حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِخلافت کی مشکلات
Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat
قسط 1 تحریر: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری
تاریخِ اسلام میں سب سے زیادہ غلط روایات اور واقعات جن ادوار کے متعلق ملتے ہیں وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کا آخری دور، حضرت علی رضی اللہ عنہٗ کا دورِخلافت اور واقعۂ کربلا ہے۔ بہت سے واقعات ایسے ہیں کہ اگر انسان اُن پر یقین کر بیٹھے تو ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ وجہ یہ ہے کہ اس دورمیں سازشیوں نے پروپیگنڈا بہت زیادہ کیا تاکہ سچ کسی کو نظر نہ آئے کیونکہ اگر سچ نظر آ جائے تو سازشی بے نقاب ہوجاتے ہیں۔اس سلسلہ میں سب سے مستند کتاب’’خلفائے راشدین‘‘ ہے جو کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی تصنیفِ مبارکہ ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل ہیں۔
مقصود اگر یہ ہو کہ حضرت علیؓ کے دورِخلافت میں آنے والی مشکلات کو سمجھناہے توضروری ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ کی شہادت جن حالات میں ہوئی، اُن کو جانچا جائے۔ اگر ان حالات سے قطع نظر کیا جائے تو حضرت علیؓ کے دورِ خلافت کو نہیں سمجھا جاسکتا۔ دراصل حضرت علیؓ کے دورِخلافت میں جتنے بھی مسائل آئے اور جتنے بھی فتنے ظاہر ہوئے، اُن کی جڑیں حضرت عثمان غنیؓ کے دورِ خلافت میں مضبوط ہوئیں ۔دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو باغی شہادتِ عثمان غنیؓ کا باعث بنے وہی باغی حضرت علیؓ کو خلافت سے اتارنا چاہتے تھے کیونکہ حضرت عثمانؓ کو شہید کرکے وہ خود برسر ِاقتدار آناچاہتے تھے مگر خلافت کی باگ حضرت علیؓ کو سونپ دی گئی۔ اس طرح وہ سب قوتیں جو حضرت عثمانؓ کے خلاف تھیں وہ شہادتِ عثمانؓ کے بعد حضرت علیؓ کے خلاف بر سرِپیکار ہو گئیں۔
حضرت عثمانؓ نے کسی کو تلوار نیام سے باہر نہ کرنے دی
حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کے آخری ایام میں شورش زوروں پر تھی۔ باغی آپ رضی اللہ عنہٗ کے خلاف گلیوں میں آ چکے تھے۔ اس شورش کو روکا جا سکتاتھا لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کو یہ ہرگز پسند نہ تھا کہ امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونت لے۔ اس لیے آپؓ نے اپنے تمام حامیوں کو منع فرمایا کہ ان کے لیے جنگ نہ کریں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کی اسی سوچ کے متعلق مسندِاحمد میں روایت درج ہے:
سیدّنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: سیدّنا عثمان رضی اللہ عنہٗ محصور ہوچکے تھے، میں ان کی خدمت میں گیا اور کہا’’ آپؓ لوگوں کے امام اور حاکم ہیں اور آپؓ کے ساتھ جو حالات پیش آچکے ہیں وہ بھی آ پؓ کے سامنے ہیں، اب تین صورتیں ممکن ہیں، آپؓ ان سے کسی ایک کو اختیار کر لیجیے:
(۱) یا توآپؓ باہر نکل کر ان باغیوں سے لڑائی کریں، آپؓ کے پاس طاقت ہے اور بہت سے افراد آپؓ کے ساتھ ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ آپؓ حق پر ہیں اور ان لوگوں کا موقف باطل ہے۔
(۲) دوسری صورت یہ ہے کہ وہ لوگ جس دروازے پر موجود ہیں، اسے چھوڑ کر آپؓ گھر کی کسی دیوار میں راستہ بنا کر باہر نکل جائیں اور اپنی سواری پر سوار ہو کر مکہ پہنچ جائیں، یہ وہاں آپؓ کو مارنے کی جسارت نہیں کریں گے۔
