الف
ریاکاری سے مراد دکھاوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت کا اصل مقصد تو معرفت ِ الٰہی ہے تاکہ جو بھی عمل کیا جائے اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جائے اور اس کی پہچان اور معرفت حاصل ہو جائے۔ اگر اس مقصد میں لوگوں کے لئے دکھاوے اور شہرت کی نیت شامل ہو جائے تو وہ عمل خالص اللہ تعالیٰ کیلئے نہ رہے گا اور اسے ریا کاری کہا جائے گا۔ عارفین کے نزدیک ریاکاری بہت بڑا گناہ اور حجاب ہے اور یہ شرک کے قریب ہے۔ اخلاصِ نیت سے صرف اللہ تعالیٰ کے لئے کیا گیا عمل بارگاہِ الٰہی میں قبول ہے۔ اعمال کرنے میں کوئی ذاتی اور نفسانی غرض رکھ لیں اور دِل میں یہ احساس پوشیدہ ہو کہ لوگ نیک اور پر ہیز گار سمجھیں تو یہ عبادت اور اعمال ریاکاری کا شکار ہو جائیں گے اور یہ عبادت اللہ سے دور لے جائے گی۔
قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:-
’’اور وہ لوگ جو اپنے مالوں کو لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور ایمان نہیں لاتے اﷲ پر اور نہ قیامت پر اور جس کا ساتھی شیطان ہو وہ کتنا بُرا ساتھی ہے۔‘‘ (سورۃ النساء 38)
حضرت محمود بن لبیدؓ سے روایت ہے حضور ِاکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ’’مجھے سب سے زیادہ جس چیز کا تم لوگوں پر خوف ہے وہ ہے چھوٹا شرک۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا’’ یا رسول اﷲ چھوٹا شرک کیا ہے‘‘ تو فرمایا ’’ریاکاری‘‘۔ (بیہقی)
پیرانِ پیر حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
ریاکار کے کپڑے صاف ہوتے ہیں مگر دِل (باطن) اس کا نجس ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت دِل (باطن)سے ہوتی ہے قالب (جسم) سے نہیں۔ (الفتح الربانی مجلس5)
لہٰذا جو بھی عمل کیا جائے وہ خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے ہونا چاہیے نہ کہ مخلوق میں مشہور ہونے اور ان کی تعریف سمیٹنے کے لیے۔ ریاکاری نفسانی بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے اور دیگر نفسانی بیماریوں کی طرح اس کا علاج بھی مرشد کامل اکمل کی صحبت اور ذکر و تصور اسم اللہ ذات کی مشق کے بغیر ممکن نہیں۔ کیونکہ جب تک انسان کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہ ہو اس کا کوئی بھی عمل خالص اللہ کی ذات کے لیے نہیں ہو سکتا۔ معرفت ِ الٰہی کے حصول اور نفسانی بیماریوں سے نجات کے لیے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس سے ذکر و تصور اسم اللہ ذات حاصل کریں۔ جس سے نفس کے پوشیدہ امراض کا علاج بھی ہوگا اور انسان کو اللہ کی معرفت بھی حاصل ہوگی۔