حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِخلافت کی مشکلات Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat


5/5 - (2 votes)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ  کے دورِخلافت کی مشکلات
 (Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat)

قسط 12                                                                     تحریر:سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری

منافقین نے جنگ شروع کی

جب یہ لشکر بصرہ کے قریب پہنچا تو بصرہ کے امیر عثمان بن حنیف نے حضرت عائشہؓ کے پاس دو بندے روانہ کیے تاکہ وہ ان سے ملیں اور آنے کی وجہ دریافت کریں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ قاتلینِ عثمانؓ سے قصاص لیا جائے۔امیرِبصرہ سے کہا گیا کہ ان کے ساتھ مل جائیں لیکن انہوں نے فرمایا پہلے حضرت علیؓ کو ادھر پہنچ جانے دیا جائے۔ اسی اثنا میں دونوں لشکر آمنے سامنے ہو گئے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے منافقین نے حضرت علیؓ کے پہنچنے سے پہلے ہی حملہ کر دیا۔ دراصل منافقین دونوں لشکروں میں شامل تھے۔ بصرہ کے لشکرمیں حکیم بن جبلہ شامل تھا جس نے سب سے پہلے حضرت عثمانؓ سے گستاخی کی تھی۔اس نے حضرت عائشہؓ کے لشکر پر حملہ کر دیا۔ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
حضرت عائشہ صدیقہؓ کی فوج کے لوگ اپنے ہاتھوں کو قتال سے روکنے لگے، حکیم بن جبلہ بڑھ چڑھ کر حملے کرنے لگا۔ (تاریخ ابنِ کثیر، جلد 4، حصہ ہفتم، ص 332)
حضرت عائشہؓ اپنے اصحاب کو لے کر ایک طرف ہو گئیں تا کہ جنگ نہ ہو۔ اس طرح رات ہو گئی اور جنگ نہ ہوئی۔
دوسرے دن سورج چڑھتے ہی حکیم بن جبلہ دوبارہ اپنے ساتھی لے کر حضرت عائشہؓ کے لشکر پر حملہ آور ہوا۔نتیجے میں امیرِبصرہ کی فوج کے کافی لوگ قتل ہوئے۔ رات کو امیرِبصرہ کے گھر پر حملہ کر دیا گیا اور ان کی داڑھی کے بال نوچ دیئے گئے۔ ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
لوگ عثمان بن حنیف کے گھر داخل ہوئے انہیں طلحہؓ و زبیرؓ کے پاس پکڑ کر لائے اور ان کے چہرے کے بال نوچ ڈالے، حضرت طلحہؓ و زبیرؓ نے اسے بڑا حادثہ قرار دیا اور اس کی اطلاع حضرت عائشہؓ کو دی۔ آپؓ نے حکم دیا کہ انہیں چھوڑ دیا جائے۔ 

حضرت علیؓ اس بات سے آگاہ تھے کہ منافقین دونوں جماعتوں میں ہیں اس لیے حضرت علیؓ جب بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا:
آگاہ ہو جاؤ میں کل کوچ کرنے والا ہوں، تم بھی اس کی تیاری کرو اور ایسا شخص ہرگز ہمارے ساتھ سفر نہ کرے جس نے حضرت عثمانؓ کے قتل میں قاتلین کی کچھ مدد کی ہو۔ (تاریخ ابنِ کثیر ، جلد 4، حصہ ہفتم، ص 238)
ابنِ خلدون کے مطابق جنگِ جمل کا آغاز کروانے والے منافقین تھے جو کہ وہی لوگ تھے جو قتلِ حضرت عثمانؓ میں شامل تھے۔ آپؒ لکھتے ہیں:
دونوں فریقوں(یعنی حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ)کے آدمیوں میں میل جول تھاصلح کے سوا اور کوئی گفتگو نہ کرتے تھے۔ حکیم و مالک حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم کے پاس گئے تھے یہ خبر لے کر واپس ہوئے کہ ہم لوگ اسی عہد و اقرار پر ہیں جس پر قعقاع ہمیں چھوڑ کر گئے ہیں۔ پھر شام کے وقت حضرت ابنِ عباسؓ،حضرت طلحہؓ و زبیرؓ کے پاس اور محمد بن طلحہؓ امیرالمومنین حضرت علیؓ کی خدمت میں صلح کی گفتگو کرنے آئے۔ شرائط طے ہو گئیں۔صبح کے وقت صلح نامہ اور معاہدہ لکھے جانے کی رائے قرار پا گئی۔ 

اس سے ان لوگوں کی پریشانی بڑھ گئی جنہوں نے امیرالمومنین حضرت عثمانؓ کے خلاف بلوا کیا اور ان پر خروج کیا تھا۔ تمام رات مشورہ کرتے رہے کہ صبح ہوتے ہی جس طرح ممکن ہو لڑائی چھیڑ دی جائے اور جہاں تک ممکن ہو صلح نہ ہونے پائے۔ چنانچہ علی الصبح فریقین کی لاعلمی میں فتنہ پردازوں نے لڑائی کا رنگ جما دیا۔ بلوائیانِ مصر نے مصر پر، فتنہ پردازانِ ربیعہ نے ربیعہ پر اور باغیانِ یمن نے یمن پر، اہلِ بصرہ نے بصرہ پر غرض ہر قبیلہ اپنے اپنے قبیلے پر حملہ آور ہوا۔ ادھر حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم نے لڑائی کا شوروغل سن کر عبدالرحمنؓ بن حرث کو میمنہ پر، عبدالرحمنؓ بن عتاب کو میسرہ پر متعین کیا خود قلبِ لشکر میں رہے۔ لوگوں نے لڑائی چھڑنے اور شور و غوغا کی وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ اہلِ کوفہ نے پو پھٹتے ہی تیر اندازی شروع کر دی۔ حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم نے کہا افسوس حضرت علیؓ خون ریزی کے بغیر نہ مانیں گے۔ یہ کہہ کر حملہ آور گروہ کی مزاحمت کرنے لگے۔ ادھر امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ شور و غل سن کر خیمے سے باہر تشریف لائے اور حال دریافت کیا۔ فرقہ سبیہ (یعنی ابنِ سبا کے پیروکار) کے ایک شخص نے فتنہ پردازوں کو پہلے ہی سکھا رکھا تھا اس لیے اس نے حضرت علیؓ کو جواب میں کہا ہم کو سوائے اس کے کچھ معلوم نہیں ہے کہ رات کو بے خوف ہو کر سوئے تھے صبح نہ ہونے پائی تھی کہ اہلِ بصرہ نے حملہ کر دیا۔ (تاریخ ابنِ خلدون، جلد 2، حصہ 1، ص 396)

میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس لکھتے ہیں:
مصالحانہ کوششیں بارآور ہو چکی تھیں، دونوں فریق ’’پہلے اتفاق و اتحاد اور اصلاحِ احوال اور پھر قصاص ‘‘ کے فارمولا پر متفق ہو چکے تھے لیکن اتحاد بین المسلمین شرپسندوں اور اسلام کے دشمنوں کو بھلا کب راس آتا تھا۔ (خلفائے راشدین)

آپ مدظلہ الاقدس مزید لکھتے ہیں:
عبداللہ ابنِ سبا کے پیروکار امیرالمومنین عثمانؓ ذوالنورین کے قاتل رات کی تاریکی میں سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر مصالحت ہو گئی تو ان پر عرصہ حیات تنگ ہو جائے گا۔ ان سے یقینا قصاص لیا جائے گا، ان کی گردنیں مار دی جائیں گی۔ بھلا ان کو یہ سب باتیں کب گوارا تھیں۔ پس انہوں نے اپنے تحفظ کے لیے مکرو فریب کا جال بچھادیا، جس میں صیدِ زبوں کی طرح پھنس کر ہزاروں مسلمان جانیں ہار بیٹھے۔ فریقین مہینوں کے تھکے ماندے مصالحت کی خوشی میں میٹھی نیند کے مزے لوٹ رہے تھے کہ فریب کاروں نے بیک وقت دونوں پر حملہ کر دیا۔ نیندیں اچاٹ ہو گئیں۔ خواب بکھر گئے۔ اٹھے شمشیر و سناں کی طرف لپکے اور جدال و قتال کی چکی میں پستے چلے گئے۔ اُم المومنین عائشہ صدیقہؓ کے گروہ نے یہ سمجھا کہ حیدرِ کرارؓ کے گروہ نے عہد توڑ ڈالا اور امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے گروہ نے دوسرے گروہ کے بارے میں یہی خیال کیا۔ حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم نے تیروں کی بوچھاڑ دیکھی اور شوروغوغا کی وجہ دریافت کی تو انہیں بتایا گیا کہ اہلِ کوفہ نے پو پھٹتے ہی حملہ کر دیا۔(خلفائے راشدین)

حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ صلح کے خواہاں تھے

حقیقت تو یہ کہ حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ دونوں ہستیاں جنگ نہ چاہتی تھیں بلکہ وہ دونوں صلح کے خواہاں تھے۔ ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
حضرت علیؓ نے جب ربذہ سے چلنے کا قصد کیا تو ابنِ ابی رفاعہ بن رافع کھڑے ہوئے اور کہا ’’اے امیرالمومنین!آپ کا کیا ارادہ ہے اور ہمیں کہاں لے جانا چاہتے ہیں؟‘‘ حضرت علیؓ نے فرمایا’ ’ہم اصلاح کے خواہاں ہیں اگر وہ اسے قبول کر لیں اور ہماری بات مان لیں۔‘‘ 

ابی رفاعہ نے کہا اگر وہ قبول نہ کریں تو؟
حضرت علیؓ نے فرمایا’’ پھر ہم انہیں ان کی عہد شکنی کے باوجود چھوڑ دیں گے اور انہیں ان کا حق دیں گے اور خود صبر کریں گے۔‘‘
ابنِ ابی رفاعہ نے پوچھا اگر وہ اس پر راضی نہ ہوں تو؟
حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ہم انہیں چھوڑے رکھیں گے جب تک وہ ہمیں چھوڑیں۔
ابنِ ابی رفاعہ نے پوچھا اگر وہ ہمیں نہ چھوڑیں تو؟
حضرت علیؓ نے فرمایا کہ پھر بھی ہم ان سے باز رہیں گے۔
ابنِ ابی رفاعہ نے کہا یہ بہت اچھی بات ہے۔ (تاریخ ابنِ کثیر جلد 4، حصہ ہفتم، ص 235)
اسی طرح کا ایک اور واقعہ سب تاریخی کتب میں درج ہے جس سے حضرت عائشہؓ، حضرت علیؓ اور حضرت طلحہؓ و زبیرؓ کی سوچ کا پتا چلتا ہے کہ وہ جنگ نہ چاہتے تھے۔

ابنِ خلدون لکھتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے فرمایا:
اے اہلِ کوفہ!ہم نے تم کو اس غرض سے بلایاہے کہ ہمارے ساتھ ہو کر اپنے بھائیوں کے پاس چلو، اگر وہ اپنی رائے سے رجوع کر لیں تو فہو المراد اور اگر اپنے خیال پر اصرار کریں تو ان کے ساتھ نرمی کریں گے۔ (تاریخ ابنِ خلدون،جلد 2، حصہ اول، ص 392)

حضرت عائشہؓ جب بصرہ کے مضافات میں پہنچیں تو امیرِبصرہ نے حضرت عمران بن حصینؓ اور حضرت ابوالاسودؓ کو قاصد بنا کر حضرت عائشہؓ کی خدمت میں روانہ کیا۔ جب انہوں نے حضرت عائشہؓ سے آنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جو فرمایا اس کے متعلق طبریؒ لکھتے ہیں:
ہم اصلاح کی خاطر میدان میں نکلے ہیں جس اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہر چھوٹے و بڑے اور مرد و عورت کو حکم فرمایا ہے۔ ہم اس لیے آئے ہیں تا کہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیں۔(تاریخ طبری، جلد 3، حصہ 2، ص65)

یہاں تک کہ جب جنگِ جمل سے پہلے حضرت عائشہؓ کے لشکر پر بصرہ کے قریب حکیم بن جبلہ نے حملہ کر دیا تو حضرت عائشہؓ پورے لشکر کو لے کر ایک طرف ہو گئیں کہ مسلمانوں میں جنگ نہ ہو۔ طبریؒ لکھتے ہیں:
حضرت عائشہؓ نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیاکہ وہ داہنی طرف بڑھ جائیں۔ ان کا مقصد جنگ سے بچنا تھا۔ (تاریخ طبری، جلد 3، حصہ 2، ص 70)