(۳) تیسری صورت یہ ہے کہ آپؓ بلا د شام کی طرف چلے جائیں، وہ لوگ اہلِ شام ہونے کی وجہ سے اچھے ہیں، سیدّنا معاویہ رضی اللہ عنہٗ بھی وہاں موجود ہیں۔‘‘
سیدّنا عثمان رضی اللہ عنہٗ نے یہ باتیں سن کر فرمایا ’’رہامسئلہ تمہاری بیان کردہ پہلی صورت کا کہ میں باہر نکل کر قتال کروں، تو یہ نہیں ہوسکتا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعدسب سے پہلا خون بہانے والا بنو ں۔ دوسری صورت کہ میں مکہ مکرمہ چلا جاؤں کیونکہ یہ لوگ وہاں مجھے قتل نہیں کریں گے تو گزارش ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ ایک قریشی آدمی مکہ میں الحاد کامرتکب ہوگا، ساری دنیا کا نصف عذاب صرف اس ایک آدمی کو دیا جائے گا۔ پس میں وہ آدمی نہیں بنوں گا اور تمہاری بیان کردہ تیسری صورت کہ میں سرزمینِ شام کی طرف چلا جاؤں کہ شام کے لوگ اچھے ہیں اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہٗ بھی وہاں موجود ہیں، تو گزارش ہے کہ میں اپنی ہجرت گاہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پڑوس کو نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ (مسند احمد ۔481)
مسند احمد میں یہ روایت بھی ملتی ہے:
سیدّہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’ میرے ایک صحابی کو بلاؤ۔‘‘ میں نے کہا ’’سیدّنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہٗ کو؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا’’سیدّنا عمر رضی اللہ عنہٗ کو؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا’’ آپؐ کے چچا زاد سیدّنا علی رضی اللہ عنہٗ کو؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا’’ سیدّنا عثمان رضی اللہ عنہ کو؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ وہ آئے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مجھ سے فرمایا’’ تم ذرا ایک طرف ہوجاؤ۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سیدّناعثمان رضی اللہ عنہٗ کے ساتھ چپکے سے باتیں کرنا شروع کیں۔ سیدّنا عثمان رضی اللہ عنہٗ کا رنگ فق ہونے لگا۔ پھر جب سیدّنا عثمان رضی اللہ عنہٗ کو ان کے گھر میں محصور کر دیا گیا تو ہم نے کہا: ’’اے امیر المومنین!آپؓ ان باغیوں کے ساتھ لڑتے کیوں نہیں؟‘‘ آپ رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا’’ نہیں، میں لڑائی نہیں کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مجھ سے اس بات کا عہد لیا تھا اور میں ان حالات پر اپنے آپ کو صابر ثابت کرنے والا ہوں۔ (مسند احمد۔ 24757)
ان احادیث سے ثابت ہوتاہے کہ حضرت عثمانؓ کشت و خون کے متمنی نہ تھے۔ حضرت کعبؓ بن احبار نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کے بارے میں مرثیہ پڑھا جس میں آپؓ کی امن پسندی کا واضح اظہار ہے جس کا مفہوم درج ذیل ہے:
حضرت عثمانؓ نے کشت و خون سے اپنے دونوں ہاتھ روک لیے اور اپنے گھر کے دروازوں کو بند کر لیا اور یقین کر لیا خدا ہمارے اور ان کے حال سے غافل نہیں۔
انہوں نے اپنے گھر والوں سے فرمایا کہ بلوا کرنے والوں سے جنگ نہ کرناکیونکہ اللہ تعالی جنگ نہ کرنے والوں کو معاف کر دیا کرتا ہے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
جان نثار کرنے والے اس وقت بھی آپ (حضرت عثمانؓ) کی حفاظت کے لیے ہر قیمت پر تیار تھے مگر آپؓ نے ان سب کو واپس کر دیا۔ (خلفائے راشدین، ص 139)
ابنِ سعد نے لکھا ہے کہ جب حضرت عثمانؓ محصور کئے گئے تو محاصرہ کرنے والے چھ سو(600) تھے جبکہ آپؓ کے ساتھ سات سو (700)صحابہ کرامؓ اور ساتھی تھے لیکن آپؓ نے سب کو جنگ سے سختی سے منع فرمایا۔ (طبقات ابن سعد جلد دوم، ص 142)
ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
حضرت عثمانؓ نے اپنے غلاموں سے فرمایا کہ جو تلوار نیام میں کر لے گا وہ آزاد ہے۔ (تاریخ ابنِ کثیر۔ جلد چہارم حصہ ہشتم و ہفتم، ص 183)
حضرت عثمانؓ اپنی شہادت سے آگاہ تھے
حقیقت یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ نے کسی کو بھی تلوار اٹھانے کی اجازت نہ دی کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کی شہادت کے متعلق پہلے ہی مطلع کر چکے تھے۔
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فتنوں کی پیش گوئی کی اور حضرت عثمانؓ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:
ایک فتنے میں یہ بھی مظلوم شہید ہوں گے۔
اس ضمن میں حدیثِ مبارکہ درج کی جا رہی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک فتنہ کا ذکر کیا تو فرمایا ’’اس فتنہ میں یہ (عثمانؓ) بھی مظلوم قتل کیا جائے گا۔‘‘ (ترمذی۔ 3708)
یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ بھی خبر دی کہ شہادت کے وقت حضرت عثمانؓ کون سی آیت تلاوت کر رہے ہوں گے۔ اس کے متعلق مستدرک حاکم میں حدیث مبارکہ درج ہے:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں’’میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں موجود تھا، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہٗ آ گئے۔جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قریب ہوئے توآپؐ نے فرمایا’’ اے عثمانؓ!تجھے قتل کیا جائے گا، اس وقت تو سورۃ البقرہ کی تلاوت کر رہا ہو گا اور تیرا خون اس آیت پر گرے گا:
فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم (سورۃ البقرہ ۔ 137)
ترجمہ: عنقریب اللہ تعالیٰ ان کی طرف سے تمہیں کفایت کرے گا۔ (ترجمہ کنزالایمان، امام احمد رضا )
اور تجھے قیامت کے دن ہر مظلوم کا امیر بنا کر اٹھایا جائے گا۔ اہلِ مشرق اور اہلِ مغرب تجھ پر رشک کریں گے۔ اور تو قبیلہ ربیعہ اور مضر کی تعداد کے برابر لوگوں کی شفاعت کرے گا۔‘‘ (مستدرک حاکم۔ 4555)
جس دن حضرت عثمانؓ کو شہید کیا گیا اس رات آپؓ نے خواب دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے آپؓ سے فرمایا کہ آج افطاری ہمارے ساتھ کرنا۔ مستدرک حاکم میں حدیث ہے:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے صبح کے وقت یہ خواب بیان فرمایا ’’میں نے خواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت کی ہے، آپؐ نے فرمایا ’’اے عثمانؓ! افطاری ہمارے پاس کرنا۔‘‘ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے اس دن روزہ رکھا اور اُسی دن آپؓ کو شہید کر دیا گیا۔ (مستدرک حاکم۔ 4554)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
حضرت عثمانؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق اپنی شہادت کا پورا یقین ہو چکا تھا اور آپؓ صبر کے ساتھ اس کا انتظار کر رہے تھے۔ باغیوں کے بڑھتے ہوئے غصے اور جوش کو دیکھتے ہوئے اس یقین میں اضافہ ہو گیا تھا اور آپؓ نے اس کی تیاری بھی شروع کر دی تھی۔جمعہ کے دن روزہ رکھا۔ ایک پاجامہ زیبِ تن کیا (کہ دورانِ شہادت یا شہادت کے بعد کہیں آپؓ کی شرمگاہ برہنہ نہ ہو جائے۔ سبحان اللہ)۔ (خلفائے راشدین، ص 143)
بغضِ علیؓ رکھنے والوں کے اعتراضات اور زمینی حقائق
حضرت عثمانؓ کی شہادت سے متعلق حضرت علیؓ پر اعتراض کیے جاتے ہیں :
۱۔ حضرت علیؓ باغیوں کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ (معاذاللہ)
۲۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ باغیوں کے ساتھ تو نہ تھے مگر ان کی مدد کی۔ (معاذاللہ)
۳۔ ایک گروہ یہ بھی کہتا ہے کہ حضرت علیؓ نے باغیوں کی مدد تو نہ کی لیکن حضرت عثمانؓ کی بھی مدد نہ کی یعنی آپ(حضرت علیؓ)نے باغیوں کو روکنے کے لیے کوئی کردار ادا نہ کیا۔ (معاذاللہ)
۴۔ حضرت علیؓ جبکہ مدینہ میں موجود تھے تو ایک بار بھی حضرت عثمانؓ کے لیے تلوار لے کر نہ نکلے۔ (معاذاللہ)
۵۔ جب حضرت عثمانؓ کو محصور کر دیا گیا تو حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ کو پانی تک نہ پہنچایا۔ (معاذاللہ)
۶۔ ایک گروہ کی طرف سے یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ حضرت عثمانؓ (معاذاللہ) حضرت علیؓ کی سازش سے واقف تھے اس لیے آپؓ نے ان سے مدد نہ مانگی۔ (معاذاللہ)
۷۔ یہ بھی بہتان لگایا جاتا ہے کہ جب باغی مدینہ آئے تو حضرت علیؓ نے ان باغیوں کو نہیں روکا۔ (معاذاللہ)
۸۔ یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ جب محاصرہ ہو گیا تو حضرت علیؓ حضرت عثمانؓ کو اکیلا چھوڑ کر مدینہ سے باہر چلے گئے۔ (معاذاللہ)
یہ سب اعتراضات سراسرغلط اور گمراہ کن ہیں۔ الزام تراش کم نظر اور حضرت علی رضی اللہ عنہٗ سے بغض رکھنے والے ہیں جو کہ ہر دور میں موجود رہے لیکن ان کے نام تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ ان الزامات کی تردید کے لیے چند حقائق پیش کئے جا رہے ہیں تاکہ قارئین خود نتیجہ پر پہنچ سکیں:
(۱)۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ خلیفۂ وقت تھے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان سے بیعتِ خلافت کی تھی۔ اس لیے جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے منع فرمادیاکہ باغیوں کے خلاف تلوار نہ اٹھائیں تو باقی صحابہ کرامؓ کیسے نافرمانی کر سکتے تھے۔ اس وقت لشکر ترتیب دینا حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کے حکم کی خلاف ورزی کرنا اور ان کی بیعت توڑنے کے مترادف تھا۔پیام شاہجہانپوری لکھتے ہیں:
نمازِجمعہ کے موقع پر جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ پر پتھراؤ کیا گیا جس سے آپؓ بیہوش ہو کر گر پڑے تو حضرت علی رضی اللہ عنہٗ نے چند صحابہ ؓکے ساتھ مل کر مرتدین کی سرکوبی کا ارادہ کیا مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے سختی سے منع کردیا۔ (علیؓ اور ان کی خلافت، ص 28)
میرے مرشد سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اس معاملہ کے متعلق لکھتے ہیں:
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ نے بطور خلیفہ انہیں حکماً ہتھیار اٹھانے سے روکاکیونکہ وہ مسلمانوں کے دوگروہوں کے درمیان تصادم ہرگز نہ چاہتے تھے۔ (خلفائے راشدین، ص 139)
دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت فوج کی کمان متعلقہ گورنروں کے پاس تھی نہ کہ حضرت علیؓ کے پاس۔ ان گورنروں کو حضرت عثمانؓ نے اپنے محاصرے کے دوران خطوط لکھے لیکن وہ مدد کبھی مدینہ نہ پہنچ سکی۔
(۲)۔ حضرت علیؓ اور باقی صحابہؓ نے اپنی ذاتی حیثیت میں متعدد بار حضرت عثمانؓ سے اس معاملے کو حل کرنے کی اجازت طلب کی لیکن ہر بار آپؓ نے منع فرما دیا۔ ابنِ اثیر نے لکھا ہے:
سیدّنا عثمان رضی اللہ عنہٗ نے اہلِ مدینہ کو حکم دیاکہ وہ واپس چلے جائیں اور انہیں قسم دی، چنانچہ وہ واپس چلے گئے۔
(۳)۔ باغیوں اور شورش پسندوں نے حضرت عثمانؓ کا پانی بند کر دیا۔ آپ رضی اللہ عنہٗ کے پاس جب پانی ختم ہو گیا تو آپؓ نے صحابہ کرامؓ کو پیغام بھجوایا کہ پانی کی ضرورت ہے۔ اس وقت حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے پانی کی مشکیں ایک جانور پر رکھیں اور حضرت عثمانؓ کی طرف روانہ ہوئے۔
(۴) الزام تراشی کرنے والے یہ نہیں جانتے کہ حضرت علیؓ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کی حفاظت کے لیے اپنے دونوں پھولوں یعنی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کو حضرت عثمانؓ کے گھر کے بیرونی دروازے پر حفاظت کے لیے مقرر فرمایا اور حکم دیا کہ کسی باغی کو اندر نہ آنے دیں اور امیر المومنین کی حفاظت کریں۔ اس سلسلے میں بلاذری نے لکھا ہے:
سیدّنا علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے صاحبزادوں سیدّنا حسنؓ اور سیدّنا حسینؓ کو فرمایا کہ سیدّنا عثمان رضی اللہ عنہٗ کے قصر خلافت کے دروازہ پر تلواریں سونت کر کھڑے ہو جاؤ تا کہ باغیوں میں سے کوئی اندر نہ جا سکے۔ (انساب الاشراف۔ جلد4)
علامہ جلال الدین سیوطیؒ لکھتے ہیں:
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ سے فرمایا کہ اپنی تلواریں لے کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کے دروازے پر کھڑے رہو اور کسی کو اندر نہ آنے دو۔‘‘ (تاریخ الخلفا۔ ص 231)
عقل بھی یہ بات مانتی ہے کہ جو الزامات منافقین حضرت علیؓ پر لگاتے ہیں ان میں ذرّہ بھر بھی صداقت ہوتی تو حضرت علیؓ اپنے دونوں صاحبزادوں کو حضرت عثمان غنیؓ کے گھر کے دروازے پر متعین نہ فرماتے۔
طبری نے بھی لکھا ہے:
حضرت عثمانؓ نے اہلِ مدینہ کو حکم دیا کہ واپس چلے جائیں اور انہیں قسم دے کر (جانے کے لیے) کہا چنانچہ وہ سب لوٹ گئے البتہ حسنؓ بن علیؓ، محمدؓ، ابنِ زبیرؓ وغیرہ اپنے والدین کے حکم کے مطابق دروازے پر بیٹھے رہے۔ (تاریخ طبری۔ جلد سوم، ص 440)
(۵) باغیوں نے حضرت عثمانؓ کے گھر پر سنگباری شروع کر دی۔ جب یہ زیادہ ہو گئی تو حضرت عثمانؓ کے صاحبزادے سیدّنا ابانؓ مدد مانگنے کے لیے حضرت علیؓ کے پاس آئے۔ بلاذری اس حوالے سے سیدّنا ابانؓ کا قول نقل کرتے ہیں :
میں(سیدّنا ابانؓ) حضرت علیؓ کے پاس گیا اور عرض کی کہ اے چچا جان! ہم پر توپتھر برسائے جا رہے ہیں۔یہ سن کر حضرت علیؓ میرے ساتھ چل پڑے اور باغیوں کی طرف جوابی طور پر سنگباری کرنے لگے یہاں تک کہ آپؓ کے ہاتھ بھی تھک گئے۔ (انساب الاشراف ۔جلد5)
(۶) حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے باغیوں کو سمجھایااورڈرایاکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کو کچھ نقصان نہ پہنچاؤ لیکن باغیوں نے آپؓ کی ایک نہ سنی اور اپنے مقصد کو پورا کرنے میں جتے رہے۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہٗ نے دیکھا کہ وہ آپؓ کی بات نہیں مان رہے تو باقی جید صحابہ کرامؓ سے گزارش کی کہ باغیوں کو روکیں۔ تاریخ طبری میں لکھا ہے:
حکیم بن جابر کی روایت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہٗ سے فرمایا’’میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جا کر ان لوگوں کو حضرت عثمانؓ سے دور کر دو۔‘‘ (طبری جلد سوم)
(۷) اس محاصرے سے پہلے بھی باغی مدینہ میں داخل ہوئے تو ان کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے سمجھا کر مدینہ سے واپس کیا تھا۔ ابنِ اثیر نے اس واقعہ کے متعلق لکھا ہے:
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے باغیوں کو سمجھا بجھا کر مدینہ سے مصر واپس بھیج دیا۔ (ابنِ اثیر۔ جلد سوم)
ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے باغیوں سے پوچھا کہ تم حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ پر کیا عیب لگاتے ہو؟ انہوں نے کچھ چیزیں کہیں۔ ان میں سے یہ بھی تھیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے:
(۱) حمیٰ بنائی ہے
(۲) مصاحف کو جلا دیا ہے
(۳) سفر میں پوری نماز پڑھی ہے
(۴) ولایت امارت پر صحابہؓ کو چھوڑ کر نوعمر جوانوں کو مقرر کیا ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان باتوں کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
حمیٰ انہوں نے صدقہ کے اونٹوں کے لیے بنائی ہے تا کہ وہ فربہ اور موٹے ہو جائیں، نہ کہ اپنے اونٹ اور بکریوں کے لیے بنائی۔ اس غرض سے عمرؓ بن خطاب نے بھی بنائی تھی۔
ان مصاحف کو نذرِآتش کیا ہے جن میں اختلاف تھا اور جو متفق علیہ تھے اور عرضہ اخیرہ سے ثابت ہیں ان کو باقی رکھا۔
مکہ میں پوری نماز پڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے مکہ میں شادی کر لی تھی اور وہاں اقامت کی نیت کر لی تھی۔
اور رہا نوجوانوں کو ولی و امیربناناتو انہوں نے بے عیب و عادل نوجوانوں کو امیر مقرر فرمایا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی عتاب بن اسید کو مکہ کا امیر مقرر کیا تھا اور آپ اس وقت بیس سال کے تھے اور اسامہؓ بن زیدؓ بن حارثہ کو بھی امیر بنایاتھا، ان کی امارت پر بعض لوگوں نے نکتہ چینی کی تھی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ وہ امارت کے لائق تھے۔ (تاریخ ابنِ کثیر۔ جلد چہارم حصہ ہشتم و ہفتم، ص 173)
ابنِ خلدون نے لکھا ہے:
مصریوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کہا:
ہم عثمان رضی اللہ عنہٗ کی امارت سے بیزار ہیں، آپ ہم سے بیعت لے لیجئے، ابھی ہم واپس جاتے ہیں۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ غصے سے کانپ اٹھے اور سخت آواز میں فرمایا:
’’بے شک ذومرو ذوخشب و اعوض (کے لشکر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ارشادکے مطابق ملعون ہے اور اس حدیث کو صلحا مومنین جانتے ہیں۔ تم لوگ میرے سامنے سے دور ہو آئندہ اس قسم کی گفتگو میرے روبرو نہ کرنا۔‘‘ (تاریخ ابن خلدون جلد دوم، ص 353-354)
(جاری ہے)
استفادہ کتب:
۱۔خلفائے راشدینؓ، مصنف: سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس، ناشر : سلطان الفقر پبلیکیشنز
۲۔تاریخ الخلفا ، مصنف: امام جلال الدین سیوطیؒ،ناشر شبیر برادرز لاہور
۳۔ تاریخ ابنِ کثیر، مصنف:حافظ عمادالدین ابوالفداء اسماعیل، ناشر دارالاشاعت کراچی
۴۔ تاریخ طبری، مصنف:علامہ ابی جعفر محمد بن جریر الطبری، ناشر نفیس اکیڈمی کراچی
۵۔ تاریخ ابنِ خلدون، مصنف:علامہ عبدالرحمن ابنِ خلدون، نفیس اکیڈمی کراچی
۶۔ طبقات ابنِ سعد، مصنف: محمد بن سعد، نفیس اکیڈمی کراچی
۷۔انساب الاشراف، مصنف: ابوالحسن احمد بن یحییٰ بن جابر بن داؤد
۸۔علیؓ اور ان کی خلافت، مصنف:پیام شاہجہانپوری، اشاعت 1956
نوٹ: اس مضمون کو آڈیو کی صورت میں سننے کے لیے ماہنامہ سلطان الفقر میگزین کے یوٹیوب (YouTube) چینل کو وزٹ فرمائیں۔
مضمون لنک : Hazrat Ali r.a Kay Dor-e-Khilafat Ki Mushkilat | Urdu/Hindi | حضرت علیؓ کے دورِ خلافت کی مشکلات
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
جان نثار کرنے والے اس وقت بھی آپ (حضرت عثمانؓ) کی حفاظت کے لیے ہر قیمت پر تیار تھے مگر آپؓ نے ان سب کو واپس کر دیا۔ (خلفائے راشدین، ص 139)
حضرت عثمان رضہ اللہ عنہ کی خلافت سے حضرت علی تک خلافت کی منتقلی کی حقیقت کو احسن انداز میں بیان کیا گیا ہے
علامہ جلال الدین سیوطیؒ لکھتے ہیں:
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ سے فرمایا کہ اپنی تلواریں لے کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کے دروازے پر کھڑے رہو اور کسی کو اندر نہ آنے دو۔‘‘ (تاریخ الخلفا۔ ص 231)
بے مثال بصارت ، بصیرت ، حکمت ، دانائی ، معرفت، صبر و استقلال اور عشقِ حقیقی سے سرشار۔۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے تربیت یافتہ اور انمول ہیرے 💓
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
جان نثار کرنے والے اس وقت بھی آپ (حضرت عثمانؓ) کی حفاظت کے لیے ہر قیمت پر تیار تھے مگر آپؓ نے ان سب کو واپس کر دیا۔ (خلفائے راشدین، ص 139)
عقل بھی یہ بات مانتی ہے کہ جو الزامات منافقین حضرت علی ؓپر لگاتے ہیں ان میں ذرّہ بھر بھی صداقت ہوتی تو حضرت علیؓ اپنے دونوں صاحبزادوں کو حضرت عثمان غنیؓ کے گھر کے دروازے پر متعین نہ فرماتے۔
عقل بھی یہ بات مانتی ہے کہ جو الزامات منافقین حضرت علی ؓپر لگاتے ہیں ان میں ذرّہ بھر بھی صداقت نہیں ہے
حضرت عثمان غنیؓ سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا
حضرت عثمان رضہ اللہ عنہ کی خلافت سے حضرت علی تک خلافت کی منتقلی کی حقیقت کو احسن انداز میں بیان کیا گیا ہے
Reply
This article gives detail knowledge about Hazrat Ali ra
Superb👍🏻
حق چار یار
ابو بکر و عمر و عثمان و علی
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
جان نثار کرنے والے اس وقت بھی آپ (حضرت عثمانؓ) کی حفاظت کے لیے ہر قیمت پر تیار تھے مگر آپؓ نے ان سب کو واپس کر دیا۔ (خلفائے راشدین، ص 139)
Very informative article
اللہ پاک ہمیں خلفائے راشدین کی عظمت و فضیلت کو
سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
بہت شکریہ اس بلاگ کے لیے
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
جان نثار کرنے والے اس وقت بھی آپ (حضرت عثمانؓ) کی حفاظت کے لیے ہر قیمت پر تیار تھے مگر آپؓ نے ان سب کو واپس کر دیا۔ (خلفائے راشدین، ص 139)
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فتنوں کی پیش گوئی کی اور حضرت عثمانؓ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:
ایک فتنے میں یہ بھی مظلوم شہید ہوں گے۔
Hazrat Ali ra is the perfect Caliph ♥️♥️
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے صبح کے وقت یہ خواب بیان فرمایا ’’میں نے خواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت کی ہے، آپؐ نے فرمایا ’’اے عثمانؓ! افطاری ہمارے پاس کرنا۔‘‘ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے اس دن روزہ رکھا اور اُسی دن آپؓ کو شہید کر دیا گیا۔ (مستدرک حاکم۔ 4554)
علامہ جلال الدین سیوطیؒ لکھتے ہیں:
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ سے فرمایا کہ اپنی تلواریں لے کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کے دروازے پر کھڑے رہو اور کسی کو اندر نہ آنے دو۔‘‘ (تاریخ الخلفا۔ ص 231)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
جان نثار کرنے والے اس وقت بھی آپ (حضرت عثمانؓ) کی حفاظت کے لیے ہر قیمت پر تیار تھے مگر آپؓ نے ان سب کو واپس کر دیا۔ (خلفائے راشدین، ص 139)
Behtareen tehreer ❤️
علامہ جلال الدین سیوطیؒ لکھتے ہیں:
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ سے فرمایا کہ اپنی تلواریں لے کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کے دروازے پر کھڑے رہو اور کسی کو اندر نہ آنے دو۔‘‘ (تاریخ الخلفا۔ ص 231)
بہت اچھی اور تحقیق شدہ تحریر ہے۔
طبری نے بھی لکھا ہے:
حضرت عثمانؓ نے اہلِ مدینہ کو حکم دیا کہ واپس چلے جائیں اور انہیں قسم دے کر (جانے کے لیے) کہا چنانچہ وہ سب لوٹ گئے البتہ حسنؓ بن علیؓ، محمدؓ، ابنِ زبیرؓ وغیرہ اپنے والدین کے حکم کے مطابق دروازے پر بیٹھے رہے۔ (تاریخ طبری۔ جلد سوم، ص 440)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ غصے سے کانپ اٹھے اور سخت آواز میں فرمایا:
’’بے شک ذومرو ذوخشب و اعوض (کے لشکر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ارشادکے مطابق ملعون ہے اور اس حدیث کو صلحا مومنین جانتے ہیں۔ تم لوگ میرے سامنے سے دور ہو آئندہ اس قسم کی گفتگو میرے روبرو نہ کرنا۔‘‘ (تاریخ ابن خلدون جلد دوم، ص 353-354)
حضرت عثمانؓ اپنی شہادت سے آگاہ تھے
حقیقت یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ نے کسی کو بھی تلوار اٹھانے کی اجازت نہ دی کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کی شہادت کے متعلق پہلے ہی مطلع کر چکے تھے۔
بہت ہی خوبصورتی سے لکھا گیا ہے یہ مضمون اس کے ایک ایک حرف میں تحقیق کا رنگ نظر آتا ہے۔
حضرت عثمان رضہ اللہ عنہ کی خلافت سے حضرت علی تک خلافت کی منتقلی کی حقیقت کو احسن انداز میں بیان کیا گیا ہے
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
حضرت عثمانؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق اپنی شہادت کا پورا یقین ہو چکا تھا اور آپؓ صبر کے ساتھ اس کا انتظار کر رہے تھے۔ باغیوں کے بڑھتے ہوئے غصے اور جوش کو دیکھتے ہوئے اس یقین میں اضافہ ہو گیا تھا اور آپؓ نے اس کی تیاری بھی شروع کر دی تھی۔جمعہ کے دن روزہ رکھا۔ ایک پاجامہ زیبِ تن کیا (کہ دورانِ شہادت یا شہادت کے بعد کہیں آپؓ کی شرمگاہ برہنہ نہ ہو جائے۔ سبحان اللہ)۔ (خلفائے راشدین، ص 143)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
جان نثار کرنے والے اس وقت بھی آپ (حضرت عثمانؓ) کی حفاظت کے لیے ہر قیمت پر تیار تھے مگر آپؓ نے ان سب کو واپس کر دیا۔ (خلفائے راشدین، ص 139)
میرے مرشد سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اس معاملہ کے متعلق لکھتے ہیں:
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ نے بطور خلیفہ انہیں حکماً ہتھیار اٹھانے سے روکاکیونکہ وہ مسلمانوں کے دوگروہوں کے درمیان تصادم ہرگز نہ چاہتے تھے۔ (خلفائے راشدین، ص 139)
بہت ہی اعلیٰ مضمون ہے۔
احسن انداز میں بیان کیا گیا ہے
بہت ہی خوبصورت مضمون ہے اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین
حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کے آخری ایام میں شورش زوروں پر تھی۔ باغی آپ رضی اللہ عنہٗ کے خلاف گلیوں میں آ چکے تھے