مجاہدے سے مشاہدے کا سفر
تحریر: مریم گلزار سروری قادری ۔لاہور
ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے :
وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَاج وَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ (سورۃ العنکبوت ۔ 69)
ترجمہ:۱ور جو لوگ ہماری راہ میں جہاد (یعنی مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنی(طرف سیر اور وصول کی)راہیں دکھا دیتے ہیں اور بے شک اللہ صاحبانِ احسان کو اپنی معیت سے نوازتا ہے۔
اس آیت مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ کی طرف بڑھنے کے لیے کوشش کرنا ضروری ہے۔ جب تک کوئی مجاہدہ نہیں کرے گا اللہ تعالیٰ بھی اسے اپنی طرف آنے کے راستے نہیں دکھائے گا۔مجاہدہ کے لغوی معانی کوشش، جدوجہد اور نفس کشی کے لیے ریاضت کے ہیں اوریہ جدوجہد جہاد بالنفس کے نام سے موسوم ہے جسے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جہاد ِاکبر قرار دیا ہے ۔
٭رَجَعْنَا مِنْ الْجِھَادِ الْاَصْغَرِ اِلَی الْجِھَادِ الْاَکْبَرِ
ترجمہ: ہم جہادِاصغرسے جہادِاکبرکی طرف لوٹ آ ئے ہیں۔
عام طورپر ہر انسان اپنی زندگی میں کسی نہ کسی کوشش میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے کبھی کسی چیز کو پانے کے لئے اور کبھی کوئی مقام و مرتبہ حاصل کرنے کے لئے اور کبھی آرام و سکون کے لئے، غرض انسان کی زندگی کوشش سے عبارت ہے اور و ہ مسلسل محنت کرتے ہوئے اپنے مقصد میں کا میاب بھی ہو جاتا ہے ۔
اگر انسان اللہ کو پانے کے لئے بھی محنت اور کوشش کرے تو وہ اللہ کو بھی پا سکتا ہے۔ بس اس کے لئے ارادے پختہ اور بلند ہونے چاہییں۔ مسلسل کوشش اور جدوجہد انسان کوپستی سے بلندی کی جانب لے جاتی ہے اور اس بات کی تصدیق خود اللہ نے بھی مندرجہ بالا آیت میں فرما دی ہے۔ تمام انبیا اور اولیا کرام جو پیدائشی ولی ہیں یا جو اللہ پاک کے ولیوں کی صحبت اور مہربانی سے ولایت کے اعلیٰ مقام تک پہنچے، ان سب کی زندگیاں مجاہدات کی بہترین مثالوں سے بھری ہوئی ہیں۔ ان سب کے مجاہدات کا مقصد صرف اللہ کی ذات کو پانا اور اللہ کی رضا حاصل کرنا تھا۔ حتیٰ کہ اللہ کی ذات کو پانے کے بعد بھی انہوں نے مجاہدات کوجاری رکھا۔ سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ پیدائشی ولی اللہ تھے۔ اس کے باوجود اُن کی حیاتِ مبارکہ مجاہدات سے بھرپور ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے مجاہدات کو چھوٹے سے مضمون میں بیان کرنا مشکل ہے اس لئے چند مجاہدات کو بیان کیا جا رہا ہے ۔
ایک دفعہ وعظ کرتے ہو ئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا ’’میں پچیس سال تک عراق کے ویرانوں اور جنگلوں میں پھرتا رہا ہوں اور چالیس سال تک صبح کی نماز عشا کے وضو سے پڑھی ہے۔ اور پندرہ سال تک عشا کی نماز صبح کے وضو سے پڑھی ہے پندرہ سال تک عشا کی نماز پڑھ کر ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر صبح تک قرآنِ حکیم ختم کرتا رہا ہوں۔ میں نے بسااوقات تیس سے چالیس دن تک بغیر کچھ کھائے پیئے گزارے ہیں ۔‘‘
شیخ ابو المسود بن ابوبکر حریمی رحمتہ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ سیّدنا عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے مجھے بتایا ’’سالہا سال تک میں اپنے نفس کو طرح طرح کی آزمائشوں میں ڈالتا رہا ۔ ایک سال ساگ پات اور کوئی گری ہوئی چیز کھا لیتا اور پانی بالکل نہ پیتا تھا۔ ایک سال صرف پانی پیتا اور کوئی چیز نہ کھاتا اور ایک سال بغیر کچھ کھائے پئے گزار دیتا ۔حتیٰ کہ سونے سے بھی احتراز کرتا۔ کئی سال میںبغداد کے محلہ کرخ کے غیر آباد مکانوں میںمقیم رہا۔ اس سارے عرصہ میںایک خود رو بُو ٹی ’’کوندل‘‘ میری خوراک ہوتی تھی، لوگ مجھے دیوانہ کہتے۔ مَیں صحرا میں نکل جاتا، آہ وزاری کرتا اور کانٹوں پر لوٹتا حتیٰ کہ تمام بدن زخمی ہو جاتا ۔لوگ مجھے شفاخانہ میں لے جاتے لیکن وہاں پہنچ کر مجھ پر حالت سُکر طاری ہو جاتی۔ لوگ کہتے مر گیا ہے پھر میری تجہیز و تکفین کا انتظام کرتے اور غسل دینے کیلئے مجھے تختہ پر رکھ دیتے اس وقت یک بیک مجھے ہوش آجاتا اور میں اٹھ کھڑا ہوتا ۔‘‘ (حیات و تعلیمات سیّدنا غو ث الاعظمؓ)
شیطان ملعون بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے پاس اشکال بدل بدل کر آتا اور آپ ؓ کو دنیا کے جال میں پھنسانے کی کوشش کرتا رہا ۔ لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے مجاہدات اور ریاضات سے اُسے شکست دی اور کامیاب و کامران ہوئے ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی حیاتِ مبارکہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ریاضت اور مجاہدہ باطن کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔
کچھ لوگ یہ سوچ کر روحانی مجاہدات نہیں کرتے کہ اس سے انہیں کیا حاصل ہو گا۔ وہ مختلف سلاسل کے مختلف طریقے دیکھ کر اُلجھن کا شکار ہو جاتے ہیں اور حق سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔ جبکہ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ صدقِ دل سے تلاشِ حق کے لیے کئے گئے مجاہدات ہی حق کے مشاہدات کی طرف جانے کا راستہ ہیں۔ کسی شاعر نے اس بات کو یوں لکھا ہے کہ:
رکھ تن کو مجاہدہ میں نت چور
اور من کو مشاہدہ میں معمور
حضرت ابو علی دقاق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ـ’’ جس نے ظاہر کو مجاہدہ کے ساتھ مزیّن و آراستہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے باطن کو مشاہدہ کے ساتھ عمدہ بنا دیتا ہے ‘‘۔ (تصوف کے روشن حقائق)
مشاہدہ کیا ہے ؟
مشاہدہ سے مراد ذاتِ حق تعالیٰ کی خاص تجلیات کے ظہور کے ذریعے حق کی پہچان حاصل کرنا ہے۔ عام الفاظ میں مشاہدہ یہ ہے کہ طالب اسم ِ اللہ ذات کے ذکر و تصور اور مرشد کامل کی صحبت کے اثر سے یہ محسوس کرے کہ اس کی باطنی کیفیت تبدیل ہو گئی ہے۔ اس کا قلب اللہ کے ذکر میں مشغول ہو گیا ہے۔ اسے وہ علم حاصل ہو گیا ہے جو پہلے حاصل نہ تھا۔ فنافی الشیخ ‘ فنا فی اللہ اور بقا باللہ کے مرتبہ پر پہنچ گیا ہے۔ یا کوئی دنیا دار سے عارف بن جائے۔ بے رنج و ریا ضت اور بغیر چلہ کشی مشاہدۂ حق تعالیٰ اور دیدارِ الٰہی میں غرق رہے یا پھر نگاہِ کامل سے کسی طالب میں موجود عاداتِ بد ختم ہو جائیں وغیرہ ۔
باطنی مشاہدات کا ظہور خواب، مراقبہ اور حالت ِ کشف میں بھی ہو سکتا ہے۔ اس طرح طالب ِ مولیٰ حق اور اس کے اسرار کا مشاہد ہ کرتا ہے جو عام مخلوق سے پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ ذکر و تصور اسم اللہ ذات کے بعد نظر آنے والے خواب، مراقبے یا مکاشفے میں شیطانی استدراج کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا ۔ (سلطان العاشقین )
حقیقی مشاہدہ کے انوار و تجلیات طالب کے نفس کو جلاکر راکھ کر دیتے ہیں اور طالب کو قرب و دیدارِ الٰہی حاصل ہوتا ہے۔ بعض اوقات کشف اور مشاہدہ کو ایک ہی سمجھ لیا جاتا ہے جبکہ یہ دونو ں ایک نہیں ہیں۔ کشف وہ نور ہے جو سالکین کو منازلِ سلوک کے دوران حاصل ہوتا ہے اور یہ ظاہری حجاب کو اٹھا دیتا اور مادی اسباب کو زائل کر دیتا ہے۔ عارف باللہ ابن ِ عجیبہ رضی اللہ عنہٗ کشف کے متعلق فر ماتے ہیں ’’وہ خیال جو صاحب ِ فراست کے دل میں اچانک رونما ہوتا ہے۔ یا اس سے مراد وہ وار ہے جو اس کے دل میں ظاہر ہوتا ہے اور جب دل صاف ہو تو یہ غالباً صحیح ہوتا ہے۔‘‘ (تصوف کے روشن حقائق)
تزکیۂ نفس کے لئے مختلف سلاسل میں مختلف مجاہدات کروائے جاتے ہیں جن کے مقاصد اور طریقے مختلف ہوتے ہیں۔ مثلاً گھر بار چھوڑ کر کئی کئی دن تنہا حجرہ میں عبادات اور چلوں میں مشغول رہنا، لمبے لمبے وظائف کرنا، گوشت نہ کھانا، لوگوں سے نہ ملنا، مختلف رنگوں کا لباس نہ پہننا وغیرہ وغیرہ ۔ ان سب کے متعلق یہاں تفصیل سے بیان نہیں کیا جا سکتا ۔
ان میں سے کچھ مجاہدات اس قدر مشکل ہوتے ہیں کہ سن کر ہی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں مثلاً سلسلہ چشتیہ میں چلہ معکوس کروایا جاتا ہے۔ چالیس رات پائوں میں رسی باندھ کر کسی کنویں میں الٹا لٹک کر عبادت کرنے کو چلہ معکوس کہتے ہیں۔ حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ نے اپنے مرشد حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ ے حکم کے مطابق ایسے مقام کی تلاش کی جہاں مسجد کے پاس کنواں ہو اور اس کے پاس درخت بھی ہو اور درخت کی شاخیں کنویں پر ہوں، پھر مسجد کا مؤذن بھی ہمراز ہو جو انہیں لٹکانے اور نکالنے کا فریضہ انجام دے تا کہ چلہ کا راز ظاہر نہ ہو۔ ایسے کنویں کی تلاش میں آپؒ کو کافی سفر کرنا پڑا۔ بالآخر اوچشریف میں آپ کی مراد حاصل ہوئی۔ چنانچہ بعد نمازِ عشا مؤذن آپ کے پائوں باندھ کر کنواں میں الٹا لٹکا دیتا اور صبح صادق سے قبل آپ کو باہر نکال لیتا ۔ اس طرح یہ چلہ پورا کیا گیا۔
آج کل بھی مختلف سلاسل میں مختلف مشکل مجاہدات کروائے جاتے ہیں۔ جبکہ سلسلہ سروری قادری کی شان یہ ہے کہ اس میں بغیر مشکل مجاہدات کے محض مرشد کامل اکمل کی نگاہ کے فیض سے طالب کو اپنے سفر کے آغاز میں ہی مشاہدہ نصیب ہو جاتا ہے اسی لیے حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتب میں بارہا فرماتے ہیں کہ جہاں دوسرے سلاسل کی انتہاہوتی ہے وہاں سے سلسلہ سروری قادری کی ابتدا ہوتی ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ سلسلہ سروری قادری کے متعلق فرماتے ہیں:
٭ سروری قادری سلسلہ وہ ہے جس کے ذریعے یہ فقیر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف ہوا ۔ انہوں نے اس فقیر کو اپنے دستِ اقدس پر بیعت فرمایا اور مسکرا کر فرمایا کہ خلق ِ خدا کی رہنمائی میں ہمت کرو۔ تلقین کے بعد حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس فقیر کو حضرت پیر دستگیر شاہ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے سپرد فر ما دیا ۔ حضرت پیر دستگیر شاہ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے بھی سرفراز فرما کر (مخلوقِ خدا کو) تلقین کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد ا ن کی نگاہِ کرم سے میں نے جس طالب ِ مولیٰ کو بھی ظاہر و باطن میں برزخِ اسمِ اللہ ذات اور اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی راہ دکھائی اسے ذکر اور مشقت میںڈالے بغیر مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں پہنچا دیا۔ پھر ان طالبانِ مولیٰ نے جدھر بھی دیکھا انہیں اسم ِ اللہ ذات ہی نظر آیا اور ان کے سامنے کوئی حجاب اور پردہ باقی نہ رہا۔ سروری قادری راہِ فیض ہے اور کم حوصلہ نہیں ہے ۔ بعض لوگوں ( پیروں ) نے طالبا نِ مولیٰ کو اسم ِ اللہ کے اثرات کی تپش سے مار ڈالا، بعض اسم ِ اللہ ذات کا بار برداشت نہ کر سکے اور عاجز ہوگئے اور بعض مردود اور مرتد ہو گئے۔ ( عین الفقر)
سلسلہ سروری قادری میں طالب کی تربیت حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے طریقہ پر کروائی جاتی ہے اور اس سے مجاہدہ بھی اسی طریق پر کروایا جاتا ہے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں دین کی تبلیغ کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے جہاد بالنفس کے ساتھ ساتھ جہاد بالمال اور جہاد بالسیف کیا۔ لیکن ان سب کا مقصد اللہ کا پیغام مخلوق تک پہنچا کر اللہ اور اس کے رسولؐ کی رضا اور قرب حاصل کرنا تھا نہ کہ اعلیٰ درجات۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ کا پیغام عام کر رہے تھے جس سے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کوئی ذاتی مفاد حاصل نہ تھا ۔ سب کچھ مخلوق کی بھلائی اور دین کی تبلیغ کے لیے کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے اصحاب کے تزکیۂ نفس کے لیے انہیں وظیفوں یا چلوں میں ہرگز نہیں اُلجھایا نہ ہی انہیں حجروں میں بٹھایا بلکہ ان سے ایسا مجاہدہ کروایا جس سے اللہ کے لیے ان کا اخلاص بھی ثابت ہو جائے اور دین ِ اسلام کی ترویج و اشاعت بھی ہو جائے۔ چونکہ سلسلہ سروری قادری آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طریق پر ہے اسی لیے اس میں بھی ورد و وظائف کی بجائے ایسا ہی مجاہدہ کروایا جاتاہے۔ دورِ حاضر کے انسانِ کامل ، تحریک دعوتِ فقر کے بانی اور سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس پیغامِ محمد ی ؐ (فقر) کو پوری دنیا میں پھیلانے کے لیے دن رات مصروفِ عمل ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس قدمِ محمد ی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ہیں۔ آپ مدظلہ الاقد س اور آپ مد ظلہ الاقدس کی زیر ِ نگرانی کام کرنے والے طالبانِ مولیٰ اللہ اور رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغامِ فقر پوری دنیا میں بغیر کسی مفاد کے پھیلانے میں کوشاں ہیں ۔
سلسلہ سروری قادری میں طالب کو ایسے مجاہدات کروائے جاتے ہیں جن کے ذریعے طالب کے قلب کو خواہشاتِ نفس اور دنیا سے پاک کیا جاتا ہے۔ ان کا مقصد طالب کا تزکیۂ نفس ہوتا ہے تاکہ اُسے قربِ الٰہی حاصل ہوسکے۔ ان مجاہدات سے طالب کا دھیان دنیا سے ہٹ کر اللہ کے کاموں کی طرف ہو جاتا ہے اور طالب قربِ الٰہی کی طرف ترقی کرتا ہے۔ اس طرح اللہ کی رضا بھی حاصل ہوجاتی ہے اور دین کا پیغام بھی پھیل جاتاہے اور مشاہدات بھی حاصل ہو جاتے ہیں ۔ جس قدر وہ خلوصِ نیت اور محنت سے مجاہدہ کرتا ہے اسی قدر زیادہ اسے مشاہداتِ حق تعالیٰ حاصل ہوتے جاتے ہیں۔ اسی لیے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو ؒ یہ فرماتے ہیں :
’’اگر مشاہدہ ہے تو مجاہدے میں ہے ۔‘‘ ( عین الفقر)
جب کوئی طالب مرشد کامل کے دست ِ اقدس پر بیعت کرتا ہے تو اُسے ابتدا میں ضرور مشاہد ہ کرایا جاتا ہے تاکہ اسے مرشد کے کامل ہونے کا یقین ہو جائے اور وہ را ہِ فقر پر استقامت سے چل سکے ۔ مرشد کے کامل ہونے کی تصدیق یوں بھی ہوتی ہے کہ اسم ِ اللہ ذات کے ذکر وتصور سے مختلف طالبوں کو ایک ہی مشاہد ہ حاصل ہوتا ہے۔ ایسے مشاہدہ سے طالب شکوک و شبہات کی کیفیت سے نکل کر یقین کی حالت میں داخل ہوجاتا ہے اور یقین ہی ایما ن ہے ۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی مہربانی کی بدولت کثیر تعداد میں طالبانِ مولیٰ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت اور بہت سے طالبانِ مولیٰ کو مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری نصیب ہوئی جس کے متعلق’’سلطان العاشقین‘‘ کتاب میں تفصیل سے مشاہدات لکھے ہوئے ہیں ۔ ان میں سے چند مشاہدات درج ذیل ہیں :
٭ ایک طالب ِمولیٰ اپنے مشاہدہ میں لکھتے ہیں کہ ایک بار میں سویا ہوا تھا کہ خواب میں دیکھا کہ میں ایک مقام پر کھڑاہوں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی وہاں کھڑے ہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نظروں سے اوجھل ہو ئے تو میں نے دیکھا کہ میرے مرشد پاک اسی جگہ کھڑے تھے ۔
٭ ایک طالب ِ مولیٰ لکھتے ہیں کہ میری والدہ کو خواب میں بہت بار حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ بیعت کے لیے جب میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس سے ملا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آپ مدظلہ الاقدس کی صور ت مبارک بالکل ویسی ہی تھی جیسی میری والدہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق بتاتی تھیں ۔
بیعت کے بعد حضور مرشد کریم نے مجھے ارشاد فرمایا : ’’ سیّد عبدالکریم بن ابراہیم الجیلیؒ کی تصنیف ِ مبارکہ ’’ انسانِ کامل ‘‘ کا مطالعہ کریں اور ساتھ اسم ِ اللہ ذات کا ذکر و تصور بھی جاری رکھیں ۔ ‘‘ ایک دن اس کتا ب کا مطالعہ کے دوران اچانک یہ راز مجھ پر منکشف ہو اکہ میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس موجودہ دور کے انسانِ کامل ہیں ۔ اسی دن مجھ پر حقیقت ِ محمدیہ واضح ہو گئی۔ یہ ایک ایسا علم تھا جو مجھ سے پوشیدہ تھا۔ جب حقیقت کا علم ہوا تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ مجھے مرشد کریم کے چہرہ مبارک پر نور ہی نور دکھائی دیتا ہے اور اس نور نے مجھے اپنا عا شق اور دیوانہ بنا لیا ہے ۔ یہ دیوانگی دن بدن بڑھتی جار ہی ہے ۔
٭ ایک اور طالب ِ مولیٰ لکھتے ہیں کہ مجھ پر بچپن سے ہی آسیب کا سایہ تھا جو مختلف تعویزات اور وظائف سے بھی دور نہ ہوا ۔ جو ں جوں میں بڑا ہوتا گیا اس آسیب کا اثر بھی شدید ہوتا گیا۔ اکثر وہ آسیب میری پسلیوں کو اس قدر شدت سے دباتا کہ محسوس ہوتا میری پسلیاں ٹوٹ رہی ہوں۔ جب میں مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے پاس حاضر ہو کر بیعت ہوا اور ذکرو تصور اسم ِ اللہ ذات کی پابندی کی تو حضور مرشد کریم کی مہربانی سے چند ہی دنوں میں اس آسیب سے جان چھوٹ گئی ۔
٭ ایک طالب ِ مولیٰ لکھتے ہیں کہ میں تربیت حاصل کرنے کے لیے مرکزی خانقاہ سلسلہ سروری قادری میں آیا ہو ا تھا ۔ اتوا ر کا روز تھا اور حضور مرشد کریم خانقاہ میں تشریف فرما تھے میں ان کے سامنے بیٹھا ان کا دیدار کر رہا تھا۔ میں نے حضور مرشد کریم کی بارگاہ میں باطنی طورپر عرض کی کہ حضور مرشد کریم ! مہربانی فرمائیں کہ مجھے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت نصیب ہو ۔ اسی رات خواب میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت نصیب ہوئی ۔ ان کا چہرہ مبارک عین میرے مرشد کریم کے چہر ہ مبارک کی طرح تھا اور اس محفل میں دیگر ساتھی بھی ہمراہ تھے۔ اس خواب کے بعد مجھے حقیقت ِ محمدیہ کی سمجھ آئی۔
٭ ایک طالب ِ مولیٰ لکھتی ہیں کہ آج سے گیارہ سال قبل جنوری 2006ء میں اللہ نے اپنے فضل و کرم سے مجھ گناہگار کو اپنے اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عشق کی نعمت سے نوازا۔ یہ عشق اس شدت سے ظاہر ہوا کہ دیدارِ الٰہی اور دیدارِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تڑپ میں دن رات بے چین رہنے لگی اور حالت پاگلوں جیسی ہونے لگی۔ اللہ کو دیکھنے کی خواہش اتنی شدید تھی کہ میں سب کچھ چھوڑ کر مر جانا اور اس کے پاس جانا چاہتی تھی کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ موت سے پہلے اس کا دیدار ممکن نہیں۔ اللہ سے موت کی طالب ہوئی لیکن یہ دعا قبول نہ ہوئی۔ شدید مجاہدہ کیا لیکن طلب تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی۔ ظاہری زندگی میں کوئی پریشانی نہ تھی، اللہ کا دیا سب کچھ تھا لیکن دل کو قرار نہ تھا۔ ایک دن حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کی کچھ کتب میرے گھر سے ہی مجھے ملیں جن میں لکھا تھا کہ دیدارِ الٰہی اور مجلس ِ محمدی کی حضوری مرشد کامل اکمل کی رہنمائی اور ذکر و تصور اسم اللہ ذات کے بغیر ممکن نہیں۔ مجھے ڈور کا سرا مل گیا اور یہ حقیقت بھی پتا چل گئی کہ دنیا میں لقائے الٰہی ممکن ہے لیکن یہ سمجھ نہ آیا کہ مرشد کامل کو اس پُر فریب دنیا میں کہاں تلاش کروں۔ دل کا حال سوائے اللہ کے کسی کو نہ کہہ سکتی تھی۔ ایک دن بعد نمازِ مغرب رو رو کر اللہ سے دعا کی کہ میں اس دنیا میں مرشد کامل اکمل کو تلاش کرنے سے قاصر ہوں ’تو خود ہی میرا مرشد بن جا‘۔ یہ دعا مانگ کر فارغ ہی ہوئی تھی کہ اپنے کپڑوں کی الماری سے ایک چھَپا ہوا کاغذ ملا جس پر لکھا ہوا تھا ’’کتاب مرشد کامل اکمل اور حقیقت اسم ِ اللہ ذات کے لیے رابطہ کریںـــ‘‘ اور آگے حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا پتہ لکھا تھا۔ میں حیران رہ گئی اللہ کی اس قدرت پر۔ جنوری 2007ء میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دست ِ مبارک پر بیعت کی اور چند ہی دنوں میں آپ کی مہربانی سے وہ سب کچھ پا لیا جس کی طلب لے کر آپ مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں حاضر ہوئی تھی۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی نگاہ ِ کرم سے بہت سے طالبوں کے ایسے مسائل بھی حل ہو گئے جن کاذکر انہوں نے ظاہری طور پر مرشد سے کیا ہی نہ تھا۔ بہت سے ایسے طالب بھی ہیں جو اپنی زندگیوں سے بیزار تھے اور زندگی کا کوئی مقصد نہ جانتے تھے۔ قریب تھا کہ وہ حرام موت کی راہ اختیار کرتے لیکن مرشد پاک کے دست ِ اقدس پر بیعت ہو کر انہیں مقصد ِ حیا ت حاصل ہوا اور وہ حرام موت سے بھی بچ گئے۔ آپ مدظلہ الاقد س کے تما م مریدین کی زندگیاں مشاہدات سے بھری ہوئی ہیں۔ وہ ہر لمحہ مشاہدات میں مشغول ہوتے ہیں۔ ان میں چند کے مشاہدات ’’سلطان العاشقین‘‘ کتاب میں قلم بند ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی شانِ بابرکت کے متعلق مزید جاننے کے لیے ’’ سلطان العاشقین ‘‘ کتاب کا مطالعہ کریں ۔ اللہ پاک ہمیں آپ مدظلہ الاقدس کی شان مبارک کو سمجھنے اور راہِ فقر پر استقامت سے چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ( آمین)
استفادہ کتب :
فتوح الغیب : مصنف غوث الاعظم سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانیؓ
نور الہدیٰ: تصنیف ِ لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو ؒ
عین الفقر: ایضاً
حیات و تعلیمات سیّد نا غوث الاعظمؓ: تصنیف ِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس
سلطان العاشقین۔ ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
تصوف کے روشن حقائق: حضرت شیخ عبدالقادر عیسیٰ شا ذلیؒ