تاریخ سلسلہ سروری قادری
مسز ڈاکٹر سحر حامد سروری قادری۔ لاہور
اللہ پاک نے اس کائنات کو اور خاص کر انسان کو اپنی پہچان کے لیے تخلیق کیا۔ پہچان کے اس سفر کا آغاز عالم ِ وحدت سے نورِ محمدی سے ہوا اور اس کی انتہا انسان میں اللہ کے اظہار کی صورت میں ہوئی جس کو انسانِ کامل نے کمال بخشا۔ حدیث ِ قدسی ہے کہ میں نے انسان کو اپنی صورت پر تخلیق کیا۔ پھر اللہ پاک نے ارواح سے عالم ِ لاھوت میں اقرار لیا ’’کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں‘‘ اور سب ارواح نے اس کو پہچانتے ہوئے جواب دیا ’’ہاں بیشک تو ہی (ہمارا ربّ ہے‘‘)۔ پہچان کے اس دور میں انسانی ارواح تمام حجابات اور کثافت سے پاک تھیں اور اللہ کا بے حجاب دیدار کر رہی تھیں۔ اس پر اللہ پاک نے انسانی ارواح کو عالم ِ ناسوت میں بھیجا تاکہ ان کے اس عہد کی آزمائش کی جا سکے کہ رنگا رنگی کے اس دور میں بھی کیا انسان اس کثیف وجود میں قید ہو کر اپنے اس عہد کو یاد رکھتا ہے یا نہیں۔
اس کے ساتھ ہی اللہ پاک نے اس دنیا میں انبیا کرام کے سلسلہ کو جاری فرما دیا تاکہ وہ انسان کو اللہ سے کیا گیا عہد یاد کرواتے رہیں تاکہ وہ دنیا کی رنگینی میں کھو کر اس عہد کو فراموش نہ کر دیں۔ انبیا کرام علیہم السلام اپنی اپنی امت کو اللہ کی پہچان کا درس دیتے رہے اور انہیں وہ بھولا ہوا عہد یاد کرواتے رہے۔ تاہم نبوت کا یہ سلسلہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر آکر ختم ہو گیا تو فقرا کاملین کی صورت میں اللہ کی پہچان کی یاددہانی کا یہ سلسلہ جاری رہا جو آج چار بڑے روحانی سلاسل قادری، چشتی، سہروردی اور نقشبندی کے نظام کی صورت میں جاری ہے۔ ان سب میں سلسلہ قادری کو سب سلاسل پر برتری حاصل ہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
٭ جان لے کہ قادری طریقہ بادشاہ ہے اور دوسرے تمام طریقے اس کی فرمانبردار و محکوم رعیت ہیں۔ طریقت میں ہر طریقے کی پیشوا ریاضت ہے لیکن کامل قادری (سروری قادری) طریقے میں پہلے ہی روز شرفِ دیدار ‘ حضوریٔ انوار اور قربِ الٰہی ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
حضرت سلطان باھُوؒ نے قادری سلسلہ کی دو شاخوں کا تذکرہ کیا جو کہ سروری قادری اور زاہدی قادری ہیں اور واضح طور پر سلسلہ سروری قادری کو اصل اور کامل قادری سلسلہ قرار دیا۔ آپؒ فرماتے ہیں:
٭ زمان و لامکاں پر تصرف رکھنے والا طریقہ صرف قادری ہے اور قادری بھی دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک زاہدی قادری اور اور دوسرے سروری قادری۔ سروری قادری طریقہ وہ ہے جو اس فقیر کو حاصل ہے کہ یہ فقیر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں حاضر ہوا۔ یہ ان ہی کی نظر ِ کرم کا کمال ہے کہ بعد میں اس فقیر نے جب بھی کسی طالب ِ مولیٰ کے ظاہر و باطن پر توجہ کی اُسے ذکر و اذکار اور مشقت و ریاضت میں ڈالے بغیر محض تصور اسمِ اللہ ذات اور تصور اسمِ محمد کی مدد سے مجلس ِ محمدیؐ میں پہنچا دیا۔ سروری قادری سلسلہ کم حوصلہ نہیں۔ یہ نہایت ہی فیض بخش طریقہ ہے جب کہ دیگر طریقوں میںلوگوں نے بعض طالبوں کو آتشِ اسمِ اللہ ذات سے جلا کر مار ڈالا، بعض اسمِ اللہ ذات کا بوجھ برداشت نہ کرسکے اور عاجز ہو بیٹھے اور بعض مردود و مرتد ہو گئے۔‘‘ (عین الفقر)
٭ ’’قادری طریقہ بھی دو قسم کا ہے ایک سروری قادری اور دوسرا زاہدی قادری۔ سروری قادری مرشد صاحبِ اسمِ اللہ ذات ہوتا ہے اس لیے وہ جس طالب کو حاضرات ِاسمِ اللہ ذات کی تعلیم و تلقین سے نوازتا ہے تو اسے پہلے ہی روز اپنا ہم مرتبہ بنا دیتا ہے جس سے طالب ِ مولیٰ اتنا لایحتاج و بے نیاز اور مُتَوَکَّلْ اِلَی اللّٰہ ہ ہو جاتا ہے کہ اس کی نظر میں مٹی و سونا برابر ہوجاتا ہے۔زاہدی قادری طریقے کا طالب بارہ سال ایسی عبادت کرتا ہے کہ اُس کے پیٹ میں طعام تک نہیں جاتا، بارہ سال کی ریاضت کے بعدحضرت پیر صاحب (غوث الاعظمؓ) اُس کی دستگیری فرماتے ہیں اور اُسے سالک مجذوب یا مجذوب سالک بنا دیتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں سروری قادری طالب کا مرتبہ محبوبیت کا مرتبہ ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
آئیے سلسلہ سروری قادری کے متعلق مزید جانتے ہیں کہ یہ کیسے شروع ہوا اور مختلف ادوار میں یہ کن ناموں سے جاری رہا۔
سلسلہ سروری قادری
سلسلہ سروری قادری حضرت علی ابن ابی طالبؓ کے ذریعے آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جا ملتا ہے۔یہ ایک خاص روحانی سلسلہ ہے جس میں دیدارِ الٰہی (فقر) اور مجلس ِ محمدیؐ کی عظیم نعمت موجود ہے۔
جس کے متعلق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ فَافْتَخِرُّ بِہِ عَلٰی سَائِرِالْاَنْبِیَآِءِ وَالْمُرْسَلِیْنَ۔
ترجمہ:فقر میرا فخر ہے اورفقر مجھ سے ہے۔فقر ہی کی وجہ سے مجھے تمام انبیا اور مرسلین پر فضیلت حاصل ہے۔
فقر قرب و دیدارِ الٰہی کی راہ ہے۔ تمام صحابہ کرامؓ نے راہ ِ فقرمیں آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیروی کرتے ہوئے قرب و دیدارِ الٰہی کی نعمت حاصل کی۔ چونکہ سلسلہ سروری قادری کی بنیاد فقر پر ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فخر ہے لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سلسلہ سروری قادری کی ابتدا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ ہے البتہ اس زمانے میں یہ سلسلہ بغیر کسی نام کے موجود تھا۔
سلسلہ سروری قادری آج تک اس طرح سے جاری ہے:
۱۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
۲۔حضرت علی ابن ابی طالبؓ
۳۔حضرت امام خواجہ حسن بصریؓ
۴۔حضرت شیخ حبیب عجمیؒ
۵۔حضرت شیخ دائودطائیؒ
۶۔حضرت شیخ معروف کرخیؒ
۷۔حضرت شیخ سری سقطیؒ
۸۔حضرت شیخ جنید بغدادیؒ
۹۔حضرت شیخ جعفر ابوبکر شبلیؒ
۱۰۔حضرت شیخ عبدالعزیزبن حرث بن اسد تمیمیؒ
۱۱۔حضرت شیخ ابو الفضل عبد الواحد تمیمیؒ
۱۲۔ حضرت شیخ محمد یوسف ابو الفرح طر طوسیؒ
۱۳۔حضرت شیخ ابو الحسن علی بن محمد بن جعفر القرشی ہنکاریؒ
۱۴۔حضرت شیخ ابو سعید مبارک مخزومیؒ
۱۵۔غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ
۱۶۔حضرت شیخ تاج الدین ابوبکر سیّد عبدالرزاق جیلانی ؒ
۱۷۔حضرت شیخ سیّد عبد الجبار جیلانی ؒ
۱۸۔حضرت شیخ سیّد محمد صادق یحییٰؒ
۱۹۔حضرت شیخ سیّد نجم الدین برہان پوریؒ
۲۰۔حضرت شیخ سیّد عبدالفتاح ؒ
۲۱۔حضرت شیخ سیّد عبدالستارؒ
۲۲۔ حضرت شیخ سیّد عبدالبقاء
۲۳۔حضرت شیخ سیّد عبد الجلیلؒ
۲۴۔حضرت شیخ سیّد عبدالرحمن جیلانی دہلویؒ
۲۵۔سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ
۲۶۔سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی ؒ۔
۲۷۔سلطان الصابرین حضرت سخی سلطان پیر محمد عبدالغفور شاہ ہاشمی قریشی ؒ۔
۲۸۔شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان پیر سیّد محمد بہادر علی شاہ کاظمی المشہدی ؒ۔
۲۹۔سلطان الاولیاء حضرت سخی سلطان محمد عبد العزیز ؒ۔
۳۰۔سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ۔
۳۱۔سلطان العاشقین شبیہ غوث الاعظم حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس۔
سلسلہ سروری قادری مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے جاری رہا اور اس سلسلہ میں کچھ مشائخ نے بطور مجدد اس سلسلہ کو منظم کیا اور اس کی تجدید کر کے نئے انداز سے اس کی ترویج کی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے امانت ِ فقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو منتقل ہوئی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے امانت ِ فقر اور سلسلہ سروری قادری مجددِ دین سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس تک کیسے پہنچا اس کا ایک جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
حضرت علی ابن ابی طالبؓ:
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے امانت ِ فقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو منتقل فرمائی تاکہ آپؓ کے ذریعے سے آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت تک یہ عظیم نعمت پہنچ سکے۔ لہٰذا حضرت علیؓ ’’بابِ فقر‘‘ یعنی فقر کا دروازہ ہیں۔ اسی لیے آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
’’جس کا میں مولیٰ ہوںاس کا علیؓ مولیٰ ہے‘‘ (ترمذی: ۳۷۱۳)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں: ’’حضرت علیؓ ابن ِابی طالب ؓ کو فقر آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام سے حاصل ہوا۔‘‘ (عین الفقر)
اگرچہ حضرت فاطمہؓ کو فقر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حاصل ہوا اور آپؓ سلطان الفقر اوّل کے مرتبے پر فائز ہیں لیکن سلسلہ فقر یعنی سلسلہ سروری قادری حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ذریعے آگے بڑھا۔
قارئین کے لیے اس نکتے کی وضاحت کرتے چلیں کہ سیّدہ فاطمتہ الزہراؓ بحیثیت خاتون سلسلے کی امامت نہیں کر سکتی تھیں کیونکہ شرعی حدود و قیود کے مطابق ایک خاتون بیعت نہیں لے سکتی لہٰذا سلسلہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ دوسرا نکتہ یہ کہ طالب ِ مولیٰ کو فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ کے مراتب سے قبل فنا فی الشیخ کے مرتبہ سے گزرنا پڑتا ہے جس کے لیے عشق ِ مرشد یعنی عشق ِ مجازی ہونا ضروری ہے۔ عشق ِ مرشد کے لیے مرشد کا دیدار ضروری ہے لیکن ایک خاتون شرعی حدود و قیود کے تحت مریدین کو دیدار نہیں کرا سکتی لہٰذا دیدارِ مرشد کے بغیر عشق ِ مجازی ناممکن ہے اور جب عشقِ مجازی نہ ہو‘ طالب عشقِ حقیقی تک نہیں پہنچ سکتا۔ اسی بنا پر فقر کے سلسلے کی امامت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد بابِ فقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سپرد کی گئی۔
تاہم سیّدہ فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا سے خواتین کی کثیر تعدادنے فیض پایا اور تربیت حاصل کر کے روحانی منازل کو طے کیا۔
تواریخ آئینہ تصوف میں رقم ہے کہ جناب سیّدہ پاکؓ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کیا میں قیامت کو تنہا اٹھوں گی‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’سیّدہ تم سے عورتوں کی تعلیم ِ طریقت جاری ہوگی اور جس قدر عورتیں امت ِ محمدیہ کی تمہارے سلسلہ میں داخل ہوں گی وہ روزِ حشر تمہارے گروہ میں اٹھائی جائیں گی اور یہ مرتبہ ازل سے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے مخصوص فرمایا ہے۔‘‘
حضرت امام خواجہ حسن بصری ؓ :
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے امانت ِ فقر حضرت امام خواجہ حسن بصریؓ کو منتقل ہوئی جو کہ سلطان الفقر دوم کے مرتبے پر فائز ہیں۔ صوفی کتب ’سیر الاولیاء ‘ اور ’ سیر الاقطاب ‘ میں حضرت امام حسن بصریؓ کی بیعت اور امانت ِ فقر کے حامل ہونے کے بارے میں درج ہے:
٭ آپؓ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بیعت سے مشرف ہوئے اور ان سے خرقۂ فقر پایا۔ شاہِ ولایت امیر المومنین حضرت علیؓ نے حضرت حسن بصریؓ کو وہ خرقۂ خاص مع کلاہِ چہار ترکی عنایت فرمایا جو انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عطا ہوا تھا اور ساتھ ہی اپنی نگاہِ فقر سے ظاہری و باطنی علومِ اسرارِ الٰہیہ عطا کر کے خلافت ِ کبریٰ سے نوازا اور ذکر ِ کلمہ طیبہ بطریق نفی اثبات جیساکہ حضرت علیؓ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے حاصل ہوا تھا، وہ آپؓ کو سکھایا اور آپؓ کے ذریعہ سے وہ طریقہ تمام دنیا میں رائج ہوا۔‘‘
بعدازاں حضرت امام حسن بصریؓ نے سلاسل ِ طریقت و تصوف کا ایک باقاعدہ نظام قائم کیا اور تصوف کے چودہ بڑے خانوادے (سلاسل) آپؓ کے دو خلفا کے ذریعے تمام دنیا میں رائج ہوئے۔
حضرت شیخ عبدالواحد بن زیدؒ سے پانچ سلاسل زیدیہ، عیاضیہ، ادھمیہ، ہبیریہ اور چشتیہ جاری ہوئے اور نو سلاسل عجمیہ، طیفوریہ، کرخیہ، سقطیہ، جنیدیہ، گاذرونیہ، طوسیہ، سہروردیہ اور فردوسیہ حضرت شیخ حبیب عجمیؒ سے جاری ہوئے۔
مختلف ادوار میں سلسلہ سروری قادری کے مختلف نام:
حضرت امام حسن بصریؓ نے امانت ِ فقر حضرت شیخ حبیب عجمیؒ کو منتقل فرمائی اور اس طرح آپؒ حضرت امام حسن بصریؓ کے بعد اُس دورکے امامِ کامل ٹھہرے اور پہلی بار اس سلسلہ کوحضرت شیخ حبیب عجمیؒ کے نام پر ’ سلسلہ عجمیہ ‘ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ جب آپؒ نے یہ امانت حضرت شیخ معروف کرخیؒ کو منتقل فرمائی تو اس سلسلہ کا نام سلسلہ کرخیہ مشہورہوا۔ اسی طرح حضرت سری سقطیؒ تک پہنچنے پر اسکا نام سلسلہ سقطیہ مشہور ہوا۔پھر حضرت شیخ جنید بغدادی ؒ نے اس سلسلہ کو باقاعدہ منظم کرنے کے بعد سلسلہ جنیدیہ کا نام دیا۔ معروف بزرگ حضرت داتا گنج بخشؒ بھی سلسلہ جنیدیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کے بعد تقریباً دو صدیوں تک اس سلسلہ کا نام جنیدیہ ہی رہا۔ جب تک کہ یہ سلسلہ غوث الاعظم حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ تک پہنچا حتیٰ کہ آپؓ کے مرشد کامل اکمل حضرت شیخ ابو سعید مبارک مخزومی ؒبھی سلسلہ جنیدیہ سے تعلق رکھتے تھے۔
غوث الاعظم حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ؓ
محبوبِ سبحانی قطب ِ ربانی غوثِ صمدانی شاہ محی الدین حضرت شیخ سیّدعبدالقادر جیلانی قدس سرہٗ العزیز سلطان الفقر سوم کے مرتبہ عالیہ پر فائز و متمکن ہیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ’’ہمعات‘‘ جو کہ ایک لحاظ سے تصوف کی تاریخ ہے، میں غوث الاعظمؓ کا مرتبہ یوں بیان کرتے ہیں ’’ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعد اولیا کرام اور اصحابِ طریقت کا سلسلہ چلتا ہے۔ان میں سب سے قوی الاثر بزرگ جنہوں نے راہِ جذ ب کو با حسن ِ وجوہ طے کر کے نسبت ِ اویسی کی اصل کی طرف رجوع کیااور اس میں نہایت کامیابی سے قدم رکھاوہ شیخ عبدالقادر جیلانی ؓ کی ذاتِ گرامی ہے۔اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ آپؓاپنی قبر میں زندوں کی طرح تصرف فرماتے ہیں۔‘‘
۵۲۱ ھ میں جب آپ ؓ نے تلقین و ارشاد کا منصب سنبھالا تو اس وقت کے مسلما ن نہ صرف سیاسی و مذہبی زبوں حالی کا شکار تھے بلکہ حقیقت ِ دین کی معرفت اور روحانی راہنمائی کی تلاش بھی مسلمانوں میں ختم ہو چکی تھی۔ دیگر تمام سلاسل ِطریقت بھی اپنی اصل صورت میں باقی نہیں رہ گئے تھے۔ لہٰذا آپؓ نے دین ِ محمدی ؐکو ایک بار پھر سے اپنے خطبوں، کتب اور روحانی رہنمائی سے زندہ کیا۔ اسی لیے آپؓ کا لقب ’’محی ّ الدین ‘‘ یعنی ’دین کو زندہ کرنے والا‘ ہے۔ تمام سلاسل آپؓ کی ذاتِ اقدس میں جمع ہوئے اور آپؓ نے انہیں دوبارہ سے منظم فرمایا۔ اس طرح آپؓ سے چار سلاسل جاری ہوئے: قادری، سہروردی، چشتی اور نقشبندی۔ قادری سلسلہ آپ کا اپنا سلسلہ ہے جبکہ باقی سلاسل کے بانی اولیا یعنی شیخ شہاب الدین سہروردی، خواجہ معین الدین چشتی اور حضرت بہاؤ الدین نقشبندی آپؓ سے فیض یافتہ ہیں۔ آپؓ کے سلسلہ قادری کو دیگر سلاسل پر اسی طرح فضیلت حاصل ہے جس طرح آپؓ کو تمام دیگر اولیا پر۔ آپؓ نے یہ خرقہ فقر اپنے جلیل القدر فرزند ِ ارجمند حضرت شیخ عبدالرزاق جیلانی ؒ کے سپرد فرمایا جو سلطان الفقر چہارم کے مرتبہ پر فائز ہیں۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ:
سلسلہ قادری جب حضرت سخی سلطان باھُوؒ تک پہنچا تو آپؒ نے اسے دوبارہ سے منظم کرنے کے بعد سلسلہ سروری قادری کا نام عطا فرمایا۔ بلاشبہ اس سلسلہ سروری قادری میں سیّدنا غوث الاعظمؓ کے بعد آپ ؒ کا مقام بہت بلند ہے اور آپؒ سلطان الفقر پنجم کے مرتبہ پر فائز ہیں۔ سلسلہ سروری قادری حضرت سخی سلطان باھُو ؒتک آپؒ کے مرشد کامل حضرت شیخ عبدالرحمن جیلانی دہلوی ؒ کے ذریعے پہنچا جو سیّدنا غوث الاعظمؓ کی آل پاک سے ہیں۔ حضرت سخی سلطان باھُوؒ نے تقریباً اپنی تمام کتب میں سیّدنا غوث الاعظمؓ کا ذکر فرمایا ہے اور آپؓ کو اپنا مرشد مانتے ہیں۔ آپؒ نے اس سلسلہ کا نام آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضور سیّدنا غوث الاعظمؓ کی نسبت سے ’’سروری قادری‘‘ رکھا۔ سروری آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت سے اور قادری سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کی نسبت سے ہے۔
حضرت سخی سلطان باھُوؒ نے سلسلہ سروری قادری کو تمام ہندوستان میں پھیلایا اور وقت کے تقاضوں کے ساتھ اس کو جدت عطا کی۔ آپؒ نے اپنی کتب کے ذریعے بھی اس سلسلہ اور راہ ِ فقرکے بارے میں طالبانِ مولیٰ کی رہنمائی فرمائی۔ آپؒ نے سلسلہ سروری قادری کو سلسلہ قادری کی دوسری شاخ زاہدی قادری سے الگ کیا کیونکہ زاہدی قادری سلسلہ میں زیادہ زور ظاہری عبادات پر دیا جاتا ہے جبکہ سلسلہ سروری قادری مرشد کامل کی نگاہ سے تزکیۂ نفس و تصفیہ قلب کی راہ ہے جس کی ابتدا و انتہا دیدارِ الٰہی اور مجلس ِ محمدی کی حضوری ہے۔ اس طرح سلسلہ سروری قادری پوری طرح سے دوسرے سلاسل سے الگ ٹھہرا اور راہِ فقر و تصوف کے طالبوں کے لیے واحد راہ ہے جو دیدارِ الٰہی اور مجلس ِ محمدی ؐ کی حضوری تک لے جاتی ہے۔
سلسلہ سروری قادری کی فضیلت:
سروری قادری سلسلہ کو باقی سلاسل پر اس لیے بھی فضیلت حاصل ہے کہ صرف یہ وہ واحدسلسلہ ہے کہ جس میں دیدارِ الٰہی اور مجلس ِ محمدیؐ کی حضوری ہے۔ سروری قادری طریقے میں رنج ِ ریاضت، چلہ کشی ، حبس ِ دم، ابتدائی سلوک اور ذکر فکر کی اُلجھنیں ہر گز نہیں ہیں۔ یہ سلسلہ ظاہری درویشانہ لباس اور رنگ ڈھنگ سے پاک ہے اور مشائخانہ طور طریقوں مثلاً تسبیح، عصا، جبہ و دستار وغیرہ سے بے زار ہے۔ اس سلسلہ میں مرشد پہلے ہی روز سلطان الاذکار ھُو اور ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات اور مشق ِ مرقومِ وجودیہ عطا کر کے طالب کو پہلے ہی روز انتہا پر پہنچا دیتا ہے۔ حضرت سلطان باھُوؒ نے اپنی کتب میں سروری قادری سلسلہ کی بے انتہا فضیلت بیان فرمائی ہے۔
حضرت سخی سلطان باھُوؒ کے بعد سلسلہ سروری قادری:
حضرت سلطان باھُوؒ کے بعد سلسلہ سروری قادری جن مشائخ کے ذریعے آگے بڑھا ان کے ناموں کا تذکرہ شجرہ فقر میں کیا جا چکا ہے تاہم ان کا مختصر سا تعارف پیش ِ خدمت ہے:
حضرت سلطان باھُوؒ کے بعد’سلطان‘ اس سلسلے کے تمام بزرگوں کے نام کا حصہ ہے۔ سلطان الفقر ششم نے اسکی ایک اور دلیل بھی فرمائی :
٭ ھُو سلطان الاذکار ہے اور جو بھی ھُو میں گم ہو گیا (فنا ہو گیا) وہ ’سلطان‘ ہے۔
سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سید محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانیؒ:
آپؒ29 رمضان المبارک 1186ھ (24 دسمبر،1772ء) میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔آپؒ کا سلسلہ نسب سیّدنا غوث پاکؓ کے ذریعے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام تک پہنچتا ہے۔آپؒ بچپن سے ہی تلاشِ حق کے لیے بے چین رہتے تھے۔آپؒ نے 12 سال مدینہ منورہ میں روضۂ رسولؐ پر خدمت کی اورپھر حکم ِ محمدیؐ پرآپؒ حضرت سلطان باھُوؒ کے مزار مبارک کی تلاش میں جھنگ تشریف لے آئے جہاں حضرت سلطان باھُوؒ نے آپؒ کو وراثت ِ فقر عطا فرمائی اور بارگاہِ محمدیؐ سے آپؒ کو ’سلطان التارکین‘ کا لقب عطا ہوا ۔ آپؒ ان چند اولیا اللہ میں سے ہیں جن کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ قدسی حدیث میں فرماتا ہے : ’’میرے کچھ ولی ایسے بھی ہیں جو میری قبا کے نیچے ہیں اور ان کو میرے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘ آپؒ 29 رمضان المبارک 1276ھ (20 اپریل، 1860ء) میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ آپؒ کا مزار مبارک احمد پور شرقیہ ضلع بہاولپور میں ہے۔
حضرت سخی سلطان پیر محمد عبدالغفور شاہؒ ہاشمی قریشی:
آپؒ 9 جولائی 1827 کو ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کا سلسلہ نسب آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا حضرت امیر حمزہؓ سے جا ملتا ہے۔آپؒ بھی بچپن سے اپنے خالق و مالک کے قرب و دیدار کے لیے بے چین رہتے تھے۔ آخر کار آپؒ کی تلاشِ حق آپؓ کو حضور پیر سیّد محمد عبداللہ شاہؒ کے در پر لے آئی جہاں آپؒ بیعت سے مشرف ہوئے۔آپؒ کو بارگاہِ محمدیؐ سے ’سلطان الصابرین ‘ کا خطاب ملا کیونکہ راہِ حق میں آنے والی ہر تکلیف کو آپؒ نے بے انتہا صبر سے برداشت کیا۔ غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ اور سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ آپؒ کو ’’پیر محمد‘‘ کے لقب سے مخاطب فرماتے تھے۔ تمام زندگی آپؒ لوگوں میں اسم j ذات کا فیض عام فرماتے رہے۔آپؒ نے اپنے مرشد کے عشق میں بہت خوبصورت عارفانہ کلام بھی لکھا۔ آپؒ 21 فروری 1910 کو وصال فرما گئے۔ آپؒ کا مزار مبارک مڈ شریف نزد گڑھ مہاراجہ ضلع جھنگ میں واقع ہے۔
حضرت سخی سلطان پیر سید محمدبہادر علی شا ہ ؒکاظمی المشہدی:
آپؒ16 اگست 1801 میں شورکوٹ ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کا سلسلہ نسب حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتاہے۔آپؒ چھوٹی عمر سے ہی وصالِ حق کے خواہاں تھے۔ 8 سال کی عمر میں حضرت سلطان باھُو ؒ کے مزار مبارک پر تشریف لائے اور وہاں حضرت سلطان باھُوؒ نے آپؒ کی باطنی تربیت فرمائی۔ آپؒ نے 40 برس مزارِ باھُوؒ پر خدمت کی، سب سے اہم کارنامہ آپؒ کا اِ س دوران یہ رہا کہ آپؒ نے حضور سلطان باھُوؒ کی کتب کے نسخوں کی کتابت فرمائی تاکہ مستقبل میں آنے والے طالبانِ مولیٰ کے لیے انہیں محفوظ رکھا جا سکے۔ یہ نسخے آج بھی موجود ہیں۔ پھر حضرت سلطان باھُوؒ کے حکم پر آپؒ شور کوٹ پیر عبدالغفور شاہؒ سے بیعت کی غرض سے تشریف لائے اور اپنے مرشد کی بے انتہا خدمت کی۔ آپؒ نے مسند ِ تلقین و ارشاد سنبھالنے کے بعدسونے کے لکھے ہوئے کئی اسمِ اللہ ذات لوگوں میں تقسیم فرمائے۔ آپؒ کا عارفانہ کلام بھی بہت دلکش ہے۔ ایک اردو دعا کے علاوہ باقی تمام کلام پنجابی سرائیکی میں ہے۔ بارگاہِ سیّدنا غوث الاعظمؓ سے آپؒ کو ’شہبازِ عارفاں‘ کا لقب عطا ہوا۔ آپؒ 27 فروری 1934ء میں وصال فرما گئے ، آپؒ کا مزار مبارک پیر دی بھنیڑی موضع فرید محمود کاٹھیہ میں ہے جو شورکوٹ جھنگ روڈ پر شورکوٹ شہر سے 13 کلومیٹر پر اڈہ قاسم آباد سے مشرق کی جانب دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
سلطان الاولیا حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیزؒ:
آپؒسلسلہ سروری قادری کے انتیسویں شیخ ِ کامل ہیں۔ آپؒ 12 مارچ 1911 میں گڑھ مہاراجہ جھنگ میں پیدا ہوئے۔آپؒ کا سلسلہ نسب حضرت سخی سلطان باھوؒ سے ملتا ہے۔ آپؒ پیدائشی ولی تھے اور آپؒ نے پیدائش کے بعد سب سے پہلا دیدار ہی اپنے مرشد پیر بہادر علی شاہؒکا کیا ۔ بچپن سے آپؒ کی حضوریٔ حق کے لیے بیتابی بڑھتی جا رہی تھی۔ پیر بہادر شاہؒکے دست ِ اقدس پر بیعت کے بعد آپؒ نے اپنے مرشد کی بہت خدمت کی اور اپنے مرشد سے ورثۂ فقر پانے کے بعد آپؒ نے لوگوں کو بہت نوازا اور خاص کر طالبانِ مولیٰ میں اسمِ اللہ ذات کا بے بہا فیض عام فرما یا۔ آپؒ کو بارگاہِ غوث الاعظمؓ سے ’سلطان الاولیا‘ یعنی ولیوں کے سلطان کا لقب عطا ہوا۔ آپؒ 12 اپریل 1981ء میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ آپؒ کا مزار مبارک مزارِ باھُوؒ سے تقریباً نصف کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ:
آپؒ14 اگست 1947ء کو قصبہ سمندری گڑھ مہاراجہ میں پیدا ہوئے۔ آپؒ حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیزؒکے فرزند ہیں اور اس طرح آپؒ کا سلسلہ نسب بھی حضرت سلطان باھُوؒ سے جا ملتا ہے۔آپؒ کے والد ِ گرامی نے آپؒ کے بارے میں فرمایا ’’جس طرح سے میرا بیٹا فقر کو سنبھالے گا تا قیامت کوئی نہیں سنبھال سکتا۔‘‘
آپؒ سلطان الفقر ششم ہیں اور یہی آپؒ کا لقب بھی ہے۔
آپؒ ایک خاص نورانی صورت و سیرت کے مالک تھے۔ جس پر بھی آپؒ کی نگاہ پڑتی وہ آپؒ کا گرویدہ ہوجاتا، آپؒ نے ہزارہا دنیا داروں کو طالب ِ مولیٰ بنایا اور طالبانِ مولیٰ کو قرب و دیدارِ الٰہی کی نعمت عطا فرمائی۔
آپؒ نے امانت ِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کو منتقل فر مانے کے بعد دو سال آپ مدظلہ الاقدس کی باطنی تربیت فرمائی اور پھر 26 دسمبر 2003ء کو اس جہانِ فانی سے پردہ فرما گئے۔ آپ ؒ اپنے مرشد سلطان الاولیا حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیزؒ کی دائیں جانب مدفون ہیں۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس:
آپ مدظلہ الاقدس سلسلہ سروری قادری کے موجودہ شیخ ِ کامل اور اکیتسویں امام ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس 19 اگست 1959ء بخشن خان ضلع بہاولنگر میں پیدا ہوئے۔ آپ مدظلہ الاقدس بچپن سے ہی عام بچوں سے بے حد مختلف تھے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی پیشانی مبارک دیکھ کر ایک بزرگ نے آپ کی والدہ کو فرمایا:’’اللہ نے آپ کے بیٹے کو ایک خاص مقصد کے لیے چنا ہے اور اس کی پیشانی پر خاص تقدیر رقم کی ہے۔‘‘ آپ مدظلہ الاقدس بچپن سے ہی اللہ تبارک و تعالیٰ کی نشانیوں میں غور فرمایا کرتے تھے اور قرب و دیدارِ الٰہی کے خواہاں تھے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی تمام عمر شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کی زیر تربیت گزری۔ ظاہری مرشد سے بیعت سے قبل شیخ عبدالقادر جیلانیؓ نے ہی آپ مدظلہ الاقدس کی روحانی تربیت فرما کر مجلس ِمحمدیؐ کی حضوری سے مشرف فرمایا جہاں آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے آپ مدظلہ الاقدس کوباطن میں بیعت فرما کر مزید اعلیٰ تربیت کے لیے سیّدنا غوث الاعظمؓ کے سپرد فرمایا جس کی تکمیل کے بعد سیّدنا غوث الاعظمؓ کے حکم پر ہی آپ مدظلہ الاقدس نے ظاہری بیعت سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی ؒ کے دست ِ اقدس پر فرمائی اور بیعت کے بعد اپنا تن من دھن سب کچھ اپنے مرشد پر نثار کر دیا۔ پس سلطان الفقر ششم نے اپنے ازلی محرمِ راز کو مارچ 2001ء میں امانت ِ فقر منتقل فرمائی۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے امانت ِ فقر پانے کے بعد جب مسند ِ تلقین و ارشاد سنبھالی تو آپ مدظلہ الاقدس نے اس طرح سے فقر کو فروغ دیا کہ جس کی مثال دینا ممکن نہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کا ایک کارنامہ یہ ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس نے کئی گناہگاروں اور دنیاداروں کو پاکیزہ اور طالبانِ مولیٰ بنایا ہے گویا آپ کی نظر کیمیا ہے۔
آپ مدظلہ الاقدس نے جدید دور کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے تمام دنیا میں فقر کا پیغام پہنچایا اور پہنچا رہے ہیںگویا آپ مجددِ دین ہیں۔ سلطان باھُو ؒ کی کتب کے اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی میں بھی تراجم کروائے۔ فیس بک، ٹویٹر، لنکڈاِن، پن ٹرسٹ، ریڈ اِٹ، بلاگز، مضامین اردو انگلش ویب سائٹس، ماہنامہ سلطان الفقر لاہور، سلطان الفقر پبلیکیشنز، سلطان الفقر ڈیجیٹل پروڈکشن الغرض ہر ذریعہ ٔ ابلاغ سے لوگو ں تک فقر ِ محمدیؐ کا پیغام پہنچا رہے ہیں۔آپ مدظلہ الاقدس بیعت اور بغیر بیعت کے بھی ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات عطا فرماتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ طالبانِ مولیٰ کو اسمِ محمد بھی عطا فرماتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کے مریدین نے آپ کی ذاتِ اطہر اور آپکی کرامات پر ایک جامع تصنیف ’’سلطان العاشقین‘‘ تحریر کی ہے۔بے شک آپ مدظلہ الاقدس بے را ہ روی کے اس دور میں اللہ سے غافل انسانوں پر اللہ پاک کا بہترین احسان ہیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امامِ کامل سلطان العاشقین کی صحبت اور خدمت کی توفیق دے تاکہ آپ مدظلہ الاقدس کی راہنمائی میں ہم فقر محمدیؐ پر چل سکیں اور روزِ الست اپنے ربّ سے کیے ہوئے عہد کو نبھا پائیں۔ آمین۔
استفادہ کتب:
شمس الفقرا تصنیف لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
مجتبیٰ آخر زمانی ایضاً