انسانِ کامل سلطان العاشقین سلطان محمد نجیب الرحمن Insan-e-kamil Sultan-ul-Ashiqeen Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman


4.7/5 - (31 votes)

 انسانِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس 

 Insan-e-kamil Sultan-ul-Ashiqeen Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman

تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری۔لاہور

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس وہ کامل ہستی ہیں جو بحکمِ الٰہی طالبانِ مولیٰ کی ظاہری و باطنی تربیت کر کے راہِ فقر کی منازل طے کروا رہے ہیں۔ سلوک کی منازل وہی مرشد طے کروا سکتا ہے جو خود کامیابی و کامرانی کے ساتھ ان منازل سے گزر چکا ہو۔ سلوک کی چار منازل ہیں شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت۔ مرشد کامل میں ان چاروں مقامات کا علم جامع حالت میں موجود ہوتا ہے۔ اس کو اس مثال سے سمجھا سکتے ہیں جیسا کہ جماعت اوّل کا طالبعلم ہے تو استاد اس کی ذہنی استعداد کے مطابق اسے سبق دے گا اور اگر دسویں جماعت کا طالبعلم ہے تو اس کی ذہنی استعداد کے مطابق اس کی رہنمائی کرے گا۔

الغرض استاد میں کلی اور اجمالی طور پر ہر گریڈ کا علم اور تجربہ سمو چکا ہوتا ہے جس کا وہ فرداً فرداً اظہار کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح مرشد کامل بھی اپنے مریدوں کی رہنمائی اس کے مرتبہ کے لحاظ سے کرتا ہے۔ مقامِ شریعت میں وہ ذات کسی اور طرح ظاہر ہوتی ہے، مقامِ طریقت پر کسی اور طرح۔ جب مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ کی نگرانی میں طالب مقامِ معرفت پر قدم رکھتا ہے تو وہ مرشد کو انسانِ کامل یا فقیرِ کامل کے طور پر پہچان لیتا ہے۔

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت ان چاروں مراتب پر شانِ فقر کے عین مطابق طالب کی رہنمائی فرماتے ہیں۔
اس مضمون کا مقصد ان چاروں مقاماتِ سلوک کے حوالے سے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی شان اور طالبانِ مولیٰ کے لیے ان منازل کو آسان کرنے کے لیے کی گئی خدمات کو بیان کرنا ہے۔

شریعت

مقامِ شریعت سب سے ابتدائی مرتبہ ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا ہر قدم شریعتِ محمدیؐ کے عین مطابق ہوتا ہے۔ اسی حوالے سے آپ مدظلہ الاقدس کو شریعتِ محمدیؐ کے ظاہری و روحانی پہلوؤں کی روح کو برقرار رکھنے اور موجودہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق شریعتِ محمدیؐ کی تبلیغ و اشاعت کی عظیم ذمہ داری مجلسِ محمدیؐ سے عطا کی گئی ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے یہ ذمہ داری اس قدر بخوبی نبھائی ہے کہ مجلسِ محمدیؐ سے آپ کو شبیہ غوث الاعظم، شانِ فقر اور آفتابِ فقر جیسے القابات سے نوازا گیا ہے۔ شریعتِ محمدیؐ پر عمل پیرا ہوئے بغیر فقر کی کوئی منزل طے نہیں ہوتی۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

باھوؒ ایں مراتب از شریعت یافتہ
پیشوائے خود شریعت ساختہ

 ترجمہ: باھوؒ نے تمام مراتب شریعت کی پیروی سے پائے اور اس نے شریعت کو اپنا پیشوا بنا یا ہے۔

 ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
تمام مراتب شریعتِ محمدیؐ کی پیروی سے حاصل ہوتے ہیں۔ (امیرالکونین)

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس شریعتِ محمدیؐ کی پیروی کے متعلق فرماتے ہیں:
جتنے بھی فقرا کاملین گزرے ہیں وہ سب شریعتِ مطہرہ پر سختی سے کاربند رہے۔
 شریعت کی اصل حقیقت بھی راہِ فقر پر چل کر ہی حاصل ہوتی ہے۔
شریعت کا تعلق عالمِ ناسوت اور اس مادی جسم سے ہے۔ جب تک یہ جسم ہے شریعت کی پابندی اس پر لازم ہے اور اس سے روگردانی پر سزا ہے۔

شریعتِ محمدیؐ دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ایک شاخ ہے اور آپ مدظلہ الاقدس دینِ محمدیؐ کے اصل پیغام، روح اور مقصد کو اُمتِ محمدیہ تک پہنچانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ اسی حوالے سے آپ مدظلہ الاقدس موجودہ دور کے امام، مجدد اور مجتہد بھی ہیں۔

جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اللہ اس امت کے لیے ہر صدی کے شروع یا آخر میں ایک ایسے شخص کو مبعوث فرماتا رہے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔ (ابودائود۔4291)

 یہاں تجدید سے مراد ہرگز نیا دین لانا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ہے دین میں اگر کوئی غلط عقائد و تصورات و ایجادات رائج ہیں تو ان کو ختم کرنا اور عوام الناس کو دینِ محمدیؐ سے واقف کروانا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کے نزدیک موجودہ دور میں سب سے بڑا خطرہ جو دینِ محمدیؐ کے لیے ہے وہ حد سے زیادہ ظاہر پرستی یا نفس پرستی ہے۔ لوگ نماز، روزہ، زکوٰۃ کو رضائے الٰہی کے لیے کرنے کی بجائے دکھاوے کی خاطر کرتے ہیں یا شریعتِ محمدیؐ کو صرف ظاہری پہلوؤں تک ہی محدود سمجھتے ہیں اور یہی منافقت ہے جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے آپ مدظلہ الاقدس کا فرمان مبارک ہے:
موجودہ دور منافقت کا دور ہے جو جتنا بڑا منافق ہے اتنا ہی بڑا نیکوکار نظر آتا ہے۔

 الغرض آپ مدظلہ الاقدس کی تعلیمات کے مطابق مسلمان شریعتِ محمدیؐ پر صحیح معنوں میں تب ہی گامزن ہو سکتے ہیں اگر ظاہر پرستی یا منافقت کا نقاب چہرے سے ہٹا لیں اور دین کے ظاہری پہلوؤں کے ساتھ ساتھ باطنی پہلوؤں کو بھی اپنائیں۔

طریقت

جب طالب مرشد کامل اکمل کی نگرانی میں مقامِ طریقت پر قدم رکھتا ہے تو مرشد دین کے ظاہر کے ساتھ ساتھ باطنی پہلو کے متعلق تلقین و ارشاد فرماتا ہے۔ باطن میں اللہ کے ساتھ تعلق مضبوطی سے استوار کرنے کے لیے نفس کی مخالفت کرنے کی قوت عطا کرتا ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس طریقت کے متعلق فرماتے ہیں:
 اسلام کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن۔ اسلام کا ظاہری حصہ شریعت ہے اور باطنی حصہ طریقت، جو حقیقت اور معرفت تک رسائی کا راستہ ہے۔

طریقت کی منزل پر کامیابی کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس طالبانِ مولیٰ کو ذکر اور تصور اسمِ اللہ ذات عطا فرماتے ہیں۔ اسی سے طالب کو نفس کی مخالفت کی قوت ملتی ہے اور طالب حقیقت اور معرفت کے مقام تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے روحانی وارث اور ان کے سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام ہیں۔ سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اپنی ساری تعلیمات میں نفس کی مخالفت اور باطنی ترقی کے لیے ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات کو ہی بنیاد قرار دیا ہے۔ ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات کے متعلق قرآنِ مجید میں ارشاد ہوا ہے:
ترجمہ: بیشک ذکرِاللہ (یعنی اسمِ اللہ ذات کے ذکر) سے ہی قلب کو اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے۔ (سورۃ الرعد۔ 28)

