فقرا کاملین کی محفل ۔ ایمان کی تکمیل | Fuqra Kamileen ki Mehfil Eman ki Takmeel


Rate this post

فقرا  کاملین  کی  محفل۔  ایمان  کی  تکمیل

تحریر: رافیعہ گلزار سروری قادری ۔ لاہور

صحبت کا انسان کی شخصیت پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ جس بھی ماحول میں رہتا ہے وہاں کے طور طریقے ‘ وہاں کے لوگوں کا رہن سہن حتیٰ کہ بات چیت کے انداز کو اپنا لیتا ہے۔ انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ اگر انسان اچھے اوصاف کا مالک ہو گا تو اس کا مطلب ہے کہ ضرور اس کی صحبت اچھی ہو گی۔ وہ اچھے لوگوں میں اُٹھتا بیٹھتا ہو گا ۔ اسی طرح اگر ایک انسان بری عادات کا مالک ہو گا تو اس کا مطلب ہو گا کہ وہ برے لو گوں کی صحبت میں اُٹھتا بیٹھتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بُری عادات سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اچھے لوگو ں کی صحبت اختیار کرے تاکہ اچھے اوصاف اپنائے۔ بُرے اوصاف سے مراد صرف یہ نہیں کہ بندہ شراب نوشی، جوا، زنا وغیرہ میں مبتلا ہو بلکہ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ بندہ دوسروں سے کینہ و بغض رکھے، جھوٹ و غیبت سے نہ بچے، دولت کی ہوس، جھو ٹی شان و شوکت، دکھاوا اور ریاکاری میں مبتلا ہو۔ اسی طرح اچھے اوصاف صرف شریعت تک محدود نہیں بلکہ یہ طریقت اور شریعت کا مجموعہ ہیں۔ یعنی بندہ نہ صرف ظاہر ی شریعت کا پابند ہو بلکہ وہ با طنی طور پر بھی اچھے اوصاف کا ما لک ہو۔ اس کا باطن کینہ و بغض، حسد و غرور، چغلی و جھوٹ، لالچ و حرص جیسی قبیح خصلتوں سے پاک ہو۔ ایسے ہی شخص کا وجود نورانیت کا مجموعہ ہو تا ہے ۔ 
صحابہ اکرامؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت میں زیادہ وقت گزارتے تھے جس کی وجہ سے وہ نہ صرف نماز و روزہ کے پا بند تھے بلکہ وہ ان عبادات کے روحانی مقاصد کو بھی بہت اچھے طریقے سے سمجھتے تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت نے ان کی شخصیت پر اس قدر گہرا اثر ڈالا کہ وہ سب آسمان پر ستاروں کی مانند چمکے۔ پھر صحابہؓ کی صحبت سے تابعین اور تابعین کی صحبت سے تبع تابعین نے فیض پایا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور اولیا کرامؓ کی صحبت سے عام لوگوں نے فیض پایا۔ صحبت سے فیض حاصل کرنے کا یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک یہ فانی جہان ختم نہ ہو جائے۔ صحبت کااثر کتنا گہرا ہوتا ہے اس کا انداز ہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ قرآنِ مجید میں با ربار اچھی صحبت اختیا ر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
*یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ۔ (التوبہ۔119)
ترجمہ: ’’ اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو اور صدیقین کے ساتھ ہو جاؤ۔‘‘ 
وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ۔ (لقمان ۔15 ) 
ترجمہ : اور پیروی کرو اس کے راستے کی جو میری طرف مائل ہوا ۔ 
اَلَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَ بَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ وَلَا تَعْدُ عَیْنَاکَ (الکہف ۔28) 

ترجمہ:’’اے محبو ب ؐ جو لوگ صبح شام اپنے ربّ کو پکارتے ہیں اور اس کے (چہرے کے) دیدار کے طلبگار ہیں آپ کی نگاہیں ان سے نہ ہٹیں۔‘‘
قیامت کے روز صرف اورصرف ایسے لوگ ہی ایک دوسرے کے دوست ہوں گے جو ایک دوسرے کو اچھے راستے پر لے کر آئے ہوں گے۔ باقی سب لوگ جو دنیا میں ایک دوسرے کے دوست اور عزیز رہے لیکن انہیں نہ نیکی کی تلقین کرتے رہے نہ اللہ کی راہ کی طرف بلایا، ایک دوسرے کو اپنی بربادی کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے اور ان کی دنیاوی دوستی دشمنی میں بدل جائے گی جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
اَلْاَخِلَّاۤءُ یُوْمَئِذٍ م بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ۔ (الزخرف۔67)
ترجمہ : ’’ گہرے دوست اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہو نگے بجز ان کے جو متقی اور پر ہیز گار ہیں۔‘‘ 
یٰوَ یْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا ۔لَّقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَ نِیْ ط  وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا (الفرقان ۔ 28۔29 )

ترجمہ: (روزِ قیامت ظالم کہے گا کہ) ہائے افسوس میں نے فلاں کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا ۔ بیشک اس نے مجھے بہکا دیا اس (قرآن ) کے میرے پاس آجانے کے بعد ۔ اور شیطان تو ہمیشہ سے انسان کو بے یارو مددگار چھوڑنے والا ہے ۔

قرآن میں جہاں اچھی صحبت اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہیں بری صحبت سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے :
فَاَعْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَلّٰی عَنْ ذِکْرِنَا وَلَمْ یُرِدْ اِلَّا الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا (النجم۔(29 

ترجمہ:’’پس اس شخص سے کنارہ کشی اختیار فرما لیں جس نے ہمارے ذکر سے رو گردانی کی اور اس نے محض دنیا کی زندگی کو ہی اپنا مقصود بنا لیا ۔‘‘ 

