کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan – Urdu Translation

Spread the love

Rate this post

کلید التوحید (کلاں)   – Kaleed ul Tauheed Kalan

قسط نمبر31                                                                                مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

مصنف کہتا ہے:بعض آدمی صورت سے انسان لیکن سیرت سے حیوان ہوتے ہیں۔ انسانِ کامل پانچ صفات کا حامل ہوتا ہے علم، ادب، حیا، تصدیق، یقین۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ اعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ۔ (15:99)
ترجمہ: اور اپنے ربّ کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ یقین حاصل ہو جائے۔ 

ابیات:

یقین از یک پدر یک پیر باشد
دوئی را از دل خود می تراشد

ترجمہ: ایک مرشد پر ہی یقین ہونا چاہیے جیسے ایک بیٹے کو ایک باپ پر یقین ہوتا ہے اور یقین ہی دل سے دوئی کو نکالتا ہے۔ 

یقین شد از یقین تا وقت مردن
یقین باطاعت است لب گور بردن

ترجمہ: یقین مرتے دم تک برقرار رہنا چاہیے۔ یہ یقین ہی ہے جو قبر میں جانے تک اطاعت میں مشغول رکھتا ہے۔

یقین از دل کشاید راز اﷲ
خطی در کش بگرد لاسویٰ اﷲ

ترجمہ: یقین کے ذریعے دل میں اسرارِ الٰہی منکشف ہوتے ہیں اور یقین ماسویٰ اللہ ہر شے کو مٹا دیتا ہے۔

یقین امداد توفیق از الٰہی
یقین فیضی دہد فضلش آگاہی

ترجمہ: یقین اللہ کی مدد اور توفیق کا نام ہے اور یہ یقین اللہ کے فضل سے آگاہی اور فیض بخشتا ہے۔

یقین غرقش بود غیرش نہ بیند
بہ مجلس اولیا اﷲ نشیند

ترجمہ: یقین (حق تعالیٰ کے دیدار میں) ایسے غرق کرتا ہے کہ طالب غیر اللہ کو نہیں دیکھتا اور (باطنی طور پر) اولیا اللہ کی ہم نشینی میں رہتا ہے۔ 

یقین در سجدہ و صوم و صلوٰتش
ز سجدہ کرد حاصل ذکر ذاتش

ترجمہ: سجدہ، روزہ اور نماز کو یقین سے ادا کر۔ اسی سجدہ سے تجھے ذکرِ ذات حاصل ہوگا۔

یقین ہرگز نہ دارد بے شریعت
اگر دعویٰ کند او در طریقت

ترجمہ: بے شریعت کو ہرگز یقین حاصل نہیں ہوتا۔ اگرچہ وہ دعویٰ کرے کہ وہ طریقت کی راہ پر ہے۔

یقین با شاہد و مشہود باشد
کہ ہر دم بندگی معبود باشد

ترجمہ: یقین شاہد (ذاتِ حق) کے ساتھ رہنے اور (اس میں غرق ہو کر) مشہود (یعنی عین وہی ذات) ہونے کا نام ہے جس کی بدولت انسان ہر لمحہ اللہ کی بندگی میں رہتا ہے۔

بکن طاعت کہ تا دم زندہ مانی
یقین شد بندگی تو یار جانی

ترجمہ: اپنی زندگی کے آخری دم تک طاعت کرو۔ تیرا یقین ہی اصل میں تیرے محبوب (اللہ) کی بندگی ہے۔

کہ ملحد بدعتش در کفر ورزی
یقین ہرگز نہ داری زاں تو لرزی

ترجمہ: یقین کے بغیر تو ملحد اور بدعتی ہو کر کفر میں مشغول ہو جائے گا۔ تو اسی لیے متزلزل رہتا ہے کہ تجھے یقین حاصل نہیں۔

چو قرب ایشاں بہ ابلیس دارند
کہ با سجدہ نمازی رو نیارند

ترجمہ: جب وہ ابلیس کے قریب ہو جائیں تو پھر وہ سجدہ اور نماز کی طرف رُخ نہیں کرتے۔

کہ خندہ می کند بر اہل عالم
کہ لعنت حق بود بر اہل ظالم

ترجمہ: جو علما حق کے اوپر ہنستے ہیں وہ ظالموں میں سے ہیں۔ ان پر اللہ کی لعنت ہو۔

اکثر دینِ باطل کی طرف مائل ملحد کہتے ہیں کہ نماز تب تک فرض ہے جب تک مراتبِ یقین حاصل نہ ہو جائیں اور جو مراتبِ یقین پر پہنچ جائے اس پر فرض نماز اور روزہ ساقط ہو جاتے ہیں۔ یہ شیطان لعین کا حیلہ اور کافر و بے دین نفسِ امارہ کی حجت ہے۔ یقین کا تعلق اسلام کے پانچ بنیادی ارکان سے ہے۔ یہ درست ہے کہ علم اور علما کے ادب کا خیال رکھو اگرچہ ان کی تصویر دیوار پر نظر آئے اور فقرا کا حکم بجا لائو کیونکہ جو فقرا کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ دونوں جہان میں خوار ہوتا ہے۔ نیک لوگوں کے یہ دونوں گروہ محمدی ہیں۔ 

بیت:

خندہ بر سینہ صافان می کنی ہشیار باش
ہر کہ بر آئینہ خندد رویش خندی خود کند 

ترجمہ: تو پاکیزہ قلب لوگوں پر ہنستا ہے اس لیے تو خبردار رہ کیونکہ جو آئینہ پر ہنستا ہے وہ دراصل خود پر ہنستا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ فقیر خود کو مفلس اور حقیر ظاہر کرتا ہے لیکن تمام دنیا اس کے حکم کے ماتحت ہوتی ہے اور پریشان دنیا درویشوں سے التماس کرتی ہے کہ مجھے قبول کر لیں لیکن فقیر کہتے ہیں کہ اے عورت! صاحبِ وصال مردانِ خدا تجھے تین طلاق دے چکے ہیں۔ دنیا کو صرف وہی قبول کرتا ہے جو ناسمجھ اور جاہل ہو کیونکہ دنیا جاہلوں اور کافروں کے گھروں میں زیادہ جمع ہوتی ہے۔ اہلِ حق ظلِ اللہ اور بادشاہوں کے گھروں میں جمع نہیں ہوتی جو ہمیشہ دنیا کو مسلمانوں کے لیے خرچ کر دیتے ہیں جیسا کہ حضرت عثمانؓ اور حضرت نعمانؓ۔ حدیث:
  اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْاٰخِرَۃِ 
ترجمہ: دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔

وہ دن میں جو حاصل کرتے ہیں رات تک خرچ کر دیتے ہیں اور جو رات کو حاصل کرتے ہیں دن تک خرچ کر دیتے ہیں جیسا کہ صاحبِ مدینہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْفَقِیْرُ لَا طَامِعَ وَ لَا جَامِعَ وَ لَا مَانِعَ 
ترجمہ: فقیر طمع نہیں کرتا اور نہ وہ جمع کرتا ہے اور نہ ہی منع کرتا ہے۔
ظاہری طور پر فقیر صاحبِ خزانہ ہوتا ہے اور باطن میں وہ اللہ سے یگانہ ہوتا ہے۔ 

بیت:

نفس را رسوا کند بہر از گدا
بر ہر دری قدمی زند بہر از خدا

ترجمہ: فقیر گدائی کر کے نفس کو رسوا کرتا ہے اور در در پر محض خدا کی خاطر جاتا ہے۔

