تلاشِ حق | Talash e Haq


Rate this post

تلاشِ حق

عرشیہ خان سروری قادری

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَالَّذِیْنَ جٰھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔ (سورۃ العنکبوت۔69)
ترجمہ:جو لوگ ہماری طرف آنے کی جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں ہم انہیں اپنی طرف آنے کے راستے دکھا دیتے ہیں۔

ذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ ط وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْم۔(الحدید۔21)
ترجمہ : یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ عظیم فضل کا مالک ہے۔

حق کے لغوی معنی سچائی، صداقت کے ہیں۔’’حق ‘‘ اللہ کی ذات پاک ہے، یہ وہ واحد حقیقت ہے جس کو بقا ہے یہی وہ ذات ہے جو خلق میں مخفی ہے۔ نفسی حجابات میں اللہ ربّ العز ت کی ذات پوشیدہ ہے۔ شاہ سید محمد ذوقی ؒ فرماتے ہیں:
٭ تعینات خلقیہ کے نفس کے اندر حق تعالیٰ ظاہر ہے اور بطونِ حق میں خلق معقول اور مشہور ہے ۔( سرِّ دلبراں)
معلوم ہو ا کہ تلاشِ حق اصل میں اللہ کی ذات کی جستجو ہے اور یہ وہ عنایت ہے جو گنی چنی چند ارواح کو بخشی گئی ہے۔ اللہ پاک خود فرماتا ہے اور میں تمہارے اندر ہوں کیا تم غور سے نہیں دیکھتے؟‘‘ (سورۃ الذٰریٰت 21)
وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحیِ ( سورۃ الحجر ۔29 )
ترجمہ : اور میں نے اس میں اپنی روح پھونکی ـ۔

در حقیقت جب ربّ العالمین نے انسان کے اندر اپنی روح پھو نکی تو معرفت کا چراغ روشن ہو گیا۔ یہی آگ تو ازل سے انسان کے بشری وجود میں بھڑک رہی ہے اور حیاتِ انسانی کی بنیاد ہے۔ مگر افسوس! انسان اپنی بنیاد، اپنی اصل بھول گیا ہے۔ انسان کے معنی ہی بھلا دینے والا کے ہیں۔ جب انسان اپنے باطن کے حسن سے آگاہ نہیں رہتا، جب باطن کی عظمت و جمال سے واقف نہیں رہتا تو محرو م اور خالی ہو جاتا ہے اور مادی و عارضی چیزوں کے پیچھے بھاگتا ہے۔
یہی آج کل کے دور میں گمراہی کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ ہم نے اپنے ’’باطن‘‘ کو فراموش کر دیا ہے اور صرف ظاہر کی طرف متوجہ ہیں۔ آج کا انسان آفاق میں گم ہے اور اگر وہ اپنی ہستی کو پہچان لے تو ’’آفاق‘‘ اس کو اپنے اندر دکھائی دے گا۔قرآنِ مجید میں بھی بار بار انسان کے باطن کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۔(سورۃ ق۔16)
ترجمہ: اور ہم تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہیں ۔
اَوَ لَمْ یَتَفَکَّرُوْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ۔(سورۃ الروم۔8)
ترجمہ: کیا وہ اپنے اندر غورو فکر نہیں کرتے ۔

حدیث ِ قدسی میں اللہ تعالیٰ نے باطن کی طرف متوجہ کیا ہے : 
لَا یَسْعُنِیْ اَ رْضِیْ وَلَا سَمَآئِیْ وَلٰکِنْ یَّسْعُنِیْ فِیْ قَلْبُ عَبْدِ الْمُؤْمِنْ۔
ترجمہ: نہ میں زمین میں سماتاہوں اور نہ آسمانوں میں لیکن بندۂ مومن کے دل میں سماجاتاہوں ۔

