خانقاہ اور مسجد کی فضیلت
(وہ گھر یا جگہ جہان اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے)
تحریر: مولانا محمد اسلم سروری قادری۔ لاہور
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
* فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فیھَا اِسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْھَا بالْغُدُوِّ وَالْاَصَالِo رجَالٌ لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَ اَقَامِ الصَّلٰوۃِ وَ اِیْتَآئِ الزَّکٰوۃِ لا یَخَافُوْنَ یَومًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَار (سورۃ نور۔ 36-37)
ترجمہ: یہ وہ گھر ہیں جن کے بلند کیے جانے اور جن میں اللہ کے نام کا ذکر کیے جانے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ وہاں وہ لوگ صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں اور اسی کا نام لیتے ہیں جنہیں خدا کے ذکر، نماز ادا کرنے اور زکوٰۃ دینے سے نہ تجارت غافل کرتی اور نہ خریدو فروخت یہ لوگ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن آنکھیں اُلٹ پلٹ ہو جائیں گی۔
اللہ کے اس ارشاد میں ’’فی بیوت‘‘(یہ وہ گھر ہیں) سے مراد مساجد ہیں۔ بعض اصحاب کہتے ہیں کہ اس سے مراد مدینۃ الرسول کے مکانات مراد ہیں اور بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس سے مراد رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مکانات ہیں۔ جب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! کیا ان گھروں میں حضرت علی رضی اللہ عنہٗ اور حضرت فاطمتہ الزھرا رضی اللہ عنہا کا گھر بھی شامل ہے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہاں وہ ان میں بڑھ کر ہے۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ زمین کے تمام گھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کیلئے سجدہ گاہ بنا دئیے گئے ہیں اس اعتبار سے ذکر کر نے والے لوگوں کی تخصیص کی گئی ہے نہ کہ چار دیواری کی یعنی مندرجہ بالا آیت میں اہمیت ذاکرین کی ہے نہ کہ کسی مخصوص مقام یا گھر کی، پس جس جگہ اور جس مقام پر بھی ذاکرین جمع ہونگے وہی مقامات ایسے گھر مراد لئے جائیں گے جن میں خدا کے حکم سے اس کا ذکر صبح و شام بلند کیا جاتا ہے۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ کوئی صبح و شام ایسی نہیں گزرتی کہ زمین کے بعض حصے دوسرے حصوں سے نہ پوچھتے ہوں کہ آج تم پر کوئی ایسا شخص گزرا ہے جس نے تم پر (یعنی تمہاری جگہ پر) نماز پڑھی ہو یا اللہ کا ذکر کیا ہو پس بعض مقامات اثبات میں اور بعض نفی میں جواب دیتے ہیں جو اجزا یا مقامات اثبات میں جواب دیتے ہیں ان کو دوسرے مقامات پر فضیلت و فوقیت دی جاتی ہے اور جو بندہ کسی خطۂ زمین پر اللہ کا ذکر کرتا ہے تو وہ خطۂ زمین اللہ تعالیٰ کے حضور اس بات کی شہادت دیتا ہے اور اس عبادت گزار بندے کے مرنے پر روتا ہے جیسے کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَمَا بَکَتْ عَلَیْھِمُ السَّمَآئُ وَالْاَرْضُ (الدخان۔29)
ترجمہ: اور ان کے مرنے پر آسمان و زمین نہیں روتے (یعنی کافروں کے مرنے پر)۔
اس ارشادِ ربانی سے یہ نکتہ ظاہر ہوتا ہے کہ اہلِ ذکرو عبادت و اطاعت گزاروں کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ ان کے مرنے پر آسمان و زمین گر یہ کنا ں ہوتے ہیں اور جو لوگ دنیا اور خواہشاتِ نفس کے پابند ہوتے ہیں ان کے مرنے پر آسمان و زمین نہیں روتے ۔پس خانقاہ نشین وہ لوگ ہیں جن کے نفوس اطاعتِ الٰہی میں مشغول ہیں جنہوں نے دنیا کو ترک کر کے ہمہ تن اللہ کی طرف توجہ اور دھیان رکھا ہے تو اللہ تعالیٰ نے دنیا کو انکا خادم و غلام بنایا ہے اور ان کو مخدوم۔ حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا جو اللہ تعالیٰ کا ہو جاتا ہے (سب کچھ اللہ کے لئے چھوڑ دیتا ہے) تو اللہ تعالیٰ اس کو وہاں سے رزق عطا کرتا ہے جہاں سے اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا اور جو کوئی دنیا کا ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کو ہمہ تن دنیا کے سپرد کر دیتا ہے۔
اہلِ خانقاہ اور اہلِ ذکر کی برکت
خانقاہ نشین اپنی خانقاہ اوراللہ کی مخلوق کی حفاظت کرتا ہے کیونکہ خانقاہ نشین اطاعت و عبادت کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے ارتباط (رابطہ) میں رہتا ہے اوراللہ تعالیٰ اسکی اطاعت اوردعاؤں کے ذریعے اپنے بندوں اور شہروں سے بلاؤں کو دور کرتا ہے۔
شیخ العالم رضی الدین ابوالخیر احمد بن اسماعیل قزوینی اپنے مشائخ کی اسناد کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ سے روایت کرتے ہیں کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نیک اور صالح مسلمان کے ذریعے اس کے گھر والوں اور پڑوسیوں سے بلاؤں کو ٹال دیتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے، شیر خوار بچے اور چرنے والے مویشی نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسا عذاب نازل فرماتا کہ تم سب(کافر) اس عذاب میں ِ پس کر رہ جاتے۔
ایک دوسری حدیث پاک میں حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ایک نیک آدمی کی بدولت اسکی اولاد ، اولاد کی اولاد، اسکے گھر والوں اور اسکے پڑوسیوں کے کاموں کو سدھار دیتا ہے یعنی درست کر دیتا ہے جب تک وہ نیک بندہ ان کے ساتھ رہتا ہے وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی حفظ و امان میں رہتے ہیں ۔
بعض دانشمندوں نے کہا ہے ’’ عبادت خانوں اور خانقاہوں سے تسبیحات و تکبیرات کا بلند ہونا حُسنِ نیت کے ساتھ ہو اور خلوصِ قلب بھی ساتھ شامل ہو تو ان تمام گِرہوں کو کھول دیتا ہے جن کو گردشِ فلک مضبوطی سے باندھ دیتی ہے تقدیر کے مسئلے حل ہوجاتے ہیں اور گرہیں کھل جاتی ہیں۔ پس اگر خانقاہیں صحیح طور پر اپنے مقاصدِ روحانی پر عمل پیرا ہوں حُسنِ معاملت اور رعایت اوقات کو ملحوظ رکھیں اور ان چیزوں سے گریز کریں جو اعمال کو ضائع کرنے والی ہیں اور اعمال کو درست کرنے والی باتوں پر سختی سے کاربند رہیں تو وہ ملک وملت بلکہ تمام مخلوق کیلئے باعثِ برکت ہیں۔
خانقاہ نشینوں کی اہلِ صفہّ سے مشابہت
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
* لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْہِ ج فِیْہِ رِجَالٌ یُحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَھّرُوْاج وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُطَّھِّرِیْنَ (التوبہ۔108)
ترجمہ: ’’بے شک وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے ہی دن سے تقوی اور پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے‘ اس بات کی مستحق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس میں قیام فرمائیں۔ اس مسجد میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنے کو پسند کرتے ہیں اور بیشک اللہ تعالیٰ اہلِ طہارت کو دوست رکھتا ہے۔
آدابِ طہارت اہلِ تصوف کا معمول ہے جو ہر وقت اپنی خانقاہوں میں رہتے ہیں اور ان خانقاہوں کی خبر گیری کرتے رہتے ہیں اور گویا رباط (خانقاہ ) ان کا گھر ہے اور وہی ان کا خیمہ اور قیام گاہ ہے جس طرح ہر قوم کے افراد کے گھر ہوتے ہیں اسی طرح اہلِ تصوف کے گھر خانقاہیں ہیں پس اس صورت میں وہ اہلِ صفہ سے مشابہ ہیں اس مشابہت کا مزید ثبوت اس حدیث شریف سے ملتا ہے جو حضرت ابو زرعہؒ نے اپنے مشائخ کی اسناد سے حضرت طلحہؓ کی روایت نقل کی ہے، فرماتے ہیں ’’جب کوئی شخص مدینۃ الرسول میں باہر سے آتا اور اس کا کوئی شناسا ہوتا تو اسکے ہاں قیام کرتا اور اگر کوئی جان پہچان نہ ہوتی تو وہ صفہ پر آجاتا اور یہاں قیام کرتا اور میں بھی ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اہلِ صفہ کے ساتھ قیام کیا تھا (یعنی مجھے بھی اہلِ صفہ کے ساتھ قیام کرنے کا اتفاق ہوا ہے۔) پس اہلِ رباط بھی ایسے لوگ ہیں جن کا آپس میں ربط و ضبط ہوتا ہے ان کے ارادے یکساں اور عزم ایک جیسا ہوتا ہے اور سب کے احوال میں یک رنگی ہوتی ہے ان کا یہ ربطِ باہمی اہلِ جنت جیسا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:
وَ نَزَعْنَا مَا فِی صُدُوْرِھِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخَوَانًا عَلٰی سُرُرِ مُّتَقٰبلِیْنَ (سورۃ الحجر۔47 )
ترجمہ: اور ہم نے ان کے سینوں سے کینہ اور رنجش کو نکال دیں گے اور وہ بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔
یہ آمنے سامنے بیٹھے رہنا اس وجہ سے ہے کہ اب ان کا ظاہرو باطن یکساں ہوگیا ہے جیسا کہ فرمایا گیا ’’مومن مومن کا آئینہ ہے۔‘‘ اہلِ صفہ اس آیت کے مصداق تھے کیونکہ ان کے دل کینہ سے پاک صاف تھے۔ کینہ، بغض اور حسد دنیاداری سے پیدا ہوتا ہے جب دنیا کے جھمیلے ساتھ ہوتے ہیں تو یہ چیزیں بھی پیدا ہوجاتی ہیں۔ دنیا کی محبت ان تمام برائیوں کی اصل اور تمام گناہوں کی جڑ ہے۔ اہلِ صُفہ نے دنیا سے قطع تعلق کر لیا تھا اور ان کے دل دنیا سے بالکل الگ تھلگ تھے پس ان کے دلوں سے کینہ مٹ گیا اور حسد ہمیشہ کیلئے رخصت ہوگیا۔ یہی حال اہلِ خانقاہ کا ہے کہ وہ ظاہر و باطن میں یک رنگ ہیں۔ باہمی محبت و الفت میں ان میں یکسانیت ہے اور اس پر سب جمع ہیں ایک ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں ان کی باہمی گفتگو میں یک رنگی ہے اختلاف نہیں ہے(یعنی اکٹھے گفتگو کرتے ہیں اکٹھے کھاتے پیتے ہیں اور اس اجتماعی زندگی کی برکت سے بخوبی واقف ہیں)۔
اہلِ خانقاہ کی خدمت عبادت کا درجہ رکھتی ہے:
جو شخص خانقاہ کے نظام میں نیا داخل ہو اور اس نے علمِ معرفت کا ذائقہ نہ چکھا ہو اور روحانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز نہ ہو تو ایسے شخص کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ خانقاہ والوں کی خدمت کرے یہ خدمت اسکی عبادت تصور کی جائے گی۔ وہ اپنی حسنِ خدمت سے اہلِ اللہ کے دلوں کو اپنی طرف مائل کرے گا اور ان کی برکات شاملِ حال ہو جائیں گی اور اس طرح وہ اپنے عبادت گزار بھائیوں کا معین و مددگار ثابت ہو گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد پاک ہے ’’مومن ایک دوسرے کے بھائی ہیں ان میں سے ہر ایک دوسرے سے بعض ضروریات کا طالب ہے پس ان میں جو لوگ اپنے دوسرے بھائی کی ضرورت پوری کریں گے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کی ضرورتیں پوری کرے گا۔‘‘ علاوہ ازیں خادم خدمت کے باعث بطالت اور کاہلی و سستی سے محفوظ رہتا ہے اور وہی بطالت اور بیکاری (نکماپن) دل کی موت کا باعث ہے۔ مختصر یہ ہے کہ خدمت بھی نیک اعمال میں شامل ہے اوران طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے جن کے ذریعے اوصافِ جمیلہ حاصل کئے جاتے ہیں اور انسان میں اوصافِ حسنہ پیدا ہوتے ہیں۔ خادم مخدوم کی عبادت کے ثواب میں شریک ہوتا ہے کیونکہ خادم انکی خدمت میں مصروف ہے جو اللہ کی بندگی و اطاعت اور اسکے ذکر میں مصروف ہیں تووہ بھی ان کے ثواب میں شریک ہوگیا۔
حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم غزوۂ تبوک سے واپس تشریف لائے اور مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے تمہارے ساتھ سفر کیا اور فراخ راستوں اور وادیوں سے تمہارے ساتھ گزرے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! وہ تو مدینہ میں رہ گئے پھر ان کا اور ہمارا ساتھ کس طرح ہوا ارشاد فرمایا کہ ہاں ان کو عذر نے روک لیا تھا مگر ثواب میں وہ تمہارے ساتھ شریک ہیں۔ پس وہ شخص جو اہلِ اللہ کی خدمت کرتا ہے لیکن اپنی کسی خامی کے باعث انکے مراتبِ عالیہ تک نہ پہنچ سکا لیکن اس پر بھی وہ خدمت میں مصروف رہا اور انکی خدمت میں بھرپور کوشش کے ساتھ سرگرم رہا اور یہ خیال کرتا رہا کہ اگر وہ انکی نگاہِ لطف سے محروم رہا تو کیا ہوا شاید خدمت سے اسکی کچھ تلافی ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اسکی اس خدمت کے بدلے اسکو ضرور بلند پایہ جزا اوراجر عطا فرمائے گا۔ اس طرح اہلِ صفہ بھی نیک کاموں اور تقویٰ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے تھے اور دینی مصالح پر اپنی جان و مال سے مدد کرنے کیلئے مل جل کر کام کرتے رہتے تھے پس وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلِ عظیم کے حقدار بن گئے۔
اہلِ خانقاہ کے خصائص
اہلِ خانقاہ اور ان کی خصوصیات ایسی ممتاز ہیں جن کے باعث وہ دوسری جماعتوں سے ممیزوممتاز ہوگئے یعنی یہ اوصاف و خصوصیات دوسری جماعتوں میں موجود نہیں ہیں یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ ط فَبِھُدٰھُمُ اقْتَدِہْ(الانعام۔90)
ترجمہ: یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں اس لئے تم ان ہی کی پیروی کرو۔
اس مادیت پرستی اور مصروفیت کے زمانے میں بھی کچھ ہستیاں ایسی ہیں جو صحیح طریقہ پر اپنے اسلاف کے مسلک اوران کے طریقہ پر گامزن ہیں۔
تمام اہلِ خانقاہ ایک جسم کی طرح متحد ہیں:
خانقاہ میں جس قدرلوگ موجودہوتے ہیں وہ اپنے اتحاد اور متحد ارادوں کے باعث ایک جسم کی طرح متحد ہوتے ہیں جبکہ دوسری جماعتوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی ان میں ایسا اتحاد نہیں پایا جاتا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف یوں بیان فرمائی ہے کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ (الصف۔4)
ترجمہ: وہ مومنین ایسے متحد اور متفق ہیں اور اسقدر مضبوط ہیں جیسے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہو ۔
مسجد کی تعمیر اور اس کو آباد کرنے کی فضیلت
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
*اِنّما یَعْمُرُ مسٰجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ واٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلاَّ اللّٰہَ َ فَعَسٰٓی اُولٰٓئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ۔ (التوبہ۔18 )
ترجمہ: اللہ کی مسجدیں صرف وہی آباد کر سکتا ہے جواللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لایا اور اس نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرا سو امید ہے کہ یہی لوگ ہدایت پانے والوں سے ہوجائیں گے۔
1 ۔ حدیث مبارکہ۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :
جب تم کسی شخص کو مسجد کی خبر گیری کرتے دیکھو تو اس کے ایمان کی گواہی دے دو کیونکہ ربّ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسجدیں وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور یومِ قیامت پر ایمان رکھتے ہیں۔ (مشکوٰۃ، ترمذی، ابنِ ماجہ، دارمی شریف)
2 ۔تمام روئے زمین پر پسندیدہ جگہیں مساجد ہیں
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :
آبادیوں میں اللہ کو پیاری جگہیں مسجدیں ہیں اور بدترین جگہیں بازار ہیں۔ ( مسلم شریف، مشکوٰۃ شریف)
3۔ حضرت عثمانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا جو اللہ کیلئے مسجد بنائے گا اللہ تعالیٰ اس کیلئے جنت میں ایک محل بنائے گا۔
4 ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا جو شخص صبح یا شام مسجد کو جائے اللہ اس کیلئے جنت میں مہمانی کا سامان بنائے گا جب کبھی صبح یا شام جائے گا۔ (بخاری و مسلم شریف)
5 ۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مسجدیں بنانے اور انہیں پاک صاف اور معطر (خوشبودار)رکھنے کا حکم دیا ۔(ترمذی‘ابنِ ماجہ‘ ابوداؤد‘ مشکوٰۃ)
6 ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا جب تم جنت کے باغوں سے گزرو تو کچھ کھا پی لیا کرو عرض کی گئی یا رسول اللہ! جنت کے باغ کیا ہیں تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا مسجدیں۔ عرض کی گئی ان میں کھانا پینا کیا ہے فرمایا اللہ کا ذکر و تسبیح۔(ترمذی، مشکوٰۃ)
7۔ حضرت ابوامامہ روایت فرماتے ہیں کہ یہودیوں کے بہت بڑے عالم نے حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پوچھا کونسی جگہ بہتر ہے حضور خاموش رہے اور فرمایا میں جبرائیل ؑ کے آنے تک خاموش رہوں گا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خاموش رہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے تو حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان سے پوچھا تو وہ بولے کہ جس سے سوال کیا گیا ہے وہ سائل سے بڑا عالم نہیں (یعنی جبرائیل ؑ نے حضور کے سامنے اپنی لاعلمی کا اعتراف کیا)لیکن عرض کی میں اپنے ربّ سے پوچھوں گا پھر جبرائیل ؑ نے عرض کی اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! آج میں اللہ کے اتنا قریب ہوا کہ اس سے پہلے میں اللہ کے اتنا قریب نہیں ہوا تھا حضور نے فرمایا کتنا قریب ہوا عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میرے اور اللہ کے درمیان ستر ہزار نور کے پردے حائل تھے تو ربّ نے فرمایا بدترین جگہیں بازار اور اللہ کی پسندیدہ جگہیں مساجد ہیں۔ (صحیح ابن حبان بروایت ابنِ عمر)
مندجہ بالا تمام احادیث سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ روئے زمین کے ٹکڑوں میں سے اللہ کو وہ جگہیں زیادہ پسند ہیں جہاں اسکی عبادت کی جاتی ہے اور اسکے حضور سرِ نیاز جھکائے جاتے ہیں لیکن اس جگہ کے کیا کہنے جہاں ایک فقیرِ کامل کے قدم مبارک بار بار لگتے ہوں ایک مقدس خانقاہ بھی ہو جہاں صبح و شام بلکہ ہمہ وقت طالبانِ مولیٰ اسکی رضا چاہتے ہوئے فقرِ محمدی کو فروغ دینے کیلئے مصروفِ عمل ہوں اور ساتھ ہی اللہ کا گھر مسجد بھی ہو جہاں نمازِ پنجگانہ باجماعت ادا کی جاتی ہو اور نمازِ جمعہ بھی ہو تو اس جگہ کی فضیلت دوگنا ہو جائیگی اور اس جگہ کی تعمیرو ترقی میں جو لوگ حصہ ڈالیں گے ان کے اجرو ثواب کے متعلق ہماری سوچ عاجز اور قاصر ہے۔ تمام قارئین سے میری گزارش ہے کہ بڑا نادر موقع ہے اللہ اور اسکے رسول کے ساتھ تجارت کرنے کا فرمان باری تعالیٰ ہے۔
* اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرَیٰ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ(سورۃ توبہ۔ 111)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال ان کے لئے جنت کے بدلے خرید لیے ہیں ۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ایک مسجد اور اس کے ساتھ خانقاہ کے قیام کی بنیاد رکھنے جا رہے ہیں دل کھول کر اپنے پاکیزہ اور حلال اموال میں سے تعاون کیجئے کیونکہ یہ نہایت نفع بخش سودا ہے اور ایک کے بدلے سات سو گنا نوازنے والا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ واللہ واسع علیم۔
خود بھی اس کار خیر میں حصہ ڈالیں اور عزیزواقارب کو بھی کارِ خیر میں حصہ ڈالنے کی ترغیب دیں اللہ ہم سب کی کاوشیں قبول فرمائے۔ آمین