وَ لاَ تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوٰہُ وَکَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا۔ (الکہف ۔28 )
ترجمہ : اور اس شخص کی اطاعت نہ کریں جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے اور وہ ہوائے نفس کی پیروی کر تا ہے اور اسکا معاملہ حد سے گزر گیاہے ۔
پس ان سب آیات سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ انسان کو ایسی صحبت اختیار کرنی چاہیے جو دین و دنیا اور آخرت میں بھی اس کی فلاح کا باعث بنے، جس صحبت سے اس کے بُرے اوصاف اچھے اوصاف میں تبدیل ہو جائیں اور اس کا باطن نور سے منور ہو جائے۔ بلاشبہ یہ نعمت صرف فقرا کاملین کی صحبت میں ہی میسر آ سکتی ہے۔ خصوصاً اللہ کے طالب پر فرض ہے کہ ایسے انسانِ کامل کی صحبت اختیار کرے جس کی محفل ایمان میں اضافہ کا وسیلہ بنے۔ اگرچہ نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے لیکن اللہ کے نیک اور برگزیدہ بندے فقرا کاملین آج بھی مخلوقِ خدا کو ایمان کی دولت سے مالا مال کر کے قربِ الٰہی، دیدارِ الٰہی کی منازل تک پہنچا رہے ہیں۔ اسی لیے احادیث میں بھی اچھی صحبت یعنی فقرا کی صحبت اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ ارشادِ نبوی ؐ ہے ’’اچھے اور برے دوست کی مثال کستوری والے اور بھٹی والے کی طرح ہے ، کستوری والا یا تو تمہیں کستوری عطا کر دے گا یا تم اس سے خرید لو گے یا اس سے اچھی خو شبو پاؤ گے ۔ بھٹی والا یا تمہارے کپڑے جلا دے گا یا تم اس سے بدبو پاؤ گے ۔‘‘ (بخاری مسلم )
یہا ں اچھے دوست (کستوری والے دوست) سے مراد اللہ کے ولی ہیں جن سے انسان (نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی) ایمان کی خوشبو حاصل کر کے اللہ تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں ۔ جبکہ بھٹی والے دوست سے مراد ایسے دوست ہیں جو گمراہی کے راستے پر ڈال کر بالآخر جہنم کا ایندھن بنا دیتے ہیں۔ فقرا کی محافل ایمان کی تکمیل کا واحد اور مؤثر ترین ذریعہ ہیں کیونکہ اولیا کی صحبت دیدارِ الٰہی کی تڑپ پیدا بھی کر تی ہے اور اس منزل تک پہنچا بھی دیتی ہیں۔ البتہ شرط یہ ہے کہ فقرا اور اولیا اللہ کی صحبت صرف اس غرض سے اختیار کی جائے کہ ان کے وسیلہ سے اللہ کا قرب حاصل ہو نہ کہ دنیاوی غرض سے۔ 
حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی گئی کہ کو نسا دوست بہتر اور افضل ہے؟‘‘ آ پ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ جس کا دیدار تمہیں اللہ کی یاد دلادے اور جس کی گفتار تمہارے عمل میں زیادتی کا باعث ہو ، جس کا عمل تم میں آخرت کی یاد تازہ کر دے ۔‘‘ (مجمع الزوائدجلد 10ص226 )
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہو تا ہے۔ تم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ دیکھے کہ وہ کس کے ساتھ دوستی قائم کر رہا ہے۔‘‘ (سنن ابی داؤد۔4833)
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آج کے زمانے میں فقرا اور اولیا کا کوئی وجود نہیں (نعو ذ با اللہ)۔ یہ صرف کمزور عقیدہ لو گوں کی من گھڑت با تیں ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے عرض ہے کہ قرآن میں ارشادِ باری تعا لیٰ ہے ’’تم میں سے ایک جماعت ایسی ہو جو خیر کی طرف بلائے اور اللہ کی معرفت کا حکم دے اور برے کاموں سے روکے۔ یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘ (آلِ عمران۔ 104)۔چونکہ قرآنِ مجید ایک جامع اور مکمل کتاب ہے اور اس کی تعلیمات قیامت تک کے لیے ہیں اسی لیے اس کی ہر آیت جامع معنی رکھتی ہے اور اس کا اطلاق ہر زمانے پر ہوتا ہے۔ مندرجہ بالا آیت کا مفہوم اس بات کی طرف اشارہ کر تا ہے کہ ہر زمانے میں اللہ کی معرفت کی طرف بلانے والی جماعت لازماً موجود ہوتی ہے۔ پہلے انبیا کرام علیہم السلام نے معرفتِ الٰہی کے لیے لوگوں کو خدائے بر حق کی طرف بلایا پھر یہ ذمہ داری انبیا کے وارثین یعنی فقرا کاملین کے سپرد ہوئی۔