قَلْبُ الْمُؤْمِنِ عَرْشَ اللّٰہِ تَعَالٰی ۔ترجمہ: مومن کا دل اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ کی ذات ہر انسان کے باطن میں موجود ہے تو ہر کوئی مومن کیوں نہیں ہے اور اسے کیوں نہیں دیکھ پاتا؟
اس بات کا جواب روزِ الست کے اس واقعہ سے مل سکتاہے جو حضرت سخی سلطان باھُوؒ نے اپنی تصانیف شمس العارفین اور کلید التوحید کلاں میں شامل کیا اور مختصراً یوں بیا ن کیا جا رہا ہے:
روزِ الست جب رب کریم نے تمام ارواح سے سوال کیا اَلَسْتُ بِرَبِّکُم  (کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟) تو تمام ارواح نے یک زبان جواب دیا قَالُوْا بَلیٰ’’بے شک تُو ہی ہمارا رب ہے‘‘۔ یہ قرآنِ مجید کی سورۃ اعراف کی آیت نمبر۱۷۲ میں درج ہے ۔
کچھ ارواح اس اقرارِ بے ساختہ پر پریشان ہو گئیں ، یہ کافروں، مشرکوں، منافقوں اور کاذبوں کی ارواح تھیں اور بعض ارواح اَلَسْتُ بِرَبِّکُم  کے کے جواب میں قَالُوْا بَلیٰ  کہہ کر خوش اور مسرور ہو گئیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اے ارواح! مانگ لو مجھ سے جو مانگنا چاہتی ہو تاکہ میں تمہیں وہ عطا کر دوں‘‘۔ ان ارواح نے عرض کی ’’ اے ہمارے ربّ!ہم تجھ سے تجھی کو مانگتے ہیں‘‘۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارواح کی بائیں دنیا اور دنیا کی زینت کو پیش کیاتو خنزیر شیطان مردود نفس ِ امارہ کی مدد سے اس دنیا میں داخل ہو گیا۔ جب شیطان دنیا میں پہنچا تو اس نے باآوازِ بلند چوبیس بانگیں دیں اور نو حصہ ارواح شیطان کی ان بانگوں کو سن کر شیطان کی راہ پر چل پڑیں۔ 

ان نو حصہ ارواح کے علاوہ ایک حصہ ارواح اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑی رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے فرمایا: ’’اے ارواح! مانگ لو مجھ سے جو تم مانگنا چاہتی ہو میں تمہیں وہ عطا کر دوں‘‘۔ ان ایک حصہ باقی رہنے والی ارواح نے عرض کی ’’اے ہمارے ربّ! ہم تجھ سے تجھی کو مانگتے ہیں‘‘ ۔اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت، حور و قصور، جنت کی لذات اور ان کی نعمتیں، جنت کی زینت و زیبائش ان ارواح کے دائیں ہاتھ پر ظاہر کر دیں۔ ان ارواح میں سے نو (9) حصہ ارواح جنت کی طرف چلی گئیں۔ سب سے پہلے جو ارواح جنت میں داخل ہوئیں وہ متقی اور پرہیزگار لوگوں کی تھیں۔ وہاں انہوں نے بلند آواز سے تقویٰ کی بانگ دی جسے سن کر (ان نو حصہ ارواح میں سے) باقی تمام ارواح جنت میں داخل ہو گئیں۔ اور انہوں نے شریعت ِ محمدی پر استقامت اختیار کر لی چنانچہ یہ عالم، فاضل، متقی اور پرہیزگار لوگ ہیں۔ باقی ایک حصہ ارواح اللہ کے روبرو کھڑی رہیں۔ ان کے کانوں نے نہ دنیا کی بانگ سنی اور نہ جنت کی بانگ سنی۔ وہ اشتیاقِ الٰہی میں غرق فنا فی اللہ نور بقا باللہ مجلسِ محمدی کی متابعت اور حضوری رکھنے والے عارف باللہ فقرا کی ارواح تھیں جنہوں نے ازل سے فقراختیار کیا اور اللہ کے سوا اللہ سے کچھ نہ مانگا۔
تلاشِ حق ہمت کا نام ہے اللہ کی جستجواور تلاشِ حق وہی ارواح کر رہی ہیں جنہوں نے اللہ پا ک سے مقامِ لاھوت میں بلیٰ کا سچا وعدہ کیا تھا اور دنیا میں آکر بھی ا س وعدے پر قائم ہیں۔ ایسی ارواح کا رجحان اپنی اصل یعنی روحِ قدسی کی طرف رہتا ہے جیسا کہ حدیث پاک ہے :

کُلُّ شِیْئٍ یَرْجِعُ اِلٰی اَصْلِہٖ۔ترجمہ: ہر چیز اپنی اصل کی طرف رجوع کرتی ہے ۔

