صراطِ مستقیم کسے کہتے ہیں؟ | Sirat-e-Mustaqeem kise kehte hain


Rate this post

صراطِ مستقیم کسے کہتے ہیں؟

Sirat-e-Mustaqeem kise kehte hain?

تحریر:فقیہہ صابر سروری قادری ۔ رائیونڈ

عربی لغت کے اعتبار سے صراط ایسے راستے کو کہتے ہیں جس کے گرد خطرات ہوں۔ شرعی اصطلاح میں حق کے راستے کو صراطِ مستقیم (Sirat-e-Mustaqeem) کہتے ہیں۔ درحقیقت یہ دنیا ایک پل صراط کی مانند ہے جس کے اردگرد شیطان نے اپنا جال بچھایا ہوا ہے اور وہ بنی آدم کو گمراہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ 

صراطِ مستقیم (Sirat-e-Mustaqeem) کی وضاحت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) نے اس طرح سے فرمائی ہے۔ سنن ابن ِماجہ کی روایت ہے حضرت جابر بن عبداللہؓ فرماتے ہیں:
 ہم آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) کے ساتھ تھے، آپ نے زمین پر ایک لکیر کھینچی، اس کی دائیں اور بائیں جانب دو دو لکیریں کھینچیں اور پھر اس کے بعد آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے درمیانی لکیر پر انگشت مبارک رکھی اور فرمایا یہ اللہ کا راستہ ہے۔

مسند امام احمد بن حنبلؒ میں ہے:
 ’’ آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) نے درمیانی لکیر پر انگلی رکھی اور فرمایا یہ صراطِ مستقیم (Sirat-e-Mustaqeem) ہے۔ یہ میرا راستہ ہے اور دائیں بائیں جانب جو راستے ہیں وہ شیطانی ہیں ان سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرو۔‘‘
صراطِ مستقیم پر چلنے کے لیے اور شیطانی راستوں سے بچنے کے لیے اللہ کی مدد اور توفیق کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ بندہ ازخود صراطِ مستقیم  (Sirat-e-Mustaqeem)پر نہیں چل سکتا البتہ اس کی طلب کرنا بندے کے اختیار میں ہے اور اسی طلب کا اللہ تعالیٰ حکم دے رہا ہے۔ 
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ (سورۃ الفاتحہ۔5)
ترجمہ: ہمیں سیدھے راستے چلا۔
اللہ یہ بھی فرماتا ہے ’’مجھ سے مانگو میں تمہیں عطا کروں گا۔‘‘ اللہ ربّ العزت یہ راہ ان کو عطا کرتا ہے جو خلوص سے صراطِ مستقیم  (Sirat-e-Mustaqeem)پر چلنے کی طلب رکھتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
 جو ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہم انہیں خود تک پہنچنے کا راستہ (صراطِ مستقیم)(Sirat-e-Mustaqeem) دکھا دیتے ہیں۔ (سورۃ العنکبوت۔69)
اس آیتِ کریمہ سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کوشش کرنے والوں کی مدد کرتا ہے اور ان کی طلب کو پورا کرتا ہے۔ اب یہ بندے پر منحصر ہے کہ وہ کسی چیز کی کتنی شدت سے طلب کرتا ہے۔
علامہ ابنِ عربیؒ فرماتے ہیں
حق تعالیٰ نے جو کچھ ہمارے لیے حکم فرما دیا ہے وہ ہمارے عیانِ ثابتہ کے تقاضا کی وجہ سے ہے بلکہ علمِ الٰہی میں ہم خود ہی اپنے اوپر حکم کرنے والے ہیں کیونکہ عالم کو علم معلوم ہی نے عطا کیا ہے۔ ہماری استعدادات نے زبانِ حال سے جو مانگا حق تعالیٰ جوادِ حقیقی نے عطا کر دیا۔ اگر کسی نے زہر مانگا تو عطا کر دیا، تریاق مانگا تو عطا کر دیا، کفر مانگا تو عطا کر دیا، اسلام مانگا تو عطا کر دیا۔ جوادِ حقیقی ربّ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہی عطا ہے۔ مانگنے والے ہم خود ہیں گویا ہم خود ہی اپنی استعداد کے مطابق حکم کر رہے ہیں اس لیے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے فَلِلّٰہِ الْحَجَّۃُ الْبَالِغَۃُ (سورۃ الانعام۔149) یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے حجت بالغہ ہے۔ (فصوص الحکم)
روزِ حشر کوئی بندہ اللہ سے شکوہ نہیں کر سکے گا، اللہ بندے پر حقیقت کھول دے گا کہ اللہ سے قرب یا دوری اس کی اپنی طلب کی وجہ سے ہے۔

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
 تقدیر میں انسان کے ہاتھ میں سوائے اس کے کچھ نہیں کہ وہ اللہ تک پہنچنے کی تگ و دو کرے اور اس کو پا لے۔ (سلطان العاشقین)
جو لوگ اللہ کی مدد سے صراطَ مستقیم (Sirat-e-Mustaqeem) پر چلتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر اپنا فضل و کرم فرماتا ہے یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ کا قرب پا کرانعام یافتہ کہلائے۔

انعام یافتہ گروہ

قرآنِ مجید میں چار انعام یافتہ گروہوں کا ذکر آیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
 اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (Prophet Hazrat Mohammad saww) کی اطاعت کرتے ہیں وہ قیامت کے روز ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام  کیا۔ یعنی انبیا اور صدیقین، شہدا اور صالحین اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے۔ (سورۃ النسا۔69)

اس آیتِ کریمہ میں جن چار گروہوں کا ذکر ہوا ہے ان میں اوّل گروہ تو انبیا کا ہے جو ہر صورت میں انعام یافتہ ہیں اب چونکہ انبیا کا دور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) کے بعد ختم ہو گیا ہے تو پھر اب ہدایت کا ذریعہ کون سے لوگ ہیں ؟ کن کی پیروی کی جائے؟
و ہ لوگ صدیقین، شہدا اور صالحین ہیں جو انعام یافتہ لوگ ہیں ان کا راستہ اللہ کا راستہ ہے۔
سید حامد سعید کاظمیؒ صدیقین، شہدا اور صالحین کو لفظ ولی کامل سے تعبیر کرتے ہیں۔ ولی کامل ان تینوں صفات کا حامل ہوتا ہے۔

صدیقین:

ولیٗٔ کامل صدق والا اور راست گو ہوتا ہے۔ صداقت کے نور سے اس کا دل شیشہ کی طرح صاف ہوتا ہے اور یہ تصدیق بالقلب کے مرتبے پر فائز ہوتا ہے۔ 

شہدا:

راہِ حق میں جان قربان کرنے والے کو شہید کہتے ہیں اور راہِ حق پر چلتے ہوئے جو اس فانی دنیا سے کوچ کرتا ہے اس کو بھی شہید کہتے ہیں۔ ولیٔ کامل کی ساری زندگی راہِ حق پر گزرتی ہے جتنی بھی رکاوٹیں اور مشکلیں اس کو درپیش ہوں وہ پیغامِ حق کا نعرہ بلند کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ 

صالحین:

اولیا اور فقرا ہی صالحین ہیں ان سے محبت درحقیقت اللہ سے محبت ہے کیونکہ ان کے سینے عشقِ حقیقی سے لبریز ہیں۔

مرآۃ العارفین میں ہے:
 یہی وہ لوگ ہیں جن کی اپنی ذات عشقِ الٰہی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Ishq e Rasool Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) کی تپش سے فنا ہو چکی ہے اور جو اپنی اصل حقیقتِ محمدیہ (Haqeeqat-e-Mohammadia) یعنی وحدت تک پہنچ چکے اور اب نورِ محمد (Noor-e-Mohammad) ہی ان کی اصل حقیقت ہے۔
کچھ لوگ فقرا اور اولیا کاملین کے راستے کو انبیا کے راستے سے جدا سمجھتے ہوئے ان کی اتباع کا انکار کرتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ فقرا کاملین کا راستہ ہی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) کا راستہ ہے اور ان کی اتباع کا حکم قرآنِ مجید میں آیا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
 اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اس کی جو تم میں صاحبِ امر ہو۔ (سورۃ النسا۔ 59)

اس آیتِ کریمہ میں ’’صاحبِ امر‘‘ سے مراد فقرا کاملین ہیں جن کی اطاعت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) کی اطاعت ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اطاعت اللہ ربّ العزت کی اطاعت ہے۔ یہ صاحبِ امر آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) کے نائب ہیں۔ ان کی پیروی فرض ہے۔

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’جان لو! میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔‘‘ صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! پھر کون ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’میرے خلفاہوں گے اور پھر ان کے خلفا ہوں گے۔ سو جسے تم سیدھے راستے پر پاؤ اس کے ساتھ بیعت (عہد وفا) نبھاؤ اور جو سیدھی راہ پر نہ رہیں انہیں ان کا حق دے دو اور اپنا حق اللہ سے مانگو۔‘‘ (ابن راوایہ فی المسند۔658)

سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
 تمہارے درمیان صورتاً کوئی نبی موجود نہیں ہے تاکہ تم اس کی اتباع کرو۔ پس جب تم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) کے متبعین کی اتباع کرو گے جو کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) کی حقیقی اتباع کرنے والے اور اتباع میں ثابت قدم تھے تو گویا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet  Mohammad saww) کی اتباع کی۔ جب تم ان کی زیارت کرو گے تو گویا تم نے آقا پاک علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی زیارت کی۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 14)

جو چاہتا ہے صراطِ مستقیم (Sirat-e-Mustaqeem) پر چلے وہ فقرا اور اولیا کاملین کے دامن سے وابستہ ہو کر ان کے نقشِ قدم پر چلے۔ ان انعام یافتہ لوگوں کا نقشِ قدم ہی صراطِ مستقیم ہے۔
بہت سے لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ مال، اولاد، صحت، شہرت وغیرہ اللہ کا انعام ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ سب تو اللہ کی اپنی مخلوق پر رحمت ہے۔ یہ سب نعمتیں تو اللہ تعالیٰ انہیں بھی عطا کرتا ہے جو اس پر ایمان نہیں رکھتے یا اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں۔ اللہ کا اصل انعام تو اس کی معرفت، قرب اور دیدار ہے۔ یہ خاص انعام ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ سے عشق کرتے ہیں، جن کے قلب نورِ الٰہی سے منور ہیں، جن پر اللہ کا رنگ چڑھ چکا ہے اور وہ اپنی ذات کو فنا کر کے فنا فی اللہ بقا باللہ کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز ہیں۔ انہی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کو دیکھا تو گویا اللہ کو دیکھا، ان کو کھلایا پلایا تو گویا اللہ کو کھلایا پلایا، جو ان کی صحبت میں بیٹھا اس نے اللہ کی صحبت اختیار کی۔ یہی وہ لوگ ہیں جو قلوب کو منور کرتے ہیں، جن کی کوئی سانس اللہ کے ذکر سے غافل نہیں۔ یہی وہ رسی ہے جس کو تھامنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔

حاصل تحریر:

صراطِ مستقیم (Sirat-e-Mustaqeem) پر چلنے کے لیے مرشد کامل سے نسبت کا ہونا ضروری ہے۔ صراطِ مستقیم (Sirat-e-Mustaqeem) اللہ کی معرفت اور قرب کا راستہ ہے جو کہ فقرا کاملین کی صحبت میں حاصل ہوتا ہے۔ مر شد کامل اکمل کا ملنا ہی حقیقت میں اللہ کی مدد ہے۔

اندرین عالم نیرزی باخسے
تا نی آویزی بہ دامانِ کسے

ترجمہ:اس جہان میں تیری قیمت ایک تنکے کے برابر نہیں جب تک تو کسی مردِ کامل (مرشدکامل اکمل) کے دامن سے وابستہ ہو کر زندگی نہ گزارے۔ (رومیؒ)

مرشدکامل اکمل کی اتباع ہی فلاح کی ضمانت ہے کیونکہ راہبر کے بغیر کسی بھی راستے پر چلنا گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔ موجودہ دور کے مجددِ دین سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman)ایک فقیر ِ کامل کی حیثیت سے موجود ہیں۔ جو بھی صراطِ مستقیم (Sirat-e-Mustaqeem) کو پانا چاہتا ہے وہ جان لے کہ ان کی بارگاہ کے علاوہ اور کوئی سچا راستہ نہیں ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس بغیر کسی ریاضت و مشقت کے بیعت کے پہلے ہی روز اسم ِاللہ ذات کا فیض عطا فرماتے ہیں۔ مخلوقِ خدا کے لیے دعوتِ عام ہے کہ وہ آئیں اور آپ مدظلہ الاقدس سے نسبت جوڑ کر انعام یافتہ گروہ میں شامل ہو جائیں۔ اللہ پاک ہمیں صراطِ مستقیم (Sirat-e-Mustaqeem) پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

استفادہ کتب:

۱۔الفتح الربانی؛ تصنیف سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ
۲۔فصوص الحکم ؛ تصنیف  علامہ محی الدین ابن ِ عربیؒ
مرشدکامل اکمل؛ تصنیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman)
مرآۃ العارفین؛ تصنیف  سیّد الشہدا حضرت امام حسین ؓ، ترجمہ و شرح مسز عنبرین مغیث سروری قادری

 
  

اپنا تبصرہ بھیجیں