عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی
عرشیہ خان سروری قادری ۔( لاہور)
محبت کا مفہوم ہے طبیعت کا کسی حسین چیز کی طرف مائل ہونا۔ اگر اس محبت میں شدت پیدا ہو جائے تو اسے عشق کہتے ہیں۔ گھر بار، مال و دولت اور دل و جان ہر چیز محبوب پر قربان کر دینے کا نام عشق ہے۔ یہ ترقی کرتا رہتا ہے۔ اس کی انتہا یہ ہے کہ عاشق و معشوق ایک ہو جاتے ہیں۔ جیسے کسی نے مجنوں سے پوچھا! تمہارا نا م کیا ہے؟بولا ’’لیلیٰ‘‘۔ کسی نے کہہ دیا لیلیٰ تو مر گئی۔ اس نے کہا ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں ہی لیلیٰ ہوں‘‘۔
آج کل کی نوجوان نسل دنیاوی محبت کو عشق سمجھ رہی ہے جو درحقیقت صرف ہوس پرستی ہے۔ جس زمانہ میں ہم رہ رہے ہیں وہاں مساجد خالی مگر کلب آباد ہیں، جہاں اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں، جہاں نفس اور نفسانی خواہشات کو پانے کی تگ و دو میں عشق جیسے پاک جذبہ کی بے حرمتی کی جا رہی ہے اور نفسانی خواہشات کے حصول کو عشق کا نام دے دیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے نوجوان نسل اسی دنیاوی محبت کو عشق کا نام دے کر اس میں اس قدر مگن ہو چکی ہے کہ محبوب کی خاطر اپنی جان و مال داؤ پر لگانے میں بڑا فخر محسوس کرتے ہیں۔ اکثر اپنا دنیاوی عشق سچا ثابت کرنے کے لیے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ افسانوں اور ڈراموں میں دنیاوی محبتوں کو عشق کا نام دے کر معاشرہ کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے حالانکہ ان افسانوں اور ڈراموں کے مصنف عشق کی حقیقت سے دور دور تک بھی واقف نہیں ہوتے اور محض عوام میں مقبولیت اور پذیرائی کی خاطر من گھڑت واقعات اور تخیلاتی کرداروں کو اس سحر انگیز انداز میں پیش کرتے ہیں کہ عوام ان کو حقیقت سمجھ بیٹھتی ہے۔ مزید ظلم یہ کہ ان افسانوی قصے کہانیوں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے ایک ایسا کردار بھی ضرور شامل کیا جاتا ہے جو ان دنیاوی محبتوں کی شرعی نکتہ نظر سے دلالت کرتے ہوئے نام نہاد عاشقوں کو گمراہ کر رہا ہوتا ہے۔
ذر اسوچئے! دنیا کی طرح اس کے لوگوں سے کی جانے والی محبت بھی کس قدر بے چینی و بے سکونی کا باعث ہے۔ ہر دنیاوی محبت اور تعلق کو زوال ہے کیونکہ یہ دنیا فانی ہے اور اس میں موجود رشتے بھی ایک دن ختم ہو جانے ہیں۔ اس بات کو میرے مرشد میرے ہادی سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ان خوبصورت الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :
٭ ’’عشق کسی انسان سے نہیں ہوتا۔ جو یہ دعویٰ کرتا ہے وہ جھوٹا ہے کیونکہ اللہ خود عشق ہے اور عشق سے ہی عشق ہوتاہے۔‘‘ ( سلطان العاشقین)
عشق ایک بے لوث جذبہ ہے جو وقت کے ساتھ بڑھتا ہے نہ کہ دنیاوی محبت یا رشتوں کی طرح منہ پھیرنے سے ختم ہو جاتا ہے۔ ہم اپنی ناقص سوچ اور محدود علم کی بنا پر نفس پرستی کو عشق ِ مجازی کا نام دے دیتے ہیں۔ جو عشق ظاہری خوبصورتی اور نفسانی خواہشات پر مبنی ہو وہ بھلا عشق مجازی کیسے ہو سکتا ہے؟
عشقِ حقیقی
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