شیخ اکبر محی الدین ابن ِ عربی ؒ فرماتے ہیں :
’’ معرفت ِ الٰہی کے قابل وہ شخص ہے جس کی ہمت بلند ہو یعنی نہ وہ دنیا کا طالب ہو نہ آخرت کا طالب۔ بلکہ محض حق تعالیٰ کی ذات کا طالب ہو ۔( شرح فصوص الحکم و الایقان)
میرے ہادی، میرے مرشد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس تلاشِ حق کے راہی یعنی طالب ِ مولیٰ جو خالص اللہ پاک کی طلب رکھتا ہے، کے بارے میں فرماتے ہیں :
٭ طالب ِ مولیٰ کی ہمت پہاڑوں کو بھی ریزہ ریزہ کر دیتی ہے ۔
٭ طالب ِ مولیٰ کو دنیا میں سکو ن نہیں ملتا ۔ دنیا میں سکون صرف طالب ِ دنیا کو ملتا ہے۔ (سلطان العاشقین )
تلاشِ حق کے سفر کا آغاز انسان تبھی کرتا ہے جب یہ یقین ِ کامل ہو جائے کہ دنیا کی ہر شے بے معنی و بے سود ہے، یقین ہو جائے کہ دنیا مٹی کے ڈھیر کے علاوہ اور کچھ نہیں جسے کوئی بھی لہر آسانی سے گرا سکتی ہے۔ اور تلاش بھی اُسی چیز کی کی جاتی ہے جو کہ گم گئی ہو۔ مادی چیزوں اور رشتوں میں الجھ کر انسان کا رابطہ جب اللہ پاک سے ٹوٹتا ہے تبھی بے چینی اور بے سکونی پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے اگر روح میں اس ذات کو دوبارہ پا لینے کے لیے ہلچل پیدا ہو جائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ طالب راہِ حق کے سفر پر گامزن ہے اور اس کی روح محبوبِ حقیقی سے ملاقات کرنے کے لیے بے قرار اور بے چین ہے ۔ پھر دنیا وی مال و دولت ، شان و شوکت ، رشتے ناتے سب سے دل اچاٹ ہو جاتا ہے اور قربِ خداوندی کی طلب بڑ ھ جاتی ہے جو کہ دائمی ہے ۔
ہر طالب ِ مولیٰ کی یہی روایت رہی ہے کہ وہ حق کی تلاش میں ضرور نکلا۔
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :
یٰٓاَیُّھَا اَّلذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ۔( سورۃ المائدہ 35 )
ترجمہ: اے ایمان والو تقویٰ اختیار کرو اور اللہ کی طرف وسیلہ پکڑو۔
اگر ذاتِ حق کی پہچان خود سے ممکن ہوتی تو اللہ پاک اس آیت میں ایمان والوں کو وسیلہ پکڑنے یعنی وسیلہ تلاش کرنے کا حکم نہ فرماتا۔ واضح ہو کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو مخاطب کیا ہے عام انسانوں کو نہیں یعنی ان ارواح کو جو ازل سے اللہ کی سچی طالب ہیں نہ کہ دنیا اور عقبیٰ کے طالبوں کواللہ پاک حکم فرما رہا ہے کہ جنہیں حق کی سچی طلب ہے وہ کسی وسیلے کے ذریعے حق تک پہنچیں۔
لسان العرب ( جلد 11 صفحہ 725 ) میں وسیلہ کی تعریف یوں کی گئی ہے :
’’ جس کے ذریعے کسی دوسری چیز کا قرب حاصل کیا جائے اسے وسیلہ کہتے ہیں ۔‘‘
اسی طرح مزید کئی آیات میں ایسے کامل انسان کو تلاش کر کے اس کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے جسے اللہ کا قرب حاصل ہو اور جس کی پیروی کر کے طالب بھی اللہ کا قرب حاصل کر سکے جس طرح صحابہ کرامؓ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلے سے کیا۔
ترجمہ: اور پیروی کر و اس شخص کے راستہ کی جو مائل ہو ا میری طرف (لقما ن 15-)
٭ وہ رحمن ہے سو پوچھ اس کے بارے میں اس سے جو اس کی خبر رکھتا ہے ۔ ( الفرقان59- )
٭ پیروی کرو اللہ کی اور پیروی کرو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اور اس کی جو تم میں ’’اولیٰ الامر‘‘ ہو ۔ ( النسا ء 59- )
جب طالب ِ مولیٰ تلاشِ حق کے سفر پر نکلتا ہے تو سب سے پہلا مرحلہ مرشدکامل اکمل کو تلاش کرنا ہوتا ہے۔ صدیقین، فقر ا اولیا اللہ زمین پر اللہ تعالیٰ کی خلافت کے وارث ہیں اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نائبین ہیں اور قربِ الٰہی کے لیے ان کی غلامی، بیعت اور صحبت ضروری ہے۔
مولانا روم ؒ فرماتے ہیں:
اندرین عالم نیرزی باخسے
تانی آویزی بہ دامانِ کسے
ترجمہ: اس جہاں میں تیری قیمت ایک تنکے کے برابر نہیں ہو گی جب تک کہ تو کسی مردِکامل ـ( مرشد کامل ) کے دامن سے وابستہ ہو کر زندگی نہ گزار ے۔
اللہ اللہ کرنے سے اللہ نہیں ملتا
یہ اللہ والے ہیں جو اللہ سے ملا دیتے ہیں
واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں:
٭ اللہ کی تلاش انسان کو انسان ہی کے پاس لے جاتی ہے اور وہ اسے آشنا کر دیتاہے ۔ بلھے شا ہ سر کا ر ؒ کو شاہ عنایت کے پاس، نظام الدینؒ اولیا کو بابا فرید الدین گنج شکر ؒکے پاس ، بابا فرید الدین گنج شکرؒ کو قطب الدین بختیار کاکی ؒکے پاس، قطب الدین بختیار کاکیؒ کو خواجہ عثمان ہارونیؒ کے پاس، مولانا رومؒ کو شمس تبریزؒ کے پاس ، علامہ اقبال کو مولانا رومؒ کے پاس ، ہر کسی کو کسی نہ کسی رہبر، رفیق کے پاس۔
صوفی برکت علی لدھیانوی ؒ نے فرمایا ’’ربّ مت ڈھونڈ، رہبر ڈھونڈ۔ ربّ مل جاتاہے رہبر نہیں ملتا ۔‘‘
عام مسلمان اللہ کو پانے کا طریقہ نماز، روزہ، حج اور دیگر ظاہری عبادات کو سمجھتے ہیں مگر یہ نہیں سمجھتے کہ یہ راستہ ہے منزل نہیں، منزل تک کامل مرشد ہی پہنچا سکتا ہے ۔
علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں :
صحبت پیر رومؒ سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سر بجیب، ایک کلیم سر بکف
٭٭٭٭
حدیث ِ دل کسی درویش ِ بے گلیم سے پوچھ
خدا کرے تجھے تیرے مقام سے آشنا
مرشد کامل کو پالینے کے بعد تلاشِ حق میں کامیابی کے لیے صرف طالب کو صدقِ دل سے مرشد کی پیروی کرنا اور ہر حال میں استقامت کے ساتھ اس سے جڑے رہنا ضروری ہے ۔ نہ کسی حال میں مرشد سے بد گمان ہو اور نہ ہی اس کی نافرمانی کرے پس مرشد کامل کی مخلص اطاعت ہی تلاشِ حق میں کامیابی کی کلید ہے
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی ؒ فرماتے ہیں :
٭ ’’مرشد کامل سر وری قادری ہر مقام پر حاضر اور ہر کام پر قادر ہوتا ہے بس طالب کا صادق ہونا ضروری ہے۔‘‘
سیّد الکونین، سلطان الاولیا، نورِ مطلق، محبوبِ سبحانی، غوثِ صمدانی، قطب ِ ربّانی سیّد نا غوث الاعظم شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی ؓ جن کی ولادت سے قبل ہی آپ ؓ کے ولی ہونے کے چرچے چار سو پھیل چکے تھے اس کے باوجود آپ ؓنے حق کی تلاش کی اور اپنے نفس کو طرح طرح کی آزمائشوں میں ڈالا۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒمادر زاد ولی تھے ۔ ازل سے منتخب شدہ تھے۔ والدہ محترمہ حضرت بی بی راستیؒ بھی عارفہ کاملہ تھیں مگر آپ ؒ فرماتے ہیں کہ میں تیس (30 ) سال تک مرشد کی تلاش میں سرگردان رہا لیکن مجھے اپنے پائے کا مرشد نہیں مل سکا۔
تلاشِ حق کی ایک اور مثال حضرت سخی سلطان پیر محمد عبدالغفور شاہ ہاشمی قریشی ؒہیں جن کا سلسلہ نسب حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چچا سیّد الشہدا حضرت امیر حمزہ ؓ سے جا ملتا ہے ۔ ایسے اعلیٰ نسب سے تعلق ہونے کے باوجود مرشد کی تلاش کی۔ ایک دن آپ ؒ حضرت سخی سلطان محمد عبداللہ شاہ ؒ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو انہوں نے حویلی کے کنویں پر پڑی مٹی ہموار کرنے کو کہا ۔ مٹی کو ہموار کرتے کرتے آپ ؒ کے ہاتھ لہو لہان ہوگئے اور خون جاری ہو گیا۔ مگر آپؒ زخمی ہونے کے باوجود کام کرتے رہے ۔ کچھ دیر کے بعد شاہ صاحب ؒ نے مرہم منگوائی اور ہاتھ دیکھنے کے بعد کہا ! تمہارے ہاتھ تو بہت نرم و نازک ہیں ۔ تم نے انہیں اتنی تکلیف کیوں دی ؟
آپ ؒ نے عرض کیا : حضور اللہ تعالیٰ کی تلاش میں نکلا ہوں اگر اس دوران ہاتھ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر پڑیں تو بھی کوئی پرواہ نہیں ‘‘۔ (مجتبیٰ آخر ِ زمانی )
سلسلہ سروری قادری کے موجودہ شیخ اورحضرت سخی سلطان باھُو ؒ کے روحانی وارث سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے بھی تلاشِ حق کے لیے بے حد جدو جہد کی اور مرشد کی تلاش میں ملک کے طول و ارض میں کئی بار سفر کیا۔ آپ مدظلہ الاقدس نے بحیثیت طالب ِ مولیٰ بھی بہت سی آزمائشوں اور دشواریوں کا سامنا کیا اور عشق کے اس میدان میں کھرے ثابت ہوئے ، ہر ظاہری اور باطنی آزمائش کو اپنی قوتِ عشق الٰہی سے جیت لیا اور استقامت ، صبر و ہمت سے عشق ِ الٰہی کے سفر پر گامزن رہے۔ اسی بنا پر آپ مدظلہ الاقدس کو آپ کے مرشد سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی ؒ نے اپنے روحانی وارث کے طور پر چن لیا اور امانت ِ الٰہیہ آپ مدظلہ الاقدس کو منتقل کر دی۔
آج آپ مدظلہ الاقدس اپنے مرشد پاک کا فیض عوام الناس میں عام فرما رہے ہیں ۔ آپ مدظلہ الاقدس صاحب ِ مسمّٰی مرشد کامل اکمل جامع نو رالہدیٰ فقیر مالک الملکی ہیں جن کی نگاہِ کیمیا کی کوئی حد نہیں ہے ۔ آپ مدظلہ الاقد س راہِ حق کے مسافروں کے راہبر اور رفیق ہیں۔ لاکھوں کروڑوں طالبوں کو عشق ِ الٰہی کا جام پلا چکے ہیں اور بے شمار طالبانِ مولیٰ آپ کی مہربانی اور باطنی توجہ سے منزل کو پا چکے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس زنگ آلود قلب کو اپنی نگاہ ِ کاملہ سے صاف فرماتے ہیں اور اس میں معر فت ِ الٰہی کا نور بھر دیتے ہیں ۔
نگاہِ ولی میں وہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی
بھولے اور بھٹکے راہِ خدا وندی کے خواہشمند آپ کی بارگاہ سے اپنی مراد ضرور پاتے ہیں۔
آئیے آپ بھی سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دستِ اقدس پر بیعت ہو کر تلاشِ حق کے سفر کا آغاز کیجیے اور ذکر و تصور اسم اللہ ذات کے ذریعے اپنے نفس کا تزکیہ کر کے تمام باطنی حجابات ہٹائیں اور اس ذاتِ حق کا مشاہدہ کریں۔ اللہ پاک تمام طالبانِ مولیٰ کو خلوصِ نیت اور استقامت سے راہِ حق پر اپنی جستجو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اپنا تبصرہ بھیجیں