حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِخلافت کی مشکلات Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat


3.8/5 - (41 votes)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ  کے دورِخلافت کی مشکلات
Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat

قسط 15                                                                                سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری

حضرت عمارؓ کی شہادت

ابنِ کثیرؒلکھتے ہیں:
مسلم شریف میں حضرت اُمِ سلمہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ــــ’’عمارؓ کو باغی گروہ قتل کرے گا۔۔۔‘‘ امام بیہقی حضرت ابنِ مسعودؓ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جب لوگ اختلاف کا شکار ہوں گے تو عمارؓ برحق گروہ کے ساتھ ہوں گے۔‘‘ حضرت عمارؓ جنگِ صفین میں حضرت علیؓ کے ہمراہ تھے، حضرت امیر معاویہؓ کے فریق سے حضرت ابوالغادیہ نے آپ کو شہید کیا۔ (تاریخ ابنِ کثیر، جلد 3، حصہ 6، ص 516)

مولانا مودودی لکھتے ہیں:
اس جنگ کے دوران ایسا واقعہ پیش آگیاجس نے نصِ صریح سے یہ بات کھول دی کہ فریقین میں سے حق پر کون ہے اور باطل پر کون۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمار بن یاسرؓ جو حضرت علیؓ کی فوج میں شامل تھے، حضرت معاویہؓ کی فوج سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ حضرت عمارؓ کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ ارشاد صحابہؓ میں مشہور و معروف تھا اور بہت سے صحابیوں نے اس کو حضور کی زبان سے سنا تھا کہ (اے عمارؓ) تم کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ (خلافت و ملوکیت، ص 136-137)

امام طبریؒ لکھے ہیں:
محمد ابن عباد ابن موسیٰ نے محمد بن فضیل اور مسلم الاعور کے حوالے سے حبہ بن جوین العرنی کا یہ بیان نقل کیا ہے ’’میں اور حضرت ابو مسعودؓ مدائن میں حضرت حذیفہؓ کے پاس گئے۔ انہوں نے ہمیں مبارکباد دے کر فرمایا کہ قبائلِ عرب میں کوئی ایسا شخص نہیں جو مجھے تم دونوں سے زیادہ عزیز ہو۔ میں نے ابو مسعودؓ سے ٹیک لگا لی اور پھر ہم دونوں نے عرض کیا اے ابو عبداللہ! ہم فتنوں سے ڈرتے ہیں آپ ہم سے کوئی حدیث فرمائیے۔ حضرت حذیفہؓ نے فرمایاتم اس جماعت میں شامل ہونا جس میں سمیہ کا بیٹا عمارؓ ہو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ اسے ایک باغی جماعت قتل کرے گی جو حق سے ہٹی ہوئی ہو گی اور اس کا آخری رزق پانی ملا دودھ ہو گا۔‘‘ (تاریخ طبری، جلد 3، حصہ 2، ص 231)

حضرت امیر معاویہؓ نے اس حدیث کی شرح یہ کی کہ حضرت عمارؓ کو قتل اس گروہ نے کیا جو ان کو جنگ میں لایا۔ ابنِ کثیرؒلکھتے ہیں:
حضرت امیر معاویہؓ کی یہ تاویل اور تشریح بعید ازقیاس ہے۔ (تاریخ ابنِ کثیر، جلد 3، حصہ 6، ص 517)

مولانا مودودی لکھتے ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ حضرت عمارؓ کو باغی گروہ میدانِ جنگ میں لائے گا بلکہ یہ فرمایا تھا کہ باغی گروہ ان کو قتل کرے گا اور ظاہر ہے کہ ان کو قتل حضرت معاویہؓ کے گروہ نے کیا تھا نہ کہ حضرت علیؓ کے گروہ نے۔ (خلافت و ملوکیت، ص ۹۳۱)

محمد بن عمارہ کہتے ہیں کہ میرے دادا حضرت خزیمہ نے جنگِ جمل کے دن اپنی تلوار کو نیام میں روکے رکھا لیکن جب صفین میں حضرت عمارؓ شہید ہو گئے تو انہوں نے اپنی تلوار نیام سے کھینچ لی اور اتنا لڑے کہ بالآخر شہید ہو گئے۔ وہ کہتے تھے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عمارؓکو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ (مسند احمد 22217)

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن مختار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے عکرمہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے اور اپنے صاحبزادے علیؓ سے ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہٗ کی خدمت میں جاؤ اور ان کی احادیث سنو۔ ہم گئے۔ دیکھا کہ ابوسعید رضی اللہ عنہٗ اپنے باغ کو درست کر رہے تھے۔ ہم کو دیکھ کر آپ نے اپنی چادر سنبھالی اور گوٹ مار کر بیٹھ گئے۔ پھر ہم سے حدیث بیان کرنے لگے۔ جب مسجدِنبویؐ کے بنانے کا ذکر آیا تو آپ نے بتایاکہ ہم تو(مسجد کے بنانے میں حصہ لیتے وقت) ایک ایک اینٹ اٹھاتے۔ لیکن عمارؓ دو دو اینٹیں اٹھا رہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انہیں دیکھا تو ان کے بدن سے مٹی جھاڑنے لگے اور فرمایا: افسوس! عمارؓ کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی جسے عمارؓ جنت کی دعوت دیں گے اور وہ جماعت عمارؓ کو جہنم کی دعوت دے رہی ہو گی۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہٗ نے بیان کیا کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہٗ کہتے تھے کہ میں فتنوں سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ (بخاری447)

سیدّہ اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: مجھے خندق والے دن کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ بات نہیں بھولی، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صحابہ کرامؓ کو اینٹیں پکڑا رہے تھے اور آپؐ کے سینہ مبارک کے بال غبار آلود ہو چکے تھے اور آپؐ یوں فرما رہے تھے: اے اللہ! اصل بھلائی تو آخرت کی بھلائی ہے، تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما دے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عمار رضی اللہ عنہٗ کو دیکھا تو فرمایا: سمیہ کے بیٹے پر افسوس ہے کہ اسے ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ حسن ابنِ سیرین کہتے ہیں: میں نے اس حدیث کو محمد بن سیرین کے سامنے ذکر کیا تو انہوں نے کہا: کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عمار رضی اللہ عنہٗ کی والدہ کا نام لے کر فرمایا تھا؟ میں نے کہا:جی ہاں،کیونکہ وہ (سمیہ رضی اللہ عنہا) سیدّہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں آتی جاتی رہتی تھیں۔(مسند احمد 27015)
ابنِ عون نے حسن سے، انہوں نے اپنی والدہ سے اور انہوں نے حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔‘‘ (مسلم 7320)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’عمار! تمہیں ایک باغی جماعت قتل کرے گی۔‘‘ (ترمذی 3800)
ابنِ کثیرؒ لکھتے ہیں کہ جس شخص نے حضرت عمارؓ کو شہید کیا تھا وہ حضرت معاویہؓ کو بتانے آیا تھا:
راوی کہتے ہیں جب کہ حضرت معاویہؓ کے پاس کچھ لوگ موجود تھے تو ان کے پاس دو شخص حضرت عمارؓ کی شہادت کے بارے میں جھگڑتے ہوئے آئے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ان دونوں سے کہا تم میں سے جو بھی اپنے ساتھی کے مقابلے میں حضرت عمارؓ کی شہادت سے اپنے نفس کو خوش کرنا چاہتا ہے (یعنی اس نے حضرت عمارؓ کو شہید کیا) تو وہ اپنے آپ کو خوش کر لے۔ کیونکہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ حضرت عمارؓ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ (تاریخ ابن کثیر، جلد ۴، حصہ ۷، صفحہ ۸۶۲)

فضیلتِ حضرت علیؓ

ابنِ کثیرؒ لکھتے ہیں:
ایک روایت میں ہے کہ ابوالدرداؓ اور ابوامامہؓ دونوں حضرت معاویہؓ کے پاس پہنچے اور کہا کہ اے معاویہ! آپ اس شخص سے کس بنا پر جنگ کرتے ہو؟ اللہ کی قسم! وہ آپ سے اور آپ کے والد سے زیادہ قدیم الاسلام ہیں اور رسول اللہ کے،بہ نسبت آپ کے، زیادہ قریب اور اس امرِ خلافت کے آپ سے زیادہ مستحق ہیں۔ (تاریخ ابنِ کثیر، جلد 4، حصہ ہفتم، ص 259)

طبریؒ کے مطابق حضرت امیر معاویہؓ اور حضرت عمرو بن العاصؓ بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی فضیلت سے واقف تھے:
حضرت عمرو بن عاصؓ تنہائی میں حضرت امیرمعاویہؓ کے پاس پہنچے اور ان سے کہا کہ مجھے آپ پر تعجب ہے کہ میں تو آپ کی حمایت پر آمادہ ہوں اور آپ مجھ سے منہ پھیر رہے ہیں۔ خدا کی قسم! اگر ہم آپ کے ساتھ خلیفہ کے قصاص کا مطالبہ کریں تو ہمیں اس شخص سے جنگ کرنا ہو گی جس کی سبقتِ اسلام، قرابتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور فضیلت سے آپ بھی واقف ہیں لیکن ہم نے دنیا کو اختیار کر لیا ہے۔ یہ سن کر حضرت معاویہؓ نے ان سے صلح کر لی اور ان کی جانب مائل ہو گئے۔ (تاریخ طبری، جلد 3، حصہ دوم، ص 181)

شاہ ولی اللہؒ لکھتے ہیں:
رہا یہ کہ حضرت معاویہؓ مجتہد مخطی اور معذور تھے، تو اس کی صورت یہ ہے کہ وہ شبہ کے ساتھ دلیل پکڑے ہوئے تھے۔ ہر چند کہ دوسری دلیل جو میزانِ شریعت میں اس سے زیادہ وزن دار تھی ظاہر ہو گئی۔ (ازالتہ الخفا، جلد 4، ص 525)

حضرت معاویہؓ کو شکست اور قرآن کا اٹھانا

دونوں لشکر ذوالحج 36ہجری کے آغاز میں صفین میں پہنچے۔ اس ماہ ہلکی جھڑپیں ہوتی رہیں لیکن کوئی غالب نہ رہا۔ پھر نئے سال ماہِ محرم میں مکمل جنگ بندی کی گئی۔ محرم ختم ہوتے ہی جنگ کا آغاز ہو گیا۔ جنگ کئی دنوں تک جاری رہی۔ تقریباً ایک ہفتہ بعد حضرت امیر معاویہؓ کو شکست کے آثار نظر آنے لگے تو ان کے لشکر نے شکست سے بچنے کے لیے قرآن نیزوں پر اٹھا لیے کہ جنگ بند کر دی جائے اور قرآن کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ طبریؒ لکھتے ہیں:
ابو مخنف کہتا ہے کہ جب حضرت عمروبن العاصؓ نے یہ دیکھا کہ عراقی غالب آتے جا رہے ہیں اور انہیں ہلاکت کا خوف پیدا ہوا تو انہوں نے حضرت امیر معاویہؓ سے کہا کہ میں آپ کے سامنے ایک رائے پیش کرتا ہوں جس سے ہم میں تو اتحاد بڑھ جائے گا اور دشمنوں میں انتشار پیدا ہو جائے گا۔ حضرت معاویہؓ نے کہا ’’ہاں بیان کریں۔‘‘ حضرت عمروبن العاصؓ نے کہا کہ وہ تدبیر یہ ہے کہ ہم قرآن اٹھا لیں اور یہ کہیں قرآن جو فیصلہ کرے وہ فیصلہ ہمیں اور تمہیں منظور ہونا چاہیے۔ اگر مخالفین میں سے چند لوگوں نے بھی اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تو آپ دیکھیں گے کہ ان میں ایک گروہ ایسا پیدا ہو جائے گا جو اس فیصلہ کو قبول کرے گا۔ اس طرح ان میں تفرقہ پیدا ہو جائے گا اور سب نے یہ کہا کہ ہمیں یہ فیصلہ متفقہ طور پر منظور ہے تو ایک مدت تک یہ جنگ ہمارے سروں سے دور ہو جائے گی۔ 

اس بات پر شامیوں نے قرآن نیزوں پر اٹھا لیے اور بولے ہمارے اور تمہارے درمیان یہ کتاب فیصلہ کن ہے۔ شامیوں کا فیصلہ سب اہلِ شام پر واقع ہو گا اور عراقیوں کا فیصلہ تمام اہلِ عراق پر نافذ ہو گا۔ عراقیوں نے جب یہ دیکھا کہ قرآن اٹھا لیے گئے ہیں تو بولے کہ ہم اللہ کی کتاب کو قبول کرتے اور اس کی جانب رجوع کرتے ہیں۔ (تاریخ طبری، جلد 3، حصہ 2، ص 240-241)

حضرت علیؓ جنگ بندی نہ چاہتے تھے

 حضرت علیؓ اس چال سے واقف تھے۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ جنگ جاری رکھیں لیکن بہت سے لوگوں نے حضرت علیؓ کی بات نہ مانی۔ ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
حضرت علیؓ کے ساتھیوں نے جواب دیا:یہ ہم سے نہیں ہو سکتا کہ ہمیں کتاب اللہ کی طرف دعوت دی جائے اور ہم اس کا انکار کر دیں۔ حضرت علیؓ نے ان سے فرمایا’’ میں ان سے اس لیے قتال کر رہاہوں کہ وہ کتاب اللہ کے فیصلے کو تسلیم کر لیں کیوں کہ انہوں نے حکمِ الٰہی کی نافرمانی کی ہے، اس عہد کو توڑ دیا اور کتاب اللہ کو پسِ پشت پھینک دیا ہے۔‘‘ (تاریخ ابنِ کثیر، جلد 4، حصہ ہفتم، ص 271)

یہاں تک کہ انہوں نے حضرت علیؓ کو (نعوذباللہ) قتل کی دھمکی بھی دیدی۔ ابنِ خلدون لکھتے ہیں:
مسعر بن فدک تمیمی اور زید بن حصین الطائی مع ان لوگوں کے جو بعد میں فرقہ خارجی میں داخل ہو گئے تھے، بولے’’اے علیؓ! کتاب اللہ کو قبول و منظور کرو ورنہ ہم تم کو چھوڑ دیں گے اور تمہارے ساتھ وہی برتاؤ کریں گے جو ابنِ عفان کے ساتھ ہم نے کیا تھا۔‘‘ امیرالمومنین حضرت علیؓ نے فرمایا ’’اگر تم میرے مطیع ہو تو برابر لڑتے رہواور اگر باغی ہونا چاہتے ہو تو جو تمہاری سمجھ میں آئے کرو۔‘‘ (تاریخ ابنِ خلدون، جلد 2، حصہ اوّل، صفحہ 419)

حضرت علیؓ کے جو ساتھی آگے لڑ رہے تھے اور فتح کے قریب تھے ان کو پیغام بھیجا گیا کہ وہ واپس آ جائیں ورنہ حضرت علیؓ کو (معاذاللہ) شہید کر دیا جائے گا۔ آپ کے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ وہ فتح سے اتنا قریب ہیں جتنا اونٹنی سے دودھ دوہنے میں وقت لگتا ہے۔ 

حضرت علیؓ پر اعتراض اور اس کا جواب

لوگوں کا حضرت علیؓ پر یہ بھی اعتراض ہے کہ اگر حکم بنانا غلط ہے تو آپ حکم بنانے پر راضی نہ ہوتے۔ 
 اس ضمن میں عرض ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ تو شروع سے ہی جنگ روکنے کے خلاف تھے۔ وہ اس کو چال گردانتے تھے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس لیے راضی ہوئے کہ کوئی ان کے ساتھ کھڑا ہی نہ تھا صرف چند ایک لوگ تھے جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ تھے۔ اس کا جواب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے خود بھی دیا تھا۔ طبریؒ لکھتے ہیں:
خدا کی قسم! میں اس معاہدہ پر راضی نہ تھا اور نہ میں اسے پسند کرتا ہوں، تم لوگ ہی اسے پسند کرتے ہو جب تم لوگوں نے معاہدہ کے علاوہ ہر بات ماننے سے انکار کر دیا تو میں نے بھی اسے قبول کر لیا۔ (تاریخ طبری، جلد 3، حصہ دوم، ص 253)

حضرت ابوموسیٰؓ اور حضرت عمرو بن العاصؓ

یہ بات اہم ہے کہ پہلے حضرت علیؓ کی حکم عدولی کر کے جنگ روکی گئی۔ پھر جب یہ بات چلی کہ دونوں فریقین اپنا اپنا ثالث چن لیں تو حضرت علیؓ نے فرمایا کہ وہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو اپنا ثالث مقرر کرتے ہیں لیکن حضرت علی ؓکی یہ بات بھی نہ مانی گئی۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو ثالث مقرر کر دیا گیا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ان کو ثالث نہ بنائیں لیکن کسی نے آپ کا حکم نہ مانا۔ ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
حضرت علیؓ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو وکیل (ثالث) بنانے کا ارادہ کیا اور کاش وہ ایسا کر لیتے، ان کے قراء جن کا ذکر ہم کر چکے ہیں، نے کہا کہ ہم ابوموسیٰ اشعریؓ کے علاوہ کسی پر راضی نہیں ہوں گے۔ (تاریخ ابنِ کثیر، جلد 4، حصہ ہفتم، ص 274)

طبریؒ لکھتے ہیں حضرت علیؓ نے فرمایا:
تم نے پہلی بات میں تو میری نافرمانی کی ہے لیکن اب تو میری نافرمانی نہ کرو۔ میں تو ابوموسیٰؓ کو حاکم بنانا نہیں چاہتا۔ (تاریخ طبری، جلد3، حصہ2، صفحہ 245)

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو جب ثالث مقرر کیا تو دلیل یہ دی کہ وہ جنگ سے دور رہے ہیں۔ ڈاکٹر طٰہٰ حسین لکھتے ہیں:
انہوں نے شاید یہ دلیل دیتے ہوئے یہ نہیں سوچا تھا کہ عمروبن العاصؓ نے جنگ میں نہ صرف عملی طور پر حصہ لیا تھابلکہ اپنی دماغی صلاحیتیں بھی وقف کر دی تھیں۔ (حضرت علی المرتضیٰؓ، ص 232)

ڈاکٹر طٰہٰ حسین لکھتے ہیں:
جب حضرت علیؓ نے اس معاملے کو سفارتی سطح پر حل کرنا چاہا اور ان کی جانب سفیر بھیجے تو انہوں نے ان کو ناکام لوٹا دیا اور کہا کہ فیصلہ صرف اور صرف تلوار سے ہو گا اور جب تلوار سے فیصلہ ہونے لگا توقرآن بلند کر دیا۔ (حضرت علی المرتضیٰؓ، ص 232)

سنتِ حدیبیہ کا زندہ ہونا

پھر جب عہد نامہ تحریر ہوا تو حضرت علیؓ کے ساتھ امیر المومنین نہ لکھا گیا۔ ابنِ خلدون لکھتے ہیں:
حضرت عمروبن العاصؓ امیر المومنین حضرت علیؓ کے پاس اقرار نامہ لکھنے کو حاضر ہوئے۔ کاتب نے بسم اللہ کے بعد لکھا: ھذا ماتقضی علیہ امیرالمومنین
حضرت عمروبن العاصؓ نے فوراً قلم پکڑ لیا۔ کہنے لگے یہ ہمارے امیر نہیں ہیں، تمہارے امیر ہوں تو ہوں۔
اخنف: اس لفظ کو محو نہ کرو، مجھے اس کے محو کرنے سے بدفالی کا خیال پیدا ہوتا ہے۔
اشعث: امیرالمومنین کا لفظ ضرور محو کرو۔
امیرالمومنین: اللہ اکبر۔ صلح حدیبیہ کے وقت بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اسمِ مبارک کے ساتھ رسول اللہ نہیں لکھنے دیا تھا۔ (تاریخ ابنِ خلدون، جلد 2، حصہ اول، ص 421)