منافقین اس بات سے واقف تھے کہ حضرت علیؓ، حضرت عائشہؓ اور حضرت طلحہؓ و زبیرؓ آپس میں صلح کر لیں گے اور وہ اس بات سے ڈرتے تھے کیونکہ صلح میں ان کی تباہی تھی۔ ابنِ کثیر لکھتے ہیں کہ ان میں سے ایک نے کہا:
طلحہؓ و زبیرؓ کی ہمارے بارے میں جو رائے ہے وہ تو ہمیں معلوم ہے لیکن حضرت علیؓ کی رائے ہم آج تک نہ جان سکے اگر انہوں نے طلحہؓ و زبیرؓ کے ساتھ صلح کر لی تو وہ صلح ہمارے خون پر ہے اگر معاملہ ایسا ہے تو ہم حضرت علیؓ کو بھی حضرت عثمانؓ کے ساتھ لا کھڑا کریں گے اور لوگ ہمارے بارے میں سکوت اختیار کریں گے یا رضامند ہو جائیں گے۔ (تاریخ ابنِ کثیر ، جلد 4، حصہ ہفتم، ص 339)

یہ بھی حقیقت ہے کہ حضرت عائشہؓ حضرت علیؓ کو ہی خلافت کا اہل گردانتی تھیں۔ اس سلسلے میں طبریؒ لکھتے ہیں:
احنف کہتے ہیں کہ میں مکہ چلا گیا۔ ابھی میں مکہ میں ہی مقیم تھا کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر ملی۔ اُم المومنین حضرت عائشہؓ بھی مکہ میں تشریف فرما تھیں۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپؓ مجھے کس کی بیعت کا حکم دیتی ہیں؟
حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ حضرت علیؓ کی بیعت کر لو۔ (طبری جلد سوم، حصہ دوم، ص 113)
اسی طرح حضرت طلحہؓ و زبیرؓ نے بھی احنف کو حضرت علیؓ کی بیعت کا حکم دیا۔ احنف کہتے ہیں میں طلحہؓ و زبیرؓ کی خدمت میں گیا اور عرض کیا میری ناقص رائے تو یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ شہید کردیئے جائیں گے۔ آپ یہ فرمائیے کہ میں ان کے بعد کس کی بیعت کروں۔ حضرت طلحہؓ و زبیرؓ نے جواب دیا حضرت علیؓ کی۔
احنف: کیا آپ دونوں حضرات خلافتِ علیؓ پر راضی ہیں اور کیا فی الواقع آپ دونوں مجھے ان کی بیعت کا حکم دے رہے ہیں؟
حضرت طلحہؓ و زبیرؓ: ہاں! (طبری جلد سوم، حصہ دوم، ص 113)

حضرت زبیرؓ کی جنگ میں شرکت نہ کرنے کی وجہ

جب جنگِ جمل کا آغاز ہونے والا تھا تو حضرت زبیرؓ نے جنگ سے علیحدگی اختیار کر لی۔
عبدالسلام ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ جنگِ جمل کے دن حضرت علیؓ نے حضرت زبیرؓ کے ساتھ تنہائی اختیار کی اور فرمایا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں سقیفہ بنی ساعدہ میں ایک مرتبہ آپ میرے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے تو اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کیا یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم علیؓ سے قتال کرو گے اس حال میں کہ تم ظالم ہوگے پھر تمہارے خلاف مدد کی جائے گی؟ ہاں میں نے یہ بات سنی ہے یقینا میں آپ سے قتال نہیں کروں گا۔ (ابن ابی شیبۃ وابن منیع عقیلی نے روایت کی اور کہا یہ متن کسی ایسی روایت سے مروی نہیں جو ثابت ہو)۔ (کنز العمال 31689)

قتادہ سے روایت ہے جب جنگِ جمل کے دن زبیرؓ واپس ہوگئے اور یہ خبر حضرت علیؓ کو پہنچی تو انہوں نے فرمایا اگر ابنِ صفیہ جانتے کہ وہ حق پر ہیں تو واپس نہ جاتے یہ اس وجہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دونوں سے ملاقات کی،بنوساعدہ میں فرمایا اے زبیرؓ کیا تم علیؓ سے محبت کرتے ہو تو عرض کیا مجھے ان سے محبت کرنے میں کیا چیز مانع ہے! پھر فرمایا اس وقت کیا حال ہوگا جب تم ان سے قتال کرو گے اس حال میں کہ تم ظالم ہو گے۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ یہی سمجھتے تھے ان کے واپس ہونے کی وجہ یہی ہے۔ (بیہقی فی الدلائل،کنزالعمال 31650)

عبدالسلام سے منقول ہے کہ حضرت علیؓ جنگِ جمل کے دن حضرت زبیرؓ سے علیحدگی میں ملے اور فرمایا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتاہوں بتاؤ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے نہیں سنا جبکہ تم فلاں قبیلے کے چھپر کے نیچے میرے ہاتھ پر جھکے کھڑے تھے تم اس سے قتال کرو گے اور تم اس پر ظلم کرنے والے ہوگے پھر تم پر تمہارے خلاف مدد کی جائے گی۔ حضرت زبیرؓ نے فرمایا میں نے سنا ہے یقینا اور اب میں آپؓ سے قتال نہیں کروں گا۔ (ابنِ ابی شیبہ 38968) 

ابنِ شہاب کہتے ہیں :
جنگِ جمل میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہٗ شکست خوردہ لوٹے، راستے میں بنی تمیم کے ایک شخص ابن جرموز نے ان کو دیکھ لیا، اس نے آپؓ کو شہید کر دیا۔(مستدرک 5567)

ابنِ خلدون اس واقعہ کے متعلق لکھتے ہیں:
امیرالمومنین حضرت علیؓ نے حضرت زبیرؓ کی طرف مخاطب ہو کر کہا کیا تم کو وہ دن یاد ہے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے آپؓ سے فرمایا تھا بیشک آپؓ ایک ایسے شخص سے لڑیں گے جس پر آپؓ ہی ظلم کرنے والے ہوں گے۔ حضرت زبیرؓ نے جواب دیا ہاں مجھے یاد آ گیا۔ ا گر آپؓ میری روانگی سے پیشتر مجھے یہ بات یاد دلا دیتے تو ہرگز خروج نہ کرتا اور اب واللہ میں آپؓ سے ہرگز نہ لڑوں گا۔ اس قدر گفتگو فرمانے کے بعد ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ امیر المومنین حضرت علیؓ نے اپنے لشکر میں واپس ہو کر ہمراہیوں سے فرمایا ’’حضرت زبیرؓ تو اب ہم سے نہ لڑیں گے۔‘‘ (تاریخ ابن خلدون، جلد 2، حصہ1، ص 395)

طبریؒ لکھتے ہیں:
حضرت زبیرؓ جنگ سے علیحدگی اختیار کر کے صفوان چلے گئے۔ (تاریخ طبری جلد سوم، حصہ دوم، ص 115)
ان سب روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت زبیرؓ نے جنگِ جمل میں شرکت نہ کی۔ یقینا ان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ مسلمانوں کو آمنے سامنے لانے والے منافقین کے گروہ ہیں۔

حضرت زبیرؓ کی شہادت

مصعب بن عبداللہ زبیریؓ فرماتے ہیں : حضرت زبیرؓ مدینہ کی جانب روانہ ہوئے، عمرو بن جرموز بھی ان کے پیچھے پیچھے مدینہ کی جانب چل پڑا۔ وادی سباع میں اس نے آپ رضی اللہ عنہٗ کو دھوکہ کے ساتھ شہید کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور ان کے ساتھیوں کو ان کے خون سے بری کر دیا۔ عمرو بن جرموز نے آپ رضی اللہ عنہٗ کو 36 ہجری رجب کے مہینے میں شہید کیا۔ عرب میں بنو مجاشع کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ زبیرؓ کے بارے میں بہت ساری باتیں چھپا گئے ہیں اس لئے جریر نے کہا: زبیرؓ ( کے قتل) کے بعد مجاشع نے حیض والے کپڑے پہن لئے ہیں جن سے خون نہیں دھویا گیا۔ (مستدرک 5549)

طبریؒ حضرت زبیرؓ کی شہادت کا واقعہ اس طرح بیان کرتے ہیں:
حضرت زبیرؓ جنگ سے علیحدگی اختیار کر کے صفوان چلے گئے۔ یہ مقام بصرہ سے اتنے ہی فاصلے پر واقعہ ہے جتنا کہ قادسیہ۔ بنو مجاشع کا ایک نعر نامی شخص راہ میں ملا۔ اس نے ان سے عرض کیا اے حواریٔ رسول! آپؓ کہاں جا رہے ہیں؟ بہترہے آپؓ میرے ساتھ چلیے میں آپؓ کو اپنی پناہ میں لیتا ہوں کوئی آپؓ کی جانب نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔ حضرت زبیرؓ اس کے ساتھ احنف کے پاس چلے گئے اور اس شخص کی امان کو منظور کر لیا۔ احنف نے عرض کیا اب آپؓ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟
حضرت زبیرؓ: مسلمانوں نے ایک دوسرے کو تلواروں سے کاٹ کر رکھ دیا ہے اس لیے سب سے بڑی چیز مسلمانوں کا اتحاد ہے۔
اس کے بعد حضرت زبیرؓ نعر کے ساتھ اس کے گھر چلے گئے۔ 

یہ تمام باتیں عمرو بن جرموز، فضالہ بن حابس اور نفیع بھی سن رہے تھے۔ یہ تینوں حضرت زبیرؓ اور نعر کے پیچھے لگ گئے اس وقت حضرت زبیرؓ ایک کمزور گھوڑے پر سوار تھے۔ عمرو بن جرموز نے ان کے پیچھے سے وار کیالیکن وار اوچھا پڑا۔ حضرت زبیرؓ نے پلٹ کر حملہ کیا۔ ان کا حملہ اتنا سخت تھا کہ عمرو کو اپنی موت کا یقین ہو گیا۔ اس نے نفیع اور فضالہ کو آواز دی۔ وہ دونوں بھی اس کی مدد کو پہنچ گئے اور تینوں نے مل کر حضرت زبیرؓ کو شہید کر دیا۔ (تاریخ طبری، جلد 3، حصہ دوم، ص 115)

حضرت طلحہؓ نے جنگِ جمل میں شرکت نہ کی

رفاعہ بن ایاس ضبی اپنے والد سے ، وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ہم جنگِ جمل کے دن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہمراہ تھے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہٗ کو پیغام بھیجا کہ وہ مجھ سے ملیں۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہٗ ان کے پاس آئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سنے ہیں ’’جس کا میں مولیٰ ہوں ، علیؓ اس کا مولیٰ ہے، اے اللہ! تو اس کی مدد کر جو علیؓ کی مدد کرے اور تو اس کے ساتھ دشمنی کر جو علیؓ کے ساتھ دشمنی کرے‘‘ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہٗ نے کہا: جی ہاں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: تو پھر آپؓ میرے ساتھ کیوں جنگ کر رہے ہیں؟ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہٗ نے کہا: مجھے یاد نہیں رہا تھا۔ پھر حضرت طلحہ رضی اللہ عنہٗ واپس چلے گئے۔ (مستدرک 5594)

ابنِ کثیر کے مطابق بھی حضرت طلحہؓ نے جنگِ جمل میں شرکت نہ کی۔ وہ لکھتے ہیں:
جنگِ جمل میں حضرت طلحہؓ شامل ہوئے تو حضرت علیؓ سے ملاقات ہوئی۔ حضرت علیؓ نے آپؓ کو وعظ و نصیحت فرمائی تو آپؓ پیچھے ہٹ کرایک صف میں کھڑے ہو گئے۔ (تاریخ ابنِ کثیر ، جلد 4، حصہ ہفتم، ص 247)

(جاری ہے)

استفادہ کتب:
۱۔خلفائے راشدینؓ: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس،  ناشر : سلطان الفقر پبلیکیشنز
۲۔ تاریخ طبری، مصنف:علامہ ابی جعفر محمد بن جریر الطبری، ناشر نفیس اکیڈمی کراچی
۳۔ تاریخ ابنِ خلدون، مصنف:علامہ عبدالرحمٰن ابنِ خلدون، نفیس اکیڈمی کراچی
۴۔ تاریخ ابنِ کثیر: تصنیف حافظ عمادالدین ابوالفدا اسماعیل، ناشر دارالاشاعت کراچی

 
 

5 تبصرے “حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِخلافت کی مشکلات Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat

  1. بہترین اور معلوماتی تحریر ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں