عُجب (خود پسندی)
تحریر : فائزہ گلزار سروری قادری ۔( لاہور)
عُجب کے لغوی معنی غرور، تکبر، خودپسندی اور خودبینی کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو کوئی نہ کوئی کمال اور خوبی عطا کر رکھی ہے۔ کوئی علم میں، کوئی حسن میں جبکہ کوئی زہد و تقویٰ میں بڑا صاحبِ عظمت ہوتا ہے۔ مگر جب کوئی اپنی خوبی اور کمال کو خود اس حد تک پسند کرے کہ اس کے مقابلے میں اسے دوسرے کی خوبی نظر نہ آئے تو وہ بیماری عُجب کہلاتی ہے۔ عُجب کے زیرِ اثر طالب اپنے آپ پر اتنا فریفتہ ہو جاتا ہے کہ اسے اپنے سوا ہر چیز حقیر اور پست نظر آتی ہے اور وہ اپنے آپ کو ہی سب سے اعلیٰ تصور کرنے لگتا ہے۔ اس کے نفس میں خود نمائی کا جذبہ بڑھتا چلا جاتا ہے جو بعد میں تکبر بن جاتا ہے۔
عُجب (خود پسندی) صفاتِ ذمیمہ میں سے ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتوں کو ختم کر دیتی ہے۔ اس کا جنم انسانی دل میں ہوتا ہے اور شیطان اسے پیدا کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ اللہ کا قرب اور رضا حاصل کرنے کے لیے قلب کو خود پسندی سے پاک رکھنا بے حد ضروری ہے۔
سیّد علی بن عثمان الہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ فرماتے ہیں:
٭ عجب و غرور دراصل دو چیزوں سے پیدا ہوتا ہے:
1) خلق کی عزت افزائی اور ان کی مدح و ستائش سے
2) اپنے ہی افعال پُرکشش ہونے سے
اوّل صورت میں لوگ چونکہ بندے کے افعال کو پسند کرنے لگتے ہیں اور اس کی مدح و ستائش کرتے ہیں اس لیے انسان میں غرور پیدا ہو جاتا ہے۔ دوسری صورت میں انسان کو اپنی برائیوں میں بھی حسن نظر آتا ہے۔ اس لیے وہ غرور اور خود پرستی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ (کشف المحجوب)
عُجب میں چونکہ غرور شامل ہوتا ہے اس لیے راہِ فقر میں توفیقِ الٰہی ختم ہو جاتی ہے۔ پس جونہی انسان سے توفیقِ الٰہی کا ہاتھ اٹھتا ہے وہ بربادی میں مبتلا ہونا شروع ہو جاتا ہے جو آخرکار انسان کے ذلیل و خوار انجام کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’خود پسندی (خود بینی۔ خودنمائی) ایسی بری بلا ہے کہ اس سے ستر برس کے بہترین عمل برباد ہو جاتے ہیں‘‘۔ (دیلمی)
رسالۃ الغوثیہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
٭ اے غوث الاعظمؓ! میں اطاعت گزار سے دور ہوں جبکہ وہ طاعت سے فارغ ہو جاتا ہے (یعنی اس پر تکبر کرتا ہے)۔
اور فرماتا ہے عاجزی انوار کا سر چشمہ ہے اور تکبر و خود پسندی کفر، گناہ اور تاریکیوں کا منبع ہے۔
حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
٭ لشکرِ ریاضت کو سوائے خطراتِ عُجب کے کوئی اور چیز شکست نہیں دے سکتی۔
٭ عُجب (خود پسندی) و غرور سے کی گئی عبادت سے بہ عذر گناہ بہتر ہے۔ (عین الفقر)
آپؒ مزید فرماتے ہیں:
٭ تکبر اور فخر و غرور ورثہ ٔ شیطان، فرعون و قارون ہے اور عاجزی ورثہ ٔ انبیا و اولیا ہے۔ (عین الفقر)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
٭ عاجزی کرنے والا کبھی گمراہ نہیں ہوتا اور تکبر کرنے والا سب سے پہلے گمراہ ہوتا ہے۔ شیطان عاجزی والے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
٭ انسان کا اصل ہتھیار عاجزی، اخلاصِ نیت اور صدق ہے۔
٭ طاقت کو اخلاص و عاجزی کے بغیر سنبھالا نہیں جا سکتا۔ اگر طاقت کے ساتھ تکبر بھی آجائے تو جلد یا بدیر طاقت چلی جاتی ہے۔
٭ عاجزی اور نیت کا اخلاص جتنا زیادہ ہوتا ہے بندہ اتنی جلدی اللہ کے قریب ہو جاتا ہے اور جتنا قریب ہو گا اتنا ہی عاجزی میں اضافہ ہو گا بشرطیکہ نیت میں اخلاص بھی ہو۔
حضرت سخی سلطان باھُوؒ محک الفقر کلاں میں ایک عبرت انگیز واقعہ بیان فرماتے ہیں:
٭ ایک نیک و پارسا آدمی کہیں جارہا تھا۔ اتفاق سے اس کے سامنے ایک ایسا فاسق آدمی آگیا جو اپنی عمر کا قیمتی سرمایہ فسق و فجور میں برباد کر چکا تھا، اپنے سانسوں کی نعمت ِ جاودانی کو خاک میں ملا کر سیاہ کر چکا تھا اور اپنے خرمن ِ حیات کو آگ لگا کر جلا چکا تھا حتیٰ کہ اپنی آبرو بھی گنوا چکا تھا۔ پارسا آدمی نے ازروئے عُجب اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور بولا ’’الٰہی! مجھے اور اس فاسق کو کہیں جمع نہ کرنا۔‘‘ اسی دوران اس فاسق نے غَفُوْرُ الذَّنُوْبُ پروردگار کی طرف متوجہ ہوکر اپنے عجز پرنظر ڈالی اور جوئبارِ اعمالِ شائستہ کی ٹہنی پکڑنی چاہی مگر پکڑ نہ سکا، اس کے دل سے درد بھری آہ نکلی، چشم ِ گریہ سے اشک ِ حرماں بہا کر عرض کی ’’پروردگار اس عاجز پر رحم فرما کہ تیرے سوا اس کی خبر گیری کرنے والا کوئی نہیں۔‘‘ بالائے عرشِ غیب سے ندا آئی کہ میں نے دونوں کی دعا قبول کی۔ چونکہ فاسق نے نیاز مندی کے ساتھ میرے دامنِ فضل کو اپنے دستِ اُمید سے پکڑا ہے اس لیے میں نے اسے اپنے دامنِ عفو میں چھپا کر بخش دیا ہے اور زاہد نے راہِ عُجب اختیار کر کے اس کمتر کو نگاہِ حقارت سے دیکھا حالانکہ عجب مہلکِ دل اور منشائے آب وگل ہے پس وہ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہٗ (میں اس سے بہتر ہوں) کے ناکام مرتبے پر پہنچا اور میں نے اسے مردود کر دیا کہ جب بھی کوئی یہ شامت انگیز کلمہ کہتا ہے میں اس متکبر کو یہی مقام دیتا ہوں۔ جو ریاضت عُجب آلودہ ہو جائے وہ کوئی مرتبہ حاصل نہیں کر سکتی۔ (محک الفقر کلاں)
شرعی لحاظ سے دوسروں کو حقیر سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو برتر اور اعلیٰ تصور کرنا تکبر ہے حالانکہ مخلوق ہونے کے لحاظ سے سب یکساں اور مساوی ہیں۔ راہِ فقر میں طالب ِ مولیٰ کے لیے اپنے آپ کو کبر سے بچانا لازم ہے کیونکہ تکبر ختم ہو گا تو عاجزی و انکساری پیدا ہو گی اور یہ فقر کی بنیاد ہے۔ محاسبہ نفس مومن کی صفت ہے۔ مومن ہرلمحہ، ہر وقت اپنے نفس کے محاسبہ میں مصروف رہتا ہے کہ اس کے اندر کون کون سی خامیاں اور غلطیاں موجود ہیں کیونکہ اپنے باطن کے متعلق یا تو ایک انسان خود جانتا ہے یا پھر اللہ تعالیٰ۔ کوئی تیسرا اس سے باخبر نہیں ہوتا۔ خواہشات اور شہوات نہ صرف انسان کو ظاہر و باطن میں برباد کر دیتی ہیں بلکہ معاشرہ میں بھی بگاڑ کا باعث بنتی ہیں۔ ان کا علاج مرشد کامل اکمل کی زیر ِنگرانی تربیت ہے۔ مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ کی خاص بات یہ بھی ہوتی ہے کہ چونکہ وہ قدمِ محمدؐ پر ہوتا ہے لہٰذا وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرح اپنے مریدوں (اصحاب) میں عُجب و تکبر پیدا نہیں ہونے دیتا۔ جیسے ہی کسی طالب کے ظاہر و باطن میں ذرا سا بھی عجب و تکبر پیدا ہوتا ہے وہ فوراً اپنے تصرف سے اسے روک لیتا ہے، خطا اور اپنے طالب کے درمیان آجاتا ہے اور مجلس ِ محمدیؐ میں معافی بھی دلواتا ہے۔ اس طرح اس کا سفر حق کے راستے پر جاری رہتا ہے۔ چونکہ شریعت میں گناہ کی سزا اورغلطی کی تلافی ضروری ہوتی ہے لہٰذا مرشد طالب کو ظاہر و باطن میں غلطی کے مطابق تلافی کے لیے خاص مراحل سے گزارتا ہے جس سے بعض اوقات طالب خود بھی واقف نہیں ہوتا۔ ایسے موقع پر ثابت قدم رہنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور اسی موقع پر طالب کے ظرف کی آزمائش بھی ہوجاتی ہے اور راہِ حق پر اس کے خلوص کی پرکھ بھی ہوجاتی ہے۔ صرف وہی طالب اس وقت ثابت قدم رہتے ہیں جنہیں مرشد کامل اکمل پر مکمل یقین اور بھروسہ ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ عروج و زوال، اچھا اور برا وقت اللہ کے تصرف میں ہے۔ مخلص طالب اچھے وقت میں عاجزی سے کام لیتے ہیں اور کٹھن وقت میں اپنی خطاؤں کی معافی کے طلب گار رہتے ہیں۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
٭ سن! ابلیس نے کہا ’’میں نے اطاعت کی‘‘۔
ندا آئی! ’’میں نے لعنت کی‘‘۔
آدم علیہ السلام نے کہا! ’’میں نے خطا کی‘‘۔
ندا آئی! ’’میں نے بخش دی‘‘۔ (عین الفقر)
سیّد علی بن عثمان الہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ فرماتے ہیں:
٭ اللہ تعالیٰ اپنے فضل (مرشد کامل اکمل)کی وجہ سے اپنے دوستوں پر ان دروازوں کو بند کر دیتا ہے تاکہ ان کے معاملات اگرچہ نیک ہوں پھر بھی ان کو اپنی طاقت و قوت کے مقابلہ میں ہیچ ہی نظر آتے ہیں اور وہ انہیں پسند نہیں کرتے جس کی بنا پر غرور سے محفوظ رہتے ہیں۔ لہٰذا ہر شخص جو پسندیدۂ حق ہو گا خلق اسے پسند نہیں کرے گی اور جو اپنے جسم کو ریاضت و مجاہدے کے ذریعے مشقت میں مشغول رکھے گا حق تعالیٰ اسے تکلیف نہیں دے گا۔ (کشف المحجوب)
آج کل کے مصروف دور کے لیے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نے عجب و تکبر اور دیگر نفسانی بیماریوں کے علاج کے لیے ایک نسخہ تجویز کیا ہے بشرطیکہ وہ کسی طبیب ِ کامل (مرشدکامل) سے حاصل ہوا ہو۔ آپؒ فرماتے ہیں:
٭ ’’جو شخص چاہے کہ زریں و اطلس کا لباس پہنے اور عمدہ خوراک کھانے کے باوجود اس کانفس مطیع و فرمانبردار رہے، خواہشاتِ دنیا و نفس سے مامون رہے، معصیتِ شیطانی سے محفوظ رہے اور اس کے وجود سے خناس، خرطوم و وسوسہ و وہمات و خطرات خاک و خاکستر ہو کر نیست و نابود ہو جائیں تو اسے چاہیے کہ مشق تصور سے اپنے دل پر اسمِ اللہ ذات نقش کرے۔ اس طرح اس کا دل غنی ہو جائے گا اور بے شک وہ مجلسِ محمدیؐ میں حضوری پائے گا۔‘‘ (کلید التوحید کلاں)
ہر چیز کے درجے ہوتے ہیں۔ عاجزی اختیار کرتے ہوئے بھی اس بات کو مد ِنظر رکھنا چاہیے کہ عاجزی اس حد تک نہ آجائے کہ بندہ اللہ کی رحمت سے ہی مایوس ہو جائے اور خدانخواستہ کفر و شرک کی راہوں پر گامزن ہو جائے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی شخص کو کوئی نعمت عطا کرتا ہے مثلاً علم، مال، حسن، شوقِ عبادت، طلبِ مولیٰ، فقر اور وہ اس کے زائل ہونے یا چلے جانے سے خوف کھائے اور ڈرے کہ کہیں یہ نعمت اس سے واپس نہ لے لی جائے تو ایسا شخص خودپسند نہیں ہوتا اور اگر نہ ڈرے لیکن نعمت ملنے پر یہ خیال کرکے خوش ہو کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور اسے اپنی صفت خیال نہ کرے تو ایسا شخص بھی خودپسند نہیں ہوتا لیکن اگر اس نعمت کو اپنی صفت سمجھ کر اترائے اور مغرور ہو تو وہ خود پسند ہو تا ہے۔ اللہ پاک ہم سب کوراہِ حق پر استقامت عطا فرمائے اور ہر ناپسندیدہ صفت سے بچائے۔آمین