کلید التوحید (کلاں) Kaleed ul Tauheed Kalan
قسط نمبر24 مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
فنا فی اللہ فقیر وہ ہے جو نفس پر امیر اور برکتِ قرآنِ مجید کی بدولت اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ (ترجمہ: بے شک اللہ ہر شے پر قادر ہے۔ سورۃ البقرہ۔20) کے مرتبہ پر ہوتا ہے۔ لیکن جو خواہشاتِ نفس کو مغلوب نہیں کرتا اور نہ ہی نفس پر سواری کرتا ہے تو باطن کے ان مراتب تک پہنچنا اس کے لیے محال ہے اگرچہ تمام عمر ریاضت میں گزار دے اس کو کچھ فائدہ اور نفع نہ ہوگا۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی۔ لا فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی (سورۃ الذاریات۔40-41)
ترجمہ: اور جس نے اپنے آپ کو خواہشاتِ نفسانی سے روکا پس اس کا ٹھکانہ جنتِ ماویٰ ہے۔
ابیات:
نفس وسوسہ واہمہ ہم خطرات بد
قوت و قوت نفس را حرص و حسد
ترجمہ: نفس وسوسہ، وہمات اور خطراتِ بد پیدا کرتا ہے نفس کی قوت اور غذا حرص و حسد ہے۔
کی شناسد نفس را اہل از صنم
کی شناسد نفس را آں مردہ دم
ترجمہ: جو صنم پرست اور مردہ دم ہوں وہ نفس کو کیسے پہچان سکتے ہیں؟
کی شناسد نفس را ایں مردِ عام
ہر کہ یابد نفس را عارف تمام
ترجمہ: نفس کو یہ عام لوگ کیسے پہچان سکتے ہیں۔ جو نفس کو پہچان لے وہ عارف کامل ہو جاتا ہے۔
کی شناسد نفس را اہل از غرور
قتل سازد نفس را اہل از حضور
ترجمہ: مغرور لوگ نفس کو کیسے پہچان سکتے ہیں؟ لیکن اہلِ حضور نفس کو قتل کر دیتے ہیں۔
نفس را تحقیق کردم از خدا
ہر حقیقت یافتم از مصطفیؐ
ترجمہ: میں نے اللہ کی مہربانی سے اپنے نفس کی تحقیق کی اور اس کی ہر حقیقت کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پایا۔
نفس ناری عاقبت چوں نور شد
قلب قالب ہر اعضا مغفور شد
ترجمہ: نفس کی آگ جب نور بن جاتی ہے تو قلب اور وجود کے تمام اعضا مغفور ہو جاتے ہیں۔
ہر کہ فارغ ذکر فکرش شد حضور
میبرآید ز نفس کافر غرق نور
ترجمہ: جو ذکر و فکر سے آزاد ہو کر حضوری میں پہنچ جائے وہ کافر نفس سے خلاصی پا کر نور میں غرق ہو جاتا ہے ۔
انبیا را نفس صورت انبیا
اولیا را نفس صورت اولیا
ترجمہ: انبیا کا نفس انبیا صفت اور اولیا کا نفس اولیا صفت ہوتا ہے۔
نفس کافر را بود صورت کفار
ریسمان در گلو زاں لعنت زنار
ترجمہ: کافروں کے نفس کی صورت بھی کفار جیسی ہوتی ہے جن کے گلے میں زنار کی لعنت پڑی ہوتی ہے۔
نفس خرس و خوک سگ دیوانہ
از خدا و از نبیؐ بیگانہ
ترجمہ: نفس ریچھ، خنزیر اور کتے کی مثل دیوانہ اور اللہ اور اس کے رسولؐ سے بیگانہ ہوتا ہے۔
مردہ دل را نفس جن است یا خبیث
گرچہ خواند بر زبان نص و حدیث
ترجمہ: جن کا دل مردہ ہو ان کا نفس شیطان و خبیث ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ زبان سے قرآن و حدیث کی آیات پڑھتے ہوں۔
نفس شیطان بد بلا اہل زشت
نفس آدم را بر آورد از بہشت
ترجمہ: نفس شیطان سے بھی برُی بلا اور بدبخت ہوتا ہے۔ اسی نفس نے آدم ؑ کو جنت سے نکلوایا۔
گر تو خواہی نفس را باخود رفیق
غرق شو دریائے وحدت زاں عمیق
ترجمہ: اگر تو نفس کو اپنا ساتھی بنانا چاہتا ہے تو وحدت کے گہرے سمندر میں غرق ہو جا۔
صاحبِ نفسِ مطمئنہ مراقبہ میں غرق رہتا ہے اور آنکھیں بند کر کے خونِ جگر پیتا ہے۔ ایسا مراقبہ اور مکاشفہ صرف توحید کے سمندر میں غرق ہو کر ہی ہو سکتا ہے۔ جو ان مراتب تک نہیں پہنچتا اس کا نفس فرمانبردار اور مسلمان نہیں ہوتا اور نہ ہی مومن کے مرتبہ پر پہنچتا ہے۔ معرفتِ الٰہی میں محو ہو جانا اور نفس مردود کو فنا اور نیست و نابود کرنا مومن کا مرتبہ ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ بِالْفَنَآئِ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ بِالْبَقَآئِ
ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو فنا سے پہچانا پس تحقیق اس نے اپنے ربّ کو بقا سے پہچانا۔
صاحبِ نفسِ امارہ کا مخلوق کے سامنے منہ پر کپڑا ڈالنا اور مراقبہ میں آنکھیں بند کر کے بے خبری اور بے ہوشی کا مظاہرہ کرنا خود فروشی ہے۔ وہ اہلِ تقلید میں سے ہے نہ کہ اہلِ توحید میں سے۔ مرشد کامل کو اس طرح شناخت کیا جا سکتا ہے کہ مرشد کامل صادق طالب کو آٹھ چیزیں عطا کرتا ہے جس سے طالب ہرگز خطا نہیں کرتا اور اگر خطا کر بھی لے تو مردود نہیں ہوتا۔ وہ آٹھ چیزیں یہ ہیں اوّل صدق المقال(حق بات کہنا)، دوم اکل الحلال( حلال رزق کمانا اور کھانا)، سوم طاعت، چہارم ہمت و توفیق اور ہمت خواہشاتِ نفس سے نجات کو کہتے ہیں اور توفیق اللہ کی ناپسندیدہ اور شریعت کی منع کردہ چیزوں کو ترک کرنے کو کہتے ہیں۔ چار چیزیں باطن سے تعلق رکھتی ہیں اوّل ذکرِ زوال، دوم ذکرِ کمال، سوم ذکرِ حال اور چہارم ذکرِ احوال۔ جان لو کہ ذکرِ زوال اسے کہتے ہیں جس میں مشرق تا مغرب ہر خاص و عام مخلوق رجوع کرتی ہے اور تمام اہلِ دنیا ذاکر کے طالب مرید بن جاتے ہیں اور بادشاہِ دنیا اور اس کے تابع امرا سب اس کے حکم اور غلامی میں آ جاتے ہیں لیکن فقر کی نظر میں یہ مراتب کمینے، کمتر اور ادنیٰ ہیں۔ ان کو مخلوقِ الٰہی کا ولی کہتے ہیں نہ کہ خدا کا ولی۔ دوم ذکرِ کمال ہے۔ ذکرِ کمال اسے کہتے ہیں جس میں زمین و آسمان کے تمام فرشتے، اہلِ تسبیح فرشتے، حاملِ عرشِ اکبر فرشتے، چاروں مقربِ حق فرشتے اور تمام مؤکلات اس کے حکم کے تحت آ جاتے ہیں اور ہر کام میں اس کی مدد کرتے ہیں اور الہام کرتے ہیں اور وہ ذاکر توجہ باطنی سے دیکھتا ہے کہ فرشتوں کے بیشمار لشکر اس کے اردگرد ہیں۔ یہ مراتب بھی فقر کی نظر میں کمتر ہیں کہ وہ فرشتوں کا ولی ہے نہ کہ اللہ کا ولی۔ سوم ذکرِ حال ہے۔ ذکرِ حال اسے کہتے ہیں جس میں ذاکر ازل سے ابد تک کے تمام انبیا و اولیا اللہ مومن و مسلمانوں کی ارواح سے ملاقات اور مصافحہ کرتا ہے۔ یہ مراتب بھی ادنیٰ ہیں کہ وہ ارواح کا ولی ہے نہ کہ اللہ کا ولی۔ چہارم ذکرِ احوال ہے۔ ذکرِ احوال اسے کہتے ہیں کہ ذاکر غرق فی التوحید اور نورِ حضور کے لازوال مراتب تک پہنچ جاتا ہے اور جو اِن مراتب تک پہنچ جائے اس کا وجود پاک ہو جاتا ہے اور وہ طالب معرفتِ الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لائق ہو جاتا ہے۔ مرشد کامل روزِ اوّل ہی یہ تعلیم و تلقین کرتا ہے جس سے وہ دل کے اندر پوشیدہ و نہاں اسرارِ سبحان سے واقف ہو کر لامکان میں مشاہدہ میں غرق ہو جاتا ہے۔ یہ ولی اللہ عارف باللہ اولیا اللہ فقیر کے مراتب ہیں جو اللہ کی ذات میں فنا ہو چکا ہو اور حق سے وصال پا کر بقا باللہ کے لازوال مرتبہ پر پہنچ چکا ہو۔
ہر طریقے کی انتہا کامل قادری کی ابتدا کو بھی نہیں پہنچ سکتی۔ سروری قادری کامل کی ابتدا کیا ہے۔ کامل قادری اپنی نظر یا تصور اسمِ اللہ ذات یا ذکرِ کلمہ طیب کی ضرب یا باطنی توجہ سے طالبِ مولیٰ کو معرفتِ الٰہی کے نور میں غرق کر دیتا ہے اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچا دیتا ہے۔ یہ کامل قادری کا روزِ اوّل کا سبق ہے۔ جو یہ سبق نہیں پڑھاتا اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک نہیں پہنچاتا وہ کامل قادری نہیں۔ اس کی مستیٔ حال محض خام خیالی ہے کیونکہ قادری ہمیشہ نور، معرفتِ الٰہی اور وصال میں غرق ہوتا ہے۔ وصال بھی دو قسم کا ہوتا ہے ایک وصال وہ جو تجلیٔ الہام کے باعث ہے۔ دوم اس تجلی میں مکمل غرق کا وصال۔ جو مرشدطالبوں کو ان مراتب تک نہیں پہنچاتا اور غوث، قطب پر غالب نہیں کرتا وہ کامل قادری نہیں ہے۔ کامل قادری شہسوار کی مثل ہے۔ لومڑی، گیڈر اور کتے شیر کے سامنے شرمندہ حال ہو جاتے ہیں۔ ان کو کیا قدرت کے شیر کے سامنے دم ماریں۔
شرح ازل و ابد اور درجہ بدرجہ کل مخلوقات
قطعہ:
جائی کہ من رسیدم امکان نہ ہیچ کس را
شہباز لامکانم آن جا کجا مگس را
ترجمہ: میں جس جگہ پہنچا ہوں وہاں کسی کے پہنچنے کا امکان نہیں۔ میں لامکان کا شہباز ہوں وہاں مکھیوں کی گنجائش نہیں۔
لوح و قلم و عرش و کرسی کونین راہ نیابد
فرشتگان نہ گنجد آنجا نہ جائے ہوس را
ترجمہ:لوح و قلم، عرش و کرسی اور دونوں جہان کو بھی وہاں پہنچنے کی راہ نہیں ملتی۔ نہ فرشتے وہاں تک رسائی پا سکتے ہیں اور نہ ہی اہلِ ہوس کے لیے وہاں کوئی جگہ ہے۔
یہ کامل اور عیاں معرفتِ توحید اسرارِ ربانی کا مغز ہے ۔یہ ذکرِ وجدانی کی انتہا اور شریعت کی بنیاد ہے یہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مدد اور قرآن و حدیث پر عمل سے حاصل ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ کن فیکون کے راز کو بیان کرے تو فرمایا:
کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِاُعْرَفَ
ترجمہ: میں ایک پوشیدہ خزانہ تھاپس میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں تو میں نے اپنی پہچان کے لیے مخلوق کو تخلیق کیا۔
اور بائیں جانب قہر و جلال سے نظر کی جس سے نارِ شیطانی پیدا ہوئی اور دائیں طرف لطف و کرم، جمعیت، رحمت، شفقت اور التفات سے نظر ڈالی تو آفتاب سے روشن تر نورِ محمدی پیدا ہوا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے کن کہا تو کل و جز مخلوقات اور موجودات کی ارواح مراتب بہ مراتب اور جماعت بہ جماعت اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر صف بہ صف باادب کھڑی ہو گئیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ (سورۃ الاعراف۔172)
ترجمہ: کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟
سب ادنیٰ و اعلیٰ ارواح نے جواب دیا:
قَالُوْا بَلٰی (سورۃ الاعراف۔172)
ترجمہ: ان سب نے کہا ہاں کیوں نہیں (تو ہی ہمارا ربّ ہے)۔
قَالُوْا بَلٰی کہنے پربعض ارواح اسی وقت منکر اور پشیمان ہو گئیں جو کہ کافروں، مشرکوں، منافقوں اور کاذبوں کی ارواح تھیں اور بعض ارواح قَالُوْا بَلٰی کہنے سے خوش تھیں اور آوازِ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ پر مسرور ہو گئیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اے ارواح! جو کچھ تم چاہتی ہو مانگو تاکہ میں تمہیں عطا کروں‘‘۔ اس پر سب ارواح نے کہا ’’خداوند! ہم تجھ سے تجھی کو مانگتے ہیں‘‘۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ارواح کے بائیں ہاتھ پر دنیا اور اس کی زینت، آرائش، زیبائش اور نظارے ارواح کے سامنے پیش کیے جس پر شیطان نفسِ امارہ کی مدد سے دنیا میں داخل ہو گیا اور جیسے ہی دنیا میں آیا تو اس نے بلند آواز سے چوبیس (24) بانگیں دیں جس پر نو (9) حصہ ارواح شیطان کی اِن بلند اور خوش آواز بانگوں کو سن کر شیطان کی راہ پر چل دیں۔ وہ چوبیس شیطانی بانگیں یہ ہیں:
1۔ سرود کی بانگ
2۔ حسن پرستی کی بانگ
3۔ انا، خواہشاتِ نفس اور مستی کی بانگ
4۔ شراب نوشی کی بانگ
5۔ بدعت کی بانگ
6۔ ترکِ نماز کی بانگ
7۔ سرود اور گانے کے اسباب جیسا کہ طنبورہ، باجا، ڈفلی، دف اور ڈھول اور ان جیسے دیگر ناشائستہ آلات کی بانگ
8۔ ترکِ جماعت کی بانگ
9۔ کینہ کی بانگ
10۔ غفلت کی بانگ
11۔خود پسندی کی بانگ
12۔ ریا کی بانگ
13۔ حرص کی بانگ
14۔ حسد کی بانگ
15۔ تکبر کی بانگ
16۔ نفاق کی بانگ
17۔ غیبت کی بانگ
18۔ شرک کی بانگ
19۔ کفر کی بانگ
20۔ جہالت کی بانگ
21۔ جھوٹ کی بانگ
22۔ بدگمانی کی بانگ
23۔ بدنظری کی بانگ
24۔ طمع کی بانگ
جو ان صفات کو اختیار کرتا ہے اس کی روح اس گروہ سے ہے جس نے شیطانی بانگوں کو سنا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْاٰنَ کَمَا کَانَ
ترجمہ: وہ ویسا ہی ہے جیسا تھا۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
تُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ (سورۃ آلِ عمران۔26)
ترجمہ: وہ جسے چاہے ذلت دے۔
اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَآئِ (سورۃ البقرہ۔268)
ترجمہ: شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے۔
جس نے شیطان سے تعلق جوڑا اور اس کی پیروی کی وہ مراتبِ دنیا پر ہے اور وہ دنیا کو پسند کر کے دنیا میں غرق ہو گیا۔ ان نو حصہ ارواح میں سے ایک حصہ ارواح حق تعالیٰ کے حضور عاجزی سے کھڑی رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے لطف و کرم سے فرمایا ’’اے ارواح! مجھ سے جو چاہتی ہو مانگو تاکہ میں تمہیں عطا کروں‘‘۔ باقی ایک حصہ ارواح نے کہا ’’خداوند! ہم تجھ سے تجھی کو چاہتی ہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دائیں ہاتھ پر جنت، حور و قصور، جنت کی نعمتوں کی لذت اور اس کی تمام زینت اور زیبائش کو ارواح کے سامنے پیش کیا تو نو حصہ ارواح جنت کی طرف آ گئیں۔ ان میں سے جو ارواح سب سے پہلے جنت میں داخل ہوئیں وہ اہلِ تقویٰ کی تھیں جنہوں نے خوش آوازی سے تقویٰ کی بانگ دی جسے سنتے ہی دیگر متقین جیسا کہ عالم، فاضل، عامل اور پرہیزگاروں کی ارواح جنت میں داخل ہو گئیں اور شریعتِ محمدی پر غالب رہیں۔ باقی ایک حصہ ارواح حق تعالیٰ کے حضور کھڑی رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے لطف و کرم سے فرمایا ’’اے ارواح! مجھ سے جو چاہتی ہو مانگ لو تاکہ میں تمہیں عطا کروں‘‘۔ ان ارواح نے جواب دیا ’’خداوند! ہم تجھ سے تجھی کو چاہتے ہیں‘‘۔ حتیٰ کہ دنیا و عقبیٰ کی بانگوں کی ہزاروں آوازیں بھی ان کے کانوں تک نہ پہنچیں کیونکہ وہ اشتیاق کے ساتھ فنا فی اللہ نور اور بقا باللہ حضور کی حالت میں غرق رہیں۔ یہ فقیر عارف باللہ ہیں جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اتباع میں ان کی مجلس میں حاضر رہتے ہیں جن کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَ الْفَقْرُ مِنِّیْ
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔
اَلدُّنْیَا حَرَامٌ عَلٰی اَھْلِ الْعُقْبٰی وَ الْعُقْبٰی حَرَامٌ عَلٰی اَھْلِ الدُّنْیَا وَ الدُّنْیَا وَ الْعُقْبٰی حَرَامٌ عَلٰی طَالِبِ الْمَوْلٰی
ترجمہ: دنیا اہلِ عقبیٰ پر حرام ہے اور عقبیٰ اہلِ دنیا پر حرام ہے اور دنیا و عقبیٰ دونوں طالبِ مولیٰ پر حرام ہیں۔
مَنْ لَہُ الْمَوْلٰی فَلَہُ
الْکُلُّ
ترجمہ: جسے مولیٰ مل گیا اسے سب کچھ مل گیا۔
(جاری ہے)