 سورۃ جمعہ میں مزید ارشاد ہوا ہے
ترجمہ: اور کثرت سے اسمِ اللہ کا ذکر کیا کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔ (سورۃ الجمعہ۔ 10)

 حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
سانس گنتی کے ہیں اور جو سانس ذکرِاللہ کے بغیر نکلے وہ مردہ ہے۔

 سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

 جو دم غافل سو دم کافر، سانوں مرشد ایہہ پڑھایا ھوُ
سنیا سخن گیاں کھل اکھیں، اساں چت مولا وَل لایا ھوُ
کیتی جان حوالے ربّ دے، اساں ایسا عشق کمایا ھوُ
مرن توں اگے مر گئے باھوؒ، تاں مطلب نوں پایا ھوُ

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
 اسمِ اللہ کا ذکر ایسا عمل ہے جو انسان کے دل میں نورِ ایمان پیدا کرتا ہے۔ جس طرح اسمِ اللہ کا ذکر باطن میں نور پیدا کرتا ہے اسی طرح اسمِ اللہ ذات کا تصور بھی باطن کو روشن کرتا ہے۔ جس سے حق اور باطل واضح ہو جاتے ہیں اور حقیقت اور معرفت کی راہیں کھل جاتی ہیں۔ 

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
 روح اور باطن کی بیداری کے بغیر انسان نہ تو اپنی اور نہ ہی اللہ کی پہچان حاصل کر سکتا ہے باطن کے اس بند قفل کو کھولنے کے لیے کلید یعنی چابی ذکر اور تصور اسمِ اللہ ذات ہے۔

آپ مدظلہ الاقدس باطن میں ترقی کے لیے نہ صرف اپنے مریدوں کو بیعت کے پہلے ہی روز ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات عطا کرتے ہیں بلکہ آپ مدظلہ الاقدس نے دین کے باطنی پہلوؤں پر قلم کے ذریعے بھی رہنمائی فرمائی ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے علمی خدمات کے ذریعے رہتی دنیا کو نفع پہنچانے کا سامان مہیا کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے آپ مدظلہ الاقدس نے سلطان الفقر پبلیکیشنز کی بنیاد رکھی ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے مضامین، کتب اور بلاگز کے ذریعے تعلیماتِ فقر کا پیغام عوام الناس تک پہنچایا ہے۔ سلطان الفقر پبلیکیشنز اب تک آپ مدظلہ الاقدس کی چوبیس تصانیف مبارک شائع کر چکا ہے۔ تعلیماتِ فقر کو دنیا بھر میں عام کرنے کے لیے آپ مدظلہ الاقدس نے سوشل میڈیا کا ہر پلیٹ فارم کا استعمال کیا اور لوگوں کی ظاہری و باطنی اصلاح کا فریضہ سرانجام دیا۔ آج مسلمان ظاہر پرستی میں اتنا کھو چکا ہے کہ دینِ محمدیؐ کی روح جسے فقر بھی کہتے ہیں، سے بالکل ناآشنا ہو چکا ہے لیکن یہ آپ مدظلہ الاقدس کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں مریدین آپ مدظلہ الاقدس کے دستِ اقدس پر بیعت ہو کر فقرِ محمدیؐ کی نعمت پا رہے ہیں۔

حقیقت

علمِ لدنیّ:

 جب طالب مرشد کامل اکمل کی نگاہ اور ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات میں ترقی کرتے ہوئے مقامِ حقیقت پر قدم رکھتا ہے تو مرشد کامل اپنے فیض سے اس پر علمِ لدنیّ، وھم اور علمِ دعوت کا خزانہ کھول دیتا ہے۔  علمِ لدنیّ کو علمِ حضوری بھی کہتے ہیں یہ وہ علمِ حق ہے جو مرشد کامل طالب کے قلب پر وارد کرتا ہے۔ علمِ حضوری یا علمِ لدنیّ ذکر، فکر، تفکر، تدبر، مراقبہ، الہام، کشف اور وَھم کسی بھی ذریعے سے عطا کیا جا سکتا ہے۔ یہی وہ علم ہے جس کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ (سورۃ العلق۔ 5)
 ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ علم سکھایا جو وہ پہلے نہیں جانتا تھا۔

 حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:
 مجھے جو کچھ بھی سکھایا میرے ربّ نے سکھایا۔
سورۃ کہف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے متعلق فرمایا:
وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا ( سورۃ الکہف۔ 65)
ترجمہ: اور ہم نے اسے علم ِ لدنیّ (علم ِاسرار یا علم ِ حقیقت) عطا کیا۔

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس  علمِ لدنیّ یا علمِ حضوری کی دولت سے مالا مال ہیں۔ اس کا واضح ثبوت آپ مدظلہ الاقدس کی تصنیفات اور فرمودات ہیں آپ مدظلہ الاقدس علمِ لدنیّ کا فیض فضلِ الٰہی سے اپنے مریدین کو بھی عطا کر رہے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:
علم کی دو بنیادی اقسام ہیں: علمِ حضوری اور علمِ حصولی۔

 علمِ حصولی سے مراد وہ علم ہے جو عقل کے دائرہ کار میں رہ کر حاصل کیا جاتا ہے یعنی وہ تمام علوم جو ہم دیکھنے، سننے اور سونگھنے کے حواس یعنی حواسِ خمسہ سے حاصل کرتے ہیں یا وہ علم جو کسی مدرسے، کالج، یونیورسٹی سے یا کتب پڑھ کر تحقیق سے حاصل کرتے ہیں۔

علمِ حضوری یا علمِ لدنیّ سے مراد وہ علم ہے جو عشق سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ نگاہ کا علم ہے جو مرشد توجہ سے طالب کے قلب پر وارد کرتا ہے اور اس علم کے حصول کا سب سے بڑا وسیلہ اور ذریعہ مرشد کامل سروری قادری اور ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات ہے۔

علمِ لدنیّ کی اگر بات کی جائے تو سخی سلطان باھوؒ کی تصانیف علمِ لدنیّ کا شاہکار ہیں۔ آپؒ خود اپنی تصانیف میں فرماتے ہیں:
 حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور میرے پاس علمِ ظاہر نہ تھا ہمیں علم حضوری عطا کیا گیا جس کی واردات و فتوحات سے ظاہر اور باطن میں اتنا وسیع علم نصیب ہوا جس کو لکھنے کے لیے کئی دفاتر درکار ہیں۔ (عین الفقر)

آپ رحمتہ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں:
 اگرچہ میں نے ظاہری علم حاصل نہیں کیا تاہم علمِ باطن حاصل کر کے میں پاک و طاہر ہو گیا اس لیے جملہ علوم میرے جسم میں سما گئے۔

 سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی تمام تصانیف فارسی میں ہیں صرف ایک تصنیف ابیاتِ باھوؒ پنجابی زبان میں ہے۔ یہ اعزاز بھی سلطان فقر پبلیکیشنز کو جاتا ہے جس نے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی زیرِنگرانی حضرت سلطان باھوؒ کی کتب کے اُردو اور انگلش زبان میں تراجم شائع کیے اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کے علمِ لدنیّ کا فیض جو کتب کی صورت میں موجود تھا، پوری دنیا میں عام کر دیا۔ 

قوتِ وھم:

جب طالب تصور اسمِ اللہ ذات اور تصور اسمِ محمد میں ترقی کی منازل طے کرتا ہے اور عالمِ ناسوت سے عالمِ لاھوت کی طرف پرواز کرتا ہے تو اسے توفیقِ الٰہی اور فیضِ مرشد سے وَھم کی دولت نصیب ہوتی ہے۔ وھم کے معنی ظن اور گمان کے ہیں اور اس کی جمع اوھام ہے۔ اصلاحِ فقر میں وَھم سے مراد طالبِ مولیٰ کی ایسی کیفیت ہوتی ہے کہ ظاہر و باطن میں اس کے دل میں جو سوال پیدا ہوتا ہے اس کا جواب بارگاہِ ربّ العزت سے وصول پاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں وھم سے مراد اللہ تعالیٰ سے باطنی ہم کلامی ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اس کے متعلق فرماتے ہیں:
اوھام دل کا دیکھنا، سننا، بولنا اور سمجھنا ہے۔ (سلطان الوھم)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور ہر بشر (انسان) کی مجال نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر یہ کہ وحی کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتے کو فرستادہ بنا کر بھیجے اور وہ اس کے اذن سے جو اللہ چاہے وحی کرے۔ بے شک وہ بلند مرتبے اور حکمت والا ہے۔ (سورۃ الشوریٰ۔ 51)

ارشادِ نبویؐ ہے:
 تم میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا جس سے اس کا ربّ کلام نہ کرے اس کے اور بندے کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہوگا اور نہ کوئی حجاب ہوگا جو اس سے چھپائے رکھے ۔ (صحیح بخاری۔7443)

طالب کو قوتِ وھم کی دولت تب تک نصیب نہیں ہوتی جب تک مرشد کامل طالب کے نفس کا تزکیہ اور تصفیہ نہیں فرما دیتا۔ مرشد کامل کے بغیر وھم کی صلاحیت حاصل کرنا ناممکن ہے اسی لیے مرشد کامل اکمل کو سلطان الوھم کہا جاتا ہے۔

 سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس نے اپنی کمال قوتِ وھم کی دولت سے بہت سے طالبانِ مولیٰ کو علمِ لدنیّ کی نعمت سے بھی مالا مال فرمایا ہے جنہوں نے اس علمِ لدنیّ کو معرفتِ الٰہی کی دعوت و تبلیغ میں استعمال کیا اور بے شمار کتب و مضامین تحریر فرمائے جو متلاشیانِ معرفتِ الٰہی کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے بہت سے طالبانِ مولیٰ پر علمِ دعوت کھول کر علمِ باطن میں بھی اپنی قوتِ وھم سے ان کو سنبھالا کہ وہ اس روحانی، لطیف اور حقیقی عالم میں مقدس ہستیوں کی بارگاہ میں بھی باادب اور صراطِ مستقیم پر قائم رہیں۔

علمِ دعوت:

 جس طرح ظاہری دنیا میں رابطے کے بہت سے ذرائع ہیں مثلا ٹیلی فون، انٹرنیٹ وغیرہ جن کے ذریعے ہم اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں سے رابطے میں رہتے ہیں اس طرح باطنی دنیا میں ہمارا تمام بزرگ اولیا، صحابہ کرامؓ اور انبیا علیہم السلام سے رابطہ کا ذریعہ علمِ دعوت ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حدیث مبارکہ ہے:
 جب تم اپنے معاملات میں پریشان ہو جایا کرو تو اہلِ قبور سے مدد مانگ لیا کرو۔

 سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس جیسے باکمال، مہربان اور اعلیٰ ترین درجات کا حامل کوئی اور مرشد کامل موجود نہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے اپنی بارگاہ کا فیض تمام امتِ مسلمہ کے لیے بغیر فرقہ و جماعت کی تفریق کے کھول دیا ہے۔ (علمِ دعوت کے متعلق تفصیل سے جاننے اور اس حوالے سے آپ مدظلہ الاقدس کے فیض کو جاننے کے لیے ’’کتاب سلطان العاشقین‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔)

معرفت 

مقاماتِ فقر میں معرفت وہ مقام ہے جہاں طالب مرشد کامل اکمل کی زیرِنگرانی معرفتِ نفس کی منازل طے کرتا ہوا حقیقی منزل کو پہنچتا ہے۔ اس کا نفس امارہ سے لوامہ پھر ملہمہ اور بالآخر مطمئنہ ہو جاتا ہے۔ مرشد کامل اپنے فیض سے طالبِ مولیٰ کو فقر کے دو انتہائی مراتب مجلسِ محمدیؐ کی حضوری اور لقائے الٰہی عطا کرتا ہے۔ 

انسان کا وجود دو چیزوں کا مرکب ہے یعنی نفس اور روح۔ روح کا لباس یہ جسم یعنی نفس ہے جب انسان کا نفس کمزور اور روح قوی ہو جاتی ہے تو روح کو اس عالمِ نا سوت سے عالمِ لاھوت تک عروج حاصل کرنے کی قوت نصیب ہوتی ہے۔ طالبِ مولیٰ کو یہ مراتب مرشد کامل کے فیض اور ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات کے بغیر ہرگز حاصل نہیں ہو سکتے۔

موجودہ زمانہ میں بیشتر لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فیض صرف ظاہری حیاتِ نبویؐ تک ہی محدود تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس دنیا سے ظاہری وصال کے بعد فیضِ محمدیؐ ممکن نہیں۔ یہ سہرا سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کے سر ہے کہ آپ نے فی زمانہ عاشقانِ مصطفی کو مجلسِ محمدیؐ کی حضوری سے آگاہ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ سے سچے طالبانِ مولیٰ آج بھی ویسے ہی فیض پا سکتے ہیں جس طرح آپؐ کے زمانہ میں تھا۔ اس لیے آپ مدظلہ الاقدس اپنے مریدین کو تصور اسمِ محمد بھی عطا فرماتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس سے قبل چند خاص طالبانِ مولیٰ کو یہ نعمت عطا کی جاتی تھی لیکن آپ مدظلہ الاقدس کے کمالِ فیض اور اعلیٰ روحانی و باطنی مراتب کی بدولت آج بغیر کسی چلہ کشی اور رنج و مشقت کے یہ نعمت طالبانِ مولیٰ کو نصیب ہو رہی ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
 صحابہ کرامؓ کے لیے اسمِ اللہ ذات حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ظاہری چہرہ مبارک تھا اور اسمِ محمد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات مبارکہ تھی۔ موجودہ زمانہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ تک رسائی کا طریقہ صرف اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمد کا تصور ہے بشرطیکہ یہ وہاں سے حاصل ہوا ہو جہاں پر اسے عطا کرنے کی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے باطنی طور پر اجازت ہو۔ یہ بات طالب کو اسمِ اللہ ذات یا اسمِ محمد کے تصور کے پہلے دن ہی معلوم ہو جاتی ہے کہ اس نے جہاں سے اسمِ اللہ ذات یا اسمِ محمد حاصل کیا ہے وہ مرشد کامل کی بارگاہ ہے۔ (شمس الفقرا)

دیدارِ الٰہی:

لقائے الٰہی (دیدارِ الٰہی) اس کائنات کی سب سے بڑی نعمت اور انسان کی تخلیق کا مقصد ہے۔ جب ہم مقامِ معرفت کی بات کرتے ہیں تو معرفت سے مراد ہے پہچاننا۔ اللہ کی پہچان اللہ کے دیدار کے بغیر ممکن نہیں۔ سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
جو اللہ تعالیٰ کی پہچان کے بغیر اس کی عبادت کا دعویٰ کرتا ہے وہ ریاکار ہے۔ (سرّ الاسرار)

 قرآنِ پاک میں اللہ پاک نے عشقِ الٰہی، باطنی مجاہدے اور مرشد کامل کی مہربانی سے لقائے الٰہی کی منزل تک پہنچنے والوں کو نوید سنائی ہے:
ترجمہ: تم جدھر بھی دیکھو گے تمہیں اللہ کا چہرہ نظر آئے گا۔ (سورۃ البقرہ۔ 115)

 دیدارِ الٰہی کی منزل تک مرشد کامل اکمل کی رہبری اور رہنمائی میں ہی پہنچا جا سکتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
مرشد کامل کے بغیر اگر کوئی ساری عمر ریاضت کے پتھر سے سر پھوڑتا رہے پھر بھی اسے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ بغیر پیر و مرشد کوئی اللہ تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ مرشد باطن کی راہ کے تمام مقامات و منازل سے آگاہ ہوتا ہے اور ہر مشکل کا مشکل کشا ہوتا ہے۔ (عین الفقر)

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
 انسان کی پیدائش کا مقصد اللہ تعالیٰ کی پہچان اور معرفت ہے، پہچان اور معرفت دیدار کے بغیر ممکن نہیں۔ لہٰذا دیدارِ الٰہی اصل میں اللہ کی پہچان اور معرفت ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جو عارفین فقرا کو عطا کی جاتی ہے لہٰذا دیدار سے بہتر کوئی لذت نہیں اور اللہ تعالیٰ کا دیدار نورِ بصارت سے نہیں نورِ بصیرت سے حاصل ہوتا ہے۔ (شمس الفقرا)

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس طالبانِ مولیٰ کو لقائے الٰہی کے عالیشان مرتبے تک پہنچا رہے ہیں جو نیک نیتی کے ساتھ تعصب کو دل سے نکال کر خاص طلبِ مولیٰ دل میں لے کر آئے گا آپ مدظلہ الاقدس کی مہربانی سے اس نعمت سے ضرور فیضیاب ہوگا۔ انشاء اللہ

انسانِ کامل سلطان العاشقین

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس وہ کامل ہستی ہیں جو انسانِ کامل جیسے اعلیٰ مرتبے سے سرفراز ہیں۔ انسانِ کامل وہ مرتبہ ہے جس سے اعلیٰ و ارفع کوئی اور مرتبہ نہیں۔ اس مقام میں نہ درجات و مقامات کی کثرت ہے اور نہ دوئی۔ دنیا میں ہر وقت ایک شخص قدمِ محمدؐ پر ہوتا ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا باطنی نائب ہوتا ہے اور انسانِ کامل کے مرتبے سے سرفراز ہوتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ انسانِ کامل کو مرشد کامل اکمل قرار دیتے ہیں۔ انسانِ کامل پر فقر کی تکمیل ہوتی ہے۔ تمام مراتب (شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت) اسی میں یکجا ہوتے ہیں۔ یہی توحید کا وہ مرتبہ ہے جس کے متعلق حدیث قدسی ہے:
اس کا بولنا اللہ کا بولنا ہوتا ہے اور اس کا دیکھنا اللہ کا دیکھنا ہوتا ہے اس کا پکڑنا اللہ کا پکڑنا ہوتا ہے۔

 انسانِ کامل کی رہبری اور رہنمائی میں منازلِ فقر سے گزرنا اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ خود ان منازل سے گزر چکا ہوتا ہے اور فقر کے انتہائی مقام تک پہنچ چکا ہوتا ہے جہاں فقر کی تکمیل ہوتی ہے وہی اللہ ہے۔ وہ اس راہ کی ہر مشکل اور آسان راستے سے واقف ہوتا ہے اور وہ طالبِ مولیٰ کی کشتی کو منزل مقصود تک پہنچا سکتا ہے۔

سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
 فقیرِکامل یعنی انسانِ کامل خلافتِ الٰہیہ کا حامل ہوتا ہے اس کا مرتبہ محبوبیت کا مرتبہ ہے جو کبھی سلب نہیں ہوتا۔ فقیرِکامل دنیا میں ایک ہوتا ہے جو طالبانِ حق کی راہِ معرفت میں ظاہری اور باطنی رہنمائی کا فریضہ ادا کرتا ہے۔ شروع شروع میں اس کی زیادہ شہرت نہیں ہوتی کیونکہ وہ خود کو دنیا سے چھپا کر رکھتا ہے لیکن چند سالوں کے اندر اندر اس کی شہرت چار سو پھیل جاتی ہے اور طالبانِ مولیٰ جوق در جوق اس کی طرف لپکتے آتے ہیں۔ اس کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ طالبانِ مولیٰ کو چلہ کشی، مشقت اور ورد و وظائف میں نہیں ڈالتا بلکہ تصور اسمِ اللہ ذات سے انہیں منزل پر پہنچا دیتا ہے۔

 دوسرے سلاسل کے طالب جب مقاماتِ سلوک سے گزرتے ہیں تو چلہ کشی جیسی مشکل ریاضت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن سروری قادری مرشد جامع نور الہدیٰ باطنی فیض و کمالات کے اس درجے پر ہوتا ہے جہاں وہ طالب کو بیعت کے پہلے روز ہی بغیر کسی چلہ کشی کے فقر کے انتہائی مقام پر پہنچا دیتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
 یاد رہے قادری طریقہ بھی دو قسم کا ہے ایک زاہدی قادری طریقہ ہے جس میں طالب عوام کی نگاہ میں صاحبِ مجاہدہ و صاحبِ ریاضت ہوتا ہے جو ذکرِ جہر سے دل پر ضربیں لگاتا ہے، غور و فکر سے نفس کا محاسبہ کرتا ہے اور ورد و وظائف میں مشغول رہتا ہے۔ راتیں قیام میں گزارتا ہے اور دن کو روزہ رکھتا ہے لیکن باطن کے مشاہدہ سے بے خبر قال (گفتگو) کی وجہ سے صاحبِ حال بنا رہتا ہے۔ دوسرا سروری قادری سلسلہ ہے جس کا طالب قرب و وصال اور مشاہدۂ دیدار سے مشرف ہو کر شوریدہ حال رہتا ہے اور ایک ہی نظر سے طالبِ اللہ کی معیتِ حق میں پہنچا دیتا ہے اور وصالِ پروردگار سے مشرف کر کے حق الیقین کے مراتب پر پہنچا دیتا ہے ایسا ہی سروری قادری فقیر قابلِ اعتبار ہے کہ وہ قاتلِ نفس ہوتا ہے اور کارزارِ حق میں پیش قدمی کرنے والا سالار ہوتا ہے۔ (محک الفقر کلاں)

انسانِ کامل سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس سلسلہ سروری قادری کے مرشد کا مل اکمل کی شان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 سروری قادری طریقہ میں رنجِ ریاضت، چلہ کشی، حبسِ دم، ابتدائی سلوک اور ذکر و فکر کی الجھنیں ہرگز نہیں ہیں۔ یہ سلسلہ ظاہری درویشانہ لباس اور رنگ ڈھنگ سے پاک ہے اور ہر قسم کے مشائخانہ طور طریقوں مثلا عصا، تسبیح، جبہ و دستار وغیرہ سے بیزار ہے۔ اس سلسلہ کی خصوصیت یہ ہے کہ مرشد پہلے ہی روز سلطان الاذکار ھو کا ذکر اور تصور اسمِ اللہ ذات اور مشق مرقومِ وجودیہ عطا کر کے طالب کو انتہا پر پہنچا دیتا ہے۔ جبکہ دوسرے سلاسل میں یہ سب کچھ نہیں ہے اس لیے حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
 سلسلہ سروری قادری کے طالب کی ابتدا دوسرے سلاسل کی انتہا کے برابر ہوتی ہے۔ (شمس الفقرا)

موجودہ دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام اور اکتیسویں شیخِ کامل ہیں۔ تمام طالبانِ مولیٰ کو دعوت ہے کہ وہ روحانی اور باطنی ترقی کے حصول اور مقامِ معرفت تک رسائی حاصل کرنے کے لیے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے دستِ اقدس پر بیعت ہوں اور فی سبیل اللہ اسمِ اللہ ذات حاصل کریں۔

 استفادہ کتب:
۱۔ سرالاسرار، تصنیفِ لطیف سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ
۲۔ شمس الفقرا، تصنیف لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۳۔ سلطان العاشقین، ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
۴۔محک الفقر کلاں، تصنیف لطیف سخی سلطان باھوؒ
۵، عین الفقر، ایضاً

 

اپنا تبصرہ بھیجیں