طبریؒ لکھتے ہیں حضرت علی ؓنے اپنے لشکر سے خطاب کیا کہ:
تم نے وہ کام کیا جس سے تمہاری قوت ختم ہو گئی۔ تمہارے احسانات ختم ہو گئے، تم سست پڑ گئے اور سستی اور ذلت تم نے وراثت میں لے لی ہے۔ جب تم بلند ہو چکے تھے اور تمہارے دشمن مقابلہ سے گھبرا رہے تھے اور ان کا قتلِ عام ہو رہا تھا اور انہیں زخموں کی تکلیف محسوس ہو رہی تھی تو ان لوگوں نے قرآن اٹھا لیے اور تمہیں قرآن کے احکام پر چلنے کی اس لیے دعوت دی تا کہ تم ان سے اپنے ہاتھ روک لو اور تمہارے اور ان کے درمیان جنگ بند ہو جائے اور دھوکہ بازوں کی طرح وہ تمہاری گھات میں لگ جائیں اور تمہیں دھوکہ اور فریب میں مبتلا کر دیں۔ انہوں نے جو خواہش کی تھی تم نے اسے پورا کر دکھایا۔ (تاریخ طبریؒ، جلد 3، حصہ دوم، ص 250)

(جاری ہے)

استفادہ کتب:
۱۔ تاریخ ابنِ خلدون، مصنف:علامہ عبدالرحمٰن ابنِ خلدون، نفیس اکیڈمی کراچی
۲۔ تاریخ ابنِ کثیر: تصنیف حافظ عمادالدین ابوالفدا اسماعیل، ناشر دارالاشاعت کراچی
۳۔ ازالتہ الخفا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی

 
 

30 تبصرے “حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِخلافت کی مشکلات Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat

  1. حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں تحقیقی مضمون

  2. طبریؒ لکھتے ہیں حضرت علی ؓنے اپنے لشکر سے خطاب کیا کہ:
    تم نے وہ کام کیا جس سے تمہاری قوت ختم ہو گئی۔ تمہارے احسانات ختم ہو گئے، تم سست پڑ گئے اور سستی اور ذلت تم نے وراثت میں لے لی ہے۔ جب تم بلند ہو چکے تھے اور تمہارے دشمن مقابلہ سے گھبرا رہے تھے اور ان کا قتلِ عام ہو رہا تھا اور انہیں زخموں کی تکلیف محسوس ہو رہی تھی تو ان لوگوں نے قرآن اٹھا لیے اور تمہیں قرآن کے احکام پر چلنے کی اس لیے دعوت دی تا کہ تم ان سے اپنے ہاتھ روک لو اور تمہارے اور ان کے درمیان جنگ بند ہو جائے اور دھوکہ بازوں کی طرح وہ تمہاری گھات میں لگ جائیں اور تمہیں دھوکہ اور فریب میں مبتلا کر دیں۔ انہوں نے جو خواہش کی تھی تم نے اسے پورا کر دکھایا۔ (تاریخ طبریؒ، جلد 3، حصہ دوم، ص 250)

  3. مولانا مودودی لکھتے ہیں:
    اس جنگ کے دوران ایسا واقعہ پیش آگیاجس نے نصِ صریح سے یہ بات کھول دی کہ فریقین میں سے حق پر کون ہے اور باطل پر کون۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمار بن یاسرؓ جو حضرت علیؓ کی فوج میں شامل تھے، حضرت معاویہؓ کی فوج سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ حضرت عمارؓ کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ ارشاد صحابہؓ میں مشہور و معروف تھا اور بہت سے صحابیوں نے اس کو حضور کی زبان سے سنا تھا کہ (اے عمارؓ) تم کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ (خلافت و ملوکیت، ص 136-137)

  4. حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور حکومت پر بہت ہی نایاب لکھا گیا

  5. اللہ پاک دونوں جہانوں میں اہلِ حق کا ساتھ عطا فرمائے آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں