قسط 17 سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ کو ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہٗ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں موجود تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (جنگِ حنین کا مال غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے اتنے میں بنی تمیم کا ذوالخویصرہ نامی ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! انصاف سے کام لیجئے۔ یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
’’افسوس! اگر میں ہی انصاف نہ کروں تو دنیا میں پھر کون انصاف کرے گا۔ اگر میں ظالم ہو جاؤں تب تو میری بھی تباہی اور بربادی ہو جائے۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے عرض کیا حضور! اس کے بارے میں مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اسے چھوڑ دو۔ اس کے جوڑ کے کچھ لوگ پیدا ہوں گے کہ تم اپنی نماز کو ان کی نماز کے مقابلے میں (بظاہر) حقیر سمجھو گے اور تم اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے مقابل ناچیز سمجھو گے۔ وہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن وہ ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا۔یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے زور دار تیر جانور سے پار ہو جاتا ہے۔ اس تیر کے پھل کو اگر دیکھا جائے تو اس میں کوئی چیز (خون وغیرہ) نظر نہ آئے گی پھر اس کے پٹھے کو اگر دیکھا جائے (تو چھڑ میں اس کے پھل کے داخل ہونے کی جگہ سے اوپر جو لگایا جاتا ہے) تو وہاں بھی کچھ نہ ملے گا۔ اس کے نفی (نفی تیر میں لگائی جانے والی لکڑی کو کہتے ہیں) کو دیکھا جائے تو وہاں بھی کچھ نشان نہیں ملے گا۔ اسی طرح اگر اس کے پر کو دیکھا جائے تو اس میں بھی کچھ نہیں ملے گا۔ حالانکہ گندگی اور خون سے وہ تیر گزرا ہے۔ ان کی علامت ایک کالا شخص ہو گا۔ اس کا ایک بازو عورت کے پستان کی طرح (اٹھا ہوا) ہو گا یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہو گا اور حرکت کر رہا ہو گا۔ یہ لوگ مسلمانوں کے بہترین گروہ سے بغاوت کریں گے۔‘‘
حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہٗ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سنی تھی اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے ان سے جنگ کی تھی (یعنی خوارج سے) اس وقت میں بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ تھا اور انہوں نے اس شخص کو تلاش کرایا (جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس گروہ کی علامت کے طور پر بتلایا تھا) آخر وہ لایا گیا۔ میں نے اسے دیکھا تو اس کا پورا حلیہ بالکل آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بیان کئے ہوئے اوصاف کے مطابق تھا۔ (بخاری 3610)
سلمہ بن کہیل نے کہا: مجھے زید بن وہب جہنی نے حدیث سنائی کہ وہ اس لشکر میں شامل تھے جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ تھا اور خوارج کی طرف روانہ ہوا تھا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کہا: لوگو! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ’’میری امت سے کچھ لوگ نکلیں گے، وہ (اس طرح) قرآن پڑھیں گے کہ تمہاری قرأت ان کی قرأت کے مقابلے میں کچھ نہ ہو گی اور نہ تمہاری نمازوں کی ان کی نمازوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہو گی اور نہ ہی تمہارے روزوں کی ان کے روزوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہو گی۔ وہ قرآن پڑھیں گے اور خیال کریں گے وہ ان کے حق میں ہے حالانکہ وہ ان کے خلاف ہوگا۔ ان کی نماز ان کی ہنسلیوں سے آگے نہیں بڑھے گی، وہ اس طرح تیز رفتاری کے ساتھ اسلام سے نکل جائیں گے جس طرح تیر بہت تیزی سے شکار کے اندر سے نکل جاتا ہے۔‘‘ اگر وہ لشکر، جو ان کو جا لے گا، جان لے کہ ان کے نبیؐ کی زبان سے ان کے بارے میں کیا فیصلہ ہوا ہے تو وہ عمل سے (بے نیاز ہو کر صرف اسی عمل پر) بھروسا کر لیں۔ اس (گروہ) کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی ہو گا جس کا عضد (بازو، کندھے سے لے کر کہنی تک کا حصہ) ہو گا، کلائی نہیں ہو گی، اس کے بازو کے سرے پر پستان کی نوک کی طرح (کا نشان) ہو گا جس پر سفید بال ہوں گے۔ تم لوگ معاویہؓ اور اہلِ شام کی طرف جا رہے ہو اور ان (لوگوں) کو چھوڑ رہے ہو جو تمہارے بعد تمہارے بچوں اور اموال پر آ پڑیں گے، اللہ کی قسم! مجھے امید ہے کہ یہ وہی قوم ہے کیونکہ انہوں نے (مسلمانوں کا) حرمت والا خون بہایا ہے اور لوگوں کے مویشیوں پر غارت گری کی ہے۔ اللہ کا نام لے کر (ان کی طرف) چلو۔
سلمہ بن کہیل نے کہا: مجھے زید بن وہب نے (ایک ایک) منزل میں اتارا (ہر منزل کے بارے میں تفصیل سے بتایا) حتیٰ کہ بتایا: ہم ایک پل پر سے گزرے، پھر جب ہمارا آمنا سامنا ہوا تو اس روز خوارج کا سپہ سالار عبداللہ بن وہب راسبی تھا۔ اس نے ان سے کہا: اپنے نیزے پھینک دو اور اپنی تلواریں نیاموں سے نکال لو کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ وہ تمہارے سامنے (صلح کے لیے اللہ کا نام) پکاریں گے جس طرح انہوں نے حروراء کے دن تمہارے سامنے پکارا تھا۔ تو انہوں نے لوٹ کر اپنے نیزے دور پھینک دیے اور تلواریں سونت لیں تو لوگ انہی نیزوں کے ساتھ ان پر پل پڑے اور وہ ایک دوسرے پر قتل ہوئے (ایک کے بعد دوسرا آتا اور قتل ہو کر پہلوں پر گرتا) اور اس روز (علی کرم اللہ وجہہ کا ساتھ دینے والے) لوگوں میں سے دو کے سوا کوئی اور قتل نہ ہوا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کہا: ان میں ادھورے ہاتھ والے کو تلاش کرو۔ لوگوں نے بہت ڈھونڈا لیکن اس کو نہ پا سکے۔ اس پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ خود اٹھے اور ان لوگوں کے پاس آئے جو قتل ہو کر ایک دوسرے پر گرے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا: ان کو ہٹاؤ۔ تو انہوں نے اسے (لاشوں کے نیچے) زمین سے لگا ہوا پایا۔ آپ نے اللہ اکبر کہا۔ پھر کہا: اللہ نے سچ فرمایا اور اس کے رسول نے (اسی طرح ہم تک) پہنچا دیا۔ (زید بن وہب نے) کہا: عبیدہ سلمانی کھڑے ہو کر آپ کے سامنے حاضر ہوئے اور کہا: اے امیرالمومنین! اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں! آپ نے واقعی یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سنی تھی؟ تو انہوں نے کہا: ہاں! اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! حتیٰ کہ اس نے آپ سے تین دفعہ قسم لی اور آپ اس کے سامنے حلف اٹھاتے رہے۔ (مسلم 2467)
حضرت ابوسعیدخدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت دو فرقوں میں بٹ جائے گی۔ اس کے درمیان سے ایک خارجی گروہ نکلے گا۔ ان کے قتل پر وہ گروہ متصرف ہو گا جو دونوں میں بہتر ہو گا۔ (خصائصِ علیؓ)
کہا جاتا ہے کہ اس جنگ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے صرف 7 لوگ شہید ہوئے۔ اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے شام کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا لیکن لوگ بہانے بنانے لگے کہ ایک دفعہ واپس کوفہ چلیں تا کہ زخمیوں کی مرہم پٹی کی جائے اور مزید لوگوں کو جہاد کے لیے دعوت دی جائے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ لشکر کو کوفہ کی طرف لے گئے۔ ایک کھلے میدان میں قیام کیا۔ آپؓ نے لوگوں کو منع کیا کہ اپنی بیوی اور بچوں کے پاس کم سے کم جائیں لیکن آہستہ آہستہ لوگ بہت جانا شروع ہو گئے۔ یہاں تک کہ چند مخلص لوگوں کے علاوہ سب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو چھوڑ گئے۔ حضرت علیؓ نے پھر خطبہ دیا۔ طبریؒ لکھتے ہیں:
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ’’تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب بھی تمہیں جہاد کے لیے چلنے کا حکم دیا جاتا ہے تو تم زمین سے چمٹ کر رہ جاتے ہو، کیا تم نے آخرت کے مقابلہ میں دنیاوی زندگی کو پسند کر لیا ہے؟ کیا تمہیں عزت کے مقابلے میں ذلت و خواری زیادہ محبوب ہے؟ یہ کیا بات ہے کہ جب بھی میں تمہیں جنگ کی دعوت دیتا ہوں تو تمہاری آنکھیں اس طرح پتھرا جاتی ہیں جیسے ان پر موت کا نشہ طاری ہو گیا ہو۔ گویا تمہاری عقل سلب کر لی گئی ہو۔ اب تم ذرّہ برابر بھی عقل نہیں رکھتے گویا تمہاری آنکھیں بند ہو چکی ہیں جس کے باعث تم دیکھ نہیں سکتے۔ واللہ کچھ تو بتاؤ تمہیں کیا ہو گیا؟ تم امن کے زمانے میں جنگل کے شیر ہو جس کی نظر میں ہر وقت برائی ہو۔ تمہاری مثال ان لومڑیوں کی طرح ہے کہ جب انہیں جنگ کے لیے بلایا جاتا ہے تو وہ دُم دبا کر بھاگ جاتی ہیں۔ تمام زندگی تم میں کوئی ایسا شخص بھی نہ پایا جس پر میں اعتماد کر سکوں۔تم ایسے سوار نہیں ہو جس کے پاس پناہ ڈھونڈی جا سکے۔ تم ایسے عزت دار نہیں ہو جس کے پاس پہنچ کر کوئی شخص اپنی عزت بچا سکے۔ خدا کی قسم! تم میدانِ جنگ کا بدترین کوڑا کرکٹ ہو۔ تم کسی کو دھوکہ نہیں دے سکتے بلکہ دھوکہ کھانا خوب جانتے ہو۔ تمہارے ہتھیار بیکار ہو چکے ہیں اور تم خود گھبراہٹ میں مبتلا ہو۔ تم غفلت میں مبتلا ہو اور تمہیں اس غفلت میں چھوڑ کر سویا بھی نہیں جا سکتا۔ یاد رکھو!جنگ میں جو شخص ہر وقت بیدار رہتا ہے، اس کی عقل بھی بیدار رہتی ہے۔جو شخص بے فکر ہو کر سو جائے گا وہ ضرور ذلیل ہوگا اور حملہ آور غالب آ جائیں گے اور مغلوب شخص پر قہر توڑا جائے گا اور اس سے سب کچھ چھین لیا جائے گا۔ میرا تم پر ایک حق ہے اور تمہارا بھی مجھ پر ایک حق ہے۔ تمہارا وہ حق جو مجھ پر لازم ہے وہ یہ ہے کہ جب تک میں تمہارے ساتھ رہوں تمہیں نصیحت کرتا رہوں، تمہارا حصہ تمہیں دیتا رہوں اور تمہیں تعلیم دیتا رہوں تاکہ تم جاہل نہ بن جاؤ۔ تمہیں ادب سکھاتا رہوں تاکہ تم تعلیم حاصل کر سکو۔ میرا تم پر حق یہ ہے کہ تم میری بیعت کو پورا کرو اور میری موجودگی اور عدم موجودگی میں میرے خیر خواہ رہو۔ جب بھی میں تمہیں دعوت دوں تو اسے قبول کرو اور میں تمہیں جو حکم دوں اسے بجا لاؤ۔ اگر اللہ کو تمہارے ساتھ کچھ بھلائی مقصود ہے تو تمہیں چاہیے کہ جس کام کو میں برا سمجھوں اسے چھوڑ دو اور جسے میں پسند کروں اسے اختیار کرو۔ تو تم جس شے کے طلبگار ہو اسے پالو گے اور جو تم سوچتے ہو اسے حاصل کر لو گے۔‘‘ (تاریخ طبریؒ، جلد 3، حصہ دوم، صفحہ 290-291)
مصر میں حضرت علیؓ کی خلافت کا خاتمہ
حضرت امیر معاویہؓ نے حضرت عمرو بن العاصؓ کو مصر بھیجا تا کہ حملہ کر کے قبضہ کر لیں۔ یہ لشکر کامیاب ہوا اور حضرت علیؓ کے جو گورنر تھے انہیں شہید کر دیا گیا۔حضرت علیؓ کے خلاف بہت بغاوتیں سر اٹھانے لگیں۔ طبریؒ لکھتے ہیں:
جب حضرت علیؓ نے اہلِ نہروان کو قتل کیا تو ایک بہت بڑی جماعت ان کی مخالفت پر کمربستہ ہو گئی اور گرد و نواح میں ہر جانب بغاوتیں شروع ہو گئیں۔ بنو ناجیہ بھی مخالف بن گئے، اہلِ اہواز نے بھی بغاوت کر دی۔ بصرہ میں ابن الحضرمی نے پہنچ کر ریشہ دوانیاں شروع کر دیں۔ ذمیوں نے خراج دینے سے انکار کر دیا۔ فارسیوں نے فارس سے حضرت سہل بن حنیفؓ جو وہاں کے عامل تھے، کو نکال باہر کیا۔ (تاریخ طبریؒ، جلد 3، حصہ دوم، صفحہ 326)
خریت نامی ایک شخص نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف بغاوت کی۔ کافی سارے لوگوں کو اس نے اپنے ساتھ جمع کر لیا۔ وہ کوفہ سے چھپ کر کوچ کر گیا۔ وہ جس علاقے سے بھی گزرتا لوگ اپنے ساتھ ملا لیتا۔ حضرت علیؓ نے کوفہ سے لشکر روانہ کیا اور بصرہ سے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو حکم دیا کہ وہ بھی لشکر تیار کر کے بھیجیں۔ اس طرح اس خارجی سے مقابلہ ہوا۔ اس کو شکست ہوئی۔ وہاں سے بھاگ گیا اور ساحل کی طرف چلا گیا جدھر اسکے قبیلے کے لوگ تھے۔ اس نے اپنی قوم کو حضرت علیؓ کے خلاف ابھارا۔ اس کے ساتھ ساتھ جو قبیلے اس کی قوم کے قریبی تھے وہ بھی حضرت علیؓ کے خلاف ہو گئے۔ کافی سارے نومسلموں نے جب دیکھا کہ مسلمان مسلمان سے لڑ رہا ہے انہوں نے دوبارہ عیسائیت قبول کر لی۔ خریت نے انہیں کہا کہ اگر حضرت علیؓ کو تمہارا پتا چلا کہ تم دوبارہ عیسائی بن چکے ہو تو تمہیں قتل کر دیں گے۔ اس لیے میرے ساتھ شامل ہو جاؤ، میں تمہاری حفاظت کروں گا۔اس طرح اس نے انہیں بھی ساتھ ملا لیا۔ غیرمسلم جو خراج نہیں دینا چاہتے تھے انہیں بھی اپنے ساتھ ملا لیا کہ میں اس خراج کے خلاف ہوں۔
ہیت پر حملہ
اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف ہیت میں فوج بھیجی گئی جدھر اس نے قبضہ کر لیا۔ طبریؒ لکھتے ہیں:
علی بن محمد ابن عوانہ کا بیان ہے کہ اسی سال (38 ھ) حضرت امیر معاویہؓ نے سفیان ابن عوف کو چھ ہزار کا لشکر دے کر روانہ کیا اور اسے حکم دیا کہ پہلے ہیت پر حملہ کر کے اسے اپنے مقبوضات میں شامل کر لو اور وہاں جو کچھ سامان ملے لوٹ لو۔ پھر آگے بڑھ کر انبار و مدائن پر قبضہ کر لو۔ (تاریخ طبریؒ، جلد3، حصہ دوم، صفحہ 339)
اس طرح ہیت و انبار پر قبضہ کر لیا گیا۔
تیما پر حملہ:
طبریؒ لکھتے ہیں: راوی کہتا ہے کہ اسی سال (38ھ) حضرت امیر معاویہؓ نے عبداللہ فزاری کو سترہ سو آدمیوں کے ساتھ تیما کی جانب روانہ کیا۔ (تاریخ طبری، جلد3، حصہ دوم، صفحہ 339)
ثعلبیہ اور واقصہ پر حملہ:
طبریؒ لکھتے ہیں:
اسی سال حضرت امیر معاویہؓ نے ضحاک بن قیس کو لشکر دے کر روانہ کیا اور اسے حکم دیا کہ واقصہ کے نشیبی علاقے سے گزرو اور اس علاقے میں جتنے بھی دیہاتی نظر آئیں جو حضرت علیؓ کے مطیع ہوں لوٹ لو۔۔۔ ضحاک واقصہ سے آگے بڑھ کر ثعلبیہ پہنچا اور وہاں حضرت علیؓ کا اسلحہ خانہ اور لوگوں کا مال لوٹ لیا۔ (تاریخ طبریؒ، جلد 3، حصہ دوم، صفحہ 340)
ساحلِ دجلہ پر حملہ:
حضرت امیر معاویہؓ نے بذاتِ خود دجلہ کے ساحل پر حملہ کیا اور پورے ساحل کا چکر لگا کر واپس آئے۔ (تاریخ طبری، جلد 3، حصہ دوم، صفحہ 341)
حجاز کی طرف لشکر:
زیاد بن عبداللہ البقائی نے عوانہ سے نقل کیا ہے کہ ثالثوں کے فیصلے کے بعدحضرت امیر معاویہؓ نے بسر کو لشکر دے کر حجاز کی جانب روانہ کیا۔ یہ بسر بنو عامر بن لوی میں سے تھا۔ یہ لشکر لے کر شام سے نکلا اور مدینہ پہنچا۔ حضرت علیؓ کی جانب سے اس وقت مدینہ کے گورنر حضرت ابو ایوب انصاریؓ تھے۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ ڈر کر کوفہ حضرت علیؓ کے پاس جاپہنچے۔ بسر لشکر لیے مدینہ میں داخل ہوا۔۔۔ اس کے بعد اس نے کہا اے اہل مدینہ! اگر حضرت معاویہؓ نے مجھ سے عہد نہ لیا ہوتا تو میں مدینہ کے ایک ایک بالغ کو قتل کر ڈالتا۔ پھر اس نے اہلِ مدینہ سے بیعت لی اور بنو سلمہ خاندان کے پاس کہلا بھیجا کہ تمہارے لیے میرے پاس کوئی امان نہیں۔ (تاریخ طبری، جلد 3، حصہ دوم، صفحہ 344)
بسر کا یمن پر حملہ:
اس کے بعد بسر نے یمن پر حملہ کیا۔
(جاری ہے)
استفادہ کتب:
۱۔ تاریخ طبریؒ: مصنف علامہ ابی جعفر محمد بن جریر الطبری، ناشر نفیس اکیڈمی کراچی
حضرت ابوسعیدخدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت دو فرقوں میں بٹ جائے گی۔ اس کے درمیان سے ایک خارجی گروہ نکلے گا۔ ان کے قتل پر وہ گروہ متصرف ہو گا جو دونوں میں بہتر ہو گا۔ (خصائصِ علیؓ)
Very nice♥️
بہترین معلوماتی مضمون ہے۔
بہترین
Very Beautiful ❤️ and Informative Article
بہت تحقیق کے بعد لکھا گیا ہے بہت اعلیٰ
Hazrat ali ra ka sabr himmat ko salam
لاجواب
حضرت ابوسعیدخدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت دو فرقوں میں بٹ جائے گی۔ اس کے درمیان سے ایک خارجی گروہ نکلے گا۔ ان کے قتل پر وہ گروہ متصرف ہو گا جو دونوں میں بہتر ہو گا۔ (خصائصِ علیؓ)
Bohat acha mazmoon hai
Informative article
معلوماتی آرٹیکل
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق اتنی اہم معلومات فراہم کرنے کا بے حد شکریہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو جس قدر مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔۔۔لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی کمال حکمت و دانائی آپ کی بلند شان کی غمازی کرتی ہے
بہترین مضمون
بہترین تحریر ہے
Salam Ya Ali
Authentic article
بہترین آرٹیکل ہے
اگلی قسط کا انتظار ہے
بہت معلوماتی
حق بیان فرمایا ۔ یا علی مدد