فضول گوئی کے نقصانات Fuzuul Goii Kay Nuqsanaat


4.8/5 - (33 votes)

فضول گوئی کے نقصانات۔  Fuzuul Goii Kay Nuqsanaat

تحریر: فقیہہ صابر سروری قادری

’’فضول گوئی کے نقصانات‘‘           بلاگ آڈیو میں سسنے کے لیے اس ⇐   لنک⇒   پر کلک کریں

اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین اسلام ہے۔ دینِ اسلام اپنے ماننے والوں کے گھر اور معاشرے کو آسودہ اور پرُمسرت دیکھنا چاہتا ہے۔ اسلام میں جہاں محبت و اخوت اور احترام و عزت کے جذبے دلوں میں پیدا کرنے کی تعلیم دی گئی ہے، وہیں مسلمانوں کو ایسی تمام باتوں سے رکنے کا بھی حکم دیا گیا ہے جن کے باعث معاشرے کا امن و سکون برباد ہونے کا خدشہ ہو اور محبت و پیار کے رشتے منقطع ہو جاتے ہوں۔ قرآن و حدیث میں زبان کی حفاظت کی بہت تاکید کی گئی ہے کیونکہ اعضائے بدنیہ میں سے زبان ہی وہ عضو ہے جس سے سب سے زیادہ گناہ سرزد ہوتے ہیں۔ زبان کے گناہوںسے بچنا بہت مشکل ہے اور اس کے فسادات بھی دوسرے گناہوں سے زیادہ ہیں اس لیے زبان کی حفاظت انتہائی ضروری ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے کامیاب مومنین کی جو صفات بتائی ہیں ان میں سے ایک صفت فضول اور لغو باتوں سے پرہیز کرنا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ الَّذِینَ ہُم عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ    (سورۃ المومنون۔3)
ترجمہ: اور جو (مومنین) لغویات (بے ہودہ باتو ں) سے منہ موڑنے والے ہیں۔

مومن بے ہودہ باتوں اور بے مقصد کاموں سے اجتناب کرتے ہیں۔ بولنے میں زبان اہم کردار ادا کرتی ہے۔جس کی زبان درست ہو اُس کے تمام اعمال اصلاح یافتہ ہوجائیں گے اور جس کی زبان میں خرابی ہو اُس کے تمام اعمال میں خرابی ظاہر ہوگی۔ جو شخص اپنی زبان کو کھلی چھٹی دے دیتاہے تو اُسے ہلاکت کے کنارے پر لے جاتا ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
آدمی زبان کی بے باکیوں کی وجہ سے اوندھے منہ یانتھنوں کے بل جہنم میں گرائے جائیں گے۔ (جامع ترمذی 2616) 

زبان کی آفات بیشمار ہیں مثلاً خطا، جھوٹ، غیبت، چغلی، ریاکاری، منافقت، فحش کلامی، جھگڑا اور خود سرائی وغیرہ۔ یہ وہ برے اعمال ہیں جن کا تعلق براہِ راست زبان سے ہے۔امام غزالیؒ نے ’’احیاء العلوم‘‘ میں زبان کی بیس آفات بیان کی ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

 1۔ بے مقصد گفتگو اور فضول کلام

ایسی گفتگو جس کی حاجت ہو اور نہ ہی اس سے کسی کو فائدہ حاصل ہو بے مقصدگفتگو کہلاتی ہے۔جبکہ وہ کلام جو فائدہ مند تو ہو لیکن بلاضرورت ہو فضول کلام کہلاتا ہے۔ جو شخص فضول گوئی سے بچتا ہے اس کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْئِ تَرْکُہُ مَا لَایَعْنِیْہِ (سنن ابن ِماجہ۔ 3976)
ترجمہ: کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ جس بات کا تعلق اس سے نہ ہو اُسے چھوڑ دے۔

حضرت ابراہیم تیمی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جب مومن بات کرنا چاہتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اگر فائدہ ہو تو بات کرتا ہے ورنہ خاموش رہتاہے اور فاجر کی زبان خوب چلتی ہے۔ وہ جو منہ میں آتا ہے کہہ دیتا ہے۔
 انہوں نے یہ بھی فرمایا’’دو چیزیں آدمی کو ہلاک کرتی ہیں زائد مال اور فضول کلام۔‘‘
حضرت حسن رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جس شخص کی گفتگو زیادہ ہو اس کا جھوٹ بھی زیادہ ہوتا ہے۔

 2۔ باطل اُمور میں مشغولیت

بے فائدہ گفتگو کی بھرمار، خلافِ شرع ممنوع باتوں میں مشغولیت، بدعات اور مذاہب ِفاسدہ کا ذکر مثلاً عورتوں کے حالات، شراب کی مجالس، بدکاری کی مجالس، لوگوں کی عیاشی، مذموم رسوم اور ناپسندیدہ حالات کا ذکر کرنا یہ تمام باتیں امورِ باطل میں شامل ہیں۔ 

حضرت معاویہ بہزیؓ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
اس شخص کے لئے ہلاکت ہے جو لوگوں کے سامنے انہیں ہنسانے کے لئے جھوٹی باتیں کہتا ہے، اس کے لئے ہلاکت ہے، اس کے لئے ہلاکت ہے۔(مسند احمد۔19174)
اللہ تعالیٰ بیہودہ اور فحش گوئی کو پسند نہیں فرماتا۔(مسند احمد۔ 16964)

3۔ خصومت (جھگڑا کرنا)

دوسروں کے کلام پر طعن و تشنیع کرنا، ان کے کام پر اعتراض کرنا، ارادے میں خلل ڈالنا، دوسروں کی تحقیر اور اپنی فضیلت ظاہر کرنا اور اپنے کلام پر ڈٹ جانا’’ خصومت ‘‘کہلاتاہے۔ ایک متفق علیہ حدیثِ مبارکہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کو سب سے ناپسند وہ شخص ہے جو بہت جھگڑالو ہو۔ (صحیح بخاری۔2457)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان مبارک ہے:
لوگوں میں سب سے برا شخص اللہ کے نزدیک قیامت کے دن وہ ہوگا جس سے لوگوں نے اس کی فحش کلامی سے بچنے کے لیے علیحدگی اختیار کرلی ہو یا اُسے چھوڑ دیا ہو۔ (سنن ابوداؤد۔4791) 

 زبان کی یہ آفت انسان کو ہلاک کرنے والی ہے اور اس کا علاج یہ ہے کہ انسان دل سے تکبر ختم کر دے، دوسروں پر اپنی فضیلت ظاہر کرنا، دوسروں کو کمتر سمجھنا چھوڑ دے اور ایسی عادات کا خاتمہ کر دے جو دوسروں کی عیب جوئی کا باعث بنیں کیونکہ ہر بیماری کا علاج اس کے سبب کو دور کرنے سے ہوتا ہے۔

 4۔ پرُ تکلف کلام کرنا

منہ کھول کر بے تکلف مسجعَّ(وہ مضمون یا عبارت جس میں قافیہ کا اہتمام ہو۔) و مرصَّع  (خوش بیانی سے آراستہ) اور فصاحت سے بھرپور کلام کرنا اور اس میں مبالغہ آرائی و تصنع (بناوٹ، دکھلاوا) کے لئے مقدمات اور تمہیدات شامل کرنا، جیسا کہ عام خود ساختہ فصاحت کے دعویدار اور خطابت کے مدعی لوگوں کی عادت ہے،یہ تمام باتیں مذموم تصنع سے تعلق رکھتی ہیں اور یہ ایسا تکلف ہے جو غضب کو دعوت دیتا ہے۔

 حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
میرے نزدیک تم میں سب سے زیادہ محبوب اور آخرت میں مجھ سے سب سے زیادہ قریب اچھے اخلاق والے ہوں گے اور میرے نزدیک تم میں سب سے زیادہ مبغوض اور آخرت میں مجھ سے سب سے زیادہ دور بداخلاق، بیہودہ گو، پھیلا کر لمبی بات کرنے والے اور جبڑا کھول کر بتکلف بولنے والے ہوں گے۔(مسند احمد۔ 17884)

5۔ بدکلامی اور گالی گلوچ

اس سے مراد ایسی بات ظاہر کرنا ہے جس کے بیان سے انسان شرم و ندامت محسوس کرتا ہے۔ بدکلامی اور گالی گلوچ کی بنیاد باطنی اور ظاہری کمینگی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ نے ارشاد فرمایا:
 مومن طعن وتشنیع کرنے والا، لعن طعن کرنے والا، فحش کلامی اور بد کلامی کرنے والا نہیں ہوتا۔ (ابنِ ابی شیبہ۔30973)

ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا:
اَلْجَنَّۃُ حَرَامٌ عَلٰی کُلِّ فَاحِشٍ اَنْ یَّدْخُلَہَا 
ترجمہ: ہر فحش کلام کرنے والے پر جنت کا داخلہ حرام ہے۔

حضرت ابراہیم بن میسرہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
قیامت کے دن فحش کلام اور بیہودہ بکنے والے کو کتے کی صورت میں یا کتے کے پیٹ میں لایا جائے گا۔ (احیاء العلوم الدین۔ جلد سوم)

فحش کلامی کا سبب مخاطب کو ایذا پہنچانا ہوتا ہے۔ بدکلامی اور گالی گلوچ فاسق لوگوں کی عادت بن جاتی ہے لہٰذا ان لوگوں کی صحبت سے بچنا چاہئے۔ جو شخص زبان کو کھلی چھوٹ دے دے تووہ اس کی آفات سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اگر خاموشی اختیار کرے تو وہ ان تمام آفات و بلیات سے محفوظ رہ سکتا ہے۔روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
حیا اور کم گوئی ایمان کی دو شاخیں ہیں جبکہ فحش کلامی اور کثرتِ کلام نفاق کی دو شاخیں ہیں۔(جامع ترمذی۔ 2027)

حیا اور کم گوئی کے سبب انسان بہت سے گناہوں سے بچ جاتا ہے۔ یہ دونوں خصلتیں انسان کو بہت سے گناہوں کے ارتکاب سے روک دیتی ہیں جبکہ فضول گوئی سے انسان جھوٹ کا بھی ارتکاب کر بیٹھتا ہے اور جو دل میں ہو اُس کے خلاف بھی بول پڑتاہے، یہی نفاق ہے۔ وہ کلام جس میں نہ نفع ہو نہ نقصان تو ظاہر ہے کہ اس میں زبان کو مشغول کرنا محض وقت ضائع کرنا ہے۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
جو شخص خاموش رہا اس نے نجات پائی۔ (جامع ترمذی۔ 2501)

مطلب یہ ہے کہ چپ رہ کر اور زبان کو بری باتوں سے محفوظ رکھ کر دنیا کی بہت سی آفتوں سے نجات مل جاتی ہے اور دینی و اُخروی طور پر بھی بہت سی بلاؤں اور نقصانات سے نجات حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ انسان عام طور پر جن بلاؤں اور آفتوں میں مبتلا ہوتا ہے ان میں سے اکثر زبان ہی کے ذریعہ سے پہنچتی ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے: 
’’زبان کی جسامت تو چھوٹی ہے مگر اس کے گناہ بہت بڑے ہیں۔‘‘

اسلام میں خاموشی کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ خود اچھا عمل ہے تو جو اس عمل کو اختیار کرے گا یقینا وہ مزیدکئی اچھے اعمال سرانجام دے سکے گا۔ خاموش رہنا تو ایک طرح سے سوچنا ہی ہے اور کائناتِ خداوندی میں غور و فکر کرنا بھی بڑا پسندیدہ عمل ہے۔قرآنِ مجید میں ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:
اَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ قف مَا خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ اَجَلٍ مُّسَمًّی ط وَ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَآیِٔ رَبِّھِمْ لَکٰفِرُوْنَ۔ (سورۃ روم ۔8)

ترجمہ: کیا انہوں نے اپنے اندرکبھی غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے پیدا نہیں فرمایامگر (نظامِ) حق اور مقررہ مدت (کے دورانیے)کے ساتھ،اور بے شک اکثر لوگ لقائے الٰہی(دیدارِ الٰہی) کے منکرہیں۔ 

اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک نے دعوتِ غور و فکر دی ہے کہ اپنے اندر تفکر اور غور و فکر کرو اور آسمانوں اور زمین میں کہ ان کے اندر جو کچھ پیدا فرمایا گیا ہے وہ حق ہے اور مقررہ مدت تک کے لیے ہے۔

فضول گوئی سے بچ کر اور خاموش رہنے سے ہی تفکر جیسی عظیم نعمت حاصل ہوتی ہے۔ارشادِ نبویؐ ہے:
گھڑی بھر کا تفکرّ دونوں جہان کی عبادت سے بہتر ہے۔

 ایک اورمقام پر ارشاد فرمایا:
گھڑی بھر کا تفکرّ سترّ برس کی عبادت سے بہتر ہے۔

ہم کائناتِ خداوندی میں تفکر و تدبر اسی صورت میں کرسکتے ہیں جب ہم لغو اور فضول گوئی کی بجائے خاموشی کو اپنائیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ چپ رہنے اور خاموشی اختیار کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی بالکل نہ بولے بلکہ مراد یہ ہے کہ انسان ضرورت کی بات کرے اور لایعنی باتوں سے پرہیز کرے۔ اسی لیے تو فرمایا گیا ’’برُی بات کرنے سے چپ رہنا سنجیدگی کی علامت ہے اور اچھی بات کہنا چپ رہنے سے بہتر ہے۔‘‘

حضرت ابوذرؓ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! مجھے کوئی نصیحت فرمائیے۔ آپؐ نے فرمایا:
’’طویل خاموشی کو اپنے اوپر لازم کرو کیونکہ خاموشی شیطان کو دور بھگاتی ہے اور دینی امور میں تمہاری مددگار ہوتی ہے یعنی خاموشی پر مداومت اختیار کرنے کی وجہ سے تمہیں اللہ کی نعمتوں میں غور وفکر کرنے کا زیادہ سے زیادہ موقع نصیب ہوگا۔ علاوہ ازیں خاموشی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ تم اپنے آپ کو شیطان کی فتنہ خیزیوں سے محفوظ رکھ سکو گے جو زبان کے راستہ سے عملی زندگی میں سرایت کرتا ہے اور دنیا و آخرت کے زبردست نقصان میں مبتلا کر دیتا ہے۔ دوسرے یہ کہ خاموشی تمہاری دینی و اُخروی بھلائی و سعادت کی ضامن بھی بنے گی کیونکہ جب وہ تمہیں زبان کی آفتوں سے محفوظ و سلامت رکھ کر تمہارے دل کو اللہ کی طرف متوجہ رکھے گی تو یہ چیز ذکرِخفی کے سبب سے تمہارے حق میں علوم و معارف اور نورانیتِ قلب کے حصول کا موجب ہوگی۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح۔ 4765)

اسلاف کرامؒ کی زندگیوں کے مطالعہ سے ہمیں درس حاصل کرنا چاہیے کہ انہوں نے کس طرح حفاظتِ زبان کا خیال رکھا، فضول و لایعنی باتوں سے اپنے آپ کو بچایا اورعوام الناس کو بھی اسی کا درس دیا۔ ہمارے اسلاف نے حفاظتِ زبان کے بارے میں جو مثالی نمونے پیش فرمائے ہیں وہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں، اگر ان کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے فضول باتوں سے حفاظتِ زبان کو ہمیشہ اپنا شیوہ رکھا۔

سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ فرماتے ہیں:
اے لوگو! بیہودہ آرزوؤں اور حرص کو چھوڑ دو، اللہ کی یاد میں لگ جاؤ، فائدہ دینے والوں سے بات کرو، نقصان دینے والوں سے چپ رہو، جب بات کرنا چاہو تو پہلے اس میں سوچ بچار کر لو، پھر نیک نیتی کے ساتھ بات کیاکرو، اسی لیے کہا گیا ہے کہ جاہل کی زبان اس کے دل کے آگے ہے اور عاقل و عالم کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہے۔ تو چپ سادھ لے۔ اللہ تعالیٰ جب تجھے بلوانا چاہے گا تو بلوائے گا۔ تجھ سے کام لینا چاہے گا تو اس کے لیے تجھے تیار کر دے گا۔ اس کی معیت اور محبت کے لیے گونگا ہونا شرط ہے۔ جب گونگائی کامل ہو جائے اللہ چاہے توگویائی مل جائے گی اور اگر وہ چاہے تو آخرت تک گونگا ہی رکھے۔ (الفتح الرّبانی)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے درج ذیل ارشاد کا یہی مطلب ہے:
مَنْ عَرَفَ رَبَّہٗ فَقَدْ کَلَّ لِسَانُہٗ 
ترجمہ: جو اپنے ربّ کو پہچان لیتا ہے تحقیق اس کی زبان گونگی ہو جاتی ہے۔

یعنی ہر چیز میں اللہ پر اعتراض کرنے سے اس کے ظاہر و باطن کی زبان بند ہو جاتی ہے۔ جھگڑے کے بغیر وہ ہر کام میں موافق ہو جاتا ہے، ہر حال میں اللہ کی رضا پر راضی رہتا ہے۔

 سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کا فرمان مبارک ہے:
 بہت زیادہ بولنااور بے معنی کلام رجعت کا پیش خیمہ ہے۔ ناقص کے پاس نہ معرفت کی حکمت ہے اور نہ حکمِ حضوری اور قربِ الٰہی۔  (قربِ دیدار)

فرمانِ باھوُ رحمتہ اللہ علیہ ہے:

ہر کہ گوید غیر او شد خر آواز
خاموشی خلوت خانہ شد حق براز

ترجمہ: جو شخص غیر اللہ کے بارے میں گفتگو کرتا ہے اس کی آواز گدھے کی مثل ہے۔ تنہائی کے گوشے میں لب بستہ ہونا اللہ کے ساتھ راز داری ہے۔

سر ز تن گردد جدا سخنش مگو
عارفان ہمسخن باحق گفتگو

ترجمہ: عارفوں کا سر تن سے جدا بھی کر دیا جائے تب بھی وہ غیر اللہ کے بارے میں گفتگو نہیں کرتے۔ وہ حق تعالیٰ کے ساتھ ہم سخن رہتے ہیں اور اسی کے متعلق گفتگو کرتے ہیں۔ (قربِ دیدار)
لہٰذا بہترہے کہ اگر ظاہر و باطن میں گفتگو ہو توصرف اور صرف اللہ کے بارے میں ورنہ مکمل خاموشی اختیار کی جائے۔ 

حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اپنی زبان کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔

جو شخص بلاوجہ بولتا اور بحث کرتا ہے ،کثرتِ کلام کی وجہ سے بعض اوقات اس کے منہ سے ایسی باتیں نکل جاتی ہیں جو اس کو اللہ کے سامنے گنہگار اور مخلوق کے سامنے بے عزت کرواتی ہیں۔

حضرت شیخ سعدیؒ ایک درویش کا قصّہ بیان کرتے ہیں جو خاموش رہتا تھا۔ لوگ اس کی خاموشی کی بدولت اسے درویش جانتے تھے ۔ پھر اس نے غرور کیا اور لوگوں کے ہجوم کو اپنا کمال جانا۔ پھر جب اس نے چپ کا روزہ توڑا اور گفتگو کی تو لوگوں نے اس کی گفتگو سے اندازہ لگایا کہ یہ جاہل ہے اور اگر وہ واقعی درویش ہوتا تو یقینا حکمت و دانائی کی باتیں کرتا اور لوگوں کے اس ہجوم کو اپنا کمال جاننے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی عطا جانتا۔

پس خاموش رہنا تمام بھلائیوں کی جڑ ہے اور داناؤں کا قول ہے:
جو شخص کم سوتا،کم کھاتا اور کم بولتا ہے وہ بیشمار برائیوں سے محفوظ رہتا ہے۔
خاموشی ایک ایسی شے ہے جو تیری جہالت کو چھپاتی ہے۔ (حکایاتِ سعدیؒ)

خاموشی کی اقسام

حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
خاموشی مختلف قسم کی ہوتی ہے بعض مردہ دل والوں کی خاموشی مکرو فریب اور تقلید کی غرض سے ہوتی ہے اور بعض کی خاموشی  معرفت اِلَّا اللّٰہ اور توحید کی بدولت ہوتی ہے۔ (کلید التوحید کلاں)

آپؒ مزید فرماتے ہیں:
 خاموشی کی چار قسمیں ہیں:پہلی قسم کی خاموشی اہلِ دنیا، متکبر اور ظالم لوگوں کی ہے جو تکبر اور نفسانی خواہشات کی وجہ سے غریب، عاجز، مظلوم، مسکین اور فقیروں سے ہمکلام نہیں ہوتے۔ خاموشی کی دوسری قسم وہ لوگ اختیار کرتے ہیں جن کا مقصد اپنے عیبوں کو چھپانا ہوتا ہے۔ وہ خاموشی کی آڑ میں خود فروشی اور دکانداری کرتے ہیں۔ ایسے دکاندار ظاہر میں جمعیت سے آراستہ نظر آتے ہیں لیکن ان کا باطن معرفت سے محروم اور پریشان حال ہوتا ہے۔ ان کی درویشی سراسر مکر و فریب ہوتی ہے۔ جان لو کہ ان کی خاموشی، حلیمی، سلیمی اور علم درحقیقت لوگوں کو پھانسنے کا جال ہے اور ازروئے تکبر ہوتی ہے۔ تیسری قسم کی خاموشی ان لوگوں کی ہے جن کا قلب تفکر، ذکر، فکر، مراقبہ اور اللہ کی جانب متوجہ رہنے سے زندہ ہو جاتا ہے۔ یہ وہ قلب ہے جو اللہ سے پیوست ہے وہ اپنے قلب سے الہام اور روزِ الست کے کن فیکون کے پیغام حاصل کرتے ہیں ان کی خاموشی اس وجہ سے ہے کہ ان کی آنکھیں عین العیان دیدار میں مست ہیں اور وہ قربِ رحمن میں جڑے ہوتے ہیں۔ چہارم خاموشی ان لوگوں کی ہے جن کی جان بے حجاب دیدار کی وجہ سے کباب ہو گئی ہے اور وہ خونِ جگر پیتے ہیں۔ یہ لوگ نفس، دنیا اور شیطان کو فراموش کر کے معرفتِ الٰہیہ میں محو رہتے ہیں۔ جو طالب توحیدِالٰہی میں غرق اور نورِ ذات کے دیدار سے مشرف ہوتا ہے اس کے لیے اس طرح کی خاموشی فرضِ عین ہے اور اس کی یہ خاموشی اللہ کے ساتھ خلوت ہوتی ہے۔ بہت زیادہ بولنا اور بے معنی کلام رجعت کا پیش خیمہ ہے۔ (قربِ دیدار)

ظاہری خاموشی کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو کہ بظاہر تو اتنی خطرناک نہیں لیکن باطنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ طالب بظاہر خاموش ہے، باطن میں بھی نہ تو مرشد پاک کے خلاف ہے اور نہ ہی مغرور ہے لیکن اس کی سوچوں کا رُخ مسلسل دنیا اور دنیاوی معاملات کی طرف ہے۔ اگر باطن میں اللہ سے گفتگو کر بھی رہا ہے تو صرف دنیاوی معاملات کے متعلق اور دنیا کے گلے شکوے چل رہے ہیں یا پھر دنیاوی خواہشات کاذکر۔ ایسی خاموشی سے بچنا بھی نہایت ضروری ہے۔

انسان کی زندگی میں کچھ مقامات ایسے بھی آتے ہیں جہاں خاموشی اختیار کرنا گناہِ عظیم بن جاتا ہے جیسا کہ کسی محفل میں ناحق بات کی جا رہی ہو یا شریعت کی خلاف ورزی ہو تو ایسے موقعوں پر حق بات نہ کہنا غلط ہو گا۔ جیسا کہ حدیثِ مبارکہ ہے:
جو حق بات کہنے سے رُکا وہ گونگا شیطان ہے۔

حضرت بایزید بسطامیؒ فرماتے ہیں :
راہِ طریقت پر چلنے والے سالک کو چاہیے کہ بے ضرورت گھر سے نہ نکلے اور بلاوجہ لوگوں میں نشست و برخاست نہ رکھے۔ ہاں مجلسِ اولیا میں جائے مگر وہاں بھی فضول گفتگو نہ کرے۔ پھر دیکھیے کہ اس کی عبادت کیا رنگ لاتی ہے اور اس کا ضمیر کس قدر روشن و منوّر ہو جاتا ہے۔

فقر کا تعلق اللہ اور انسان کے باطنی رشتے سے ہے۔ اس تعلق کو مضبوط کر نے کے لیے فضول گوئی سے بچنا اور سکوت اختیار کرنا لازم ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ سکوت اختیار کرنا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ انسان بے جا گفتگو کی وجہ سے جن اخلاقی و باطنی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے ان سے بچا جائے مثلاً جھوٹ، غیبت، چغلی، گلہ گوئی اور بہتان وغیرہ۔ یہ تمام بیماریاں باطنی سفر میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔

ایک انسان جب تک ظاہری خاموشی اختیار نہیں کر لیتا اس وقت تک سانسوں کے ساتھ ذکرِاسمِ اللہ ذات (ذکرِ پاس انفاس) نہیں کر سکتا اور نہ ہی اپنی ذات کے اندر غور و فکر کر سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں معرفتِ الٰہی حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
 اللہ کی ذات انسان میں بیج کی مانند ہے۔ یہ بیج اسمِ اللہ ذات کے پانی سے پھلتا پھولتا ہے۔ (سلطان العاشقین)

پس جو یہ چاہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ کا مشاہدہ اپنے باطن میں کرے اسے چاہیے کہ اسمِ اللہ ذات کا ذاکر بن جائے اور اس کے لیے خاموشی اختیار کرے۔ کیونکہ جتنا پانی دیں گے پودا اتنا ہی تناور ہوتا جائے گا۔

پس بہتر ہے کہ ظاہری زبان کوبند کیا جائے اور خاموشی و خلوت اختیار کی جائے تا کہ اسمِ اللہ ذات کا ذکر کر کے اپنے باطن کو آباد کرے اور جیسے ہی باطن آباد ہو یعنی ذاتِ باری تعالیٰ کا ظہور ہو اور باطن میں اللہ سے کلام کا آغاز ہو تو باطن میں بھی دنیاوی سوچوں سے پرہیز کرے اور مکمل سکوت اختیار کرے تا کہ اللہ تعالیٰ کی بات کو بہتر طریقے سے سمجھ سکے۔
حضرت طاؤس رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میری زبان ایک درندہ ہے اگر میں اسے کھلا چھوڑوں تو وہ مجھے کھا لے۔ (احیاء العلوم)
یونانی دانشور بقراط نے ایک شخص کو بہت زیادہ بولتے سنا تو کہا ’’اے فلاں! اللہ عزو جل نے انسان کے لیے زبان ایک اور کان دو بنائے ہیں تا کہ بولے کم اور سنے زیادہ۔‘‘
راہِ فقر میں خاموشی کو خاص اہمیت حاصل ہے بلکہ یہ بنیاد ہے کیونکہ خاموش رہنے سے ہی غوروفکر حاصل ہوتا ہے اور غورو فکر سے ہی مقصدِ حیات کو پایا جا سکتا ہے۔
خاموشی ایک ایسی عبادت ہے جس کو فرشتے لکھ نہیں سکتے، شیطان اسے بگاڑ نہیں سکتا اور اللہ تعالیٰ کے سوا اسے کوئی جان نہیں سکتا۔ خاموشی کو ہی اپنا شعار بنانا چاہیے تاکہ انسان شرِزبان سے محفوظ رہے کیونکہ اگر لوگ اپنی گفتگو سے غیبت، بہتان، تہمت اور جھوٹ وغیرہ نکال دیں تو باقی صرف خاموشی رہ جاتی ہے جو کہ بہترین عبادت ہے۔
سلامتی اسی میں ہے کہ اپنا منہ بند رکھو ۔جب تک مچھلی کا منہ بند رہتا ہے وہ کانٹے کی گرفت میں نہیں آتی۔ (افلاطون)
لہجہ لفظ کا ڈی این اے ہے جس سے نظر کا فتور، نیت کا کھوٹ اور دل کا چور پکڑا جاتا ہے۔ (مشتاق احمد یوسفی)

 حاصلِ کلام یہ ہے کہ ہر حالت اور ہر صورت خاموشی اختیار کرنا بہتر اور نجات کا ذریعہ ہے کیونکہ زبان کی آفتیں اَن گنت ہیں اور ان سے بچنا سخت مشکل ہے۔ لہٰذا اس زبان کو بند ہی رکھا جائے تو بہتر ہے۔دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں فضول گوئی سے بچنے اور زبان کی آفتوں سے محفوظ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

