سیف اللہ حضرت خالد بن ولیدؓ
تحریر: نورین عبدالغفور سروری قادری ۔سیالکوٹ
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
٭ خالد کو تکلیف نہ دو کیونکہ وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے جسے اللہ نے کافروں پر گرایا ہے۔(حدیث)
حضرت خالد بن ولیدؓ تاریخِ اسلامی کے ماتھے کا وہ جھومر ہیں جن کے برق رفتار طوفانی حملوں اور لگاتار فتوحات نے دُنیا کو ورطۂ حیرت میں گم کر دیا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ، ملتِ اسلامیہ کے وہ عظیم جرنیل ہیں جنہوں نے قیصر و کسریٰ کے تخت و تاج کو تہس نہس کر ڈالا۔ روم اور ایران کے شاہی محلات اپنے گھوڑوں کی ٹاپ سے روند ڈالے۔ جن کی تلوار کی زَد سے بڑے بڑے نامور سورما گھبرائیں اور کوئی مقابلے پر نہ آئے، جن کا نام کفار کے دِلوں کو دہشت زَدہ کر دے۔ خالد بن ولیدؓ اللہ کی وہ تلوار ہیں جو کفار، مشرکین، مرتدین، یہود و نصاریٰ اور مجوسیوں پر اللہ کا قہر بن کر نازل ہوئی۔ جن کے نام سے کفر کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو جائے، جن کے ہاتھوں کی طاقت سے برہنہ شمشیریں بھی ٹوٹ کر بکھر جائیں، جنہوں نے ملّتِ اسلامیہ کی سرحدوں کو آدھی دنیا تک پھیلا دیا۔ خالد بن ولیدؓ عزم و ہمّت، شجاعت و بہادری، طاقت و جواں مَردی کا عظیم پیکر ہیں جن کا وجود فتح کی علامت، نصرت کا نشان، مسلمانوں کی آن، مجاہدین کی شان، اللہ کے نبیؐ کا پیارا، صدیقِ اکبرؓ کی آنکھوں کا تارا، حلقہ یاراں میں ریشم کی طرح نرم، رزمِ حق و باطل میں فولاد کی طرح سخت۔ فتح و نصرت، عاجزی و انکساری اور اطاعت و فرماں برداری کا یہ عالم کہ امیرالمومنین فاروقِ اعظمؓ نے جب معزول کر دیا تو لمحہ بھر میں سپہ سالار سے سپاہی بن کر رہتی دنیا تک کے لیے مثال بن گئے۔ خالد بن ولیدؓ مسلمانوں کے وہ ہیرو ہیں جن کا نام آج بھی لہو کو گرم اور دِلوں کی دھڑکنوں کو تیز کر دیتا ہے۔
تعارف
مضبوط اور چاق و چوبند جسم، دراز قد، بارعب چہرہ، چوڑا اور کشادہ سینہ، چمکتی عقابی آنکھیں۔ شہ سواری، نیزہ بازی، تیر اندازی اور شمشیر زنی کا جادوگر، جنگی حکمت ِ عملی اور سیاسی چالوں کا ماہر۔ بے خوف، نڈر، بہادر، جَری، پاک دامن، شریف النفس، عبادت گزار، قسمت کا دھنی، برق رفتار، آتش جواں، شعلہ بیاں جرنیل، حضرت خالد بن ولیدؓ قبیلہ بنو مخزوم کے سردار اور قریش کے بااثر رئیس ولید بن مغیرہ کے گھر پیدا ہوئے۔ آپؓ کے والد ولید بن مغیرہ کا شمار ایسے معززین میں ہوتا تھا جن کے بارے میں قریش کہا کرتے تھے ’’اگر اللہ کو قرآن نازل کرنا ہی تھا تو اِن پر کیوں نہ کیا۔‘‘
سلسلہ نسب
آپؓ کا سلسلۂ نسب یوں ہے: خالد بن ولیدؓ بن المغیرہ بن عبداللہ بن عُمر بن مخزوم القریش المخزومی۔ آپؓ کی والدہ کا نام لبابہ صغریٰ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زوجہ اُمّ المومنین حضرت میمونہؓ کی ہمشیرہ تھیں۔ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے آپؓ کو ’’سیف اللہ‘‘ کا لقب عطا ہوا۔ مسلمانوں کا میدانِ جنگ میں حضرت خالد بن ولیدؓ سے پہلا تعارف اس وقت ہوا جب غزوہ اُحد میں خالد بن ولید کفار کی طرف سے لڑنے کے لیے میدانِ جنگ میں آئے۔ اس وقت آپؓ ایمان نہیں لائے تھے اور کفار کے اضافی گھڑسوار دستے کے سربراہ تھے۔ غزوہ احد میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پچاس تیرانداز ایک پہاڑی درے پر متعین فرما دیئے اور ان کو حکم دیا کہ جنگ کا جو مرضی نتیجہ نکلے آپ کو اپنی جگہ نہیں چھوڑنی۔ یہ تیرانداز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خالد بن ولید کے دستے کو ہی دیکھ کر متعین فرمائے تھے جو پہاڑی کے ایک طرف سے مسلمانوں پر حملہ آور ہو سکتے تھے۔ اُن پچاس تیراندازوں میں سے اکثر نے حکم عدولی کی اور جنگ کا پانسہ مسلمانوں کے حق میں پلٹتا دیکھ کر اپنے مورچے چھوڑ دیئے اور نیچے اُتر آئے۔ خالد بن ولید کی عقابی نگاہوں نے یہ کمزوری تاڑ لی اور مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ کفار کے اس حملے کے نتیجے میں جس کی قیادت خالد کر رہے تھے‘ ستر صحابہ کرامؓ شہید ہوئے جو مسلمانوں کے لیے ایک شدید چوٹ تھی۔ اسی جنگ کے دوران حضرت امیر حمزہؓ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور خالد بن ولید کے درمیان ایک چٹان کی مانند کھڑے ہو گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بچاتے بچاتے خود شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوگئے۔
قبولِ اسلام
حضرت خالدؓ بن ولید کے قبولِ اسلام سے قبل بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کو بہت پسند فرمایا کرتے تھے۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے حضرت خالدؓ کی تعریف کی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرمایا کرتے کہ جس شخص میں یہ خصوصیات ہوں گی وہ ضرور اسلام قبول کرے گا۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت عمرؓ کے بارے میں قبولِ اسلام کی دعا فرمائی تھی، اسی طرح خواہش تھی کہ حضرت خالدؓ بھی اسلام قبول کر لیں۔آخر یہی ہوا 8 ہجری میں فتح مکہ سے پہلے حضرت خالد بن ولیدؓ، حضرت عمرو بن العاصؓ اور حضرت عثمان بن طلحہؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس تشریف لائے اور اسلام قبول کر لیا۔ تب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بہت خوشی سے فرمایاکہ اے لوگو! مکہ نے اپنے جگر گوشے تمہارے دامن میں ڈال دیئے ہیں۔ قبولِ اسلام کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت خالدؓبن ولید پر خاص نگاہِ کرم فرمائی اور ’’سیف اللہ‘‘ کا لقب عطا فرمایا۔
حارث بن ہشام روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو کہتے سنا ’’اسلام قبول کرنے سے پہلے مَیں تقریباً ہر معرکے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے نئے عزم و ولولے کے ساتھ آتا لیکن ہر مرتبہ کچھ اس طرح میرے دِل پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا رُعب و دبدبہ طاری ہوتا کہ میرے حوصلے پست ہو جاتے اور مجھے یوں محسوس ہوتا کہ جیسے کوئی غیبی طاقت اُنؐ کی حفاظت فرما رہی ہے۔ پس مجھے یقین ہو گیا کہ یہ لوگ پوری دنیا پر غالب آ جائیں گے۔‘‘ (طبقات ابنِ سعد)
جنگِ موتہ
جو معرکے حضرت خالدؓ بن ولید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم اور اجازت سے لڑے ان میں ایک جنگِ موتہ تھی جس میں حضرت خالدؓ بن ولید مسلمان ہونے کے بعد پہلی مرتبہ ایک سپاہی کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ جنگ ِ موتہ کے بارے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ جب حضرت زیدؓ بن حارثہ نے لشکر کی قیادت کی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پہلے ہی بشارت دے دی تھی کہ اگر زیدؓ شہید ہو جائیں تو جعفر بن ابی طالبؓ عَلم سنبھال لیں، اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہؓ کو امیر بنا لیں اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو مسلمان اپنے میں سے کسی کو امیر منتخب کر لیں۔‘‘ اسلامی لشکر موتہ پہنچا تو شاہِ روم ہرقل ایک لاکھ جنگجوؤں کے لشکر کے ساتھ مسلمانوں کا منتظر تھا۔ گھمسان کی جنگ ہوئی اور مسلمانوں کے تینوں سپہ سالار شہید ہو گئے۔ مجاہدین کے لیے یہ مایوس کُن صورتِ حال تھی۔ میدانِ جنگ پر رومیوں کا قبضہ تھا، ایسے میں مسلمانوں نے فوج کے ایک سپاہی خالدؓ بن ولید کو اپنا سپہ سالار منتخب کیا اور جھنڈا اُن کے ہاتھ میں تھما دیا۔ حضرت خالدؓ بن ولید نے میدانِ جنگ میں ایک پُرجوش اور ولولہ انگیز تقریر کی اور اچانک رومیوں پر بھرپور حملہ کر دیا۔ رومی اس اچانک اور بھرپور حملے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ تھے۔ چنانچہ وہ بدحواس ہو گئے اور شکست اُن کا مقدر بن گئی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت خالدؓ نے فرمایا ’’جنگ ِ موتہ کے روز میرے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹ گئیں۔ پھر میرے ہاتھ میں صرف ایک یمنی بانا (چھوٹی تلوار) باقی بچی۔‘‘ اُدھر مدینہ میں جنگ ِ موتہ ہی کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے وحی کی بنا پر فرمایا ’’جھنڈا زیدؓ نے لیا اور وہ شہید کر دیے گئے، پھر جعفرؓ نے لیا اور وہ بھی شہید کر دیے گئے، پھر ابن ِ رواحہؓ نے لیا اور وہ بھی شہید کر دیے گئے (اس دَوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آنکھیں اشک بار تھیں) یہاں تک کہ جھنڈا اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے لے لیا (اور ایسی جنگ لڑی کہ) اللہ نے ان پر فتح عطا فرمائی‘‘۔ اسی دن سے حضرت خالدؓ بن ولید کا لقب ’’سیف اللہ‘‘ ہو گیا۔ (صحیح بخاری، باب غزوۂ موتہ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا ’’یہ اللہ کا بندہ بھی کیا خوب آدمی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے جسے اس نے کفار اور منافقین پر کھینچا ہے۔‘‘
فتح مکہ
سیّدنا خالد بن ولیدؓ کے اسلام قبول کرنے کے بعد دوسرااہم واقعہ فتح مکہ پیش آیا۔ جس میں باقاعدہ فخر امم،سرورِ انبیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سیّدنا خالدؓ بن ولیدکو ایک دستے کاامیر مقرر کیا۔
20رمضان المبارک 8ہجری کو فتح مکہ کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے وادی ذی طویٰ میں لشکر کی تربیت و تقسیم فرمائی۔ حضرت خالدؓ بن ولید کو بنو سلیم، بنوغفار، بنوخزیمہ اور کچھ دوسرے عرب قبائل کی قیادت کرتے ہوئے مکے کے بالائی علاقے کی جانب سے شہر میں داخل ہونے کا حکم دیا اور فرمایا ’’اگر قریش میں سے کوئی آڑے آئے تو اپنی تلوار کے جوہر دکھانے کی اجازت ہے اور اگر کوئی مزاحمت نہ ہو تو اپنی جانب سے کسی سے مقابلہ کرنے میں پہل نہ کرنا۔ ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہم بغیر خون بہائے پُرامن طریقے سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوں اور اس مبارک شہر کی حرمت کو پامال کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔‘‘ حضرت خالدؓ اور اُن کے رفقا کی راہ میں جو مشرک آیا اُسے جہنم رسید کرتے کوہِ صفا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے جا ملے۔ اس موقعہ پر حضرت خالدؓ بن ولید سے جھڑپ میں 12مشرک مارے گئے جب کہ دو صحابیؓ شہید ہوئے وہ بھی راستہ بھول کر لشکر سے جدا ہو جانے کی وجہ سے۔ فتح مکہ کو ابھی پانچ دن ہی گزرے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت خالدؓ کو تیس مجاہدین کے لشکر کا امیر بنا کر مقام نُخلہ کی جانب روانہ کیا تاکہ وہاں مشرکین عرب کے ’’عزیٰ‘‘ نامی بُت کو گرا سکیں۔ عزیٰ قریش ِمکہ کا ایک مشہور اور بڑا بت تھا جس کی پوجا بڑے اہتمام کے ساتھ کی جاتی تھی۔ جذبہ توحید سے سرشار حضرت خالدؓ بن ولید نے بت کے پرخچے اُڑا دیئے۔
غزوہ حنین
ماہِ شوال 8ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے قبیلہ ہوازن کی سرکوبی کے لیے مکّہ مکرّمہ سے وادیٔ حنین کی جانب کوچ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ بارہ ہزار جنگجو تھے۔ 10ہزار وہ جو فتح مکہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہمراہ تھے اور دو ہزار مکہ کے نو مسلم۔ حضرت خالد بن ولیدؓ بھی ایک لشکر کے سالار کی حیثیت سے ساتھ تھے۔ اللہ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی اور بہت سا مالِ غنیمت ہاتھ آیا۔ غزوۂ حنین کے بہت سے شکست خوردہ مشرک طائف میں قلعہ بند ہو گئے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت خالدؓ بن ولید کو ایک ہزار مجاہدین کے لشکر کا امیر بنا کر ہراول دستے کے طور پر طائف روانہ کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بقیہ فوج کے ساتھ خود بھی طائف کا رُخ فرمایا۔
غزوۂ طائف
ہوازن کی شکست خوردہ فوج طائف جا کر پناہ گزیں ہو گئی اور جنگ کی تیاریاں کرنے لگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے وہاں پہنچ کر ان سے جنگ کرنے کاارادہ کیا۔ سیّدنا خالدؓ زخمی ہونے کے باوجود جنگ میں شامل تھے اور بدستور لشکر کے افسر تھے۔ اسلامی لشکر کی تعداد بارہ ہزار تھی۔ طائف پہنچ کر قلعے کا محاصرہ کر لیا گیا اور سیّدنا خالدؓ باربار کفار کو نعرہ لگا کر مقابلے کے لیے دعوت دیتے تھے لیکن کوئی جواب نہیں دیتا تھا۔ باربار کے چیلنج کے بعد قبیلہ ثقیف کے سردار عبدیالیل نے جواب دیا ’’ہم میں سے کوئی شخص تمہارے مقابلے کے لیے نہیں اُترے گا ہم بدستور قلعے میں مقیم رہیں گے کیونکہ ہمارے پاس اتنا سامان خوردونوش موجود ہے جو دوسال کے لیے کافی ہے۔‘‘ چونکہ طائف والوں سے کوئی خطرہ نہ تھا لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے محاصرہ اٹھا لیا۔
غزوہ تبوک
تبوک میں دشمن کو مسلمانوں کے مقابل ہونے کی ہمت نہ پڑی بلکہ آس پاس کے عیسائی حاکموں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اطاعت قبول کر لی۔ پاس کی ایک ریاست دومۃ الجندل کا عرب حاکم اکیدر قیصر روم کے اثر میں تھا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت خالدؓ بن ولید کو چار سو سوار دے کر اس کو مطیع کرنے کے لیے بھیجا۔ حضرت خالدؓ نے اکیدر کو شکست دی اور گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کو چند شرائط پر معافی دے دی۔ اس مُہم کے سلسلے میں مسلمانوں کو جن تکلیفوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا ان کی بنا پر اس کو جیش العُسرۃ اور غزوۃ العُسرۃ بھی کہا جاتا ہے۔
جنگِ یمامہ
ذی الحجہ 11ہجری کو خلیفۂ اوّل سیّدنا صدیق ِ اکبرؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو تیرہ ہزار مجاہدین کے لشکر کا امیر بنا کر نبوت کے جھوٹے دعوے دار مسیلمہ کذاب کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ مسیلمہ اپنے قبیلے ربیعہ کے چالیس ہزار جنگجوؤں کے لشکر کے ساتھ’’یمامہ‘‘ کے مقام پر مسلمانوں کے مدّ ِمقابل آیا۔ اس موقعے پر حضرت خالد بن ولیدؓ نے بہترین جنگی حکمت ِ عملی، سیاسی بصیرت اور ولولہ انگیز تقاریر کے ذریعے مجاہدین میں شوقِ شہادت کو بڑھاوا دیا اور پھر بپھرے شیر کی طرح مسیلمہ کی فوج کے پرخچے اُڑا دیئے۔ حضرت حمزہؓ کے قاتل وحشی نے اپنا نیزہ مسیلمہ کے سینے میں اُتار کر اُسے جہنم رسید کر دیا۔
حضرت خالدؓ عراق اور ایران میں
ابھی حضرت خالدؓ بن ولید جنگ ِ یمامہ سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ حضرت صدیق ِ اکبرؓ نے آپؓ کو عراق اور ایران کی جانب پیش قدمی کا حکم صادر فرما دیا۔ چنانچہ محرم 12ہجری میں حضرت خالدؓ عراق کے علاقے ’’ابلہ‘‘ کو فتح کرتے ہوئے ایرانی صوبے ’’حضیر‘‘ جا پہنچے۔ اس صوبہ کا حاکم ہرمز نہایت دلیر جنگجو سردار تھا جس کی دھاک عرب، عراق، ایران اور ہندوستان تک بیٹھی ہوئی تھی کیونکہ اُس کے جنگی بیڑے ہندوستان پر بھی حملہ آور ہو چکے تھے۔ ہرمز کی مدد کے لیے شاہِ ایران نے مزید ایک لاکھ فوجی بھیج دئیے جب کہ اسلامی لشکر صرف تیرہ ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا۔ یہاں حضرت خالدؓ نے ایک اور جنگی حکمت ِ عملی اپنائی اور سب سے پہلے خود میدانِ جنگ میں گئے۔ اپنے گھوڑے کو ہرمز کے خیمے کے پاس کھڑا کر کے اُسے مقابلے کی دعوت دی۔ وہ باہر نکلا، دونوں میں دوبدو لڑائی ہوئی اور پھر حضرت خالدؓ نے اُسے زمین پر گرا دیا اور اُس کے سینے پر سوار ہو کر سر تن سے جدا کر دیا۔ یہ سب اتنا اچانک اور تیزی سے ہوا کہ ایرانی فوج بدحواس ہو کر بھاگ نکلی۔ اس جنگ میں بہت زیادہ مالِ غنیمت اور ہیرے جواہرات مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔ حضرت خالدؓ نے عراق میں دو سال قیام کیا۔ فوج اور سامانِ حرب کی قلّت کے باوجود ان دو برسوں میں 15جنگیں لڑیں اور سرزمین ِ عراق کو دشمنوں سے پاک کر دیا۔
جنگِ یرموک
حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں لڑی جانے والی اس جنگ میں رومی جرنیل ہامان دو لاکھ چالیس ہزار کا لشکر لے کر میدان میں اُترا جب کہ مجاہدین کی تعداد چالیس ہزار تھی۔ مسلمان نہایت جَم کر لڑے اور فتح نصیب ہوئی۔ اس جنگ میں ایک لاکھ تیس ہزار رومی مارے گئے۔
دمشق کی جنگ
حضرت خالدؓ کی قیادت میں مسلمانوں نے دمشق کو فتح کر لیا اور مدینہ میں خلیفۃ الرسول حضرت ابو بکر صدیقؓ کی وفات کے بعد امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ ان کی جگہ خلیفہ مقرر ہوئے۔ دمشق کی جنگ کے دوران ہی حضرت عمرؓ نے ایک مکتوب حضرت ابو عبیدہؓ کو لکھا جس میں حضرت خالدؓ کی کمانڈر انچیف کی حیثیت سے معزولی کے احکامات تھے اور حکم دیا گیا کہ حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ مسلمانوں کے نئے کمانڈر ہوں گے۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ کے حکم کی تعمیل کی گئی اور آپؓ کو معزول کر کے عام سپاہی بنایا جا رہا تھا تو آپؓ اس حکم کو سر آنکھوں پر تسلیم کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’اگر میں عمرؓ کے لیے لڑتا تھا تو اب نہیں لڑوں گا لیکن اگر میں اللہ ربّ العزت کے لیے لڑتا تھا تو اسی طرح ایک سپاہی کی حیثیت سے بھی اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیتا رہوں گا۔‘‘ اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ خالدؓ کی تلوار اسی طرح چلتی رہی جس طرح ایک مجاہد اور اللہ کے سپاہی کی تلوار چلتی ہے۔ حضرت خالدؓ کی معزولی کا مسلمانوں کو شدید دکھ تھا لیکن حضرت عمرؓ کے پیش نظر ایک حکمت تھی کہ لوگوں کو شاید یہ خیال ہونے لگا تھا کہ مسلمانوں کو فتح خالدؓ کی وجہ سے ہوتی ہے اور ان کا اللہ پر توکل اور یقین کمزور پڑ رہا ہے اس لیے انہوں نے یہ قدم اٹھایا۔ سیّدنا عمرؓ لوگوں کو یہ دکھانا چاہتے تھے کہ فتح بس اللہ کی مدد سے ہوتی ہے۔ خالدؓ کی شجاعت اور بہادری پر نہیں۔ اللہ ہر حال میں اپنے دین کی حفاظت کرتا ہے چاہے حضرت خالدؓ ہوں یا نہ ہوں۔
حضور مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس بھی یہی فرماتے ہیں کہ کامیابی یا ناکامی کے لیے کسی سیاست دان یا کسی سربراہ کو خدا نہیں بنا لینا چاہیے بلکہ صرف اللہ پاک پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کی طرح طالبانِ مولیٰ کو بھی اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلے پر دل وجان سے سر ِتسلیم خم کرنا چاہئے۔ حضرت عمرؓ نے مسلمانوں کو اللہ پر توکل سکھانے کی خاطر کچھ عرصے کے لیے حضرت خالدؓ کو عہدے سے ہٹا دیا۔
وفات
21ہجری کی ایک غمناک رات تھی جب حمص شہر میں بستر ِ مرگ پر لیٹے ہوئے دنیا کے سب سے عظیم سپہ سالار اور فاتح حسرت و یاس کی تصویر بنے کہہ رہے تھے ’’اللہ گواہ ہے کہ مَیں نے ایک سو سے زیادہ جنگوں میں شرکت کی۔ میرے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں تیر کے نشان اور نیزے کے گھاؤ نہ ہوں مگر ہائے افسوس کہ آج مَیں میدانِ جنگ کی بجائے بستر پر مر رہا ہوں۔‘‘
حضرت خالدؓ بن ولید کا انتقال ہوا تو اُن کے ورثے میں ایک غلام، ایک گھوڑا اور سامانِ حرب کے سوا کچھ نہ تھا۔ راہِ خدا میں شہادت کی طلب ہی ان کا مقصد ِحیات تھا۔ ان کی جان اللہ کی راہ میں وقف تھی اور مال بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں صَرف ہوا۔ انہوں نے اپنے مقصد کے مقابلے میں اپنی زندگی کو کبھی عزیز نہیں رکھا۔ انکی شدید خواہش کے باوجود انہیں شہادت نصیب نہیں ہوئی۔ مطلب کوئی بھی اللہ کی تلوار کو نہ توڑ سکا۔ اسی طرح طالب ِ مولیٰ کو جہادِ اکبر یعنی نفس کے خلاف جہاد میں اتنا جری اور قوی ہونا چاہیے کہ نفس، دنیا اور شیطان اسے توڑ نہ سکیں۔
جب حضرت عمرؓ کو ان کی وفات کی اطلاع ملی تو بے حد غمگین ہوئے اور فرمایا:
’’مسلمانوں کو ایسا نقصان پہنچا ہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔ حضرت خالدؓ ایسے جرنیل تھے کہ اب شاید ہی کوئی ان کی جگہ لے سکے وہ دشمن کے لیے مصیبت تھے۔‘‘
عالم ِاسلام میں آج بھی اگر کوئی تبدیلی لانا چاہتا ہے تو جب تک اس کے وجود میں وہ پراسرار عنصر شامل نہ ہو گا جس کا ذکر علامہ اقبالؒ نے اپنے کلام میں کیا ہے‘ وہ یہ کام سر انجام نہیں دے سکے گا۔
یہ غازی، یہ تیرے پُراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
اور وہ پر اسرار عنصر بلاشبہ فقر ہے جس کے متعلق اقبالؒ نے فرمایا:
سوچا بھی ہے اے مردِ مسلمان کبھی تو نے
کیا چیز ہے فولاد کی شمشیر جگر دار
اس بیت کا مصرع اوّل ہے کہ جس میں
پوشیدہ چلے آتے ہیں توحید کے اسرار
ہے فکر مجھے مصرع ثانی کی زیادہ
اللہ کرے عطا تجھ کو فقر کی تلوار
قبضے میں یہ تلوار بھی آ جائے تو مومن
یا خالدؓ جانباز ہے یا حیدر کرارؓ
استفادہ کتب:
۱۔ اللہ کی تلوار از ابو زید شبلی
۲۔سیّدنا حضرت خالد بن ولیدؓ ازابو ریحان ضیا الرحمن فاروقی
۳۔سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ ازطالب ہاشمی