٭ اللہ تعالیٰ کی ذات مخفی اورپوشیدہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤ ں تو اس نے اپنے آپ کو کائنات میں ظاہر کیا۔ اللہ تعالیٰ کے جلال کی وجہ سے ہر چیز جل کر خاک ہو گئی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے میم احمدی کا نقاب پہنا اور صورتِ احمدی اختیار کر لی تو ہر چیز کو سکون آگیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے نورِ احمدی میں خود اپنے آپ کو دیکھا تو نورِ احمدی کی صورت میں اپنے تعین پر خود اپنے آپ پر ہی عاشق ہو گیا اور پھر نورِ احمدی سے تمام مخلوقات کی ارواح کی تخلیق ہوئی۔ وحدت سے کثرت کی طرف ابتدا ہی عشق ہے۔ پھر یہی جذبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روحِ مبارک کے توسط سے تمام ارواح میں منتقل ہوا۔ یہ جذبۂ عشق ایک بیج کی صورت میں ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ جیسے ہی تصور اسمِ اللہ ذات اور مرشد کامل اکمل کی نگاہ اس بیج پر پڑتی ہے تو یہ پھوٹ نکلتا ہے اورپھر آہستہ آہستہ ایک تناور درخت کی شکل میں پورے وجود کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔(شمس الفقرا)
٭ روح اور اللہ کا رشتہ ہی عشق کا ہے۔ عشق ایک بیج کی صورت میں انسان کے اندر موجود ہے مگر سویا ہوا ہے جیسے جیسے ذکرو تصور اسمِ اللہ ذات، مشقِ مرقومِ وجودیہ اور مرشد کامل اکمل کی باطنی مہربانی سے روح کے اندر پیدا ہوناشروع ہوتا ہے ویسے ویسے روح کی اللہ کے لیے تڑپ اور کشش میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر یہی عشق ایک دن عشق (اللہ تعالیٰ) میں فنا ہو جاتا ہے۔‘‘ (شمس الفقرا)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
باھوؒ عشق را بام بلند است اسمِ اللہ نردبان
ہر مکانے بے نشانے میبرد در لامکان
ترجمہ: اے باھو ؒ عشق کی چھت بہت بلند ہے اس پر پہنچنے کے لیے اسمِ اللہ ذات کی سیڑھی استعمال کر جو تجھے ہر منزل و ہر مقام بلکہ لامکان تک پہنچا دے گی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے اندر عشق کا پوشیدہ جذبہ بیدار کیسے ہو؟ ہمارا عشق تو ان چیزوں، شکلوں اور لوگوں کیساتھ ہوتا ہے جنہیں ہم نے دیکھا ہے اللہ تعالیٰ تو غیر مجسم ہے۔ اسکے ساتھ ہم عشق کیسے کریں؟ فقرا کاملین نے عشق ِ حقیقی کو پانے کا ذریعہ عشقِ مجازی یعنی عشقِ مرشد کو قرار دیا ہے۔
عشقِ مجازی
فقر و تصوف میں عشق ِ مجازی سے مراد عشق ِ مرشد ہے یعنی بظاہر اگر دنیا کے کسی رشتے سے عشق کا حکم ہے تو وہ بھی صرف اُس ہستی سے جو اللہ کی طرف لے جانے کا باعث اور ذریعہ ہے۔ کیونکہ کامل مرشد وہ چراغ ہے جو روح کو روشن کرتا ہے اور نفس کے لیے تیز تلوار جیسا کام کرتا ہے۔ مرشد کامل اکمل کی نگاہ ِ کامل نفسانی خواہشات میں مبتلا مریضوں کے لیے طبیب کا کام کرتی ہے۔ مرشد کامل ہی کی بارگاہ ہے جہاں عشقِ حقیقی کا جام پلایا جاتا ہے اور طالب اپنی حقیقت سے آگاہ ہونے لگتا ہے۔ اسے اللہ کی ذات کی پہچان اور اس کے قرب و دیدار اور معرفت کی نعمت حاصل ہوتی ہے۔ مرشد کامل اکمل کی مہربانی اور باطنی توجہ سے عشق ِ مجازی کا پودا بڑھتا ہے اور طالب عشقِ حقیقی کے سفر پر گامزن ہوجاتا ہے ۔
جب روح کو روح کی غذا یعنی کامل مرشد کی صحبت اور مرشد کامل اکمل سے عطا کردہ اسمِ اللہ ذات ملے تو روح نفس پر حاوی ہو جاتی ہے اور لُوں لُوں میں عشق سما جاتا ہے۔ اس کیفیت کو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ اپنے پنجابی ابیات میں یوں لکھتے ہیں:
الف اللہ چنبے دی بوٹی، میرے من وِچ مُرشد لائی ھُو
نفی اَثبات دا پانی مِلیس، ہر رَگے ہر جائی ھُو
اندر بوٹی مُشک مچایا، جان پھلّاں تے آئی ھُو
جیوے مُرشد کامل بَاھُوؒ، جَیں ایہہ بوٹی لائی ھُو
مفہوم: اس بیت میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ نے اسمِ اللہ ذات کو چنبیلی کے پودے سے تشبیہہ دی ہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ پہلے عارف ہیں جنہوں نے اسمِ اللہ ذات کے لیے ’’چنبے دی بوٹی‘‘ کا استعارہ استعمال فرمایا ہے۔ چنبیلی کے پودے کی پہلے پنیری ( بوٹی) لگائی جاتی ہے اور جب وہ آہستہ آہستہ نشوونماپا کر ایک مکمل پودا بن جاتا ہے توچنبیلی کے پھولوں سے لد جاتا ہے اور اس کی خوشبو پورے ماحول کو مہکا دیتی ہے۔ اسی طرح جب مرشد طالب کو ذکرو تصور اسم اللہ ذات عطا فرماتا ہے تو گویا اس کے دل میں ایک پنیری لگا دیتا ہے اور اسمِ اللہ ذات کا نور مرشد کی نگہبانی میں آہستہ آہستہ طالبِ صادق کے پورے وجود میں پھیل کر اس کو منور کر دیتا ہے۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میرا مرشد کامل ہمیشہ حیات رہے جس نے مجھ پر فضل و کرم اور مہربانی فرمائی اور اسمِ اللہ ذات عطا فرما کر اپنی نگاہِ کامل سے میرے دل میں اسمِ اللہ ذات کی حقیقت کو کھول دیا ہے اور نفی (لَآ اِلٰہَ) سے تمام غیر اللہ اور بتوں کو دل سے نکال دیا ہے اور اثبات ( اِلَّا اللّٰہ) کے راز نے مجھے اسم سے مسمّٰی تک پہنچا دیا ہے۔ اب یہ راز اور اس کے اسرار میری رگ رگ، ریشہ ریشہ اور مغز و پوست میں سرایت کر گئے ہیں۔ اب تو اسمِ اللہ ذات پورے وجود کے اندر اتنا سرایت کر چکا ہے کہ جی چاہتا ہے کہ جو اسرار اور راز مجھ پر کھل چکے ہیں ان کو ساری دنیا پر ظاہر کر دوں لیکن خواص کے یہ اسرار عام لوگوں پر ظاہر نہیں کیے جا سکتے اسی لیے ان اسرار اور رازوں کو سنبھالتے سنبھالتے جان لبوں تک آچکی ہے اور ظاہر و باطن میں جدھر بھی نظر دوڑاتا ہوں اب مجھے اسمِ اللہ ذات ہی نظر آتا ہے اور حالت اس آیت کی مثل ہو چکی ہے کہ تم جس طرف بھی دیکھو گے تمہیں اللہ کا چہرہ ہی نظر آئے گا۔ (ابیاتِ باھوؒ کامل)
مولانا جامی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
غنیمت داں اگر عشق مجازیست
کہ از بہر حقیقت کار سازیست
ترجمہ: اگر تجھے ذاتِ مرشد کا عشق نصیب ہو جائے تو اسے اپنی خوش نصیبی جان کیونکہ یہ ذاتِ حق کے عشق تک پہنچنے کا وسیلہ ہے۔
حضرت بلھے شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک بھی عشقِ مجازی عشقِ حقیقی کا سرچشمہ ہے ۔ عشقِ مجازی سے ہی عشقِ حقیقی پیدا ہوتاہے۔
جے چر نہ عشق مجازی لاگے، سوئی سیوے نہ بن دھاگے
عشق مجازی داتا ہے جس پچھے مست ہو جاتا ہے
ترجمہ: اگر مرشد سے عشق نہیں ہوتا تو انسان خدا تک نہیں پہنچ سکتا۔ جس طرح سوئی دھاگے کے بغیر سلائی نہیں کر سکتی اسطرح عشقِ مجازی کے بغیر عشق ِ حقیقی تک نہیں پہنچا جا سکتا ۔
میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
میں نیواں میرا مرشد اُچا اَسی اُچیاں دے سنگ لائی
صدقے جاواں انہاں اچیاں توں جنہاں نیویاں دے نال نبھائی