حضر ت عمرؓ بن خطاب سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا’’اللہ کے کچھ بندے ایسے ہوں گے جو نہ نبی ہوں گے نہ شہید۔ روزِ قیامت اللہ کے نزدیک ان کے رتبے کی وجہ سے انبیا اور شہدا ان پر رشک کریں گے ۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کی کہ بتا ئیں وہ کونسے لوگ ہیں ؟ فرمایا ’’ یہ وہ لوگ ہیں جو صرف اللہ کے لیے آپس میں محبت کرتے ہیں، ان کے درمیان نہ تو رشتہ داری ہو تی ہے اور نہ ہی کو ئی مال کا لین دین ۔ بخدا ان کے چہرے نور ہوں گے۔ وہ نو ر کے منبروں پر بیٹھے ہوں گے اور انہیں کو ئی خوف نہیں ہو گا ۔ یہ لوگ نہ خوفزدہ ہوں گے اور نہ غمگین ہو ں گے جبکہ دوسرے لوگ غمزدہ ہوں گے۔‘‘
پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰہِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ ۔ (یونس۔ 62)
ترجمہ : ’’ خبر دار! بے شک اولیا اللہ کو نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔‘‘ 
آج کے پُر فتن دور میں تمام مسلمان خاص کر نوجوانوں کو فقرا کاملین کی محافل میں جانا اپنی عادت بنا لینی چاہیے کیونکہ شیطان عین جوانی میں ہی گمراہ کرتاہے جب کہ نفس بہت طاقتور ہوتا ہے۔ فقرا کاملین کی نگاہ پلک جھپکتے ہی انسان کو بدل دیتی ہے۔ سیّدنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں ’’اللہ کے بندے تُو اولیا اللہ کی صحبت اختیار کر کیونکہ ان کی شان یہ ہوتی ہے کہ جب کسی پر نگاہ اور توجہ کرتے ہیں تو اس کو زندگی عطا کر دیتے ہیں ( قلب کو زندہ کر دیتے ہیں اور نفس کو ختم کر دیتے ہیں) اگرچہ وہ شخص جس کی طر ف نگاہ پڑی ہے یہودی، نصرانی یا مجوسی ہی کیو ں نہ ہو ‘‘۔ (الفتح الربانی ۔ ملفو ظاتِ غوثیہ ) 
فقرا کاملین آئینہ کی مثل ہو تے ہیں جس میں لوگ اپنی خامیاں دیکھ سکتے ہیں تا کہ ان خامیوں کو دور کر کے اپنی شخصیت کو نکھار سکیں اور دنیا و آخرت میں کامیاب ہو سکیں۔ فقرا کی صحبت اختیار کر نا ایسا ہے جیسے کسی نے خو شبو کے سمندر کے پاس گھر بنا لیا۔ جس کی خوشبو نہ چاہتے ہوئے بھی پورے گھر کو معطر کر دے حتیٰ کہ کھڑکیاں اور دروازے بند ہی کیوں نہ ہوں ۔ جبکہ دوسری طرف برے لوگوں کی صحبت اختیار کرنا ایسا ہے جیسے کسی کوئلے کی کا ن میں رہنا۔ نہ چاہتے ہو ئے بھی کو ئلے کی کالک ہر چیز حتیٰ کہ منہ تک کو کالا کر دیتی ہے۔
فقرا کی صحبت اختیار کر نے کا حکم بے شمار علما نے بھی دیا۔ شیخ باجوری ؒ فرماتے ہیں ’’ فقرا کاملین کی صحبت کو لازم پکڑو اور ان کے حضور مؤدب رہو۔ ہو سکتا ہے کہ اس وجہ سے تمہارا دل صاف ہوجائے اور تم اللہ کے بر گزیدہ بندے بن جاؤ‘‘ ۔(جو ہرِ توحید)
راہ سلو ک میں فقرا کی صحبت اختیار کرنا بہت ضروری ہے ۔ حضرت ابنِ حمزہؓ فرماتے ہیں ’’طالب کو چاہیے کہ مجاہدات اور ریاضت شروع کرنے سے پہلے کسی شیخِ کامل کی بارگاہ میں حاضر ہو تا کہ وہ اس کی صحیح راہنمائی کرے۔ ‘‘ 
ابنِ قیم جوزیہؓ فرما تے ہیں ’’ (ایسے فقرا) جن پر ذکرِ اللہ اور اتباعِ سنت کا غلبہ ہے اور اپنے امور میں انتہائی محتاط رہیں تو ان کا دامن مضبوطی سے پکڑ لے ۔‘‘ 
عبدالواحدبن عاشرؓ مالکی ’’ المرشد المعین ‘‘ میں صحبتِ شیخ کی اہمیت اور اس کے آثار کی وضاحت ان اشعار میں فرماتے ہیں :

