اقبالؒ کا تصورِ اجتہا د IQBAL ka Tasawur-e-Ijtihaad


4.6/5 - (30 votes)

 اقبالؒ کا تصورِ اجتہا د  IQBAL ka  Tasawur-e-Ijtihaad

تحریر:  مسز فاطمہ برہان سروری قادری

علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ بیسویں صدی کے عظیم شاعر، دانشور، مفکر اور اسلام کے ممتاز ترین ترجمان تھے۔ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی فکر میں جہاں ہمیں اسلام کی حقانیت اور ابدیت کا اصول نظر آتا ہے وہیں اس میں حرکت، تغیر اور تبدیلی کا روشن پہلو بھی جھلکتا ہے۔ 

بقول علامہ اقبالؒ اساس کوحقیقتِ مطلقہ اور روحانیت پر مبنی سمجھنے کے سا تھ ساتھ ضروری ہے کہ مسلمان اپنی زندگی میں ثبات اورتغیر دونوں اصولوں کا لحاظ رکھیں۔ علامہ اقبالؒ لکھتے ہیں:
انسان کے پاس کچھ تو اس قسم کے دوامی اصول ہونے چاہئیں جو حیاتِ اجتما عیہ میں نظم و ضبط قائم رکھیں کیونکہ مسلسل تغیر کی اس بدلتی ہوئی دنیا میں ہم اپنا قدم جما سکتے ہیں تو دوامی (اصولوں) کی ہی بدولت لیکن ان دوامی اصولوں کا یہ مطلب تو نہیں کہ اس سے تغیر اور تبدیلی کے جملہ امکانات کی نفی ہو جائے۔ اس صورت میں تو ہم اس شے کو جس کی فطرت ہی حرکت ہے ،حرکت سے عاری کر دیںگے۔ (تشکیل جدید المیات اسلامیہ )

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے وہ کون سا اصول ہے جو اسلام کی ہیتِ ترکیبی میں حرکت اور تغیر کو قائم رکھ سکتاہے ۔علامہ اقبالؒ کے نزدیک وہ اصول ’’اجتہاد‘‘ ہے۔

 لغت میں اجتہاد کا مادہ ’’جہد‘‘ ہے جو کہ طاقت ،کوشش اور محنت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ علامہ زبیدی فرماتے ہیں :
اجتہاد کہتے ہیں کسی چیز کی تلاش میں اپنی پوری طاقت خرچ کرنا اور اس سے مراد ہے کسی مسئلہ کو قیاس کے واسطہ سے کتاب و سنت کی طرف لوٹانا۔ (اجتہاد اور مذہب حنفی کی حقیقت )

احادیثِ نبویؐ سے اجتہاد کی اجازت 

اس ضمن میں حضرت معاذؓ  کی روایت کافی مشہور ہے : 
حضرت معاذؓ  کو رسول اللہؐ نے فرمایا(جس وقت آپ نے ؐان کو قاضی بنا کر یمن بھیجا):آپؓ کس چیز پر فیصلہ کریں گے؟ تو حضرت معاذؓ نے عرض کی کہ اللہ کی کتاب پر۔ پھر پوچھا گیا کہ اگر اللہ کی کتاب میں وہ فیصلہ نہ ہوا تو پھر کیا کرو گے ؟تو حضرت معاذ ؓ نے عرض کی کہ پھر رسول اللہؐ کی سنت پر عمل کروں گا ۔ پھر آپ ؐنے پوچھا کہ اگر سنت ِرسول اللہؐ میں آپ ؓنہ پائیں؟ تو حضرت معاذ ؓ نے عرض کی کہ میں پھر اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا ۔ آپ ؐ نے فرمایا ’’تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے اپنے رسولؐ کے قاصد کو اس کام کی توفیق دی جس پر ان کے رسول راضی ہو گئے ہیں۔‘‘ (ترمذی 1327)

اس سے معلوم ہوا کہ وہ مسائل جو قرآن و حدیث میں نہ ہوں ان میں مجتہد کو اجتہاد کی اجازت حدیث سے ملی ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث 4487میں بیان ہوا ہے:
ابو قیس سے روایت ہے (جو کہ مولیٰ تھے حضرت عمرو بن عاصؓ کے) کہ حضرت عمرو بن عاصؓ نے رسول اللہؐ سے سنا کہ آپؐ نے فرمایا ’’جب حاکم اجتہاد کرے اور پھر حق کو پہنچے تواس کے دو اجرہیں اور جو اپنے اجتہاد میں غلطی کرے تو اس کے لیے ایک اجر ہے ۔‘‘ 

ایک اور حدیث میں ہے :
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا ’’اے اللہ کے رسولؐ! اگر کوئی مسئلہ ہمیں آپؐ کے بعد پیش آئے جس کے بارے کچھ نہ سنا گیا ہو تو ہم کیا کریں گے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا’’اس کے (حل) کے لیے میری امت کے عابد لوگوں کو جمع کرواور آپس میں شوریٰ قائم کرو اور اس میں ایک ہی رائے سے فیصلہ نہ کرو ۔‘‘   

اجتہاد اقبالؒ کی نظرمیں

ڈاکٹرعلامہ اقبالؒ اجتہاد پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
فقہ اسلامی کی اصطلاح میں اجتہاد کا مطلب ہے کہ وہ کوشش جو کسی قانونی مسئلے میں آزادانہ رائے قائم کرنے کے لیے کی جائے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس تصور کی بنیاد قرآن کی یہ آیت ہے:
وہ جو ہماری طرف کوشش کریں گے ہم ان کو ان کا راستہ دکھائیں گے۔ (سورۃ العنکبوت۔ 69) (تجدید فکر یاتِ اسلام ترجمہ از ڈاکٹر وحید عشرت )

علامہ اقبالؒ عصری تقاضوں کے پیشِ نظر قوانینِ اسلامی کی تدوینِ نوکے قائل ہیں اور اسے وقت کی ضرورت خیال کرتے ہیں۔تا ہم وہ بے اعتدالی اور کسی بھی معاملے میں کسی کی بھی کورانہ(اندھا دھند) تقلید کے ہر گز قائل نہیں ۔اقبالؒ اسلام کے بنیاد ی اور اَبدی ماخذ میں کسی قسم کی بھی تبدیلی کے حق میں نہیں ۔ ان کے نزدیک بنیادی ماخذ ہمارے ماضی کے شاندار علمی ورثہ ہیں جن سے منہ موڑ کر اور انہیں پسِ پشت ڈال کر ہم کبھی بھی صحیح نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے ۔اقبالؒ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس اسلامی قوانین کے لیے چار بنیادی ماخذ ہیں:
1)قرآن
2)حدیث
3)قیاس
4)اجماع

1)قران :

اقبالؒ ملتِ اسلامیہ کی توجہ قرآن پاک کے اس خاص انداز اور اسلوب کی طرف دلارہے ہیں کہ قرآن پاک کی جامعیت اور ابدیت اسی میں ہے کہ اس نے انسان کی رہنمائی کے لیے بنیادی اصول فراہم کر دئیے ہیں جن کے اندر رہتے ہوئے ہر زمانے اور ہر دور میں نئی ضروریات اور بدلتے ہوئے تقاضوں کا ساتھ دے سکتے ہیں۔گویااس طرح اگر ہم غور کریں تو قرآن اپنے اندر ایک حرکی تصورِ حیات رکھتا ہے۔ اقبالؒ لکھتے ہیں :
ظاہر ہے کہ جس کتاب کا مطمع نظر ایسا ہو گا اس کی روش ارتقا کے خلاف کیسے ہو سکتی ہے ؟(الاجتہاد فی اسلام ) 

اور ایک جگہ بڑے واضح انداز میں فرماتے ہیں :
تعلیماتِ قرآن کی یہی وہ جامعیت ہے جس کا لحاظ رکھتے ہوئے جدید عقلیت کو اپنے ادارات کا جائزہ لینا ہوگا۔دنیا کی کوئی قوم اپنے ماضی سے قطع نظرنہیں کر سکتی،اس لیے کہ یہ ان کا ماضی ہی تھا جس سے ان کی موجودہ شخصیت متعین ہوئی ۔

2)حدیث:

قرآنِ پاک کے بعد اسلامی قوانین کا سب سے بڑا ماخذاحادیث نبویؐ ہیں۔بقول اقبالؒ:
سب سے بڑی خدمت جو محدثین نے شریعتِ اسلامیہ کی سر انجام دی، وہ یہ ہے کہ انہوں نے مجرد غور وفکر کے رحجان کو روکا اور اس کی بجائے ہر مسئلے کی الگ تھلگ شکل اور انفرادی حیثیت پر زور دیا۔

اقبالؒ قانون سازی کے عمل میں احادیث کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
احادیث کا مطالعہ اگر اور زیادہ گہری نظرسے کیا جائے اور ہم ان کا استعمال یہ سمجھتے ہوئے کریں کہ وہ کیا روح تھی جس کے تحت آنحضرتؐ نے احکامِ قرآن کی تعبیر فرمائی تو اس سے ان قوانین کی حیاتی قدروقیمت کے فہم میں اور بھی آسانی ہوگی جو قرآنِ پاک نے قانون کے متعلق قائم کیے ہیں۔پھر یہ ان اصولوں کی حیاتی قدر وقیمت ہی کا پورا پورا علم ہے جس کی بدولت ہم اپنے فقہ کے بنیادی ماخذ کی از سر ِنو تعبیراورترجمانی کر سکتے ہیں۔(الاجتہاد فی اسلام )

3)اجماع: 

فقہ اسلام کا تیسرا بڑا ماخذ اجماع ہے ۔مولانا محمد حنیف ندوی اپنی کتاب ’’مسئلہ اجتہاد ‘‘ میں اجماع کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اصطلاح کی رو سے اجماع اس سے تعبیر ہے کہ مجتہدین اور اربابِ حل وعقد آنحضرتؐ کے بعد کسی عصروزمانہ میں کسی امرِ دینی پر متفق ہو جائیں۔ جب کوئی مسئلہ مخصوص اسباب کی بنا پر ابھرے اور آئمہ و مجتہدین کے سامنے آئے تو اس کے فیصلہ میں اس دور کے مجتہدین و اربابِ اختیار میں اختلافِ رائے نہ پایا جاتا ہو۔‘‘ (مسئلہ اجتہاد) 

علامہ کو ا س بات پر افسوس ہے کہ ’’اجماع‘‘ باوجود اسلامی قانون سازی کا ایک بہت بڑا اور اہم ماخذ ہونے کے، علمی صورت اختیار نہ کر سکا۔ علامہ نے اپنے انگریزی خطبہ ’’ الاجتہاد فی اسلام ‘‘ میں موجودہ زمانہ میں اجماع کی ممکنہ صورت پر اپنے خیالات کا اظہار فرمایا ہے ۔

4)قیاس:

اقبالؒ کے نزدیک اجتہاد کا چوتھا اور آخری ماخذقیاس ہے۔ قانون سازی میں مماثلتوں کی بنا پر استدلالِ دلیل سے کام لینا قیاس کہلاتا ہے۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں :
قیاس کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کرکام میں لایا جائے تو جیسا کہ امام شافعیؒ کا ارشاد ہے وہ اجتہاد ہی کا دوسرا نام ہے۔ اور اس کے استعمال کی پوری پوری آزادی ہونی چاہیے ۔پھر بحیثیت ایک اصولِ قانون اس کی اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے ہو جاتاہے کہ بقول قاضی شوکانی زیادہ ترفقہا اس امر کے قائل تھے کہ حضور رسا لت مآبؐ کی حیاتِ طیبہ میں بھی قیاس سے کام لینے کی اجازت تھی ۔

علامہ اقبالؒ کے فلسفہ اور نظر یہ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس بات کو جانا جائے کہ اسلام ثبات اور حرکت دونوں کا قائل ہے ۔یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ کن بنیادی قوانین پر ثبات کا تصور نا گزیر ہے اور بدلتے ہوئے زمانہ کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے میں کن قوانین کی تشکیلِ نو اہم ہے، اس کے لیے قرآن وسنت دونوں کی روح اور باطن کو سمجھنا اہم ہے۔صرف اُسی صورت میں ہم اجتہاد کے اصل معنی کو سمجھ پا ئیں گے۔

درحقیقت اجتہاد کا اصول حرکت اور جہدِمسلسل کا قائل ہے اور زندگی ہمیں اسی اصول کا درس دیتی ہے۔ اسی اصول کے تحت قومیں ترقی کرتی ہیں ۔ بقول علامہ اقبالؒ:

اسی کشاکش پیہم سے زندہ ہیں اقوام
یہی ہے رازِ تب و تابِ ملت عربی

 (بانگِ درا)

ترجمہ: زندگی میں اسی مسلسل جدو جہد اور کشاکش پیہم کے سبب ہی قومیں زندہ رہتی ہیں اور ملتِ اسلامیہ کو جو عروج حاصل ہوا اس کاراز بھی یہی ہے۔ 

حیات شعلہ مزاج و غیور و شور انگیز
سرشت اس کی ہے مشکل کشی، جفا طلبی 

(بانگِ درا)

ترجمہ :زندگی اپنے مزاج کے اعتبار سے ہمیشہ شعلہ مزاج ،غیور اور ہنگامہ خیز رہی ہے ۔اس کی سرشت میں مشکلات اور دشواریاں جھیلنا ہے یعنی آرام وسکون زندگی کی فطرت سے ربط نہیں رکھتے ۔

اجتہاد اور تقلید 

تقلید کا لفظ قلادہ سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی ہار ،پٹھے یا قربانی کے وہ جانور ہیں جن کے گلے میں بطور نشانی پٹہ وغیرہ پڑاہو۔اس لیے تقلید کے لغوی معنی ہوں گے ہار پہنا دینا۔(حضرت شاہ ولیؒ اللہ کا نظریہ اجتہاد و تقلید )

تقلید کے اصطلاحی معنی یہ ہوں گے کہ دوسرے کی بات حسنِ ظن کی بنا پر بلا دلیل مان لی جائے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے بغیر عام انسان زندگی کے سفر کو طے نہیں کر سکتا اور نہ منزلِ مقصود تک پہنچ سکتا ہے ۔یہ عام انسانوں کی ایک علمی ضرورت ہے جس سے کسی صورت بھی انکار نہیں کیا جاسکتا مثلاً عملی زندگی میں مریض کا طبیب کی بات پر اعتما د کرنا،مقدمے کے ہر فریق کا اپنے مشیر قانون یعنی وکیل کی اطاعت کرنا ،متعلم کا علم کی رہنمائی قبول کرنا،یہ ایسے حقائق ہیں جن کے بغیر چارہ کار نہیں۔ علامہ اپنے افکار میں اس تقلیدی روّیہ کی مذمت کرتے ہیں جس کے باعث مسلمانوں کی زندگی سے اجتہاد اور تجد یدِجدت جیسے اصول ماند پڑ گئے۔

علامہ اقبالؒ نے تشکیل جدید کے چھٹے خطبے میں خاصی طویل بحث کرتے ہوئے فقہی جمود کے مندرجہ ذیل اسباب بیان کیے ہیں۔ علامہ اقبالؒ صاحبِ تقلید کے بارے میں تاریخی پسِ مناظر بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:
تاتاریوں کی غارت گری نے کتب خانوں کو تباہ کر دیا۔ کثرت سے علما شہید ہوگئے۔ اسلامی تہذ یب وتمدن کا شیرازہ بکھر گیا۔ ایسی تباہی اور پریشان حالی میں یہی مناسب سمجھا گیا کہ آزاد خیالی اور اجتہاد کو روک کر بقیہ اسلافِ ملت کو ایک خاص طرزِ فکر اور مخصوص شعائر عمل پر استوار کیا جائے ۔ ہنگامی طور پر یہ غلط نہ تھا مگر اس کا غیر مستحسن نتیجہ یہ نکلا کہ تقلید ہمیشہ کے لیے ملتِ اسلامیہ کا شیوہ بن گئی ۔ (اجتہاد فی اسلام)

تقلید کے جواز کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دوسری صدی ہجری تک مذہبی مجتہدین بکثرت پیدا ہوگئے۔دوسری طرف لوگوں میں ہوا و ہوس کا غلبہ دیکھا گیا۔وہ رخصتوں کوتلاش کرنے لگے۔جس امام اور مجتہد کا مسئلہ اپنی خواہش کے مطابق ملا اس پر عمل کرنا شروع کر دیا۔

 اس سے یہ خطرہ لاحق ہوگیا کہ لوگ دین کو خواہشات کے تابع بنا دیں گے۔ (حضرت شا ہ ولیؒ اللہ کا نظریہ اجتہاد و تقلید )

علامہ اقبالؒ اپنی نظم اجتہاد میں لکھتے ہیں :

ہند میں حکمتِ دیں کوئی کہاں سے سیکھے
نہ کہیں لذتِ کردار، نہ افکارِ عمیق

تشریح: دینِ اسلام میں کیا دانائی، کیا تدبیر اور کیا فکر ہے،یہ بات کوئی کہاں سے اور کس سے پو چھے کیو نکہ بر صغیر کے جو دینی حلقہ کے لوگ ہیں ان میں نہ تو عمل کی چاشنی ہے اور نہ ان میں کردار کی گہرائی ہے ان کا دین کے متعلق علم بھی سطحی ہے اور ان کا عمل بھی پختہ نہیں ہے۔

حلقۂ شوق میں وہ جرات اندیشہ کہاں
آہ! محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق

تشریح: اہلِ علم کے حلقہ سے اگر اہلِ شوق(عشق،تصوف،فقر )کے حلقہ میں آئیں تو یہاں بھی وہی حالت ہے ۔ان میں بھی فکر انگیزی کی جرأت نہیں ۔دونوں حلقے (جلوت اور خلوت کے) دور ِغلامی کی وجہ سے اندھی پیروی میں لگے ہوئے ہیں اور تحقیق تو اس قدر روبہ زوال ہے گویا نام کو بھی نہیں ہے۔

خود بدلتے نہیں، قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق 

تشریح :اس دور کے مسلمان علما میں قرآن کے صحیح مفہوم کو لو گوں تک پہنچانے کی تو فیق نہیں ہے ۔وہ اس قدر بے ہمت وکم حوصلہ ہیں کہ قرآن کا اصل مفہوم بتانے کے بجائے اس کے مطلب کو بدل کر اس کے معانی اپنی مرضی کے مطابق تاویل کر کے لوگوں تک پہنچاتے ہیں یا یوں سمجھئے اپنے مفاد اور غرض کی خاطر بجائے خود بدلنے کے قرآن کے مفہوم کو بدل دیتے ہیں۔

ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق 

تشریح : مسلمان غلامی سے اس قدر مانوس ہو گئے ہیں اور غلامی ان کی سرشت میں شامل ہو گئی ہے کہ وہ قرآن میں بھی نعوذ باللہ نقص نکال رہے ہیں کہ یہ لوگوں کو غلامی پر قنا عت کرنے کی تعلیم کیوں نہیں دیتا ۔ الغرص علمائے سوُ نے مسلمانوں میں سے اجتہاد کے اصول کوبالکل ختم کرکے رکھ دیا ہے۔(ضربِ کلیم ،اجتہاد )

استفادہ کتب :

۱۔تجدید فکریاتِ اسلام :ترجمہ : ڈاکٹر وحید عشرت)
۲۔تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ :(علامہ اقبال کے انگریزی خطوط کا اُردو ترجمہ از سید نذیر نیازی)
3-The Reconstructions of Religious thought in Islam. Mohammad Iqbal
۴۔ اجتہاد اور مذہب حنفی کی حقیقت :تالیف مفتی علی الرحمٰن فاروقی
۵۔شاہ ولی اللہ کا نظر یہ اجتہاد وتقلید :ڈاکٹر نجم الدین سراج
۶۔ضربِ کلیم: تصنیف ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ
۷۔بانگ ِدرا : ایضاً
۸۔مسئلہ اجتہاد : مولانا محمد حنیف ندوی  


اپنا تبصرہ بھیجیں