ترجمہ: میں بہت عاجز اور عام آدمی تھا لیکن مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میرا مرشد کامل اکمل ہے انہوں نے مجھ عاصی پر اپنی شان کے مطابق مہربانی فرمائی اور مجھے آخر تک اپنی غلامی میں رکھا اور مجھے میری منزل (عشقِ حقیقی) تک پہنچایا۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
گرد مستاں گرد، گر مے کم رسد بوئے رسد
بوئے او گر کم رسد، روئیت ایشاں بس است
ترجمہ: مستوں (اللہ کے عشق میں مست کامل فقرا) کے گرد گھومتا رہ، اگر محبت کی شراب نہ ملے تو کم از کم اس کی بُو تو حاصل ہو جائے گی اور اگر یہ بھی نہ ملے تو ان کا دیدار ہی کافی ہے۔
ازل سے یہی روایت چلتی آ رہی ہے کہ اپنے محبوب (مرشد) کی خاطر اپنا مال و دولت یہاں تک کہ جان تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے اپنا گھر بار اپنے ہادی مرشد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قدموں میں نچھاور کر دیا کیونکہ آپؓ جانتے تھے اللہ پاک سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا گہرا تعلق ہے اور وہی ہستی ہیں جو انہیں عشقِ حقیقی کا جام پلا سکتی ہیں۔
اولیا کرام کی ایسی لاتعداد مثالیں موجود ہیں جنہوں نے حق کی حقیقت کو اپنے مرشد کے ذریعے پہچانا اور اس طرح یار کے رنگ میں رنگ گئے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ عشق کی حقیقت کو ان الفاظ میں قلم بند فرماتے ہیں:
ثابت عشق تنہاں نوں لدّھا، جنہاں تَرٹی چَوڑ چا کیتی ھُو
نہ اوہ صوفی نہ اوہ صافی، نہ سجدہ کرن مسیتی ھُو
خالص نِیل پرانے اُتے، نہیں چڑھدا رنگ مجیٹھی ھُو
قاضی آن شرع وَل بَاھُوؒ، کدیں عشق نماز نہ نیتی ھُو
ترجمہ: عشق ِ حق تعالیٰ تو وہ پاتے ہیں جو راہِ عشق میں اپنا گھر بار تک لٹا دیتے ہیں اور جن پر عشق کا رنگ چڑھ جائے تو اسکو کوئی اتار نہیں سکتا۔ مالک ِ حقیقی کے عاشق نہ تو صوفی ہیں اور نہ ہی صافی ہیں اور نہ ہی وہ مساجد میں عبادت میں مشغول رہتے ہیں بلکہ وہ تو عشقِ الٰہی میں جذب ہو کر دیدارِ حق تعالیٰ میں محو ہیں۔ علماء ظاہر ہمیشہ ظاہر پر زور دیتے ہیں جبکہ عاشق ظاہر و باطن کا جامع ہوتا ہے اور جن پر عشق کا رنگ چڑھ جائے اُن پر دوسرا کوئی رنگ اثر نہیں کرتا اور علمائے شریعت سے ذرا یہ تو دریافت کرو کہ عاشق نے کب نماز ادا نہیں کی، عاشق تو ہر لمحہ سربسجود رہتا ہے۔ (ابیاتِ باھوؒ کامل)
سلسلہ سروری قادری میں عشقِ مجازی یعنی عشقِ مرشد اسمِ اللہ ذات کے ذکر و تصور سے حاصل ہوتا ہے۔ اس بات سے طالب پر حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ میرا مرشد کامل ہے اور میں صراطِ مستقیم پر ہوں۔ پھر یہ عشق بڑھتا ہے اور عشقِ مرشد سے آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عشق کی طرف اورپھر اللہ تعالیٰ سے عشق یعنی عشقِ حقیقی میں تبدیل ہو جاتا ہے اور طالب فنافی اللہ بقا باللہ کی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔
حضرت شاہ شمس تبریزؒ عشق ِ مرشد کے بارے میں فرماتے ہیں:
عشق معراج است سوئے بام سلطان ازل
از رخ عاشق فرد خواں قصہ معراج را
ترجمہ: عشقِ حقیقی ہی بارگاہ ِ الٰہی میں باریابی دلاتا ہے۔ اگر معراج کی حقیقی داستان پڑھنی ہے تو کسی عاشق صادق (مرشد کامل) کے چہرے پر نظر جماؤ۔
یاد رہے کہ راستہ وہی دِکھا سکتا ہے جو اس راستہ میں خود کامل ہو۔ مرشد کامل اکمل عشقِ حقیقی کا وہ سمندر ہے جس کی گہرائی اور وسعت کا اندازہ صرف اس کی حقیقت کی پہچان رکھنے والے لگا سکتے ہیں۔ کامل مرشد اللہ سے عشق میں اس مقام پر ہوتا ہے جہاں دوئی کے تمام حجاب ختم ہو جاتے ہیں۔ جیسے حضرت حسین بن منصور حلاج رحمتہ اللہ علیہ کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اللہ کے سوا ہر چیز باطل ہے اور یہ سمجھ لیا کہ اللہ ہی حق ہے تو اسمِ حق دل میں پختہ ہونے کے باعث وہ اپنا نام بھی بھول گئے اور جب ان سے پوچھا گیاکہ تم کون ہو تو فرمانے لگے ’’اناالحق (میں حق ہوں)‘‘۔
عشقِ حقیقی کی نعمت اللہ پاک اپنے اُن ولیوں کو عطا فرماتا ہے جو اس کی خاطر موت سے پہلے مرنے کو تیار رہتے ہیں جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا (ترجمہ: مرنے سے پہلے مرجائو)۔ حدیث ِ قدسی میں بھی عاشق فقیر کے بارے میں اللہ فرماتا ہے: ’مَنْ طَلَبَنِیْ فَقَدْ وَجَدَنِیْ ط وَمَنْ وَجَدَنِیْ عَرَفَنَیْ ط وَمَنْ عَرَفَنِیْ اَحَبَّنَیْ ط وَمَنْ اَحَبَّنَیْ عَشَقَنِیْ ط وَمَنْ عَشَقَنِیْ قَتَلْتُہ‘ ط وَمَنْ قَتَلْتُہٗ فَعَلَیَّ دِیَّتَہ‘ ط وَاَنَادِیَّتَہُ۔
ترجمہ: ’’جو میرا طالب بنتا ہے بے شک وہ مجھے پالیتا ہے، جو مجھے پا لیتا ہے وہ مجھے پہچان لیتا ہے، جو مجھے پہچان لیتا ہے وہ مجھ سے محبت کرنے لگتا ہے ، جو مجھ سے محبت کرتا ہے وہ میرا عاشق بن جاتا ہے، جو مجھ سے عشق کرتا ہے میں اُسے مار ڈالتا ہوں، جسے میں مارڈالتا ہوں اُس کی دیت میرے ذمّے ہو جاتی ہے اور اُس کی دِیت میں خود ہوں۔‘‘
عشقِ حقیقی اُس ذات پاک سے عشق و محبت کا احساس ہے جو واحد ہے، اُسی کو بقا ہے، اُس نے قائم و دائم رہنا ہے اور اُسی ذات سے عشق کیا جا سکتا ہے باقی محبتیں تو فانی ہیں۔ معلوم ہوا کہ انسان کا حقیقی رشتہ صرف اللہ پاک سے ہی ہے۔ عشقِ حقیقی انسان کی روح کو اللہ پاک سے جوڑے رکھنے کا نام ہے، اس کی تڑپ میں تڑپنے کا نام ہے، اس ربّ کی ذات میں گم ہوجانے کا نام ہے۔
سیّدنا غوث الاعظم ؓ فرماتے ہیں:
٭ جو شخص اللہ کو دوست رکھتا ہے اور اس کے غیر کو دوست نہیں رکھتا اللہ تعالیٰ اس کے دل سے اپنے ماسویٰ کی محبت کو زائل کر دے گا۔ جب کسی شخص کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوجاتی ہے تو اس کے دل سے غیراللہ کی محبت نکل جاتی ہے ۔( الفتح الربانی مجلس58)
فقرا کاملین نے عشق کی رمز کو جانا اور یہ جذبہ اللہ کی تڑپ رکھنے والے طالبوں میں جگایا۔
اللہ پاک کی رحمت و کرم سے آج بھی عشقِ حقیقی کے اس دیے کو جلانے والے موجود ہیں۔ موجودہ دور میں فقر کے سلطان مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ اور سلسلہ سروری قادری کے شیخِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس لاکھوں متلا شیانِ حق اور سالکوں کے قلوب کو منور فرما چکے ہیں اور عشقِ حقیقی جیسی نعمت سے نواز چکے ہیں۔ دعا ہے کہ ایسے حقیقی مرشد کے دامن سے ہم ہمیشہ جڑے رہیں اور تمام مسلم اُمہ آپ مدظلہ الاقدس کی باطنی توجہ اور ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات سے فیضیاب ہو کر عشقِ حقیقی جیسا انمول تحفہ حاصل کر سکے۔ آمین
استفادہ کتب
ابیاتِ باھو کامل
شمس الفقرا
تصنیف از حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس