کلید التوحید (کلاں) Kaleed-ul-Tauheed Kalan
قسط نمبر 6 مترجم: احسن علی سروری قادری
Kaleed-ul-Tauheed Kalan.مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو فنا فی اسمِ محمد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کے دل مردہ ہو چکے ہیں اور وہ دنیا مردار کی طلب رکھتے ہیں۔ مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو فنا فی اسمِ اللہ ذات کے مقام پر (خواہشات سے) آزاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن وہ اہل ِ بدعت اور فساد کی جڑ ہیں جو فتنہ پیدا کرنے والے ہوتے ہیں۔ مقامِ فنا فی الشیخ یہ ہے کہ جب طالبِ مولیٰ باطن میں صورتِ شیخ کو اپنے تصور میں لاتا ہے تو اسی وقت صورتِ شیخ حاضر ہو جاتی ہے اورطالب کا ہاتھ پکڑ کر اُسے معرفتِ الٰہی عطا کرتی ہے اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں لے جاتی ہے۔ ایسے ہی شیخ کو ’’زندہ کرنے والا اور مارنے والا‘‘ کہتے ہیں۔ مقامِ فنا فی اسمِ محمد یہ ہے کہ جو اسمِ محمدکو اپنے تصرف و تصور میں لاتا ہے تو بے شک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روح مبارک لطف و کرم فرماتے ہوئے اصحابِ کبار کی ارواح کے ساتھ حاضر ہو جاتی ہے اور صاحبِ تصور کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی زبانِ مبارک سے فرماتے ہیں خُذْ بِیَدِیْ ’’میرا ہاتھ پکڑ لو‘‘۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دستِ مبارک تھامتے ہی صاحبِ تصور کے دل کی آنکھ معرفتِ الٰہی سے روشن ہو جاتی ہے اور اسرارِ الٰہی اس پر واضح ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد صاحبِ تصور اس لائق بنتا ہے کہ وہ تلقین و ارشاد کر سکے جس کے لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام صاحبِ تصور کو اپنی زبانِ مبارک سے فرماتے ہیں کہ خلقِ خدا کی (راہِ حق پر) مدد کرو۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم پر وہ طالبوں کو دستِ بیعت کرتے ہوئے (راہِ حق کی) تعلیم و تلقین کرتا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ (سورۃ الفتح۔10)
ترجمہ: ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔
مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو نورِ معرفتِ الٰہی سے لذتِ باطن حاصل نہیں کرتے اور فَفِرُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ(دوڑو اللہ کی طرف) کو فَفِرُّوْٓا مِنَ اللّٰہِ (دوڑو اللہ سے دور) سمجھتے ہیں۔ مقامِ فنا فی اسمِ اللہ ذات یہ ہے کہ جو کوئی اسمِ اللہ ذات کو اپنے تصور میں لاتا ہے تو وہ تاثیر کرتے ہوئے معرفتِ اِلَّا اللّٰہ بخشتا ہے اور دل سے غیر ماسویٰ اللہ کو مکمل طور پر مٹا دیتا ہے۔ جو اس مقام پر پہنچ جائے تو وہ توحید کے سمندر سے معرفتِ الٰہی کے جام پیتا ہے اور سر سے قدم تک لباسِ شریعت اوڑھ لیتا ہے اور ہمیشہ شریعت کے احکامات پر عمل پیرا رہتا ہے اور معرفتِ الٰہی کے جو اسرار بھی وہ دیکھتا ہے انہیں احمق و جاہل لوگوں کے سامنے بیان نہیں کرتا نہ ہی شور مچاتا ہے اور نہ ہی اس سے مال و دولت کماتا ہے۔ Kaleed-ul-Tauheed Kalan
بیت:
تا توانی خویش را از خلق پوش
عارفانے کی بوند ایں خود فروش
ترجمہ: جب تک ہو سکے خود کو مخلوق سے چھپا کر رکھو۔ یہ خود فروش عارفین کیسے ہو سکتے ہیں!!
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
مَنْ عَرَفَ اللّٰہَ لَمْ یَکُنْ لَہٗ لَذَّۃً مَعَ الْخَلْقِ
ترجمہ: جو اللہ کی معرفت حاصل کر لے وہ مخلوق سے کسی قسم کی لذت نہیں پاتا۔
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَ الْفَقْرُ مِنِّیْ
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔
اکثر کافر، کاذب اور منافق بلند آواز سے یہ کہتے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آپ فقیر ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں یہ فقرِ محمدی‘ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فخر ہے کیونکہ فقر اللہ سے یگانگی اور اہلِ ہوس مخلوق سے بیگانگی بخشتا ہے۔ Kaleed-ul-Tauheed Kalan
ابیات:
ہر کہ باشد پسند خالق پاک
ور نباشد پسند خلق چہ باک
ترجمہ: جو پاک پروردگار کو پسند آ جائے تو اگر وہ مخلوق کو نہ بھی پسند آئے تو کیا ڈر!
ہر کرا داند خداوند ہم فرشتہ انبیا
اولیا آں ہم بدانند عالمان باطن صفا
ترجمہ: جو اللہ کی بارگاہ میں منظور ہو وہ فرشتوں اور انبیا کی بارگاہ میں بھی منظور ہوتا ہے اور اولیا و باطن صفا عالموں کی نظر میں بھی منظور ہوتا ہے۔
نیست عیبے گر ندانند جاہلانِ سر ہوا
کور چشمی کے شناسد تابع رشوت ریا
ترجمہ: اگر جاہل اور اہلِ ہوس اُسے نہیں جانتے تو کوئی حرج نہیں کہ اندھے ان کو کیسے پہچان سکتے ہیں وہ تو رشوت و ریا کے مطیع ہیں۔
داد عزت حق تعالیٰ فقر را باقرب خویش
از فقیری فیض گیرند روز و شب درویش
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے فقر کو اپنے قرب سے عزت عطا کی ہے اور درویش اس فقر سے دن رات فیض حاصل کرتے ہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْفَقْرُ لَا یُحْتَاجُ اِلَّا اِلَی اللّٰہِ
ترجمہ: فقر اللہ کے سوا کسی کامحتاج نہیں۔
شرم آید فقر را از اہل دنیا سیم و زر
اہل دنیا سگ بود یا خرس باشد بی خبر
ترجمہ: فقر کو اہلِ دنیا اور مال و دولت سے شرم آتی ہے کیونکہ اہلِ دنیا کتے یا ریچھ کی مثل ہیں جو فقر سے بے خبر ہیں۔
فقیر اولیا اللہ اگرچہ بھوک اور فقر و فاقہ کے باعث جان بلب ہو جائیں لیکن وہ ایسے لایحتاج ہوتے ہیں کہ اہلِ دنیا کی طرف نہیں دیکھتے یا اگرچہ بھوک اور فقر و فاقہ کے باعث تنہائی میں مر جائیں لیکن اہلِ دنیا کے دروازے پر نہیں جاتے جب تک حکمِ خدا نہ ہو یا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے اجازت نہ ہو۔ وہ صرف اللہ کی خاطر اور مسلمانوں کو فائدہ دینے کی خاطر اہلِ دنیا کے دروازے پر جاتے ہیں۔ وہ اہلِ دنیا کو جمعیت بخشتے ہیں اور انہیں مقامِ ظلم سے نکال کر مقامِ خوف میں لے جاتے ہیں۔ فقیر کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا کیونکہ فقیر حکیم ہوتا ہے اور حکیم اسے کہتے ہیں جو سب سے پہلے علم حاصل کر کے عالم بن جائے اور عالم اُسے کہتے ہیں جو علم کے ذریعے نیک و بد امور کی تحقیق کرے اور حکیم اسے کہتے ہیں جو نیک کو اختیار کرے اور بد کو ترک کر دے۔ نیک حق ہے جبکہ بد باطل ہے۔ پس فقر حق ہے اور دنیا باطل ہے۔ جو شخص باطن میں نمازِ حضوری ادا کرنے کا دعویٰ کرے اور کہے کہ مجھے نمازِ ظاہر ادا کرنے کی ضرورت نہیں تو وہ جھوٹ بولتا ہے۔ کیونکہ جب فرض نماز کا وقت آتا ہے تو عارفوں کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حکم ہوتا ہے کہ جائیں اور نمازِ وقتی ادا کریں ورنہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سلب ہو جائے گی۔ Kaleed-ul-Tauheed Kalan
ابیات:
کعبہ در دل ببینم جان کنم بروی فدا
در مدینہ دائمی ہم صحبتم با مصطفیؐ
ترجمہ: میں اپنے دل میں کعبہ دیکھتا ہوں اور اس پر اپنی جان فدا کرتا ہوں اور مدینہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دائمی صحبت میں رہتا ہوں۔
خلق ما با خویش داند من بباطن بارسولؐ
عارفان را راہِ اینست بشنو ای اہل الوصول
ترجمہ: مخلوق سمجھتی ہے کہ میں ان کے ساتھ ہوں لیکن میں باطن میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی معیت میں ہوتا ہوں۔ سن! عارفین اور اہل ِ وصال کا یہی طریقہ ہے۔
طالبِ مولیٰ کو عالم اور فاضل ہونا چاہیے تاکہ وہ ہر علم سے باخبر اور ظاہر و باطن میں ہوشیار ہو۔ ایسا طالبِ مولیٰ ہی مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور معرفتِ پروردگار کے لائق ہوتا ہے ورنہ ہزاروں جاہلوں کو ایک ہی نظر سے دیوانہ کر دینا کونسا مشکل کام ہے۔ یہ یقین ہے کہ علم کے بغیر فقر کا حصول محال ہے اور فقر کے بغیر علم وبال ہے کیونکہ طالبِ علم ظاہری و باطنی امتحان کے بغیر مرشد کی اتباع میں نہیں آتا اور نہ ہی اصل طالبِ مولیٰ بنتا ہے اور اگر مرشد سے باطن میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری اور مقامِ نورِ معرفت میں استغراق اور قرب و حضورِ حق عطا ہو جائے تو وہ طالب دیگر صاحبِ یقین طالبوں سے اعلیٰ و اولیٰ (مرتبہ پر) ہوتا ہے۔Kaleed-ul-Tauheed Kalan
نیز شرح مجلسِ صحیح بذکر و تسبیح
جان لو کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم امت کے ہر خاص و عام پر اپنے لطف و کرم اور مہربانی کی بدولت دونوں جہان میں معرفتِ الٰہی کے سمندر کے خزانے اور فیض بخشنے والے ہیں۔ ان شفیع الامم کی زیارت اچھے وقت اور کامل ایمان کی علامت ہے۔ جاننا چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی ہدایت کے لیے پیدا فرمایا۔ شیطان ملعون کی کیا مجال کہ اپنا نام ہادی رکھے۔ شیطان ہدایت، اسمِ اللہ ذات، اسمِ محمد، کلمہ طیب، تلاوتِ کلامِ الٰہی، مسائلِ فقہ، قرآن اور اس کی تفسیر، رحمتِ الٰہی‘ کہ عارفین کی نظر اللہ رحمن پر ہوتی ہے‘ اور لاحول پڑھنے سے ایسے دور بھاگتا ہے جس طرح کافر دینِ اسلام سے۔ پس معلوم ہوا کہ جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام مبارک سن کر خوش اور فرحت یاب نہیں ہوتا وہ بے دین، لعین، منافق اور بے یقین ہوتا ہے اور جو حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر یقین نہیں رکھتا معلوم ہوا کہ اس خبیث کا یقین اور دین ابلیس لے گیا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اِنْ اَخَافُ مَا اَخَافُ عَلٰی اُمَّتِیْ ضُعْفِ الْیَقِیْنِ
ترجمہ: اگر مجھے کوئی خوف ہے تو اپنی امت کے یقین کی کمزوری کا ہے۔
پس ہر وہ شخص مومن و مسلمان حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت میں سے کیسے ہو سکتا ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حیات ہی نہیں مانتا۔ وہ جو کوئی بھی ہے جھوٹا، بے دین، منافق اور کذاب ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْکَذَّابُ لَا اُمَّتِیْ
ترجمہ: کذاب میرا امتی نہیں ہو سکتا۔
اے بدبخت، بے یقین اور ابلیس لعین کے پیروکار! حیات النبی پر اعتقاد کا سبق اہلِ عرب سے سیکھو جو حرم مبارک میں روضۂ رسول کے دروازہ پر جا کر التماس کرتے ہیں ’’اے سیدّ الابرار اور زندہ نبی! اللہ پاک کی بارگاہ سے ہمارا یہ کام کروا دیں‘‘۔ اور اس کے بعد وہ نہ صرف اپنے سوال کے درست جواب پاتے ہیں بلکہ یقین و اعتبار کی بدولت ان کا کام بھی ہو جاتا ہے۔ جسے حیات النبی پر اعتبار نہیں وہ دونوں جہان میں خوار ہوتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہر وہ شخص مردہ سمجھتا ہے جس کا دل مردہ ہو اور اس کا سرمایۂ ایمان و یقین شیطان نے لوٹ لیا ہو۔ نیز مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کی شرح و تحقیق یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت کی سات نشانیاں ہیں‘ اوّل یہ کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وجود کی خوشبو مشک سے بھی زیادہ معطر ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کا راز یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وجود میں نفسِ امارہ نہیں ہے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وجود مبارک میں طمع، حرص، حسد اور خواہشِ نفس ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فنا فی اللہ اور ہمیشہ سے اللہ کے ساتھ ہیں۔ آپؓ اپنے والد کے آبِ منی سے پیدا نہیں ہوئے۔ آپؓ کی پیدائش اس طرح ہوئی کہ بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا کے لیے جبرائیل علیہ السلام جنت سے ایک پھل لائے تھے جو شجرۃ النور کا پھل تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وجود کی خوشبو اس شجرۃ النور کی بدولت ہے کہ سر سے قدم تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وجود مبارک سے یہ خوشبو آتی ہے اور وہ تمام عالم میں مشہور ہے۔ کسی دوسرے وجود کو یہ قدرت حاصل نہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وجود مبارک کی مثل خوشبو دے سکے اگرچہ وہ تمام عمر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی حضوری سے مشرف رہے۔ دوم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت کی تاثیر یہ ہے کہ جو دائمی طور پر مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضر رہے ظاہر و باطن میں اس کا دل غنی ہوتا ہے۔ سوم یہ کہ وہ جو کچھ بھی بولتا ہے آیاتِ قرآن و حدیث کے مطابق بولتا ہے۔ چہارم یہ کہ وہ شریعت کا لبادہ اوڑھے ہوتا ہے۔ پنجم یہ کہ سنت جماعت کی پیروی خود پر لازم سمجھتا ہے۔ ششم یہ کہ وہ نافع المسلمین ہوتا ہے۔ ہفتم یہ کہ وہ بے مثال سخاوت کا حامل ہوتا ہے۔ ظاہر میں لوگوں سے ہم کلام ہوتا ہے جبکہ باطن میں وہ غرق فنا فی اللہ ہوتا ہے۔Kaleed-ul-Tauheed Kalan
مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کے دیگر مراتب یہ ہیں کہ ظاہر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے ظاہری وجود کے ساتھ نفسانی لوگوں سے ہمکلام ہوتے ہیں اور باطن میں اپنے روحانی وجود کے ساتھ روحانیوں سے ہمکلام ہوتے ہیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے دونوں لب ہلاتے ہیں تو اہلِ تحقیق عبرت و حیرت میں غرق ہو جاتے ہیں اور نفسانی لوگ سمجھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان سے ہم کلام ہیں اور روحانی سمجھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان سے ہمکلام ہیں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ رحمن سے ہمکلام ہوتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے وجود میں نفس کو فنا کر رکھا ہے جس کی وجہ سے نفس کا دوست شیطان بہت پریشان ہے۔ اسی طرح بایزید بسطامیؒ نے فرمایا ’’میں تیس سال اللہ سے ہمکلام رہا اور نفسانی لوگ سمجھتے رہے کہ میں ان سے ہمکلام ہوں اور روحانی لوگ یہ سمجھتے رہے کہ میں ان سے ہمکلام ہوں‘‘۔
بیت:
باھوؒ جثہ از جثہ برآید بہر راز
ہر بجثہ ہر حقیقت ہر آواز
ترجمہ: اے باھوؒ! ہر وجود کے اندر ایک اور وجود (پوشیدہ) ہے جو کہ ایک راز ہے۔ ہر وجود کی ایک علیحدہ حقیقت اور آواز ہے۔
پس معلوم ہوا کہ عارفین کے مراتب سانپ سے کمتر نہیں ہوتے کیونکہ سانپ اپنی کھال کے نیچے ایک اور کھال تیار کرتا ہے پھر اس کے بعد اپنی کھال سے باہر نکلتا ہے لہٰذا امتِ محمدیہ کے عارفین اور اولیا اللہ کو تو جس منزل و مقام پر دیکھتا ہے وہ اپنے نوری وجود کے ساتھ اس جگہ حاضر ہوتے ہیں۔ یہ جنوں، شیطانوں اور جاہلوں کی راہ نہیں بلکہ جمعیت و جمال کی راہ ہے جو کہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خاص برکت اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کرم و اخلاص اور توفیق و رفاقت سے حاصل ہوتی ہے۔ حاضراتِ تصور اسمِ اللہ ذات، برکتِ نص و حدیث اور اسمِ اعظم، آیاتِ قرآن اور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی کلید سے قلب کا قفل کھلتا ہے اور باطن روشن ہوتا ہے اور طریقِ تحقیق سے حق کی راہ واضح ہوتی ہے۔ نیز یہ سروری قادری کامل مکمل اکمل اور جامع مرشد کی عطا ہے جو ذکر کے جوہر اور فکر کے خزانے بخشنے والا ہوتا ہے جس سے روزِ الست اور کن فیکون کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْاٰنَ کَمَا کَانَ
ترجمہ: وہ ویسا ہی ہے جیسا (ازل میں) تھا۔
اے ناقص، اہلِ نفس و پریشان سن! یہ اہلِ مجلسِ محمدی کے مراتب ہیں جو صاحبِ جمعیت ہیں۔ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں صدق و یقین سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وجود مبارک کا حلیہ اس طرح سے بیان کیا گیا ہے:
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اَحْمَرُ بَیَاضُ اللَّوْنَ رَاحَۃُ الْجَبْھَتِ اَفَالِجُ الْاَسْنَانِ اَقْنَی الْاَنْفِ اَسْوَدُ الْعَیْنِ مَلِیْحُ مَجْمَعُ اللِّحْیَۃِ طَوِیْلُ الْیَدَیْنِ رَقِیْقُ الْاَنَامِلِ قَامُ الْقَدِّ لَیْسَ فِیْ بَدْنِہٖ شِعْرُ اِلَّا کَالْخَطِّ مِنَ الصَّدْرِ اِلَی السُّرَتِ وَکَانَ خَاتَمُ النَّبُوَّۃِ کَتَبَ بَیْنَ مَنْکَبَیْہِ۔
ترجمہ: اللہ کے نام سے شروع جو بہت ہی مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا رنگ گندمی سفید، پیشانی کشادہ، دندان مبارک کھلے، ناک مبارک اونچی، آنکھیں سیاہ، دلکش صورت، داڑھی مبارک گھنی، ہاتھ مبارک لمبے، انگلیاں مبارک باریک اور قد درمیانہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بدن مبارک پر بال نہیں تھے صرف سینے سے ناف تک ایک خط بنا ہوا تھا جبکہ پشت مبارک پر مہرِ نبوت تھی جس کا نقش اس طرح سے ہے:
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
مَنْ رَّأَنِیْ فَقَدْ رَأَلْحَقِّ اِنَّ الشَّیْطَانَ لَا یَتَمَثَّلُ بِیْ وَ لَا بِالْکَعْبَۃِ اَیْ مَنْ رَّأَنِیْ فِی الْمَنَامِ فَقَدْ رَأَنِیْ تَحْقِیْقًا لِاَنَّ الشَّیْطَانَ لَا یَقْدِرُ عَلٰی صُوْرَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ وَ لَا عَلٰی ھَیْئَۃِ شَیْخِ الْکَامِلِ۔
فَمَنْ اَنْکَرَ رُوْیَۃَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ بِمَوَافِقِ الْحُلِیَۃِ فَقَدْ اَنْکَرَ الْحَدِیْثِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ عَنْ وَجْہِ الْاِنْکَارِ فَقَدْ اَنْکَرَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ وَ مَنْ اَنْکَرَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ فَقَدْ کَفَرَ
ترجمہ: جس نے مجھے دیکھا پس تحقیق اس نے حق دیکھا کیونکہ بیشک شیطان میری صورت اختیار نہیں کر سکتا اور نہ ہی کعبہ کی۔ یعنی جس نے مجھے خواب میں دیکھا یقینا اس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان کو یہ قدرت حاصل نہیں کہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صورت اختیار کر سکے اور نہ ہی وہ شیخِ کامل کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔
پس جس نے اس حلیہ مبارک کے موافق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دیدار کا انکار کیا تحقیق اس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حدیث مبارکہ کا انکار کیا اور جس نے حدیث مبارکہ کا انکار کیا اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا انکار کیا اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا انکار کیا یقینا اس نے کفر کیا۔Kaleed-ul-Tauheed Kalan
یہ دیدار مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا شرف اور اللہ کی عطا ہے۔
(جاری ہے)