کلید التوحید (کلاں)۔ قسط نمبر 9
جان لو کہ زمین و آسمان سے لے کر تحت الثریٰ تک اور عرش سے اوپر طبق در طبق تہتر کروڑ تراسی لاکھ اکیس مقامات ہیں جس کا انتہائی مقام سرّ الامی ہے اور ہر مقام کی انتہا لامکان ہے جس کی تشبیہ کون و مکان کی چھ سمتوں سے نہیں دی جا سکتی اور یہ سب مقامات فقیر کی نظر میں مچھر کے پر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سبحان اللہ! حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے لطف و کرم کی بدولت کیا (اعلیٰ) مراتب فقرا کو عطا کر رکھے ہیں۔ ان کی توفیق مرشد کو حاصل ہے۔ لیکن اگر وہ طالبِ مولیٰ کو روزِ اوّل توحید لامکان اور فقر کا سبق نہیں دیتا اور لامکان میں توحید تک نہیں پہنچاتا تو معلوم ہوا کہ وہ راہبر مرشدی و فقیری کی راہ نہیں جانتا۔ تو جان لے کہ قلب حیات اور روح زندگی تب پاتی ہے جب نفس فانی ہو جائے۔ تب جسم اس جہان میں ہوتا ہے اور جان لامکان میں ہوتی ہے جہاں وہ اسرارِ وحدانیت اور مشاہدۂ حضوری و قدرتِ الٰہی کے نورِ استغراق میں محو ہوتی ہے۔ یہ مراتبِ عظمیٰ اور سعادتِ کبریٰ مرشد کامل تصور اسمِ اللہ ذات کی تاثیر، برکتِ اسمِ اعظم، شریعت، آیاتِ قرآن و حدیث اور کلید کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے طریقِ تحقیق سے پہلے ہی روز کھول دیتا ہے۔ طریقِ تحقیق کے مطابق یہی طریقت ہے اور جو کوئی اس میں شک کرے وہ منافق اور اہلِ زندیق ہوتا ہے۔ بیت:
من مرغِ لامکانم جز لامکان نمانم
فقرش ازاں نشانم فی اللہ فنا ازانم
ترجمہ: میں لامکان کا پرندہ ہوں اس لیے لامکان کے علاوہ کہیں نہیں رہتا۔ میں نے فقر اور فنا فی اللہ کا مرتبہ وہیں سے پایا ہے۔
مطلب یہ کہ ابتدا میں جس شخص کے وجود میں سرکش نفس ِ امارہ ہوتا ہے وہ تصور اسمِ اللہ ذات سے لوامہ بن جاتا ہے۔ اور پھر تصور اسمِ اللہ ذات (کی مشق) سے ملہمہ بن جاتا ہے اور اسمِ اللہ ذات کی مشق سے نفس مطمئنہ ہو جاتا ہے اور جب نفس مطمئنہ ہو جائے تو وجود سر سے قدم تک ذکرِ اللہ کی بدولت نورِ توحید سے پرُ ہو جاتا ہے۔ یہ مراتب بھی تصور اسمِ اللہ ذات کی حضوری اور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی کلیدسے کھلتے ہیں اور جو کچھ بھی دکھائی دیتا ہے وہ برحق ہوتا ہے۔ کل و جز کی جو بھی ظاہر و پوشیدہ مخلوقِ خدا اور طبقات ہیں اور ہر مقام کی طیر سیر کے مراتب بھی ایک دم اور ایک قدم پر پلک جھپکنے میں اسمِ اللہ ذات کی حضوری سے حاصل ہوتے ہیں۔ یہ اسمِ اللہ ذات سے حاصل ہونے والی حضوری کے مراتب ہیں جو جلد ہی مقصود تک پہنچا دیتے ہیں۔ راہِ حضوری کے طریق اور مشاہدۂ حضوری اور تجلیاتِ نورِ ذات میں غرق کے متعلق صرف وہی جانتا ہے جس نے باطن یا خواب یا مراقبہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبانِ مبارک سے یہ سبق پڑھا ہو اور اس قوت سے ہر مقام عیاں اور ہر علم حاصل ہو جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ تصور اسمِ اللہ ذات کی مشق کرنے سے وجود کے اندر نفس ایسے بیمار ہو جاتا ہے جیسے انسان کو خسرہ کی بیماری ہو۔ تصور اسمِ اللہ ذات کی مشق کی بدولت نفس کسی بھی حالت اور حال میں قرار اور آرام نہیں پاتا اور (بالآخر) فنا ہو جاتا ہے۔ تب یہ نافرمان نفس فرمانبردار بن جاتا ہے اور رات دن غلام کی مثل حکم کے تابع رہتا ہے۔ تصور اسمِ اللہ ذات اور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی تاثیر نفس کو ایسے فنا کر دیتے ہیں جیسے آگ خشک لکڑی کو کھا جاتی ہے۔
ہاں یہ یقین ہے کہ اگر مرشد صاحبِ قرب ہو اور مشاہدۂ حضوری میں غرق رہتا ہو جبکہ طالب جاہل اور بے شعور ہو تو کوئی فائدہ نہیں اور اگر طالبِ مولیٰ عالم فاضل اور صاحبِ فراست و باشعور ہو جبکہ مرشد ناقص و بے حضور ہو تو بھی کچھ فائدہ نہیں ہوتا اور اگر باشعور طالبِ مولیٰ اور اہلِ حضور مرشد دونوں مل جائیں اور اسمِ اللہ ذات کے حاضرات کے متعلق جانتے ہوئے اسے پڑھتے ہوں تو ان سے کوئی بھی چیز اور ذات و صفات کا کوئی بھی مقام مخفی و پوشیدہ نہیں رہتا۔
بیت
چناں غرق گشتم بدریائے وحدت
کہ ازل و ابد را خبر ہم ندارم
ترجمہ: میں وحدت کے سمندر میں اس طرح غرق ہوا کہ مجھے ازل اور ابد کی بھی خبر نہ رہی۔
جسے لامکان کا استغراق حاصل ہو جائے وہ حق کے علاوہ ہر شے بھول جاتا ہے۔ یہ فنا فی اللہ فقیر کے مراتب ہیں جو اس طرح غرق فنا فی التوحید ہوتا ہے جیسے مچھلی کو پانی میں ہی سکون حاصل ہوتا ہے یا جیسے کھانے میں نمک، آگ میں چنگاری یا دودھ میں پانی ملا ہوتا ہے۔ فقیر بھی اس طرح اللہ میں فنا ہوتا ہے کہ نہ وہ خدا ہوتا ہے نہ خدا سے جدا۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ ان مراتب کا حامل فقیر اللہ کا بے حجاب مشاہدہ کر کے حق الیقین کے مرتبہ پر فائز ہوتا ہے۔ ان مراتب کو اہلِ بدعت، لعین اور بے دین کیا سمجھیں۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ۔ (سورۃ الذاریات۔21)
ترجمہ: اور (میں) تمہارے اندر ہوں کیا تم دیکھتے نہیں۔
اے عزیز! چشمِ دل سے دیکھ اور جو کینہ و نفاق ہے اسے دل سے نکال دے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۔ (سورۃ ق۔16)
ترجمہ: اور ہم تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے نزدیک ہیں۔
ابیات:
گر تو عارف واصلی صاحبِ نظر
از شہ رگ نزدیک تر باحق نگر
ترجمہ: اگر تو صاحبِ نظر عارف واصل ہے تو شہ رگ سے بھی قریب تر حق تعالیٰ کو دیکھ۔
دم زدم الہام قدرت ذات نور
نَحْنُ اَقْرَبُ قرب وحدت با حضور
ترجمہ: جب تو (اس آیت) نَحْنُ اَقْرَبُ کی حقیقت کو پا لے گا تو تجھے قربِ وحدت اور حضوری حاصل ہو جائے گی اور تجھے نورِ ذات کی قدرت سے لمحہ بہ لمحہ الہام ہوں گے۔
روئیتش را خوش ببیں با دل چشم
ہر چہ بینی غیر حق زان بت صنم
ترجمہ: تو چشمِ دل سے اللہ (کے جمال) کا دیدار کر۔ اللہ کے سوا تو جو کچھ بھی دیکھتا ہے وہ بت ہے۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (3:92)
ترجمہ: تم ہرگز اَلبِرّ تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیز وں کو (اللہ کی راہ میں) خرچ نہ کر دو۔
ابیات:
کن تصرف جان مال و ہر چہ ہست
تا ترا حاصل شود کنہش الست
ترجمہ: جان، مال اور ہر شے جو تیرے پاس ہے اسے (اللہ کی راہ میں) خرچ کر دے تاکہ تجھے روزِ الست کی حقیقت معلوم ہو جائے۔
ہر کہ گردد غرق فی اللہ باخدا
ہر کہ از خود گم شود یابد خدا
ترجمہ: جو خود سے فنا حاصل کر لے وہ اللہ کی ذات کو پا لیتا ہے اور اللہ کی ذات میں غرق ہو کر (یکتا) با خدا ہو جاتا ہے۔
ہر کہ از حق منکرست مردود شد
ہر کہ باحق مشتغل محمود شد
ترجمہ: جو حق کا منکر ہو وہ مردود ہوتا ہے جبکہ جو حق کے ساتھ مشغول ہو وہ محمود ہو جاتا ہے۔
باھوؒ ایں مراتب از شریعت یافتہ
پیشوائے خود شریعت ساختہ
ترجمہ: باھوؒ نے یہ مراتب شریعت کی پیروی سے پائے اور اس نے شریعت کو ہی اپنا پیشوا بنایا ہے۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَمَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی (سورۃ بنی اسرائیل۔72)
ترجمہ: اور جو اس (دنیا) میں (دیدارِ الٰہی سے) اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا۔
فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ (سورۃ البقرہ۔115)
ترجمہ: پس تم جدھر بھی رُخ کرو اُسی طرف اللہ کا چہرہ ہے۔
ابیات:
باھوؒ ذکر گوید ہر گیاہی وحدہٗ
ذکر گوید قلب قالب ہر بہ مو
ترجمہ: اے باھوؒ گھاس کا ہر تنکا وحدہٗ کا ذکر کرتا ہے اور ہر شے، قلب و قالب اور ہر بال اس کے ذکر میں مصروف ہے۔
باھوؒ ہر طرف کردم نگاہی ذکر ذات
ذات را از ذات یابد شد نجات
ترجمہ: باھوؒنے جس طرف بھی نگاہ کی ہر شے کو اس ذات کا ذکر کرتے پایا کیونکہ جو ذکر ِذات سے اس ذات کو پا لے وہ نجات حاصل کر لیتا ہے۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اَرَئَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوٰہُ (سورۃ الجاثیہ۔25)
ترجمہ: (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کیا آپ نے اُس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشاتِ نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے۔
ابیات:
در وجودی دو خدا ہر یک شناس
و ز دوئی بگذر بیابی حق سپاس
ترجمہ: تیرے وجود میں دو خدا ہیں اور ہر ایک کی پہچان حاصل کر۔ اور اس دوئی کو چھوڑ دے تاکہ تو قابلِ تعریف حق کو پا سکے۔
نفس شہوت را بکش کلی ہوا
تا ترا حاصل شود واحد خدا
ترجمہ: نفس کی خواہشات اور شہوات کو مکمل طور پر ختم کر دے تاکہ تجھے واحد ذاتِ حق حاصل ہو جائے۔
یہ باطن صفا فقیر کے مراتب ہیں جو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے حاصل ہوتے ہیں۔
وَالسَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی۔ (سورۃ طٰہٰ۔47)
ترجمہ: اور اس شخص پر سلامتی ہو جس نے ہدایت کی پیروی کی۔
مراتبِ فقیر کی انتہا فنا فی اللہ بقا باللہ پر کس طرح پہنچا جا سکتا ہے۔ مطلب یہ کہ مراتبِ قرب تین قسم کے ہیں جو تین تصور سے موسوم ہیں۔ تصور فنا فی الشیخ، تصور فنا فی اسمِ اللہ ذات اور تصور فنا فی اسمِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔ جان لو کہ تمام مخلوقات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نور سے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کے نور سے ہیں۔ جو مرشد روزِ اوّل طالب کے نوری وجود کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نوری وجود تک نہیں پہنچاتا اور پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نورانی وجود میں گم کر کے طالب کے نورانی وجود کو بحر ِربوبیت کے نورِ وحدانیت میں غرق نہیں کرتا اسے مرشد نہیں کہا جا سکتا کیونکہ روزِ اوّل تصور اسمِ اللہ ذات کے ذریعے طالب کا نفس تزکیہ کے بعد نور بن جاتا ہے اور قلب تصفیہ کے بعد نور بن جاتا ہے، روح تجلیہ کے بعد نور بن جاتی ہے اور سرّ تجلیہ کے بعد نور بن جاتا ہے۔ جیسے ہی یہ چاروں نور اکٹھے ہو کر یکتا ہو جاتے ہیں تو انسان اپنے اصل کی طرف رجوع کر لیتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
کُلُّ شَیْئٍ یَرْجِعُ اِلٰی اَصْلِہٖ
ترجمہ: ہر شے اپنی اصل کی جانب رجوع کرتی ہے۔
حُبُّ الْوَطْنِ مِنَ الْاِیْمَانِ
ترجمہ: وطن کی محبت ایمان سے ہے۔
ایمان نورِ الٰہی ہے اور صورتِ روح نور ہے۔ اہلِ ارواح کی مجلس بھی نور ہوتی ہے جو مقامِ ناسوت کی نفسانیت اور اربعہ عناصر کی نار سے آزاد ہوتے ہیں۔ نوری اہلِ ارواح اور ناری اہلِ نفس کو ایک دوسرے کی مجلس پسند نہیں آتی۔ جو نورِ حضور کا طلبگار ہوتا ہے وہ وحدانیت کو پا لیتا ہے اور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نور تک پہنچ جاتا ہے جو کہ ابتدائی اور انتہائی مرتبہ ہے اور مجلسِ سرورِ کائنات تک پہنچنا مراتبِ انتہا ہیں اور غرق فنا فی اللہ ہونا مراتبِ ابتدا ہیں۔ حدیث:
اَلنِّھَایَۃُ ھُوَ الرُّجُوْعُ اِلَی الْبِدَایَۃِ
ترجمہ: ابتدا کی طرف لوٹنا ہی انتہا ہے۔
بیت:
گر بشوق حق دلت شد مبتلا
مرگ ہرگز کے شد بروی روا
ترجمہ: اگر تیرا دل حق تعالیٰ کے قرب کے شوق میں مبتلا ہو جائے تو اس دل کے لیے موت کیسے ممکن ہے!
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا
ترجمہ: مرنے سے پہلے مر جاؤ۔
بلکہ عارفین کے لیے زندگی حجاب کی مانند ہے اور وہ دنیا میں قیدی کی طرح رہتے ہیں کیونکہ دنیا مومنین کے لیے دوزخ کی مثل ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِیْنِ وَ جَنَّتُ الْکٰفِرِیْنَ
ترجمہ: دنیا مومنین کے لیے قید خانہ اور کافروں کے لیے جنت ہے۔
بیت:
با تو دل مسجد است بے تو کنشت
بے تو دل دوزخ است باتو بہشت
ترجمہ: (اے اللہ) اگر تو میرے دل میں ہو تو وہ مسجد کی مانند ہے اور نہ ہو تو آتش کدہ ہے اور اگر تو میرے دل میں نہ ہو تو یہ دوزخ کی مثل ہے جبکہ تو میرے دل میں ہو تو یہ جنت کی مثل ہے۔
مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو بے عمل عالم ہیں اور معرفتِ الٰہی سے بے خبر اہلِ نفس ہیں کیونکہ نفس بادشاہ ہے اور شیطان اس کا وزیر ہے۔ اہلِ نفس کو شیطان ریاکاری، نام و ناموس، ظاہر پرستی اور ہوا و ہوس کے ذریعے باطن میں معرفتِ الٰہی سے روکتا ہے کیونکہ اکثر علما کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں لائقِ ارشاد شیخ ولی اللہ اور صاحبِ توفیق مرشد کوئی نہیں اور علمِ فقہ اور کتب کو وسیلۂ مرشد سمجھتے ہیں لیکن وہ غلط کہتے ہیں۔ علم راہ کو روشن کرتا ہے جبکہ وسیلۂ مرشد لشکرِ جمعیت کے ہمراہ توشۂ ذکر و فکر کے ساتھ نفس، شیطان اور حوادثِ دنیا سے حفاظت کرتا ہے۔ کیا تو نہیں جانتا کہ شیطان بھی ہر علم کا عالم ہے جبکہ حضرت آدم علیہ السلام کوئی بھی علمِ ظاہر نہیں جانتے تھے۔ پس شیطان کے پاس علمِ ظاہر تھا جو وہ زبان سے بیان کرتا تھا اور حضرت آدم علیہ السلام کے پاس معرفتِ الٰہی کا باعیاں علمِ باطن تھا جس کی بدولت تمام فرشتوں پر عزت و شرف لے گئے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّھَا (سورۃ البقرہ۔31)
ترجمہ: اور (اللہ نے) آدم ؑ کو تمام اسما کا علم سکھایا۔
پس علمِ ظاہر شیطان کو دفع اور ردّ کرنے کے لیے ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ ج اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ۔ (سورۃ یٰسین۔60)
ترجمہ: اے بنی آدم! تم شیطان کی پیروی نہ کرو بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
علمِ باطن سے معرفتِ توحید اور قربِ معبود حاصل ہوتا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ۔ (سورۃ العلق۔5)
ترجمہ: انسان کو وہ علم سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔
پس وسیلۂ مرشد کامل اکمل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دستِ بیعت ہونے جیسا ہے جیسے صحابہ کرامؓ نے کی۔ مرشدانِ کامل فقیر اہلِ ولایت اور اہلِ ہدایت تا قیامت بطریقِ تحقیق ایک دوسرے کے قائم مقام ہوتے جائیں گے اور یہ سلسلہ کبھی نہ رکے گا۔ جو اس میں شک کرے گا وہ اہلِ زندیق میں سے ہوگا جو مردوں کو راہِ راستی سے دور بھگاتے ہیں۔
ابیات:
ہر کرا مرشد نہ از سر ہوا
میبرد مرشد حضورِ مصطفیؐ
ترجمہ: جس کا مرشد نہیں وہ مکمل طور پر خواہشاتِ نفس کی قید میں ہے جبکہ (کامل) مرشد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حضوری میں لے جاتا ہے۔
ہر کرا مرشد نہ شد شیطان مرید
ہر کہ با مرشد بود گو بایزیدؒ
ترجمہ: جس کا مرشد نہ ہو وہ شیطان کا مرید ہوتا ہے جبکہ مرشد سے وابستہ بایزیدؒ کی مثل ہوتا ہے۔
ہر کرا مرشد نہ باخود نما
مرد مرشد میبرد وحدت خدا
ترجمہ: جس کا مرشد نہیں ہوتا وہ خود نمائی میں مبتلا ہو جاتا ہے جبکہ مرد مرشد وحدتِ حق تک لے جاتا ہے۔