدکے لیے مذہبِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر قائم رہنا مشکل ہے۔ ایسا ہی عالم، عارف، اولیا اور فقیر کے لیے ہے کہ وہ غنایت و ہدایت بھی حاصل نہیں کر سکتے جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو جائے۔
علم کے تین حروف ہیں ع، ل، م۔ علم کی تین اقسام ہیں علمِ نفس، علمِ قلب اور علمِ روح۔ عالم کی بھی تین اقسام ہیں عالمِ نفس، عالمِ قلب اور عالمِ روح۔ عالمِ نفس ہمیشہ علمِ عاق میں مصروف رہتا ہے، عالمِ قلب ہمیشہ علمِ عاقبت بالخیر کے مطالعہ میں مصروف رہتا ہے اور عالمِ روح ہمیشہ علمِ عین کے مطالعہ میں مصروف رہتا ہے۔ نفس سے علمِ خواہشات حاصل ہوتا ہے، قلب سے علمِ صفا اور روح سے طلبِ معرفت و لقائے الٰہی کا علم حاصل ہوتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ علمِ ظاہر جو کہ شریعت کا علم ہے‘ وہ فرض، واجب، سنت اور مستحب کا علم ہے جسے علمِ ضروری کہتے ہیں۔ اور علمِ باطن جو عارف باللہ حاصل کرتا ہے‘ معرفتِ توحید کا علم ہے جو کہ مشاہدہ، قربِ الٰہی اور حضوری عطا کرتا ہے۔ علمِ ضروری اور علمِ حضوری کے عالم کو ایک دوسرے کی مجلس پسند نہیں آتی۔ جس طرح پانی اور آگ ایک جگہ نہیں رہ سکتے اور جاہل اور صاحبِ علم کو ایک دوسرے کی صحبت پسند نہیں آتی۔ عقلمند اور خبردار رہو۔ غیر ماسویٰ اللہ جو کچھ بھی ہے اسے اپنے دل سے نکال دو۔ عالمِ قلب اور عالمِ روح کے لیے لازم ہے کہ عالمِ نفس کے ساتھ ہم کلام نہ ہوں کیونکہ وہ مردہ قلب اور افسردہ قالب ہے جو نفس اور مطالبِ دنیا کی قید میں ہے۔
جان لو کہ فقر کے دو طریق ہیں ایک فقرِ اختیاری ہے جس کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
*اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ ۔
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔
فقرِ اختیاری کے دو مراتب ہیں اوّل خزانۂ دل پر تصرف اور خزانۂ  تمام دنیا پر تصرف اور پھر ان دونوں سے غنایت۔ فقرِ اختیاری کا دوسرا مرتبہ ولایت، ہدایت، معرفت اور قربِ الٰہی حاصل کرنا ہے۔ مرتبہ غنایت مرتبہ ہدایت حاصل کر لینے سے حاصل ہوتا ہے۔ فقر کا دوسرا طریق فقرِ اضطراری ہے جس میں دربدر کی بھیک مانگنے کی خواری ہے اور یہ مرتبہ غنایت سے محروم ہے۔ اس فقر کو اختیار کرنے والا دن رات فقر کی شکایت ہی کرتا رہتا ہے۔ فقرِ اضطراری فقرِ مکب ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
*نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ فَقْرِ الْمُکِبِّ۔
ترجمہ: میں فقرِ مکب سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔
فقرِ اختیاری کی بنیاد تصور اسمِ اللہ ذات ہے جس کے تصور کی مشق سے اللہ کا قرب اور حضوری حاصل ہوتی ہے۔ابیات:

از میان نقش بین نقاش را
معرفت توحید این است حق لقا

ترجمہ: تو (اسمِ اللہ ذات کے) نقش میں نقاش (اللہ) کو دیکھ۔ یہی لقائے حق اور معرفتِ توحید حاصل کرنے کا راستہ ہے۔

غرق فی التوحید شو در ذات نور
اسم اللہ برد حاضر با حضور

ترجمہ: (اسمِ اللہ ذات کے تصور سے) نورِ ذات اور توحید میں غرق ہو جا کیونکہ اسمِ اللہ ذات ہی حضوری میں لے جاتا ہے۔

من غلام قادریم و قادری
ہم صحبتی بامصطفیؐ حاضر نبیؐ

ترجمہ: میں محیّ الدین شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کا غلام ہوں اور سلسلہ قادری کے پیروکار مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضر اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہم مجلس ہوتے ہیں۔
نفس کی غذا اور قوت کیا ہے اور قلب کی غذا اور قوت کیا ہے اور روح کی غذا اور قوت کیا ہے؟ نفس کی غذا طمع ہے جو حرص اور لذتِ مردار سے قوت پاتا ہے اور قلب کی غذا اور زندگی دائمی مشاہدۂ حضور اور دیدارہے جس سے اسے ہمیشہ طاقت حاصل ہوتی ہے۔ روح کی غذا مشرفِ لقا ہونا ہے اور اس کی قوت قربِ الٰہی اور دیدارِ پروردگار میں غرق ہونا ہے۔ جیسے ہی طالبِ مولیٰ کا باطن روشن اور صاف ہو جاتا ہے تو نفس کو قوتِ طمع و حرص سے باز رکھتا ہے جس کے بعد نفس‘ قلب اور روح کی قید میں آکر نفسِ مطمئنہ بن جاتا ہے اور نور کی صورت نظر آتا ہے۔

گر بیائی طالبا توحید راز
روح قلب و ہم سخن با تو آواز

ترجمہ: اے طالب! اگر تو توحید کے راز تک پہنچ جائے تو روح اور قلب تجھ سے باآواز ہمکلام ہوں گے۔

رفت نفسی از ہوا رحمت رسید
معرفت توحید دیگر راہ ندید

ترجمہ: تیرا نفس خواہشات سے پاک ہو کر رحمتِ حق تک پہنچ جائے گا اور معرفتِ توحید کے علاوہ دیگر کوئی راہ نہ دیکھے گا۔
انسان کو نور تک پہنچنا چاہیے۔ بیت:

کسی را نفس قلب روح نور است
فنا فی اللہ بود دائم حضور است

ترجمہ: جس کا نفس، قلب اور روح نور ہو جائیں وہ فنا فی اللہ ہو کر دائمی حضوری میں رہتا ہے۔
آخر اس مراقبہ کی انتہا کیا ہے جو اسمِ اللہ ذات کے تصور سے کیا جاتا ہے جو طالب کو نور میں غرق کر کے حضوری اور دیدار سے مشرف کرتا ہے؟ وہ یہ ہے کہ صاحبِ مراقبہ غرق کی اس کیفیت میں ایک دم میں سات بار آتا جاتا ہے اور جب بھی وہ بحرِ مکاشفہ میں غوطہ لگاتا ہے تو جمعیت کے ساتھ دیدارِ ذات سے مشرف ہوتا ہے۔ اور مراقبہ میں ایک ہی دم میں قیامت تک کی ہر شے سے باخبر ہو جاتا ہے۔ اس بات میں نقص نہ نکال اور تعجب نہ کر۔ راہِ حضوری میں طالب معرفت، قربِ الٰہی، حضوری، ظاہر و باطن اور حق و باطل کے ہر مقام کی توفیقِ الٰہی سے تحقیق کرتا ہے۔ مرشد کامل صاحبِ نعم البدل ہوتا ہے اور مراتبِ نعم البدل دونوں جہان کا معما ہو تے ہیں اور اس کے پاس ہر مقام (کی مشکل) کے قفل کو کھولنے کلیدِ توحید ہے۔ بیت:

مرتبہ ایشان نباشد مرتبہ ہا
در فنا فی اللہ وحدت با خدا

ترجمہ: دیگر مراتب مرتبہ نعم البدل کے حامل مرشد کے مرتبہ کے برابر نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ فنا فی اللہ ہوتا ہے اور مقامِ وحدت میں خدا کے ہمراہ ہوتا ہے۔
جو تصور اسمِ اللہ ذات سے معرفت کا سبق پڑھ لیتا ہے وہ چودہ طبقات کا نظارہ پشتِ ناخن پر دیکھتا ہے۔ وہ لاھُوت کا رہنے والا ہوتا ہے اور اس کی نظر لامکان پر ہوتی ہے۔ ان مراتب کا حصول کامل مرشد کے توسط سے آسان ہے۔ جو مرشد دیدار کرنے والا عارف ہوتا ہے اس کے لیے طالب کو لاھوت لامکان کے بے حجاب مراتب بخشنا کونسا مشکل کام ہے۔ جو کیمیا اکسیر کا علم جانتا ہے وہ اس کے متعلق دعویٰ نہیں کرتا اور جو نہیں جانتا وہ اس کے متعلق گفتگو کرتا رہتا ہے اور جو یہ کہتا ہے کہ میں کیمیا گر ہوں وہ جھوٹا اور کذاب ہے اور وہ احمق‘ حیوان کی مثل ہے۔ عامل خود کو پوشیدہ رکھتے ہیں اور (ہر شے سے) لایحتاج ہوتے ہیں جبکہ اہلِ ہوس خراب، شوروغل کرنے والے اور محتاج ہوتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ جو مرشد تصور اسم اللہ ذات کا علم اور تصرف رکھتا ہے اور علمِ دعوت میں کامل ہے جس سے وہ اہلِ قبور کی ارواح سے ملاقات کر سکتا ہے‘ وہ تمام کیمیا کا عالم اور صاحبِ ہنر ہے اس کے لیے مراتبِ حضوری تک خود کو پہنچانا مشکل اور بعید نہیں۔ سن اے عزیز! یہ صاحبِ حضور طالبانِ صادق اور مرشد کامل کے مراتب ہیں۔ سن اے احمق، اہلِ مغرور! ابیات:

با نظر و ز خاک را میگردانند زر
و ز سیم و زر بہتر بود عارف نظر

ترجمہ: کامل عارف نگاہ سے خاک کو سونا بنا سکتے ہیں اس لیے سونا و چاندی سے عارف کی نگاہ بہتر ہے۔

نظر عارف می رساند باخدا
بانظر عارف بخشند کیمیا

ترجمہ: عارف نگاہ سے طالب کو اللہ تک پہنچا دیتے ہیں اور عارف نگاہ سے طالب کو کیمیا گری عطا کر دیتے ہیں۔ 

کیشناسد عارفان حق معرفت
بانظر زندہ کند عیسیٰؑ صفت

ترجمہ: عارفانِ حق جو صاحبِ معرفت ہوتے ہیں ان کو کوئی نہیں پہچان سکتا۔ وہ عیسیٰ علیہ السلام کی مثل نگاہ سے (مردہ دلوں کو) زندگی بخشتے ہیں۔
کامل ہر علم کو عمل میں لا کر معرفت اور فقر کی راہ پر قدم رکھتا ہے جبکہ احمق و ناقص جھوٹ بولتا ہے۔ مرشد کامل فقیر وہ ہوتا ہے جو صاحبِ معرفت اور علمِ دعوت کا عامل اور عیسیٰ ؑ کی مثل زندہ دم ہو اور وہ طالبِ صادق کو جملہ کیمیا، جملہ علم، جملہ مراتب، جملہ حکمت اور جملہ مقاماتِ ذات و صفاتِ حیّ و قیوم طے کرائے اور اسمِ اللہ ذات کی طاقت سے طالبِ صادق کو حضرت آدم ؑ صفی اللہ سے خاتم النبیین رسولِ ربّ العالمین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک جملہ ارواحِ انبیا، مرسلین اور اصفیا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام اولیا اللہ، علما باللہ، غوث، قطب، ابدال، اوتاد اہلِ مراتب و مناصب، مومن، مسلمان ہر ایک کی روح سے اس طرح ملاقات و دستِ مصافحہ کرائے کہ طالب ان کے نام سے آشنا ہو اور اس کے بعد طالب سلطان الفقر سے ملاقات کرے۔ یہ طالبِ صادق کا اوّل روز کا سبق ہے جو صاحبِ نظر ہوتا ہے جس کا ظاہر حضرت موسیٰ ؑ کلیم اللہ کی مثل ہوتا ہے اور وہ باطن میں حضرت خضر علیہ السلام کی مثل سیر و سفر کرتا ہے۔ جو مرشد طالبِ صادق کو پہلے روز ان مراتبِ حقیقی اور احوال تک نہیں پہنچاتا تو اس طالب کا حق مرشد کے لیے وبال ہے۔ مرشدی و طالبی آسان کام نہیں۔ مرشدی و طالبی میں پروردگار کے عظیم اسرار ہیں۔ ان مراتب کو احمق اور حیوانات کی مثل لوگ کیا جانیں۔ روح کا علاج اللہ کے قرب و معرفت و بزرگی اور اس سے حاصل ہونے والی لذت و جمعیت اور شوق سے ممکن ہے اور افعالِ نفس لذتِ ناپاک اور خواہشاتِ نفس کے باعث سراسر پلیدی اور گندگی ہیں۔ اعمالِ قلب روح کی حیات و زندگی ہیں جو حق کی پسندیدگی کا باعث بنتے ہیں۔ تصور کی کاملیت یہ ہے کہ صاحبِ تصور کسی کی صورت کو تصور میں لائے اگر وہ مسلمان ہو تو اُسے توجہ سے نیند یا بیداری میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے شعوری طور پر مشرف کرا دے اور وہاں سے نعمت و دولت و عزت، ہدایت، ولایت، غنایت، تعلیم و تلقین اور اسمِ اللہ ذات دلائے۔ اس طرح وہ نیند میں چشمِ روحانی سے جو کچھ دیکھتا ہے تو جب وہ نیند سے بیدار ہوتا ہے تو اس کا وجود اس حقیقت کا اظہار بن جاتا ہے اور ہر ایک کا ظاہر باطن ایک ہو جاتا ہے۔ اور اگر خواب میں کافر کی صورت کا یہ تصور کرے کہ اُسے دوزخ کی آگ میں پھینک رہا ہے تو خواب میں ہی اسے دوزخ کی آگ میں ڈال دے اور دوزخ کی آگ کے ذریعے اُسے عذاب دے۔ اس کے بعد دوزخ کی آگ سے نکالے اور نظارۂ بہشت دکھائے اور نعمتوں کی لذت چکھائے۔ پس جب وہ کافر نیند سے بیدار ہوتا ہے تو باآوازِبلند کلمہ طیب  لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ  کا ذکر کرتا ہے اور اقرار کرتا ہے کہ:
اَلْاِسْلَامُ حَقٌ وَّلْکُفْرُ بَاطِلٌ۔
ترجمہ: اسلام حق ہے اور کفر باطل ہے۔
(جاری ہے)


اپنا تبصرہ بھیجیں