یذکرہ           اللّٰہ              اذا            راٰ

ویوصول      العبد          الی           مولا

یجاھد      النفس       لرب       العالمین

ویتجلی         بمقامات             الیقین  

ترجمہ: سالک کو ایسے شیخ کی صحبت اختیار کرنی چاہیے جس کے دیدار سے خدا یاد آتا ہو اور جو بندے کو مولیٰ تک پہنچائے۔ جو ربّ العالمین کے لیے مجاہدۂ نفس کو خاص کرے اور مقاماتِ یقین سے آراستہ ہو۔
اس کی شرح کر تے ہوئے شیخ محمد بن یو سف اپنی کتاب ’’ نور مبین علی مرشد المعین‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ’’شیخِ کامل کی صحبت سے اور اس کے دیدار سے ربّ یاد آتاہے ۔ وہ بندے کو مولا تک پہنچا دیتا ہے کیونکہ وہ (فقیرِ کامل) طالب کو اس کے نفسانی عیوب سے آگاہ کر تا ہے اور غیر اللہ کو چھوڑ کر بارگاہِ خداوندی میں آنے کی نصیحت کرتا ہے۔ فقیرِ کامل بندے کو اللہ سے دور کرنے والے تمام عیوب کو مجسم کر کے دکھاتا ہے اور پھر اس کی دوا بھی تجویز کر تا ہے ۔‘‘
علامہ طیبی ؒ فرما تے ہیں ’’پس وہ شخص جس پر باطنی امراض غالب آجائیں اسے چاہیے کہ کسی ایسے شیخِ کامل کی تلاش کرے جو اس کو اس دشوار ی اور پریشانی سے نکالے ( یعنی باطن کی بیماریوں سے نجات دلائے)۔‘‘
ابو حامد امام غزالی ؒ فرماتے ہیں ’’ صوفیا کرامؒ کی جماعت میں داخل ہونا فرضِ عین ہے کیونکہ انبیا کرام علیہم السلام کے علاوہ کوئی بھی شخص قلبی امراض اور عیوب سے خالی نہیں۔‘‘ مزید فرماتے ہیں ’’جو شخص (شیخِ کامل کی رہنمائی کے بغیر ) صرف اپنی ذات پر بھروسہ کر تا ہے اس کی مثال خود رو پودے کی طرح ہے جو جلدی خشک ہو جاتا ہے۔‘‘ 
شیخ عبدالوہاب شعرانی ؒ مسلمانوں کو نصیحت کر تے ہوئے فرماتے ہیں ’’ اے بھائی کسی ناصح کی صحبت اختیار کر جو تجھے اللہ کی یاد میں مشغول کر دے یہاں تک کہ نماز میں آنے والے خیالات ختم کر دے ۔ ‘‘ 
اسی سلسلے میں حضرت علی خواصؒ فرماتے ہیں :
’’تو اس راستہ پر بغیر راہبر کے نہ چل جسے تو جانتا نہیں وگرنہ اس کے نشیب و فراز میں گر جائے گا ۔‘‘
فقیرِ کامل کی صحبت بندے کو ایمان کی دولت سے مالا مال کر دیتی ہے جبکہ ناقص اور دنیا کے طالب بدبخت لو گوں کی صحبت ایمان کی دولت چھین کر درِ خدا سے دور کر دیتی ہے اور ایسے جنگل و بیابان میں بے یارو مدد گار چھوڑ دیتی ہے جہاں انسان اپنے نفس کا غلام بن کر منافقت کی منازل طے کرتا ہوا جہنم تک پہنچ جاتا ہے۔ ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کو بہکانے کا کام بھی بہت خوش اسلوبی سے کر تا ہے ۔ جب کوئی انسان بیمار ہو تا ہے تو اچھے سے اچھے ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تا کہ افاقہ ہو ۔ اس کی ہر ہدایت پر ہر حال اور ہر صورت میں عمل کرتا ہے چاہے اس سلسلے میں جتنی بھی مشکلات پیش کیوں نہ آئیں۔ اسی طرح اگر کوئی انسان چاہتا ہے کہ وہ باطنی بیماریوں سے نجات پا کر ایمان کی صحیح معنوں میں لذت و چاشنی کو چکھے تو اسے چاہیے وہ کسی فقیر کامل کی صحبت اختیار کرے اور فقیر کامل جو بھی ہدایت دے اس پر دل و جان سے عمل کر ے ۔ دل میں برے خیالات کو جگہ نہ دے۔ بے شک اللہ ربّ العزت ان فقرا کے ساتھ ہوتا ہے۔ پس جو اللہ کو پانا چاہتا ہے ان کی صحبت اختیار کرے تا کہ منزلِ حیات مل سکے۔ ہمیشہ یاد رکھیں ہم جو کچھ بھی کسی سے پاتے ہیں وہ سب ہماری طلب اور گمان کے مطابق ہی ہوتا ہے ۔
شیخ محمد ہاشمی ؒ ’’ لطائف المنن‘‘ میں فرماتے ہیں ’’ اے مخاطب تیرے لیے مشا ئخ کاملین کی کمی نہیں، صرف ان کی تلاش کے لئے طلبِ صادق درکار ہے۔ اگر تو طلبِ صادق سے تلاش کر ے گا تو مر شد کامل کو پا لے گا۔‘‘
کچھ نفس پرست لوگ فقرا کی محافل میں جانے کو ایمان کے سلب ہونے سے تشبیہ دیتے ہیں۔ وہ لو گ ایمان کو صرف ظاہر ی عبادات تک محدود سمجھتے ہیں۔ جن کو ادا کر نے کے بعد ایسے غرور و تکبر سے سر بلند کر کے چلتے ہیں جیسے نعوذ باللہ اللہ نے انہیں اجازت دے رکھی ہو کہ جسے چاہیں جنتی قرار دے دیں اور جسے چاہیں جہنمی ہو نے کی سند دے دیں۔ حالانکہ خود ساری زندگی انا‘ حسد‘ کینہ‘ عجب‘ حرص و ہوا کی مجسم تصویر بن کر رہتے ہیں اور ان بیماریوں کی وجہ سے فقرا کاملین کی شان میں گستاخیاں کرتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے قریبی صحابی حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہٗ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’ اے ابوذرؓ اہلِ دل (فقرا) سچے خوابوں کی صورت میں اسرارِ ملکو ت کا مشاہدہ کرتے ہیں اور کبھی بیداری کی حالت میں بھی انہیں مشاہدہ ہوتا ہے۔ یہ حالت انبیاکے اعلیٰ درجا ت میں سے ہے۔ پس تم ان (فقرا) کے معاملے میں ڈرنا۔ اگر ان کے معاملے میں غلطی کر و گے تو تمہارے قصور کی حدتجاوزکر جائے گی اور تم ہلاکت میں پڑ جا ؤ گے۔ ایسی عقل سے جہالت بہتر ہے جو ان کے انکار کی طرف راغب کرے۔ اولیا اللہ کے امور سے جس نے انکار کیا اس نے گو یا انبیا کا انکار کیا اور وہ دین سے مکمل طور پر خارج ہو گیا ۔‘‘(عین الفقر) 
حدیثِ مبارکہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا ’’(قیامت کے روز) تو اسی کے ساتھ ہوگا جس سے تو نے محبت کی۔‘‘ (صحیح مسلم)
دورِ حاضر میں سرکارِ دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعلیماتِ فقر کی حقیقی ترجمان تحریک دعوتِ فقر ہے۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اس تحریک کے بانی اور سرپرستِ اعلیٰ ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ ہیں۔ آپ کی تعلیمات فرقہ پرستی کے اس دور میں مینارۂ نور ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی صحبت سے ایسی حلاوت نصیب ہوتی ہے کہ دل سے ہر طرح کے شکوک و شبہات دور ہوتے ہیں۔ عوام الناس کے لیے دعوتِ عام ہے کہ جو لوگ اولیا اللہ اور فقرا کے مخالف ہیں یا یہ سمجھتے ہیں کہ آج کے دور میں فقرا کاملین موجود نہیں وہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں حاضر ہوں اور اسم اللہ ذات کا ذکر و تصور حاصل کریں۔ انشاء اللہ ان کے دلوں میں موجود شکوک و شبہات رفع ہوں گے اور وہ فقرا کاملین کی شان اور حقیقت سے آگاہ ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں فقرا کاملین کی صحبت کی اہمیت اور ان کی شان سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی شان میں ہر قسم کی گستاخی سے بچائے۔ (آمین)
استفادہ کتب:
صحبتِ شیخ کی اہمیت اور ضرورت از حضرت شیخ عبدالقادر عیسیٰ الشاذلیؒ 
الفتح الربانی از غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؓ
کیمیائے سعادت از امام غزالیؒ 
عین الفقر از حضرت سخی سلطان باھُوؒ 


اپنا تبصرہ بھیجیں