علم پر مغرور نہ ہو۔ اصل علم وہ ہے جو تجھے حضوری میں لے جائے اور تو خود کو بذریعہ الہام حضورِ حق میں سمجھے۔ علم پانچ ہیں اور عالم بھی پانچ ہیں۔ جو ان پانچ علوم کو حاصل کر لے تو عالم کو اس علم سے افتخار، جمعیت اور اعتبار حاصل ہوتا ہے۔ پانچ علوم یہ ہیں علمِ زبان اور عالمِ زبان، علمِ قلب اور عالمِ قلب، علمِ روح اور عالمِ روح، علمِ سِرّ اور عالمِ سِرّ، علمِ یخفیٰ اور عالمِ یخفیٰ۔ جو علمِ باری تعالیٰ کے اس مجموعہ کو حاصل کر لے تو وہ علم اسے نہ صرف زبان سے اقرار کرنا سکھاتا ہے بلکہ نورِ معرفتِ توحید بھی عطا کرتا ہے۔ اس علم سے نفس فنا ہو جاتا ہے اور وہ علم مشاہدئہ نور حضور کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور ربّ جلیل کی حضوری میں لے جاتا ہے اور اس سے قلب زندہ ہو جاتا ہے اور وہ علم جو آفتاب کی مثل روح کو روشن کرتا ہے اور اللہ کے فیض و فضل سے نوازتا ہے۔ وہ علم جو ظلمات کا پردہ ہٹا دیتا ہے اور اسرارِ ذات کی تجلیات دکھاتا ہے اور اسرارِ ربانی اور قدرتِ سبحانی کا مشاہدہ کرواتا ہے۔ وہ خفی علم جو مجلسِ محمدی کی حضوری سے مشرف کرتا ہے اور جو اس خفی علم کو خیر البشر کامل انسان سے پڑھتا ہے اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہتی۔ یہ تمام علوم علمِ توحید کا حصہ ہیں اور یہ علوم اسمِ اللہ ذات کے حاضرات اور کلید کلمہ طیبلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  سے کھلتے ہیں۔ ان علوم کی انتہا اور حضوری کے سلوک کو اہلِ تقلید کیا جانیں؟  

ابیات:

چوں نہ من ماند نہ نام من وجود
غرق وحدت اسم اللہ می ربود

ترجمہ: جب نہ میرا نام باقی رہا نہ وجود تب اسمِاللہ ذات نے مجھے وحدت میں غرق کر دیا۔

ایں مراتب از قلب باشد سلیم
قلب شد قلزم ز وحدت حق کریم

ترجمہ:یہ مراتب قلبِ سلیم کو حاصل ہوتے ہیں۔ تب وہ قلب وحدتِ حق کا سمندر بن جاتا ہے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اِتَّقُوْا اَلْعَالِمَ الْجَاہِلَ قِیْلَ مَنِ الْعَالِمَ الْجَاہِلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ عَالِمَ اللِّسَانِ وَ جَاہِلَ الْقَلْبِ 
ترجمہ: جاہل عالم سے ڈرو۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! جاہل عالم سے کیا مراد ہے؟ فرمایا جو زبان کا عالم ہو مگر دل سے جاہل ہو۔
جان لو کہ دینِ محمدی روشن راہ ہے جبکہ بدعت تاریکی ہے۔ اہلِ بدعت کے دل لالہ کی مثل سیاہ ہیں اور ان کے دل میں نفاق کے باعث داغ ہوتے ہیں۔  ابیات:

شبنم نہ کرد داغ دل لالہ را علاج
نتواں بگریہ شست خط سرِ نوشت را

ترجمہ: شبنم لالہ کے دل میں موجود داغ کو نہیں مٹا سکتی اسی طرح رونے سے تقدیر کا لکھا نہیں مٹایا جا سکتا۔

مکش رو درہم از حکم قضا چہ میکشی پردہ
چہ پروا آتش از چین بجبین بوریا دارد 

ترجمہ: حکمِ قضا سے کیسا پردہ؟ اس سے دور نہ بھاگ کیونکہ آگ جب چٹائی کو جلاتی ہے تو اس کے ماتھے کی شکن (یعنی غصے) کی پرواہ نہیں کرتی۔
مصنف کہتا ہے:

باھوؒ رضا بر قضا غالب چو گردد
ز کردہ از خدا ہرگز نہ لرزد

ترجمہ: اے باھوؒ! جب قضا پر رضا غالب آتی ہے تو وہ (طالبِ مولیٰ) خدا کے امور سے ہرگز نہیں کانپتا۔

چرا لرزد کہ قرب او تمام است
ہر آں لرزد کہ ناقص عام خام است

ترجمہ: جسے اللہ کا کامل قرب حاصل ہو وہ کیوں (اسکے ڈر سے) کانپے بلکہ ناقص، عام اور خام اس (کے خوف) سے کانپتے ہیں۔

رضا قاضی قضا در حکم بہ او
بجز حکمش نہ گیرد جان از مو

ترجمہ: رضا قاضی (کی مثل) ہے اور قضا اس کے حکم کے ماتحت ہے اس لیے اس کے حکم کے بغیر قضا ایک بال کی بھی جان نہیں لے سکتی۔
جان لو کہ بندہ اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوا کہ اس کا ہر کام اور خواہش اس کی مرضی کے موافق ہو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا:
عَرَفْتُ رَبِّیْ بِفَسَخِ الْعَزَائِمِ   
ترجمہ: میں نے اپنے عزائم کی ناکامی سے اپنے ربّ کو پہچانا۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
فِعْلُ الْحَکِیْمِ لَا یَخْلُوْا عَنِ الْحِکْمَۃِ 
ترجمہ: حکیم کا کوئی بھی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔
بہتر یہی ہے کہ اپنے امور کو خدا کے سپرد کر دیا جائے اور خود کو درمیان سے نکال لیا جائے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ اُفَوِّضُ اَ مْرِیْٓ اِلَی اِ ط اِنَّ اَ بَصِیْرٌ م بِالْعِبَادِ  (سورۃ مومن۔44)
ترجمہ: اور میں اپنا (ہر) امر اللہ کے سپرد کرتا ہوں بے شک اللہ بندوں کو دیکھنے والا ہے۔

جان لو کہ اللہ عزّوجل بے مثل اور بے مثال ہے۔ اللہ حی ّ و قیوم وہ واحد ہستی ہے جس نے خود کو اپنی صورت پر قائم رکھا ہوا ہے کیونکہ صورتِ خدا تعالیٰ غیر مخلوق ہے۔ جو اس صورت کو خواب میں یا خواب سے غالب تر مراقبے میں دیکھ لے تو اس دیدار سے وہ مجذوب ہو جاتا ہے یا بیدار اور ہوشیار ہو کر نورِ توحیدِ ربوبیت کادیدار کرتا ہے جس سے اس کے وجود میں اس قدر گرمی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ جل کر مر جاتا ہے یا پھر اس کی زبان پر خاموشی کی مہر لگ جاتی ہے جیسا کہ کہا گیا:
فَقَدْ کَلَّ لِسَانُہٗ 
ترجمہ: پس تحقیق اس کی زبان گونگی ہو گئی۔

یا پھر وہ رات دن سجدہ سے سر نہیں اٹھاتا۔ شریعت کا لباس وجود پر پہنتا ہے اور شریعت کی پیروی کرتا ہے اور وہ صورت جو بے مثل ہے اور اس کی مثال نہیں دے سکتا۔ جس وقت عارف باللہ واصل اس صورت کے دیدار و مشاہدہ میں مشغول ہوتا ہے تو اسے اللہ کی ایسی نعمت حاصل ہوتی ہے جسکی شرح وہم و فہم میں نہیں آ سکتی۔ یہ مراتب بھی اسمِ اللہ ذات کے حاضرات اور کلید کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  سے حاصل ہوتے ہیں۔ کلمہ طیب کا یہ طریق تحقیق شدہ ہے جو اس میں شک کرے وہ اہلِ زندیق ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
تَفَکَّرُوْا فِیْ اٰیٰتِہٖ وَ لَا تَفَکَّرُوْا فِیْ ذَاتِہٖ 
ترجمہ: اس کی آیات میں تفکر کرو اور اس کی ذات میں تفکر نہ کرو۔

پس معلوم ہوا کہ آوازِ نفس، مقامِ نفس، سوالِ نفس اور احوالِ نفس اور ہیں۔ آوازِ قلب، رازِ قلب، مقامِ قلب، سوالِ قلب اور احوالِ قلب اور ہیں اور آوازِ روح، رازِ روح، مقامِ روح، سوالِ روح اور احوالِ روح اور ہیں۔ نفس کی آواز علمِ دنیا ہے اور اس کا مقام خواہشات ہیں۔ قلب کی آواز ذکر ہے اور اس کا علم شوق اور محبتِ الٰہی ہے اور اس کا مقام باصفا باطن ہے۔ روح کی آواز کلامِ الٰہی اور نص و حدیث ہے مقامِ روح تمام علوم کی جمعیت ہے۔ ہر ایک گروہ کو اس کے مقام سے معلوم کرنا چاہیے کہ یہ اہلِ نفس ہیں یا اہلِ قلب ہیں یا اہلِ روح۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
 اِنَّ فِیْ جَسَدِ بَنِیْ اٰدَمَ عَشْرَۃِ اَنْوَاعٍ مِنَ النَّارِ نَارُ الشَّھْوَۃِ وَ نَارُ الْحِرْصِ وَ نَارُ الْحَسَدِ وَ نَارُ النَّظْرِ وَ نَارُ الْغَفْلَۃِ وَ نَارُ الْجُھْلِ وَ نَارُ الْبَطْنِ وَ نَارُ اللِّسَانِ وَ نَارُ الْمَعْصِیَّۃِ وَ نَارُ الْفَرْجِ وَ نَارُ الشَّھْوَۃِ لَا تَدْفَعُ اِلَّا بِالصَّوْمِ وَ نَارُ الْحِرْصِ لَا تَدْفَعُ اِلَّا بِذِکْرِ الْمَوْتِ وَ نَارُ الْحَسَدِ لَا تَدْفَعُ اِلَّابِصَفَآئِ الْقَلْبِ وَ نَارُ الْنَظْرِ لَا تَدْفَعُ اِلَّا بِذِکْرِالْقَلْبِ وَ نَارُ الْغَفْلَۃِ لَا تَدْفَعُ اِلَّا بِذِکْرِ اِ تَعَالٰی وَ نَارُ الْجُھْلِ لَا تَدْفَعُ اِلَّا بِاِسْتِمَاعِ الْعِلْمِ وَ نَارُ الْبَطْنِ لَا تَدْفَعُ اِلَّا بِاَکْلِ الْحَلَالِ وَ نَارُ اللِسَّانِ لَا تَدْفَعُ اِلَّا بِتَلَاوَۃِ الْقُرْاٰنِ وَ نَارُ الْمَعْصِّیَۃِ لَا تَدْفَعُ اِلَّا بِالْاَسْتَغْفَارِ وَ نَارُ الْفَرْجِ لَا تَدْفَعُ اِلَّا بِنِکَاحِ الْحَلَالِ   
ترجمہ: بنی آدم کے جسم میں دس طرح کی آگ ہے شہوت کی آگ، حرص کی آگ، حسد کی آگ، نظرِ بد کی آگ، غفلت کی آگ، جہالت کی آگ، پیٹ کی آگ، زبان کی آگ، معصیت کی آگ، شرمگاہ کی آگ۔ شہوت کی آگ روزہ کے بغیر نہیں بجھتی۔ حرص کی آگ ذکرِ موت کے بغیر نہیں بجھتی۔ حسد کی آگ صفائے قلب کے بغیر نہیں بجھتی۔ نظرِ بد کی آگ ذکرِ قلب کے بغیر نہیں بجھتی۔ غفلت کی آگ ذکرِ الٰہی کے بغیر نہیں بجھتی۔ جہالت کی آگ علم کی بات سنے بغیر نہیں بجھتی۔ پیٹ کی آگ رزقِ حلال کے بغیر نہیں بجھتی۔ زبان کی آگ تلاوتِ قرآن کے بغیر نہیں بجھتی۔ معصیت کی آگ استغفار کے بغیر نہیں بجھتی اور شرمگاہ کی آگ حلال نکاح کے بغیر نہیں بجھتی۔
قطعہ:

چہ حاصل مرد را از دین و دنیا
ازیں ہا بگذر و ہم را بگذار

ترجمہ: مرد کو دین و دنیا سے کیا حاصل ہوتا ہے؟ ان سب کی خواہش کو ترک کر کے آگے بڑھ جاؤ۔ 

سَوَادُ الْوَجْہِ  شد  در  ہر  دو  عالم
مگر روشن شوی اے نیک کردار

ترجمہ: خواہشات کی طلب دونوں جہان میں چہرے کی سیاہی ہے مگر چونکہ تو نیک کردار ہے اس لیے تیرا چہرہ روشن رہے گا۔
بعض فقیر خالق کو پسند ہوتے ہیں اور بعض مخلوق کو۔  بیت:

ہر کہ باشد پسند خالق پاک
ور نباشد پسند خلق چہ باک

ترجمہ: جو پاک پروردگار کو پسند آ جائے تو اگر وہ مخلوق کو نہ بھی پسند آئے تو کیا ڈر!

 (جاری ہے)

 
 
 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں