امیر الکونین
قسط نمبر17
شرح فقر و شرح مرتبہ فقیر
جو فقیر مندرجہ ذیل صفات سے موصوف ہو وہی صادق فقیر ہے اور جو فقیر ان اوصاف سے موصوف نہیں‘ وہ کاذب ہے۔ فقیر کے پاس پانچ خزانے اور پانچ حکمتیں ہوتی ہیں اور ہر حکمت میں پانچ ہزار علم ہیں اور ہر علم میں پچپن قسم کی ولایت اور پچپن قسم کی غنایت اور پچپن قسم کے تصور ہیں۔ تصور، توجہ اور تفکر توحید اور اللہ کے لازوال قرب اور وصال کی کلید ہیں جو فقیر کو ازل سے ابد تک کا فاصلہ ایک دم میں طے کر کے مشاہدہ اور حضوری کے احوال تک پہنچاتی ہے۔ اوّل مراتبِ فقر فنا الفنا ہیں دوم مراتب ِ فقر بقا البقا ہیں۔ سوم مراتب ِ فقر اللہ کے قرب و وصال سے مشرف ہونا ہے۔ فنا کسے کہتے ہیں اور بقا کسے کہتے ہیں اور وصال کسے کہا جاتا ہے کہ جس کی مثال نہیں دی جا سکتی۔ فنا و بقا کے مراتب اس آیت کے مصداق ہیں:
یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ. (الروم۔19)
ترجمہ: وہ زندہ کو مردہ میں سے اور مردہ کو زندہ میں سے نکالتا ہے۔
فنا یہ ہے کہ فقیر ایک دم میں تمام عالم کو فنا کر دے اور بقا یہ ہے کہ ایک دم میں تمام کو زندگی عطا کر دے۔یُحْیِ الْقَلْبَ وَیُمِیْتُ النَّفْسَ (وہ قلب کو زندہ کرتا ہے اور نفس کو مارتا ہے) کے مصداق فقیر اس طاقت کا حامل ہوتا ہے کہ موجود کو لاموجود، مشکل کو آسانی، ویرانی کو آبادی اور جمعیت کو پریشانی میں بدل سکتا ہے۔ یہ اس فقیر کے مراتب ہیں جو نہ صرف روشن ضمیر بلکہ کونین اور تمام مخلوقات پر غالب و امیر ہوتا ہے۔ عارفِ صادق اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ(بے شک اللہ ہر شے پر قادر ہے) کی تخت ِ فقر پر مسند نشین ہوتا ہے اور تمام عالم اس کے زیر ِحکم ہوتا ہے۔یہاِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَہُوَ اللّٰہُ (جہاں فقر مکمل ہوتا ہے وہیں اللہ ہوتا ہے) کے مراتب ہیں۔ فنا فی اللہ فقیر اس صفت کے مصداق حضرت رابعہؒ اور سلطان بایزیدؒ کی مثل ہوتا ہے کہ اللہ کی معرفت ِ توحید کی بدولت اس کے ہاتھوں میں دونوں جہان کی کلید ہوتی ہے۔ جو فقیر اس صفت سے موصوف نہیں ہوتا وہ اہل ِ تقلید اور زن مرید ہے۔ جاننا چاہیے کہ کامل انسان ہمیشہ اللہ اور اس کے دیدار کا طالب ہوتا ہے اور ناقص احمق کی طرح ہمیشہ بدبودار مردار دنیا کا طالب ہوتا ہے۔ بیت:
معرفت توحید حکمت ہر سہ شد راہبر خدا
بامطالعہ دل ورق شد غرق اللہ فی بابقا
ترجمہ: تو دل کے اوراق کے مطالعہ کر جس سے تجھے معرفت، توحید اور حکمت حاصل ہوں گی اور یہ تینوں خدا کی طرف تیری راہنمائی کریں گی جس سے تو حق تعالیٰ میں فنا ہو کر بقا پائے گا۔
غوث اور قطب اگر تمام عمر ریاضت و مجاہدہ میں صَرف کر دیں تب بھی مرتبہ فقر کی ابتدا تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے کیونکہ مرتبہ فقر کی ابتدا دیدارِ حق تعالیٰ سے مشرف ہونا ہے اور دیدار کا مرتبہ حاصل کرنے کے لیے فنائے نفس کا مرتبہ حاصل کرنا پڑتا ہے اور نفس کو فنا کرنے سے قلب کو حیات اور روح کو بقا حاصل ہوتی ہے۔ پس مرتبہ فنا و بقا لقا سے مشرف ہوئے بغیر ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی فقیر کو وصالِ الٰہی حاصل ہو سکتا ہے۔ مرتبہ غوث اور مرتبہ فقیر میں کیا فرق ہے؟ عرش سے تحت الثریٰ تک جملہ مقامات اور طبقاتِ زمین و آسمان کی طیر سیر، مطالعہ ٔ علم ِ لوحِ محفوظ اور عرش سے اوپر ستر ہزار منازل غوث و قطب کے دائرئہ عمل اور ایک نظر اور حکم کے تحت ہیں۔ ان مراتب کے حصول کے بعد غوث و قطب سمجھتے ہیں کہ وہ انتہا تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ نو رکے مختلف طبقات کے مراتب ہیں جبکہ فقیر ان طبقات کی باطنی سیر اور نور کے مراتب کی طرف نہیں توجہ کرتا۔کیونکہ وہ ہمیشہ انوار میں غرق اور مشرفِ دیدار رہتا ہے اور اسے مشاہدہ، قرب اور حضورِ حق حاصل ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ اللہ کی نظر میں منظور ہوتا ہے۔ بیت
فقر یک سِرّ است اسرار خدا
ابتدائے انتہا بیند لقا
ترجمہ: فقر اسرارِ الٰہی میں سے ایک سرّ ہے اس کی ابتدا و انتہا لقا و دیدار میں ہے۔
فقیرلقا سے ہی قوت پاتا ہے اور لقا سے ہی توجہ، جمعیت، مشاہدہ، حضوری اور قرب پاتا ہے۔ اس کا ذکر، فکر، فنا، بقا، ادب، حیا سب لقا سے ہے۔ اس کا وصل، یقین، صدق، صفائے باطن، زندگی ٔ قلب، تزکیہ نفس بھی لقا سے ہے۔ فقیر کا بولنا اور سننا بھی لقا سے ہے۔ طالب ِ مولیٰ ہمیشہ لقا کی طلب میں ہوتا ہے جبکہ طالب ِ دنیا بے حیا ہوتا ہے۔ اہل ِ لقا اور بے حیا کو ایک دوسرے کی مجلس راس نہیں آتی۔ ابیات:
مرتبہ ٔ فقر است بافخر از نبیؐ
فقر را دشمن بود اہل از شقی
ترجمہ: مرتبہ فقر نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فخر ہے اور فقر کا دشمن بدبخت ہی ہو سکتا ہے۔
عالم او باشد غلام اہل از فقر
عالمان را برد حاضر بانظر
ترجمہ: اصل عالم وہ ہوتا ہے جو اہل ِ فقر کا غلام ہو۔ اہل ِ فقر عالموں کو نظر سے حضوری میں پہنچا دیتے ہیں۔
عالم طالب کی طرح ہوتا ہے جبکہ فقیر عالم پر غالب ہوتا ہے۔ اگر عالم طلب ِ مولیٰ میں جان فدا کرنے والا طیار ہو تو فقیر کے لیے اُسے مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچا دینا آسان کام ہے۔ طالب ِ مولیٰ کے وجود میں تین چیزیں ہوتی ہیں اوّل نفس، دوم قلب سوم روح۔ طالب کا نفس رات دن شہوت، عورت، فرزند، رزق، طاقت و صحت ِ جان اور طویل عمر کی طلب میں رہتا ہے۔ نفس بے حیا اور حریص ہے کیونکہ اس کی طلب خواہشاتِ نفس کے باعث ہے۔ طالب کا قلب رات دن نور کے درد و شوق اور پیاس کی طلب میں ہوتا ہے جو اسے روشن ضمیر اور باصفا بنا دیتا ہے اور مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا طلبگار ہوتا ہے جو کہ شفیع، پُرشفقت اور باعث ِ شفا ہیں۔ طالب کی روح رات دن لقائے الٰہی کی طلب میں رہتی ہے جو کہ اللہ کی توجہ سے مجھے حاصل ہوتا ہے اور یہ توجہ رحمت، لطف اور عطائے خدا کے سبب ممکن ہے۔ طالب ِ مولیٰ کو اللہ کی قسم ہے کہ روزِ اوّل عالم مرشد سے اللہ کے علم کا سبق طلب کرے اور اسے پڑھے۔ اسمِ اللہ ذات کے تصور سے حاصل ہونے والی حضوری طالب کو قرب و وِصال سے مشرف کرتی ہے اور مجلسِ محمدی کی حضوری میں پہنچاتی ہے۔ مرشد کامل جو عالم ہو‘ اس کے سینہ میں دو علم ہوتے ہیں۔ ایک مجلسِ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا علم اور دوسرا لقا کا علم ہے جو طالب ِ مولیٰ کے وجود سے میں ذکر سے پیدا ہوتے ہیں اور اس ذکر سے ذاکر لاھوت لامکان کو عیاں دیکھتا ہے۔ اس ذکر کے دو گواہ ہیں ایک یہ کہ ہر شے عیاں ہو جاتی ہے اور دوسرا یہ کہ وہ ان کو دیکھنے والا ہوتا ہے۔ مدرسہ میں مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے علم سے طالب ِ مولیٰ کے وجود میں فکر پیدا ہوتی ہے اور اس فکر سے فنا حاصل ہوتی ہے اور طالب مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف ہوتا ہے۔ ابیات:
طالب از مرشد طلب دیدار کن
دیدار حاصل میشود از انوارِ کن
ترجمہ: اے طالب! مرشد سے دیدار کی طلب کر اور یہ دیدار کن کے انوار سے حاصل ہوتا ہے۔
طالب از مرشد طلب ذکر خدا
سبق خوانی از خدا وحدت لقا
ترجمہ: اے طالب! مرشد سے ذکر ِ خدا طلب کر اور تو خدا کے لقا اور وحدت کا سبق پڑھ۔
طالب از مرشد طلب قرب از قبر
رویتی دیدار بینی راز بر
ترجمہ: اے طالب! مرشد سے قبر میں بھی اللہ کا قرب طلب کر تاکہ تو دیدار کر کے صاحب ِ راز بن جائے۔
اگر مرشد طالب کو دیدار و لقائے الٰہی سے مشرف کرے لیکن طالب بے یقین و بے اعتبار ہو تو اس کی عاقبت مردود ہے اور اگر طالب صاحب ِ یقین و بااعتبار ہے تو وہ ایک لمحہ بھی دیدار سے الگ نہیں ہوتا اور انوار کے غلبات کے باعث دیدارِ الٰہی میں غرق رہتا ہے۔ طالب ِ مولیٰ مرشد کی توجہ، توفیق اور تصور سے تصورِ حقیقی کی حقیقت معلوم کرتا ہے جو ہمیشہ اس کی رفیق رہتی ہے۔ ابیات:
طالب شدی مرشد شدی کامل کدام
روز و شب دیدار بین ہر صبح و شام
ترجمہ: تو طالب ہے یا مرشد‘ لیکن کامل کون ہے؟ کامل وہ ہے جو ہر روز صبح و شام دیدار کرتا ہے۔
طالب صادق بود برحق نگار
طالب کاذب بود خدمت شمار
ترجمہ: صادق طالب کی نظر ہمیشہ حق پر ہوتی ہے جبکہ کاذب طالب مرشد کی خدمت کے دن شمار کرتا ہے۔
کس نیابم طالبی لائق لقا
نیست لائق طالب احمق بی حیا
ترجمہ: میں نے کوئی بھی طالب ایسا نہیں پایا جو دیدار کے لائق ہو۔ یہ احمق اور بے حیا طالب دیدار کے لائق ہی نہیں۔
باھُوؒ بہر خدا دیدار دہ
تیغ بر گردن زنم سر پیش نہ
ترجمہ: باھُوؒ خدا کی خاطر دیدار عطا کرتا ہے۔ اس لیے دیدار کی خاطر اگر میں گردن پر تلوار بھی چلائوں تو سر پیچھے نہ ہٹا۔
بی سرش طالب بود اسرار بین
بی سرش حاضر شود اہل یقین
ترجمہ: جو طالب اس راہ میں اپنا سر کٹوا لیتا ہے وہی اسرار کا مشاہدہ کرتا ہے اور بے سر حضوری میں پہنچ کر اہل ِ یقین بنتا ہے۔
جاننا چاہیے کہ دینی عالم کا فتویٰ علم ِ روایت سے ہوتا ہے اور فقیر عالم کا فتویٰ علم ِ ہدایت سے نفس کی گردن مارنے اور اس کو قتل کرنے کے لیے ہوتا ہے اور عالم ولی اللہ کا فتویٰ علم ِ ولایت سے ہے۔ درویش عالم کا فتویٰ علمِ غنایت سے ہے اور عارف باللہ عالم کا فتویٰ علمِ دیدار سے ہوتا ہے جو کہ اللہ کی عنایت ہے۔ بیت:
عالم شدی فاضل شدی عارف کجا
معرفت قرب است و از علم و لقا
ترجمہ: تو عالم ہو یا فاضل‘ عارف تب تک نہیں ہو سکتا جب تک معرفت و قربِ الٰہی حاصل نہیں کرتا جو کہ علم ِ لقا ہے۔
طالب ِ مولیٰ کو (دیدار کے لیے) بارہ سال ریاضت یا تمام عمر صرف کرنے کی ضرورت؟ طالبِ مولیٰ کو مشرفِ دیدار ہونے کی ضرورت ہے خواہ ایک دم میں ہو خواہ ایک قدم میں۔ خواہ جان کنی کے وقت ہو خواہ قبر میں دیدار سے مشرف ہو۔ خواہ حشر میں خواہ جنت میں دیدار سے مشرف ہو۔ طالب ِ صادق دیدار سے منہ نہیں موڑتا اور دن رات جانفشانی سے مرشد کی خدمت میں لگا رہتا ہے اور بااعتقاد رہتا ہے اور اس آیت کریمہ کے مصداق ہوتا ہے جس میں اللہ پاک نے فرمایا:
٭ اِنَّ اللّٰہَ لَایُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ (التوبہ۔120)
ترجمہ: بے شک اللہ احسان کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
مرشد کامل کے لیے پڑھے لکھے اور ان پڑھ دونوں طالب برابر ہیں کیونکہ اصل علم کا تعلق (معرفت و قربِ الٰہی کے) درجات سے ہے جو مرشد پہلے ہی روز تصور اسمِ اللہ ذات سے فیض و فضل فرماتے ہوئے عطا کر دیتا ہے۔ ابیات:
بر زبان الف و بدل تصدیق بے
باز احتیاجی نیست خواندن الف بے
ترجمہ: جب زبان پر الف (اسمِ اللہ ذات) کا ذکر ہو اور دل اس کی تصدیق کر رہا ہو تو اس کے بعد الف ب یعنی دیگر اذکار کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
ہر مطالعہ علم بہر از شد لقا
طالب حق سبق خوانند از خدا
ترجمہ: ہر علم کا مطالعہ لقا کی خاطر ہونا چاہیے اور طالب ِ حق اللہ سے یہی سبق پڑھتا ہے۔
سبق خواندن از خدا سنت رسولؐ
شد علم تحصیل عالم حق وصول
ترجمہ: خدا سے سبق پڑھنا سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے اور جب یہ علم حاصل ہو جائے تو وہ عالم حق وصول کرنے والا بن جاتا ہے۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اَلرَّحْمٰنُ لا۔عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ط۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ لا۔عَلَّمَہُ الْبَیَانَ ۔ (الرحمن۔1-4)
ترجمہ: وہ رحمن ہے جس نے قرآن سکھایا۔ انسان کو پیدا کیا اور علم ِ بیان سکھایا۔
لقائے الٰہی تمام علوم مکمل اور جامع طور پر عطا کرتا ہے جس کے بعد طالب جمالِ الٰہی کا مشاہدہ عین اپنی آنکھوں سے کرتا ہے اور صاحب ِ قربِ الٰہی اللہ کے ساتھ وصال پاتا ہے۔ اہل ِ عالم باللہ کی نظر میں خدا سے دوری اور بے معرفتی مطلق جہالت اور بدخصلت ہے۔ اس لیے وہ جاہلوں کو لقا سے مشرف کر کے مشاہدہ اور حضوری عطا کرتا ہے اور بغیر حضوری کے دیگر علوم حجاب ہیں اگرچہ ان کو حاصل کرنے میں ساری عمر ضائع ہو جائے۔ بیت:
علم معراج است محرم سربسر
عالم و عارف بود صاحب نظر
ترجمہ: اصل علم معراج ہے جو اللہ کے اسرار سے محرم کرتا ہے جس سے طالب عالم و عارف اور صاحب ِ نظر بن جاتا ہے۔
دنیاوی عالم طمع اور حرص کی قید و بند میں ہوتا ہے اور عالم ِ روحانی مشرفِ علم ِ لقا ہوتا ہے جو علم اللہ کو پسند ہے۔ عالمِ دنیاوی علم کی جلالیت کے باعث غصہ و ناراضگی کے عالم میں ہوتا ہے اور عالم ِ روحانی علم کی جمالیت سے بینائی حاصل کرتا ہے جس سے اسے معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اہلِ چشم اور اہلِ خشم کو ایک دوسرے کی مجلس راس نہیں آتی۔ (جاری ہے)