استفادہ کتب:
۱۔الفتح الربانی: تصنیف سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ
۲۔کلید التوحید کلاں: تصنیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۳۔قربِ دیدار: ایضاً
۴ ۔شمس الفقرا:  تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۵ ۔سلطان العاشقین: ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز لاہور
۶۔منہاج العابدین: تصنیف امام غزالیؒ
۷۔ احیاء العلوم: ایضاً
۸۔ حکایاتِ سعدی: تصنیف مولانا محمد سعدیؒ

 

25 تبصرے “فضول گوئی کے نقصانات Fuzuul Goii Kay Nuqsanaat

  1. حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
    آدمی زبان کی بے باکیوں کی وجہ سے اوندھے منہ یانتھنوں کے بل جہنم میں گرائے جائیں گے۔ (جامع ترمذی 2616)

  2. حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان مبارک ہے:
    لوگوں میں سب سے برا شخص اللہ کے نزدیک قیامت کے دن وہ ہوگا جس سے لوگوں نے اس کی فحش کلامی سے بچنے کے لیے علیحدگی اختیار کرلی ہو یا اُسے چھوڑ دیا ہو۔ (سنن ابوداؤد۔4791)

  3. حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان مبارک ہے:
    لوگوں میں سب سے برا شخص اللہ کے نزدیک قیامت کے دن وہ ہوگا جس سے لوگوں نے اس کی فحش کلامی سے بچنے کے لیے علیحدگی اختیار کرلی ہو یا اُسے چھوڑ دیا ہو۔ (سنن ابوداؤد۔4791)

  4. حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
    خاموشی مختلف قسم کی ہوتی ہے بعض مردہ دل والوں کی خاموشی مکرو فریب اور تقلید کی غرض سے ہوتی ہے اور بعض کی خاموشی معرفت اِلَّا اللّٰہ اور توحید کی بدولت ہوتی ہے۔ (کلید التوحید کلاں)

  5. سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کا فرمان مبارک ہے:
    بہت زیادہ بولنااور بے معنی کلام رجعت کا پیش خیمہ ہے۔ ناقص کے پاس نہ معرفت کی حکمت ہے اور نہ حکمِ حضوری اور قربِ الٰہی۔ (قربِ دیدار)

  6. حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
    کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اپنی زبان کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔

  7. خوبصورت احادیث اور فرامین کی روشنی میں انتہائی اہم موضوع پر بہترین انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے

  8. مومن بے ہودہ باتوں اور بے مقصد کاموں سے اجتناب کرتے ہیں

  9. ہمارا معاشرہ ان برائیوں میں مبتلا جنہیں ہم برائی ہی نہیں سمجھتے۔۔۔۔ ان میں سے ایک برائی فضول گوئی ہے۔۔۔ فضول گوئی کیا ہے؟ اور اس سے ہم کیسے بچ سکتے ہیں؟ جاننے کے لیے اس مضمون کا ضرور مطالعہ کیجئے۔۔۔۔ یہ ایک بہترین مضمون ہے۔۔۔

  10. فضول گوئی اور بیہودہ کلام اللہ پاک کو نہایت ناپسند ہے ۔۔

  11. عارفوں کا سر تن سے جدا بھی کر دیا جائے تب بھی وہ غیر اللہ کے بارے میں گفتگو نہیں کرتے۔ وہ حق تعالیٰ کے ساتھ ہم سخن رہتے ہیں اور اسی کے متعلق گفتگو کرتے ہیں۔ (قربِ دیدار)

  12. اللہ تعالیٰ بیہودہ اور فحش گوئی کو پسند نہیں فرماتا۔(مسند احمد۔ 16964)

  13. فضول گوئی سے انسان جھوٹ کا بھی ارتکاب کر بیٹھتا ہے اور جو دل میں ہو اُس کے خلاف بھی بول پڑتاہے

  14. اللہ پاک ہمیں فضول گوئی سے بچنے اور زبان کی آفتوں سے محفوظ رہنے کی توفیق عطا فرمائے

اپنا تبصرہ بھیجیں