کلید التوحید (کلاں)
Kaleed-ul-Tauheed Kalan – Urdu Translation
قسط نمبر 1
مترجم: احسن علی سروری قادری
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَ اَہْلِ بَیْتِہٖ اَجْمَعِیْنَ۔
ترجمہ: اللہ ہی کے لیے ہیں سب تعریفیں جو تمام عالمین کاربّ ہے اور درود و سلام ہو اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر، آپؐ کی آل پر، اصحاب پر اور تمام اہلِ بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین پر۔
اما بعد! اس تصنیف کا مصنف اللہ کی ہدایت اور رحمت کی بدولت فنا فی اللہ بقا باللہ کے مقام پر ہے، لطفِ الٰہی کی بدولت اس کتاب میں‘ جو اشراف کو بزرگی عطا کرتی ہے‘ ایسے متبرک نکات بیان کرتا ہے جو قرآن و حدیث کے موافق ہیں اور ذکرِ اللہ (Zikr e Allah) کی تسبیح سے حاصل ہوتے ہیں۔ فقیر باھوؒ ولد بازید رحمتہ اللہ علیہ عرف اعوان جو قلعہ شور کا رہنے والا ہے اور دین پر قوی اور صاحبِ شریعت بادشاہ محی الدین (اورنگزیب عالمگیر) کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے‘ یہ واضح بیان کرتا ہے کہ:
دین بر دین محمدؐ شد قوی
قاتل الکفار اصحابش نبیؐ
برگزیدہ از عباد اللہ الٰہ
شاہ اورنگ زیب غازی بادشاہ
ترجمہ: اورنگزیب بادشاہ اللہ کے برگزیدہ بندوں میں سے ایک ہے کیونکہ وہ دینِ محمدی پر قوی اور غازی بادشاہ ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) کے اصحاب کی مثل کفار کو قتل کرنے والا ہے۔
اس بادشاہِ اسلام کو اللہ جمعیت بخشے۔ اس کتاب کا نام کلید التوحید رکھا گیا ہے کیونکہ اس کتاب کو ہر مشکل کی مشکل کشا اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Majlis-e-Mohammadi saww) سے مشرف کرنے والی اور وحدانیتِ خدا میں غرق کرنے والی کا خطاب دیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ مرشد کامل اکمل جامع صاحبِ راز جس کے تصرف میں کل و جز کی ہر شے ہوتی ہے وہ طالبِ مولیٰ کو روزِ اوّل تعلیم و تلقین سے غرق فنا فی اللہ اور معرفتِ قرب مع اللہ کا سبق د یتا ہے اور اسرار کی ابتدا و انتہا تک پہنچاتا ہے کیونکہ ریاضت زادِ راہ ہے اور روزِ اوّل اس راز تک پہنچنے کے لیے تصور اسم اللہ ذات ضروری ہے جس سے غرق فنا فی اللہ، جمعیت اور قربِ الٰہی حاصل ہوتا ہے۔ مرشد طالبِ مولیٰ کو اسمِ اعظم کی برکت، کلمہ طیب معظم کی تاثیر اور تصور اسمِ اللہ ذات (Personal Name of Allah – Ism e Allah Zaat – Ism e Azam) کے غلبہ سے اللہ کی ذات عطا کرتا ہے جس کی بدولت اس پر مقامِ غرق فنا فی اللہ، قرب اور جمعیت مکمل طور پر کھل جاتے ہیں۔ اہلِ راز کی ریاضت پانچ وقت سنت جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا ہے۔ ایسی نماز سے جو راز عطا ہوتے ہیں برحق ہیں جبکہ وہ نماز جو شریعت کے مطابق نہ ہو اس میں حاصل ہونے والے راز (جو کہ اصل میں راز نہیں بلکہ) باطل ہیں۔ صاحبِ راز ہمیشہ تصور اسمِ اللہ ذات (Personal Name of Allah – Ism e Allah Zaat – Ism e Azam) میں مشغول رہنے والا عارف باللہ صا حبِ نظر ہوتا ہے جو اپنا خونِ جگر پیتا ہے۔ ایسی ریاضت سے کوئی بھی دوسری ریاضت سخت اور بہتر نہیں۔ ریاضت مزید دو قسم کی ہے۔ ایک ریاضت ِعام جو محض ریاکاری ہے اور جسے بعض لوگ خواہشاتِ نفس کے باعث رجوعاتِ خلق اور شہرت و عزت کی خاطر کرتے ہیں اور دوسری ریاضتِ خاص جو ظاہر وباطن میں صرف خدا کی خاطر ہوتی ہے۔ رازِ توحید کی اس راہ کی کلید کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہے۔ جو کلمہ طیب کی کلید سے دل کا قفل کھول لیتا ہے اس پر معرفتِ اللہ کے راز منکشف ہو جاتے ہیں اور وہ لایحتاج و بے نیاز طالب بن جاتا ہے۔ یہ حضوری کا وہ طریق ہے جس میں غرق فنا فی اللہ، تجلیاتِ نورِ ذات کے مشاہدات اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Majlis-e-Mohammadi saww) سے مشرف ہونے کی لذت ہے کیونکہ اس طریق میں وجود سر سے قدم تک ذکرِ اللہ (Zikr e Allah) میں مشغول اور باطن معمور رہتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) کا یہ طریق تحقیق شدہ ہے جو اللہ کی عطا، اس کی رحمت اور فیض و فضل ہے لیکن جو ناقص، حاسد، منافق، کور چشم اس طریق کے متعلق شک رکھتا ہے وہ اہلِ زندیق میں سے ہے۔ اس طریق میں ریاضت کے بغیر راز اور مجاہدہ کے بغیر مشاہدات حاصل ہوتے ہیں، فقیر کا کھانا مجاہدہ اور اس کی نیند مشاہدہ ہوتی ہے۔ یعنی فنا فی اللہ فقیر کا پیٹ تنور کی مثل ہوتا ہے کہ اس کا کھانا (پیٹ میں)آتشِ ذکر کے غلبہ اور مجاہدہ سے جل جاتا ہے۔ جس سے اس کے وجود میں نور پیدا ہوتا ہے اور اسے بغیر محنت کے محبت کی بدولت معرفت حاصل ہوتی ہے اور طاعت کے باعث اسے خاص طلب کی توفیق حاصل ہوتی ہے جس سے وہ دائمی طور پر اللہ کے ساتھ اس کا رفیق بن کر رہتا ہے۔ یہ راہ رجعت سے پاک ہے کیونکہ ذات و صفات کے تمام مقامات کی ابتدا و انتہا فقیر کی نگاہ میں ہوتی ہے۔ اس کا دل تصدیق کی بدولت مطمئن ہوتا ہے اور دل سے موٹے حجاب ہٹ جانے کے باعث وہ روشن ضمیر ہوتا ہے۔ بلاشبہ اس کی زبان اللہ کی تلوار ہوتی ہے اور اس کا مرتبہ ولی اللہ کا ہوتا ہے اور وہ آیاتِ قرآن اور اسمِ اعظم ( Ism e Allah Zaat – Ism e Azam) کے عمل کا عامل اور اس کی خصوصیات کا حامل ہوتا ہے۔ وہ صاحبِ ترک و توکل اور صاحبِ تجرید(تجرید یہ ہے کہ طالب ہر ایک مقام سے نکل کر تنہا ہو گیا ہے، نفس اور شیطان سے اس نے خلاصی پالی ہے۔ مقامِ حضور ہمیشہ اس کے مدِ نظر رہتا ہے۔ منظور ہو کر اس نے نفسِ مطمئنہ حاصل کر لیا ہے۔ اب اس مقام پر شیطان نہیں پہنچ سکتا۔) و تفرید (تفرید اسے کہتے ہیں کہ طالب فرد ہو بظاہر شب و روز عام لوگوں کی طرح رہتا بستا ہو اور ان سے تعلقات رکھتاہو یعنی عام انسانوں کی طرح زندگی بسر کرتا ہو لیکن درحقیقت وہ مقامِ فردیت اور ربوبیت میں غرق ہو۔ حضرت شیخ شہاب الدینؒ فرماتے ہیں: تجرید میں اغیار کی نفی ہے اور تفرید میں اپنے نفس کی نفی ہے۔ )ہوتا ہے۔ اس کے امور اللہ کی منشا کے مطابق ہوتے ہیں اور اللہ کے تمام پوشیدہ خزانے اس کی نظر میں ہوتے ہیں۔ مؤکلات اور فرشتے مسخر ہو کر اس کی قید میں آجاتے ہیں اور جس وقت چاہتا ہے وہ حاضر ہو جاتے ہیں اور اس کے ہر سوال کا درست اور تفصیلاً جواب دیتے ہیں۔ اسی طرح روحانی، انبیا و اولیا اللہ کی ارواح، جن و انس، جانور و پرندے بلکہ اٹھارہ ہزار عالم کی تمام مخلوقات کے احوال سے تصور اسمِ اللہ ذات (Personal Name of Allah – Ism e Allah Zaat – Ism e Azam) کے علمِ حضوری اور تمام اسمائے باری تعالیٰ کے علم کے ذریعے واقف ہوتا ہے اور وہ حضوری سے ملنے والے حکم کے باعث دعائے سیفی کے ذریعے دعوتِ قبور کا عمل جانتا ہے جس سے اس کی دعوت جاری ہو جاتی ہے۔ اس کے پاس علمِ جفر کے ذریعے نقش و دائرے بنانے کا علم ہوتا ہے اور حضرت سلیمانؑ کی حکومت کی مثل مشرق سے مغرب تک اس کی حکومت ہوتی ہے جو کہ سکندر بادشاہ کی بادشاہی سے بھی بہتر ہے۔ ان مراتب کا حامل فقیر دنیا میں عظیم و بلند تر ہوتا ہے وہ مخلوق سے دکھ اٹھاتا ہے لیکن پھر بھی انہیں تکلیف نہیں پہنچاتا۔
جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے صاحبِ حاضراتِ اسمِ اللہ ذات (Personal Name of Allah – Ism e Allah Zaat – Ism e Azam) فقرا کو اس قدر قوت عطا کی ہوتی ہے کہ اگر چاہیں تو مؤکلات علمِ کیمیا تفصیلاً سکھا سکتے ہیں یا مؤکلات غیب الغیب سے کلام اسمِ اعظم ( Ism e Azam) کی برکت سے اُنہیں سنگِ پارس لا کر دے سکتے ہیں جسے اگر لوہے سے چھوا جائے تو سونا بن جائے لیکن اہلِ اللہ فقرا جو کہ ہمیشہ اللہ کے ساتھ مستغرق اور باطن میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Majlis-e-Mohammadi saww) میں حاضر رہتے ہیں ان کا دل ظاہر میں اس قدر غنی ہوتا ہے کہ وہ مرتبہ مؤکل، مراتبِ تمام دنیا، کیمیا گری اور سنگِ پارس کی طرف ایک نظر بھی نہیں دیکھتے اگرچہ فقر و فاقہ سے خونِ جگر پیتے رہیں۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ اَتْبَعْنٰھُمْ فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا لَعْنَۃً (سورۃ القصص۔42)
ترجمہ: اور ہم نے ان کے پیچھے اس دنیا میں (بھی) لعنت لگا دی۔
حبِ دنیا اور مال و دولت وجود کے اندر ایک کیڑے کی مثل ہیں جو خطرات کی بیماری کے باعث آرام و سکون نہیں لینے دیتے۔ ا س کے علاوہ جان لو کہ جب فقیر اشتغالِ اللہ میں مصروف ہوتا ہے تو تمام انبیا، اولیا اللہ، شہدا، مومن و مسلمان اور صاحبِ مراتب کی ارواح اس کے پاس حاضر ہوتی ہیں اور وہ ہر ایک سے دست مصافحہ کرتا ہے۔ عارف باللہ اولیا اللہ فقرا ہمیشہ معرفتِ اِلاَّ اللّٰہ میں غرق اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Majlis-e-Mohammadi saww) کی دائمی حضوری سے مشرف رہتے ہیں۔ ایسا فقیر دنیا و آخرت میں لایحتاج ہوتا ہے۔
فقیر کے پاس سات چابیاں ہوتی ہیں اور وہ ان سات چابیوں سے توحید کے سات مراتب مرحلہ وار طے کرتا ہے اور حیّ ذات کے ساتھ حیّ ہو جاتا ہے۔
یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ (سورۃ الروم۔19)
ترجمہ: وہی (اللہ) زندہ کو مردہ میں سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ میں سے نکالتا ہے۔
وہ سات چابیاں اسے سات تصور اور سات تصرف عطا کرتی ہیں اور اس کے ساتھ اسے سات طرح کی آیات حاصل ہوتی ہیں جس کے ساتھ ہی اسے سات طرح کی حضوری عطا ہوتی ہے جس سے وہ ہر لمحہ دونوں جہان کا نظارہ روشن اور واضح طور پر دیکھتا ہے۔ یہ مراتب صاحبِ شریعت کے ہیں جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) کا حلقہ بگوش غلام ہوتا ہے۔ جو فنا فی اللہ ہو کر اللہ کی ذات میں مستغرق ہو وہ عارف باللہ صاحب ِ راز ہوتا ہے جسے حسن پرستی، شراب نوشی اور سرود کی آواز پسند نہیں ہوتی۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ اَنْذِرْھُمْ یَوْمَ الْاٰزِفَۃِ اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَی الْحَنَاجِرِ کٰظِمِیْنَ ط مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّ لَا شَفِیْعٍ یُّطَاعُ۔ ط یَعْلَمُ خَآئِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ۔ (سورۃ المومن18,19)
ترجمہ: اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) انہیں قریب آنے والی آفت کے دن سے ڈرائیں جب ضبطِ غم سے کلیجے منہ کو آئیں گے۔ ظالموں کے لیے نہ کوئی مہربان دوست ہوگا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات مانی جائے۔ وہ (اللہ) خیانت کرنے والی نگاہوں کو جانتا ہے اور (ان باتوں کو بھی) جو سینے (اپنے اندر) چھپائے رکھتے ہیں۔
زنا کی بنیاد سرود اور حسن پرستی ہے اور خیانت کی بنیاد شراب اور نشہ آور اشیا ہیں۔ مطلب یہ کہ جو علم کی حقیقت کو پہچانتا ہے اور باعزت طور پر اسے اپنے عمل میں لے آتا ہے تو وہ علم اسے اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ( ترجمہ: جنہیں علم سے نوازا گیا (اللہ) ان کے درجات بلند فرما دے گا۔ (سورۃ المجادلہ۔11)) تک پہنچا دیتا ہے۔ جو کوئی اسم اللہ ذات (Personal Name of Allah – Ism e Allah Zaat – Ism e Azam) کی کنہ کو پہچانتا اور اس کی ماہیت جان لیتا ہے اسمِ اللہ ذات (Personal Name of Allah – Ism e Allah Zaat – Ism e Azam) اسے معرفتِ وحدانیت تک پہنچا دیتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ کا مرتبہ ربوبیت اور معرفتِ وحدانیتِ ذاتِ الٰہی عطا کرتا ہے۔ اساسِ فقر و معرفت اور مراتبِ فقیر کی ابتدا یہ ہے کہ ابتدائی طور پر وہ علمِ اکسیر و تکسیر کو عمل میں لاتا ہے کیونکہ جیسے ہی یہ علم عمل میں آتے ہیں دل غنی ہو جاتا ہے تب وہ ان کو چھوڑ دیتا ہے۔ ایسے فقیر کی پشت پناہی حضوری سے جمعیت کے اہتمام سے کی جاتی ہے۔
جو اِن سات مراتبِ حضوری اور سات تصور و تصرفِ ذات کے متعلق نہیں جانتا اس کی فقیری محض پیغام کی مثل ہے یا ناقص و ناتمام ہے۔ اسمِ اللہ ذات (Personal Name of Allah – Ism e Allah Zaat – Ism e Azam) کا تصور اور ذکر ربوبیت میں غرق کر دیتا ہے جس سے نورِ الٰہی منکشف ہوتا ہے اور طالبِ مولیٰ کو اس کا ہر مقصود اس نورِ حضور سے حاصل ہوتا ہے اور ظاہر و باطن اور لوحِ محفوظ اس کی لوحِ ضمیر (دماغ کی لوح) پر منکشف ہو جاتے ہیں اور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے تصور سے حاصل ہونے والی حضوری سے ایسا پاک خوشبودار ذکر کھلتا ہے جو طالبِ مولیٰ کو دونوں جہان میں فائدہ دیتا ہے اور اسے اس کا مقصود عطا کرتا ہے۔ مرشد کامل طالبِ صادق پر ان سات چابیوں سے حضوری کے سات قفل کھولتا ہے اور ایک لمحہ و ایک قدم میں دونوں جہان میں اس کے مطالب و مقصود عطا کر دیتا ہے اگرچہ وہ تصرفِ ظاہری ہو یا تصرفِ باطنی، تصرفِ ازلی ہو یا تصرفِ ابدی، تصرفِ دنیا ہو یا تصرفِ عقبیٰ، تصرفِ غرق فنا فی اللہ ہو یا تصرفِ معرفتِ توحید جو کہ تمام مراتبِ قرب سے اعلیٰ و اولیٰ ہے۔ یہ سب راز و گنج بغیر ریاضت و رنج کے اس سروری قادری مرشد سے حاصل ہوتے ہیں جو نور میں مستغرق اور کامل، مکمل، اکمل، جامع، مجموعۃ الفقر، مجموعۃ الفضل، مجموعۃ القرب، مجموعۃ المعرفت اور مجموعۃالتوحید ہوتا ہے۔ (مندرجہ بالا اوصاف کا حامل) ایسا مرشد ہی لائقِ ارشاد ہوتا ہے جو اس راستہ کے اختتام اور انتہا تک پہنچاتا ہے جبکہ ناقص مرشد راہزن ہوتا ہے جو اپنے طالبوں کو بھی ناقص و خام بنا دیتا ہے۔
بیت:
باھوؒ مرد مرشد می برد در ہر مقام
مرشدے نامرد طالب زر تمام
ترجمہ: اے باھوؒ! مرد مرشد ہی ہر مقام تک لے جا سکتا ہے جبکہ نامرد (ناقص) مرشد صرف اور صرف مال و دولت کا طالب ہوتا ہے۔
مرشد کامل کی کرم نوازی سے طالبِ مولیٰ پر علمِ دعوت کھلتا ہے اور دعوت پڑھنے سے وہ اہلِ قبور انبیا اور اولیا اللہ کی ارواح کو اپنے قبضہ و عمل میں لے آتا ہے۔ دعوتِ اہلِ قبور کے عامل کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) کی حضوری سے اجازت حاصل ہوتی ہے کہ اس کے مراتب اور کام ذکر سے مکمل ہوتے ہیں اور ذکر ِ زوال ایک دم میں اُسے اللہ کی معرفت اور وِصال تک پہنچا دیتا ہے جیسا کہ ظاہری امور زبان سے بولنے سے ادا ہوتے ہیں یعنی وہ قیل و قال کا عامل اور عالم ہوتا ہے اور قلبی امور اس کے قلب سے ہی مکمل ہوتے ہیں یعنی اسے معرفتِ احوال حاصل ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ وہ احوال کا عامل و عالم بن جاتا ہے۔ روح سے متعلقہ امور اس کی روح سے مکمل ہوتے ہیں جس سے (طالبِ مولیٰ کو)وصال حاصل ہوتا ہے اور وہ وصال کا عامل و عالم بن جاتا ہے۔ سِرّ کے امور سِرّ کے ذریعے طے ہوتے ہیں، معرفت کے امور معرفت سے، توحید کے امور توحید سے، مشاہدہ کے امور مشاہدہ سے، نور کے امور نور سے، تجرید کے امور تجرید سے، تفرید کے امور تفرید سے اور حضوری کے امور حضوری سے طے ہوتے ہیں (طالبانِ مولیٰ کی ارواح سے متعلقہ تمام امور مرشد کامل اکمل کی روح سے منسلک ہو جانے سے مکمل ہوتے ہیں، اسی طرح طالب کا سرّ جب مرشد کے سرّ سے جڑ جاتا ہے تو سرّ سے متعلق امور مکمل ہوتے ہیں۔ طالب کو معرفت مرشد کی معرفت سے ملتی ہے، طالب مرشد کی توحید کے وسیلے سے توحید تک پہنچتا ہے، اس کے مشاہدے سے مشاہدہ حاصل کرتا ہے اور یونہی دیگر تمام امور کو قیاس کیا جا سکتا ہے۔ غرضیکہ مرشد کے بغیر طالب کا کوئی باطنی امر تکمیل نہیں پا سکتا۔ (عنبرین مغیث سروری قادری))۔ ایسا عالم فیض بخش، فاضل اور عارف فقیر ہوتا ہے جس کا مرتبہ اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ ( جب فقر مکمل ہوتا ہے وہی اللہ ہے۔ (حدیث)) ہوتا ہے۔ مرشد صاحبِ توحید ہوتا ہے یعنی قربِ ذاتِ الٰہی تک پہنچانے والا۔ جو مرشد ہر مقام درجہ بدرجہ طے کراتے ہوئے ہر مقام کی حقیقت نہیں کھولتا تو معلوم ہوا کہ وہ مرشد صاحبِ تقلید و صاحبِ ہوا ہے جو صرف طبقات تک پہنچانے والا ہوتا ہے۔ ایسا مرشد فقرِ محمدی سے بے خبر، دور اور ہوس پرست ہوتا ہے۔ بیت:
طالباں را بس بود ایں راہِ پند
راہِ مردان شد حضوری ہوش مند
ترجمہ: اس راہ پر چلنے والے طالبوں کے لیے بس یہی نصیحت کافی ہے کہ صرف مردانِ خدا کی راہ حضوری تک لے جاتی ہے جو ہوش مندی سے طے ہوتی ہے۔
طالبی و مرشدی کے مراتب آسان کام نہیں ہیں کیونکہ مرشدی و طالبی میں تجلیاتِ ذات کا مشاہدہ اور اللہ کی بارگاہ میں منظوری اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Majlis-e-Mohammadi saww) کی حضوری کے عظیم اسرار ہیں۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ حدیث:
کُلُّ بَاطِنٍ مُخَالِفٌ لِظَّاہِرِ فَھُوَ بَاطِلٌ
ترجمہ: ہر وہ باطن جو ظاہر کا مخالف ہو‘ وہ باطل ہے۔
بیت:
ذکر ہم دوری است در غرقِ نور
در نظر ِ نبویؐ شوی دائم حضور
ترجمہ: ذکر بھی دوری کا مرتبہ ہے تو نور میں غرق ہو جا تاکہ تو ہمیشہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حضوری میں ان کی نگاہ میں رہ سکے۔
اگر ولی اللہ عارف فقرا کو اللہ کی نعمت و رحمت کی بدولت باطن میں توفیقِ معرفت اور حق کی رفاقت سے یگانگت، اللہ کی معرفت کے مراتبِ عظمیٰ اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Majlis-e-Mohammadi saww) سے مشرف ہونے کی سعادتِ کبریٰ اور راہِ باطن پر چلنے والوں کے ظاہری و باطنی احوال کی حقیقت سے آگاہی حاصل نہ ہوتی تو راہِ باطن پر چلنے والے سب گمراہ ہو جاتے۔ اعمالِ ظاہر باطن (کی اصلاح) کے لیے ہیں نہ کہ اس دنیا میں وجودکی آسائش اور نفس کی لذت کے لیے۔ بیت:
ہر کرا از دل کشاید چشم نور
شد حضوری مصطفیؐ رست از غرور
ترجمہ: جس کے دل کی نوری آنکھ کھل جاتی ہے وہ غرور سے نجات حاصل کر کے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Majlis-e-Mohammadi saww) کی حضوری میں پہنچ جاتا ہے۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
نَحْنُ اَوْلِیَآئُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ ج وَ لَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَھِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَ لَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ۔ (سورۃ الفصلت۔31)
ترجمہ: ہم اس دنیا کی زندگی میں (بھی) تمہارے دوست اور مددگار ہیں اور آخرت میں (بھی) ہوں گے اور تمہارے لیے وہاں ہر وہ نعمت ہے جسے تمہارا جی چاہے اور تمہارے لیے وہاں وہ تمام چیزیں (حاضر) ہیں جو تم طلب کرو۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ فِیْھَا مَا تَشْتَہِیْہِ الْاَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْاَعْیُنُ ج وَ اَنْتُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ۔ (سورۃ الزخرف۔71)
ترجمہ: اور اس (جنت) میں وہ سب چیزیں (موجود) ہوں گی جن کو دل چاہیں گے اور (جن سے) آنکھیں راحت پائیں گی اور تم وہاں ہمیشہ رہو گے۔ (جاری ہے)
ہر کرا از دل کشاید چشم نور
شد حضوری مصطفیؐ رست از غرور