کلام درشان حضرت سخی سلطان باھوؒ
Kalam Dar Shan Sultan Bahoo (r.a)
تحقیق و ترتیب: مسز فاطمہ برہان سروری قادری ۔لاہور
سلسلہ سروری قادری کے اٹھائیسویں شیخِ کامل شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطا ن پیرسیدّ محمد بہادر علی شاہ کاظمی المشہدیؒ نے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی شان میں سی حرفی (الف سے ی تک) لکھی ہے۔ اس سی حرفی میں تیس ابیا ت ہیں۔ا س مضمون میں سلطان باھوؒ کی شان میں لکھی گئی سی حرفی کا مفہوم پیش کیا جا رہا ہے۔
الف آستاں سلطانؒ ہے بابِ امان، یا مطلق ہے کوہِ طور پیارے
آکھ رَبِّ اَرِنِیْ سن سَوْفَ تَرَانِیْ، یا صفت جمال اے نور پیارے
ہوا و ہوس ہے دُھوڑ بھائی، جاروب دلا ضرور پیارے
طلسم دا قسم سلطان بہادر شاہؒ، تاں نور ویکھیں مستور پیارے
مفہوم: حضرت سخی سلطان باھوؒ کا آستاں بابِ امان اور کوہِ طور کی مانند ہے۔ اگر کوئی سچے دل سے آپؒ کے در پر رَبِّ اَرِنِیْ(ترجمہ: اے ربّ! مجھے اپنا جلوہ دکھا) کی فریاد کرتا ہے تو آپؒ اسے سَوْفَ تَرَانِیْ (ترجمہ: عنقریب تم میرا دیدار کر لو گے) کے مرتبہ پر پہنچا دیتے ہیں کیونکہ آپؒ کی ذات عین جمالِ الٰہی کی مظہر ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ طالب اپنے دل کو تمام خواہشاتِ نفس اور ہوا و ہوس سے پاک کر لے۔ اس کے بعد ہی وہ فیضِ باھوؒ کا مشاہدہ کر سکتا ہے جس کی برکت سے اس پر تجلیات و انوار کے راز منکشف ہو جائیں گے۔
الف اللہ نوں اپنا کر لئیسیں، سخی سلطانؒ تینوں جے منظور کیتا
ایہہ نور محمدیؐ ہئی نور اللہ، جس نور باھوؒ ظہور کیتا
اسم پاک باھوُ اللّٰہ ھُوْ یَاھُوْ، ذکر پاک محمدؐ نور کیتا
سلطان بہادر شاہؒ جس پکایا ورد باھوؒ، اس نوں نور خدا ضرور کیتا
مفہوم: اگر کوئی طالب حضرت سخی سلطان باھوؒ کی بارگاہ میں منظور و مقبول ہو جاتا ہے تو آپؒ اسے قرب و دیدارِ الٰہی سے مشرف فرما دیتے ہیں۔ درحقیقت نورِ محمدی ہی نورِ الٰہی ہے اور یہی نور آپؒ میں ظاہر ہے۔ اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمدؐ کے دائمی ذکر سے آپؒ کا اسم مبارک ’’باھوُ‘‘ بھی عین نور بن چکا ہے۔ جس طرح باھوُ میں ھوُ شامل ہے اسی طرح آپؒ کی ذات نورِ ھوُ کا مکمل اظہار ہے۔ پھر خود کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں: اے پیر بہادر شاہ! جو بھی کوئی باھوؒ کا ذکر کرتا ہے اللہ اس کی ذات کو بھی نور سے منور کر دیتا ہے۔
ب بس اللہ ماسویٰ ہوس، چھک لے ’’لَآ‘‘ تلوار پیارے
اِلاَّ اللّٰہ دی باقی ہک میان، جیہڑا ہے مظہر انوار پیارے
سلطانؒ سخی دی ذات دَسّے تینوں، کھول سارے اسرار پیارے
ہادی صفت سلطان بہادر شاہؒ، جینوں ویکھیں اُوْلِی الْاَبْصَارْ پیارے
مفہوم: اے پیارے طالب!لَآ کی تلوار لے کر اللہ کے سوا جو بھی نفسانی خواہشات ہیں سب کو ختم کر دے ۔جب تو ایسا کرے گا تو تیرے نیام یعنی قلب میں اللہ کی ذات، جومظہرِانوار ہے، ظاہر ہو جائے گی۔ حضرت سخی سلطا ن باھوؒ کی ذا ت کے وسیلہ سے ہی تجھ پر تمام اسرارِ الٰہی آشکار ہوں گے۔ سلطان بہادر شاہؒ، حضرت سخی سلطا ن باھوؒ کی ہدایت سے نوازنے والے ہیں اور آپؒ کی جانب تمام پیارے اہلِ بصیرت دیکھ رہے ہیں ۔
ت تصور اصل یاھوُ ہے، باھوُ مشہور مشہود میاں
اسمآ حسنیٰ نوں ویکھ بھائی، اوہ ہادی اسم موجود میاں
مسجود عشاق ملائک دا، حق باھوؒ معبود میاں
اس دے منکر نوں شیطان جانیں، یا مردود مطرود میاں
مفہوم: اصل ذکر اور تصور جو قرب و دیدارِ الٰہی سے مشرف کرتا ہے وہ ذکرِ یاھوُ ہے، اس ذکرِعظیم سے طالب کو روشناس کروانے والے حضرت سلطان باھوؒ ہیں۔ آپؒ سے قبل تاریخ میں کسی بھی شخص کا نام باھوؒ نہیں رکھا گیا تھا۔ آپؒ کا نام بحکمِ خداوندی ’’باھو‘‘ رکھا گیا۔ آپؒ خود فرماتے ہیں ’’باھوؒ کی ماں نے نام باھوؒ رکھا کیونکہ باھوُ ہمیشہ ھوُ کے ساتھ رہا۔‘‘ آپؒ ظاہری و باطنی دنیا میں باھوُ کے اسم مبارک سے مشہور ہیں۔ آپؒ اسمِ ھوُ کا عین مظہر ہیں۔ آپ مرشد کامل اکمل ہیں جو طالب کو حاضر و ناظر ربّ کی بارگاہ تک پہنچا دیتے ہیں۔ آپ کی تعظیم و عزت میں فرشتے اور عاشق سجدہ کرتے ہیں اور اگر کوئی آپ کے بلند اور عالیٰ رتبہ کا منکر ہے وہ شیطان ہے یا مردود و مطرود۔
ث ثابت سمجھ تامل نہ کر، جد اُسْجُدُوا دا فرمان ہویا
عامل ملائک کلُ رہے، نافرمان شیطان ہویا
خشم دی چشم نوں طین لیا، وَنَفَخْتُ توں نادان ہویا
سلطان بہادر شاہؒ پناہ اس علم کولوں، از دست سب نقصان ہویا
مفہوم: حضرت پیر سیدّ بہادر شاہؒ طالبانِ مولیٰ کو تلقین کرتے ہیں کہ اس حقیقت سے مکمل طور پر واقف ہو جاؤ اور شک وشبہ نہ رکھو کہ جس وقت اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے کا حکم فر ما یاتو تما م ملائکہ نے حکم کی تکمیل کی لیکن شیطان نے نافرمانی کی۔ انانیت اور غضب کے باعث اس نے حضرت آدمؑ کو مٹی کاپتلا سمجھا اور وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ ( ترجمہ : اور اس میں اپنی روح پھونکی) کی حقیقت سے نادان اور نا سمجھ رہا ۔ سلطان بہادر علی شاہؒ فرماتے ہیں کہ ایسے علم سے پناہ جو غرور و تکبر میں مبتلا کرے اور نقصان پہنچائے ۔
ج جہل تے علم فرق ایہو، فرمان تے عمل ایمان جانیں
سلطانؒ نوں آدم زمان سمجھ، اس دے منکر نوں شیطان جانیں
مزار نہیں انوار ویکھیں، ایمان تے ادیان جانیں
سلطان بہادر شاہؒ آستاں توں چا نہیں سر، رَدِّ بلا جہان جانیں
مفہوم: پیر بہادرعلی شاہؒ فرماتے ہیں کہ جاہل اور علم رکھنے والوں میں یہی فرق ہے کہ جاہل شیطان صفت، ظاہری حکم اور ظاہری عمل کو ایمان سمجھتا ہے لیکن اس کی حقیقت اور روح سے بے خبر ہوتا ہے ۔حضرت سلطان باھوؒ کو آدم زمان یعنی اپنے زمانہ کا آدم(مراد انسانِ کامل) سمجھ اور جو اُن کی اس حقیقت سے انکار کرے اسے شیطان سمجھ ۔ ان کے مزار پاک کو محض اینٹ اور پتھرکی عمارت نہ سمجھ بلکہ اس سے ظاہر ہونے والے اللہ کے انوار کو باطنی بصیر ت سے دیکھ اور دین و ایمان سمجھ۔ خود کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:سلطان بہادرعلی شاہ ؒان کے مزار پاک سے اپنا سر نہ اٹھا، ان کے آستانہ کو دنیا وآ خرت کے لیے تمام بلائوں کو دور کرنے والا سمجھ ۔
ح حق باھوؒ تحقیق ہویا، اس دا ماسویٰ ہوس پیارے
اس راہ تو جو گمراہ کرے، لاحول پڑھیاں ونجے نس پیارے
اس نوں جان تے سن تے ویکھ بھائی، کر غیر توں قطعاً بس پیارے
سلطان بہادر شاہؒ دوا امراض دا ہے، ایہہ نام سوہنے دا دَس پیارے
مفہوم: اے عزیز طالبِ مولیٰ !حضرت سخی سلطان باھوؒ کا طریق راہِ حق ہے ان کے سلسلہ کے علاوہ جو بھی راہ ہے، ہوس ہے ۔ ان کی راہ پر چلنے سے اگر کوئی شیطان صفت تمہیں گمراہ کرے تو لاحول پڑھ لیاکرو تاکہ وہ بھاگ جائے۔ میرے عزیز بھائی! حضرت سخی سلطان باھوؒ کی حقیقت کو جان، سن اور بصیرت کی آنکھ سے دیکھ اور ان کے سلسلہ کے علاوہ اور جو بھی راہ ہے اس سے علیحدہ ہوجا۔پیر بہادر شاہ ؒ طالبانِ مولیٰ کو نفسانی امراض کی دوا کے لیے حضرت سلطا ن باھوؒ کے اسم مبارک کا وظیفہ ہی بتا۔
خ خدا دا لقا چاہیں، سلطانؒ دا در بہو مل پیارے
لَبَّیْکَ عَبْدِی صدا آوے، اس صدا تے ہل چل پیارے
وَاذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ، تینوں اپنی رہے نہ کل پیارے
سلطان بہادر شاہؒ ہو ہادی سلطانؒ سوہناں، ہر دم سدے وَل وَل پیارے
مفہوم: اگر تو دیدارِ الٰہی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے حضرت سخی سلطان باھوؒ کے در کو ہمیشہ کے لیے تھام لے۔ ان کی بارگاہ سے لَبَّیْکَ عَبْدِی (اے میرے بندے میں حاضر ہوں) کی صداآتی ہے ۔اس صدا کو وسیلہ بناکرراہِ فقر اختیار کر۔ اے عزیز طالبِ مولیٰ! اللہ تعالیٰ کا ایسے ذکر کرو کہ تمہیں اپنی بھی خبرنہ رہے۔اے سلطان بہادر شاہؒ حضرت سخی سلطان باھوؒ کتنے ہادی صفت ہیں جو ہر دم طالبانِ مولیٰ کو ہدایت سے نوازنے کی صدا دیتے ہیں ۔
د دنیا متاعِ غرور بھائی، ہو دور سلطان پسند کرے
’’لا‘‘ تلوار چھک ماسویٰ تے، اثبات اِلٰہ پسند کرے
محل شریف نوں عرش سمجھ، وسواس نہ تینوں بند کرے
سلطان بہادر شاہؒ اس رمز نوں کون جانے، بادشاہ جینوں خورسند کرے
مفہوم: دنیا کی محبت غرور و تکبر پیدا کرتی ہے، جو اسے دل سے نکالے اسے انسانِ کامل حضرت سخی سلطان باھوؒ پسند فرماتے ہیں۔ جو ’’لا‘‘کی تلوار سے غیر ماسویٰ اللہ کی نفی کردے اور اللہ کے ساتھ اثبات پالے وہی پسندیدہ ہے ۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ کے محل پاک کو عرش سمجھو، خطرات و شیطانی وساوس کہیں تجھے اس سے دور نہ کر دیں ۔ سلطان بہادر شاہؒ اس حقیقت کو کون جانے کہ انسانِ کامل جسے چاہتا ہے اپنی مہربانی سے نوازتا ہے ۔
ذ ذکر تصور حق باھوؒ دے، حق یاھوُ اظہار کیتا
ہا اسم معظم برزخ جامع، کشف تمام اسرار کیتا
کلام اکرام حضور انور دی، سینہ پرُ انوار کیتا
حق یقین سلطان بہادر شاہؒ جد ہویا، حق نروار کیتا
مفہوم: حق باھوؒ یعنی حضرت سخی سلطان باھوؒکے ذکر و تصورمیں حق یاھو یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنا ظہو ر کیا ہے۔ آپ ؒ کا برزخ جامع ایسا جامع ہے جس نے تمام اسرارِ الٰہی کو ظاہر کر دیا ہے۔ آ پؒ کی پرُنور تعلیمات اور کلام نے سینہ نور سے منور کر دیا ہے۔ سلطان بہادر شاہؒ حق الیقین کا یہ مرتبہ تب حاصل ہوا جب اللہ نے اپنا فضل فرمایا۔
ر راز تے رمز انوکھڑی ہے، نابینا کلُ جہان میاں
ہے باھوُ یاھوُ تحقیقاً، چا علم کیتے نادان میاں
اَلْعِلْمُ حِجَابُ اْلَاکْبَرْ ، طین ڈِٹھا شیطان میاں
سلطان بہادر شاہؒ یقین دین بھائی، ربّ بخشے ایہہ سامان میاں
مفہوم: یہ راز و رمز کتنا انوکھا ہے کہ باھوؒ ہی تحقیقاًیاھو ہے۔لیکن بصیرت سے محروم لوگ اس راز سے ناواقف ہیں۔ درحقیقت ظاہری علم نے ان سب کی آنکھو ں پر گمراہی کی پٹی باندھ دی ہے ۔کیونکہ علم معرفتِ الٰہی کی راہ میں سب سے بڑا حجاب ہے جیسا کہ شیطان نے اپنے علم پر ہی غرور و تکبر کیااور حضرت آدمؑ کومحض مٹی کا ایک پتلا سمجھ کر اللہ کے حکم سے انکار کیا۔ سلطان بہادر شاہؒ یقین ہی اوّل دین ہے۔اور اللہ تعالیٰ ہی یہ نعمت عطا کرے۔
ز زاری کر ہر آن میاں، سلطانؒ دا چم آستان پیارے
ہو دربان ہر زمان میاں، شیطان توں منگ امان پیارے
جد ایہہ تصور ہویا، ہوسن کلُ اعیان عیان پیارے
سلطان بہادر شاہؒ طوفان ہے غیر اس دا، ایہہ کشتی نوح ؑامان پیارے
مفہوم: حضرت سخی سلطان باھوؒ کے آستانہ پر حاضر ہوکر محل پاک کو بوسہ دو اور ہر دم آپؒ کا غلام بن جانے کی فریاد پیش کرو۔ شیطان مردود سے پناہ مانگو۔ جب تم اس کوشش میں کامیا ب ہو جاؤ گے تو تمام اسرارِ الٰہی تم پر کھل جائیں گے ۔سلطان بہادر شاہؒ کا مزار پاک کشتیٔ نوح کی مانند ہے۔ انہی کے دامن سے وابستہ ہو جانے میں امان اور ان سے دوری مشکلات کا بھنور اور طوفان ہے۔
س سلطان خَلِیْفَۃُ الرَّحْمٰن، عجائب نور ظہور ہویا
مجتبیٰ ثانی تے لقب احمدؐ توں، ہدایت وچ منظور ہویا
پاک پا لباس عبودیت دا، خود یاھوُ مستور ہویا
سلطان بہادر شاہؒ پچھاتا جیں، او رموز و نور ضرور ہویا
مفہوم: حضرت سخی سلطان باھوؒ خلیفۃالرحمٰن اور نورِ الٰہی کا عجائب الغرائب اظہار ہیں۔ احمد مجتبیٰ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے آ ُپؒ کو مجتبیٰ آخرزمانی اورمصطفٰی ثانی کالقب عطا فرمایااور ہدایت سے نوازا۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ کے پاک جسمانی لباس میں یاھو نے خود کو پوشیدہ کیا ہے۔ سلطان بہادر شاہ ؒجو اس راز کو پہچان لیتاہے وہ خود بھی حقیقتاًنور اور سرِّ الٰہی بن جاتا ہے۔
ش شیطان دا کیا مقدور بھائی، سلطانؒ دے نام تے وار کرے
ایہہ نام اکرام دیوے جس جاہ نوں، رحمتِ حق ادوار کرے
ظلمات وہمات ونجن نفسانی، داخل وچ ابرار کرے
سلطان بہادر شاہؒ نصیب ہے بے نصیباں، لطفوں سد پیار کرے
مفہوم: شیطان کو کیا قدرت حاصل کہ وہ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے منسوب ہو جانے والے پر کوئی شیطانی حملہ کر سکے۔ آپؒ جس کسی کو بھی ظاہری اور باطنی مقام و مرتبہ سے نواز دیں اس پر رحمتوں کا نزول رہتا ہے۔ آپؒ نفسانی وہمات اور ظلمات کا خاتمہ کر کے طالبوں کو اولیا اللہ کی صف میں شامل کر لیتے ہیں۔ جن کو آپؒ اپنے محل پاک پر حاضری کی توفیق بخش کر لطف و کرم فرما دیتے ہیں ان بے نصیبوں کا نصیب چمکا دیتے ہیں۔
ص صبر فرمائے سلطانؒ سوہنا، پڑھ آیت نال قران بیلی
وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ، اہلِ اللہ دی شان بیلی
دَسَّے راہ کرُاہ تو منع کرے، جو مرید ہوئے باایمان بیلی
دم دم دے نال سلطان بہادر شاہؒ، رکھے طالب دا دھیان بیلی
مفہوم: میرے پیارے دوست حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اپنے مریدوں اور طالبوں کو کو صبرو ایمان کی دولت سے نوازتے ہیں۔ یہی اہلِ اللہ کی شان ہے کیونکہ اللہ قرآنِ پاک میں خود ارشاد فرماتاہے: ’’اور مطمئن کر لو اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر جو اپنے ربّ کو پکارتے ہیں صبح شام۔‘‘(سورۃ الکہف ۔28)آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنے مریدوں کو گمراہی سے محفوظ کر کے صراطِ مستقیم پر چلاتے ہیں اور ایمان کی دولت سے نواز دیتے ہیں۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ ہر دم اپنے مریدوں پر نظر کرم فرمائے رکھتے ہیں۔
ض ضرور ہے نور حقیقت دا، جس سمجھ لیا مقبول ہویا
بے سمجھاں نوں علم گمراہ کیتا، اَلْعِلْمُ حِجَاب فضول ہویا
موقوف سبھے گلاں فضل اُتے، معروف حصول وصول ہویا
سلطان بہادر شاہؒ امین یقین کیتا، اَتے خائن کلُ مجہول ہویا
مفہوم: یہ حقیقت ہے کہ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ کے نور کا اظہار ہیں جو اس حقیقت کو پہچان لیں وہ اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہو جاتے ہیں اور جو نہ سمجھیں وہ غافل اور جاہل ہیں۔ ان کا علم ان کے لیے حجاب اور گمراہی کا سبب ہے۔ اللہ کی معرفت کا حصول اور وصول سب فضلِ الٰہی پر منحصر ہے۔ روح اللہ کی امانت ہے ،جو اپنی روح کی حفاظت کرتا ہے وہی یقین کی دولت پاتا ہے اور جو اللہ کی امانت میں خیانت کرتا ہے وہ بالکل جاہل رہتا ہے ۔
ط طلب تینوں حق پاک دی ہے، اکھیں پا سلطانؒ دی خاک بھائی
انوار اسرار اظہار ہوون، ابصار ویکھن اللہ پاک بھائی
کنہہ کن ہووے مکشوف میاں، کناں نال سنیں لولاک بھائی
سلطان بہادر شاہؒ یقین بصارت ہے، نابینا بے ادراک بھائی
مفہوم: اس بیت میں حضرت پیر بہادر شاہؒ طالبانِ مولیٰ کو تلقین کرتے ہیں کہ اگر طلبِ مولیٰ رکھتے ہو تو حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے پیروں کی خاک اپنی آنکھوں میں ڈالو یعنی ان کے در کے غلام بن جاؤ۔ان کے وسیلہ سے تم پر انوار و اسرارِالٰہی ظاہر ہوں گے اور تمہیں اللہ پاک کا دیدار نصیب ہوگا ۔اس کا راز آشکار ہوگا اور لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہ ہوتے تو میں کائنات کو پیدا نہ فرماتا) کی صدا اپنے کانوں سے سنو گے۔ یقین کی دولت باطنی بصیرت والوں کو نصیب ہوتی ہے اور جو باطنی بصیرت سے محروم ہوں، وہ بے عقل اور ناسمجھ ہی رہتے ہیں۔
ظ ظاہر باطن اوّل آخر، ہکو نور ظہور ہویا
مفسر کنہہ حقائق کلی، حق باھوؒ مشہور ہویا
ہو یاھوُ ہادی باھوؒ، وچ بشریت مستور ہویا
سلطان بہادر شاہؒ حقیقت وچ ہا خود، ناظر منظور ہویا
مفہوم: ظاہر و باطن اور اوّل و آخر سب کا نور ایک ہی ذات میں ظاہر ہو گیا ہے اور وہ ذات حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی ہے۔ آپؒ تمام اسرارِ الٰہی اور حقائق کے مفسر ہیں اسی لیے آپ حق باھوؒ کے نام سے مشہور و معروف ہیں ۔ذاتِ حق تعالیٰ نے خود کو باھوؒ کے بشری لباس میں چھپا لیا ہے اسی لیے یاھو ہادی باھوؒ کی صورت میں ظاہر ہو گیا ہے لیکن درحقیقت ناظر و منظور سب خود اللہ ہی ہے۔
ع عشق دا مکتب کھولیا ہے، سلطانؒ سوہنے عالیشان سائیں
داخل مکتب ہوون، جانن یکساں سود زیان سائیں
دَسّے الف وکھائے ہک، صحیح استاد ہے اہلِ عرفان سائیں
سلطان بہادر شاہؒ مدارج طے ہوون، ہک آن تے ہک زمان سائیں
مفہوم: حضرت سخی سلطان باھوؒ عالیشان مرتبے کے حامل ہیں ۔آپؒ کی بارگاہ عاشقانِ الٰہی کا مکتب ہے۔ جو بھی اس مکتب میں داخل ہو جاتا ہے اس پر یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ آپؒ کے دامن سے جڑ جانے والوں کے لیے نفع و نقصان برابر ہے یعنی ان طالبانِ مولیٰ پر ہر چیز کی حقیقت عیاں ہو جاتی ہے اور اس لیے نہ نفع ہونے پر خوش ہوتے ہیں نہ نقصان پر افسردہ کیونکہ ان کی نظر ذاتِ حقیقی پر ہوتی ہے۔ حضرت سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کامل مرشد اور عارف باللہ ہیں جو طالب کو اسمِ اللہ ذات کا سبق پڑھا کر دیدارِ الٰہی سے نواز دیتے ہیں اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کی نظرِکرم سے ایک لمحہ میں تمام ظاہر و باطنی مراتب طے ہو جاتے ہیں۔
غ غیب ویکھے لاریب میاں، جیہڑا خاص مرید سلطانؒ ہووے
جیندی اکھ ہے صدق یقین بھائی، او ناظر نور فیضان ہووے
غبار تے دھوں اندھار ویکھے، جینوں شک یا بے ایمان ہووے
سلطان بہادر شاہؒ رفیق سلطانؒ جیندا، اس توں دور خناس شیطان ہووے
مفہوم: جو حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کا خاص مرید بن جاتا ہے وہ غیب دیکھتا ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہوتی۔ میرے عزیز بھائی! جس کی آنکھ صدق اور یقین سے پختہ ہو وہ اس نورِ فیض کا دیدار کرتا ہے اور جو بے ایمان اور شک کرنے والا ہوتا ہے اس کی آنکھ میں نفس کی گندگی اور گرد و غبار کے باعث اندھیرا چھایا رہتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ جس کے رفیق ہوں اس سے شیطان اور خناس دور ہو جاتے ہیں۔
ف فکر تصور دائم عقل، سلطانؒ دا کر آن پیارے
ہر دم آستان دھیان جینوں، او با ایمان امان پیارے
بادشاہ نگاہ ہر وقت کرے، ہو نال خیال دھیان پیارے
سلطان بہادر شاہؒ تعلق غیر دا چھڈ، کر ورد سلطانؒ سلطانؒ پیارے
مفہوم: پیارے طالب! حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے محل پاک کو ہر وقت اپنی توجہ فکر تصور اور سوچ میں رکھ۔ جو اس تصور میں پختہ ہو جائے وہ حضرت سلطان باھوؒ کی امان میں آجاتا ہے اور با ایمان رہتا ہے ۔جو اپنے پیارے محبوب کو ہر وقت سوچ و خیال میں رکھے بادشاہ (انسانِ کامل حضرت سلطان باھوؒ) کی نظر کرم بھی اس پر رہتی ہے۔ خود کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں: اے سلطان بہادر شاہؒ !غیر اللہ کو چھوڑ دے اور سلطان سلطان کا ورد زبان پر جاری کر لے ۔
ق قامت حضور ہے برزخ جامع، وچ ازل الازال میاں
اسمآء صفات نوں فیض دیوے، مسمیّٰ ذوالافضال میاں
پاک ادراک حقیقت پائی، باھوؒ باکمال میاں
سلطان بہادر شاہؒ نہ پہنچے ہرگز، ناقص نفس خیال میاں
مفہوم: حضرت سخی سلطان باھوُرحمتہ اللہ علیہ کی ذات روزِازل سے بھی پہلے جامع برزخ تھی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ صاحبِ مسمیّٰ مرشد ہیں جن کے فضل سے اسما و صفاتِ الٰہی کا فیض ہر خاص و عام پر جاری و ساری ہے۔ پاکیزہ عقل و فہم رکھنے والے اس حقیقت کو سمجھ جاتے ہیں کہ آپؒ کتنے باکمال مرشد ہیں البتہ بیمار اور ناقص نفس والوں کا وہم و گمان بھی اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
ک کرم ہویا اللہ پاک دا جی، جینوں نصیب در سلطانؒ ہویا
ایہہ دوا امراضاں ساریاں دا، اتے خاص طبیب رُوحان ہویا
فیض فضل بقا باللہ دا، حق باھوؒ حبیب رحمان ہویا
سلطان بہادر شاہؒ مشاہدہ انوار اللہ ہے حق باھوؒ، ایہہ عجیب عرفان ہویا
مفہوم: جس پر اللہ پاک کی مہربانی اور کرم نوازی ہو جائے اس کو حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہ کا شرف نصیب ہو جاتا ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ خاص روحانی طبیب ہیں جو تمام روحانی امراض سے شفا بخشتے ہیں۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ بقا باللہ اور محبوبِ رحمان ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ ہر خاص و عام کو اپنے فیض و فضل سے نواز رہے ہیں۔ سلطان بہادر شاہؒ کو یہ منفرد عرفان نصیب ہوا کہ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی ذات انوارِ الٰہی کے مشاہدہ کا ذریعہ ہے۔
ل لکھ لے تختی دل اُتے، ایہو نام سخی سلطانؒ دا جی
نفی اثبات نور و نور ہوسی، کر ذکر دم دم سبحان دا جی
تصور اسم اللہ ذکر پاس انفاس، اندھیرا دور ہووے بے جان دا جی
سلطان بہادر شاہؒ ذکر انوار چمکن، کر ورد باھوُ سلطانؒ دا جی
مفہوم: اے طالبِ مولیٰ! اپنے دل کی تختی پر حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کا اسمِ مبارک لکھو، ہر دم ذکرِسبحان کرو اور اپنے دل سے ہر غیر اللہ کی نفی کر دو تاکہ قلب میں صرف اللہ کا نور باقی رہ جائے۔ اسمِ اللہ ذات کا تصور اور ذکرِپاس انفاس کرو، اس سے مردہ دل کا اندھیرا دور ہو جائے گا۔ اے سلطان بہادر شاہؒ! حضرت سخی سلطان باھوؒ کے اسم مبارک کا وظیفہ پڑھو تاکہ دل میں ذکر و انوار روشن ہو جائیں۔
ل لا نفی کر ماسویٰ، اثبات رہے باھوؒ حق بیلی
تصور ذکر اسم باھوؒ، جد دل تے جاوے پک بیلی
نور انوار ظہور ہووے، تداں دور ہووے وہمی شک بیلی
سلطان بہادر شاہؒ رمز ہے خاص ایہا، خود نور ویکھیں باھوؒ حق بیلی
مفہوم: میرے پیارے دوست! لا کی تلوار سے غیر اللہ کے نقوش دل سے مٹا دو تاکہ دل میں حق باھوؒکی ذات ظاہر ہو جائے۔ جب حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے اسم مبارک کے ذکر اور تصور میں تو پختہ ہو جائے گا تو انوارِ الٰہی کا تجھ میں ظہور ہوگا اور شکوک و شبہات رفع ہو جائیں گے۔ سلطان بہادر شاہؒ یہی اصل حقیقت ہے کہ سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ حق کو دوست رکھنے والے اور انوارِ الٰہی کا مشاہدہ کرنے والے ہیں۔
م محرم ہو اسم باھوؒ دا، نال صدق یقین بھائی
چمُ آستان سلطانؒ ہر آن میاں، تاں ہوسی حق یقین بھائی
ولی کامل مکمل اکمل نور اللہ، جانے سچ تے پک امین بھائی
سلطان بہادر شاہؒ ہے ہر جا موجود باھوؒ، چھڈ شک ہے ایہہ پک دین بھائی
مفہوم: اے میرے بھائی! صدق و یقین کے ساتھ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے اسم مبارک کی حقیقت سے آگاہی حاصل کرو۔ پھر جس وقت بھی ان کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عقیدت و محبت سے محل پاک کو بوسہ دو گے تجھے حق الیقین کا مرتبہ حاصل ہو گا۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کامل، مکمل اور اکمل ولی اللہ ہیں۔ آپؒ نورِ الٰہی کے مظہر اور امانتِ الٰہیہ کے حامل ہیں اسی بنا پر ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں۔ اس حقیقت پر شک نہ کرو کیونکہ یہی حقیقی دین ہے۔
ن نفس شیطان نابود ہووے، جیندا حق باھوؒ معبود میاں
کر فکر تصور ذکر یاھو، اَللّٰہ ھُو باھوؒ موجود میاں
نور انوارِ محمدیؐ دا، مشہور باھوؒ مشہود میاں
سلطان بہادر شاہؒ ملائک عشاق دا جی، حق باھوؒ مسجود میاں
مفہوم: جو لوگ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کو معبودِ حق کے اظہار کی صورت میں پہچان لیتے ہیں وہ نفس اور شیطان سے نجات پا لیتے ہیں۔ غور و فکر، ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات یعنی اَللّٰہ ھُو اور یَاھُو کر۔ اس سے تجھ پر یہ حقیقت آشکار ہو جائے گی کہ باھوؒ ہر جگہ موجود ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ انوارِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا مشاہدہ کرنے میں مشہور و معروف ہیں۔ فرشتے آپؒ کے حضور محبت اور عقیدت کے اظہار کے طور پر سجدہ پیش کرتے ہیں۔
و ونج نہیں بوہے غیر اُتے، سلطانؒ دا در بہو مل پیارے
ایہہ بابِ جنان رضوان بھائی، کرَسی مشکلاں سب حل پیارے
نور وچ ہوویں جد فانی فی اللہ، تینوں اپنی رہے نہ کل پیارے
وَاذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ سلطان بہادر شاہؒ صحیح ہویا، کریں ذکر باھوؒ ول ول پیارے
مفہوم: حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے در کے علاوہ کبھی کسی اور کی جانب رجوع نہ کرو۔ میرے بھائی! آپ رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہ جنت کا دروازہ ہے۔ اسی بارگاہ سے تیری تمام مشکلات حل ہو جائیں گی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے وسیلہ سے جب اللہ کے نور میں فنا فی اللہ ہو جائے گا تو تجھے اپنی فکر اور ہوش نہیں رہے گی۔ جو اللہ تعالیٰ کے فرمان وَاذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ’’اپنے ربّ کا ذکر ایسے کرو کہ تمہیں اپنی بھی خبر نہ رہے۔‘‘ (سورۃالکہف ۔24) میں کامل ہو گیا وہ ہمہ وقت حضرت سخی سلطان باھوؒ کے ذکر میں مشغول رہتا ہے۔
ہ ہدایت وچ منظور ہویا، ہادی پیر باھوؒ سلطانؒ سائیں
پا لباس عبودیت دا، ہادی ہدایت کرے عالیشان سائیں
احدیت وچ احد ہے سوہنا، عبودیت وچ سبحان سائیں
سلطان بہادر شاہؒ ربّ نوں ملن دا طریق ایہو، کر ورد سلطانؒ سلطانؒ سائیں
مفہوم: حضرت سخی سلطان باھوؒ کو مخلوقِ خدا کو ہدایت سے نوازنے کے لیے منظور و مقبول کیا گیا ہے۔ بلکہ ہادی اللہ تعالیٰ خود حضرت سلطان باھوؒ کے لباسِ عبودیت میں مخلوقِ خدا کو ہدایت کے فیض سے نواز رہا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ مقامِ احدیت میں احد ہیں اور آپؒ کے لباسِ عبودیت میں سبحان خود ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وصال اور دیدار کو پانے کا طریقہ یہی ہے کہ حضرت سخی سلطان باھوؒ کے نام کا ورد کرتے رہیں۔
ی یاد یاھو اللہ ھو، باھوؒ دَم دَم دے نال دھیان ہووے
ذکر پاک باھوؒ تصور اسم یاھو، شاغل جسم تمام تے جان ہووے
ایہہ سنسار غبار اندھار سارا، اس وچ روشن حق سبحان ہووے
سلطان بہادر شاہؒ دور اندھاریاں ساریاں نی، جے دل وچ حق باھوؒ سلطانؒ ہووے
مفہوم: ہر سانس کے ساتھ اسمِ اللہ ذات اور اسمِ یاھو کا ذکر کرنے سے حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی یاد دل میں رہتی ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوؒکا ذکر کرنے سے تمام جسم و جان اسمِ یاھوؒ میں مشغول ہو جاتا ہے اور دنیاوی خواہشات کا جتنا بھی اندھیرا اور گرد و غبار ہے سب ختم ہو کر جلوۂ حق روشن ہو جاتا ہے۔ اگر دل میں حق باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی ذات سما جائے تو دل میں موجود سارا اندھیرا دور ہو جاتا ہے۔
معزز قارئین!شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان پیر سیدّ محمد بہادر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی سی حرفی میں حضرت سخی سلطان باھوؒ کے جس فیض کا ذکر کیا ہے وہ دورِ حاضر میں حضرت سلطان باھوؒ کے سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام اور اکتیسویں شیخِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی صورت میں جاری ہے۔ بلا شبہ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی صحبت میں حاضر ہونے والا آپ کی نگاہِ حق اور اسمِ اعظم کے فیض کی بدولت مقصدِحیات سے آگاہ ہوکر اپنا ازلی نصیبہ یعنی معرفتِ حق تعالیٰ پالیتا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کا در ہر خاص و عام کے لیے ہمہ وقت کھلا ہے۔