خشیت ِ الٰہی (Khashiyat e Ilahi)
تحریر: فقیہہ صابر سروری قادری(رائیونڈ)
عربی زبان میں ڈر کے اظہار کے لیے عموماً دوا لفاظ استعمال ہوتے ہیں ،ایک خوف دوسرا خشیت
اردو میں دونوں کا ترجمہ ڈر اور خوف کیا جاتا ہے لیکن درحقیقت ان دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ امام راغب اصفہانیؒ نے مفردات القرآن میں لکھا ہے :
کسی چیز کے آثار اور نتائج سے آنے والے خطرہ کا اندیشہ جیسے کسی دشمن، درندے یا کسی تکلیف دہ چیز سے ڈرناخوف کہلاتا ہے۔ اس کی ضد امن ہے۔(مفردات القرآن)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَّاٰمَنَہُمْ مِنْ خَوْفِ (سورۃ القریش۔4)
ترجمہ: اور انہیں خوف سے امن عطا کیاہے۔
خشیت اس ڈر کو کہتے ہیں جو کسی ذات کی انتہائی عظمت اور محبت کی وجہ سے پیدا ہوتاہے۔ اس ڈر کا تقاضا یہ ہوتاہے کہ اس ذات کی رضا اور خوشی کی فکر ہر وقت لاحق رہتی ہے اور اس کی ناراضی کے اندیشہ سے بھی انسان بچتا ہے۔ یہی خشیت بندہ کو بارگاہ ِخداوندی میں کامل اور مقبول بنادیتی ہے۔خوف اور خشیت میں فرق قرآن مجید کی دو آیات سے مزید واضح ہوتا ہے۔
سورہ فاطر کی آیت نمبر28 میں ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:
اللہ تعالیٰ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔ (سورۃ فاطر۔28)
اور دوسری طرف سورہ یونس کی آیت نمبر 62 میں فرمایا:
یاد رکھو جو لوگ اللہ کے دوست ہیں ان پر کوئی خوف نہیں۔
معلوم ہوا کہ اللہ کے نیک بندوں میں خشیتِ الٰہی تو ہوتی ہے لیکن خوف سے وہ محفوظ ہوتے ہیں اللہ کے نیک بندوں میں نہ تکالیف کا خوف ہوتا ہے نہ مصیبتوں سے ڈرتے ہیں‘ یہاں تک کہ وہ موت سے بھی نہیں ڈرتے۔ ہاں اللہ کے نیک بندے اللہ سے ڈرتے ہیں۔ عام انسان دنیا کی چیزوں سے خوف کھاتے ہیں،دنیوی مقاصد، آرام و راحت اور عزت و دولت میں ذرا سی کمی آنے لگے تو راتوں کی نیندیں اڑ جاتی ہیں،ذرا ذرا سی تکلیف اور پریشانی کے خوف سے ان سے بچنے کی تدبیریں کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک مسلمان کے اندر خوفِ خدا اور خشیتِ الٰہی جس قدر آجاتی ہے اسی قدر وہ اللہ کی اطاعت کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے اور اسے اپنے حقوق حاصل کرنے کے بجائے دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا’’خشیتِ الٰہی سے جس بندہ مومن کی آنکھوں سے کچھ آنسو نکلیں اگرچہ وہ (مقدار میں اتنے کم ہوں کہ) مکھی کے سر کے برابر ہوں پھر وہ آنسو بہہ کر اس کے چہرے پرپہنچ جائیں تو اللہ تعالیٰ اس چہرے کو جہنم کی آگ کے لیے حرام کر دے گا۔‘‘(ابنِ ماجہ)
خوف خدا انسان کے اندر کیسے پیدا ہوتا ہے؟
اس کا جواب یہ کہ جس قدر اللہ کی معرفت اور اس کی پہچان حاصل ہوتی جائے گی اس کا ڈر اور خوف نصیب ہو تا جائے گا۔
عربی میں ایک محاورہ ہے’’الانسان عبدالاحسان‘‘ انسان احسان کا غلام ہوتاہے۔یہ جملہ انسان کی نفسیات کی عکاسی کرتا ہے۔ کسی انسان کے ساتھ دوسرا انسان اچھا سلوک کرے تو یہ انسان کسی موقع پر اپنے محسن کی نافرمانی نہیں کرتا۔ معمولی احسانات کی بنا پر ایک انسان دوسرے انسان کی نافرمانی سے ڈرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ میں اس کے کہے پر عمل کروں۔تو پھر انسان پر اللہ کے کس قدر احسانات ہیں کہ ان کو انسان شمار کرنا چاہے تو شمار کرنااس کے بس میں نہیں۔ لیکن انسان اس سے والہانہ محبت تب کرتاہے جب اسے ان انعامات کی قدر ہو۔جب انسان انعاماتِ خداوندی کے بارے میں غور و فکر کرتا ہے تو پھر انسان کے ذہن میں اللہ تعالیٰ کا یقین کامل پیدا ہوتاہے۔ اس کے نتیجہ میں خوف ِخدا نصیب ہوتا ہے، یہ ڈر اور خوف خالصتا ًاللہ سے محبت اور اس کی عظمت کی بنا پر ہو گا، یہ وہ ڈر نہیں جسے عام طور پر خوف کہتے ہیں۔
عام طور پر لوگ اللہ ربّ العزت کی نسبت دوسروں سے زیادہ ڈرتے ہیں مثلاً خوفِ خدا اتنا نہیں ہوتاجتنا اپنے افسر کا ڈر ہو تاہے۔ اس کی بنیادی وجہ دوسرے انسان کی طاقت اور اس کے اختیارات کا تجربہ ہے کہ اگر اس انسان کی بات نہ مانی تو اس کا انجام یہ ہو گا۔ بس یہی چیز مخلوق کا ڈر دل میں بٹھا دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے واقعہ میں دی۔ فرعون نے اللہ کونہیں مانا، اللہ کے نبی کی باتوں کو نہیں مانا، لیکن جب اللہ نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور فرعون غرق ہونے لگا تو پھر اللہ پر ایمان لانے لگا۔ لیکن اس وقت کے ایمان کا اعتبار نہیں کیا گیا اس لیے کہ اس ایمان کی بنیاد غرق ہونے کا خوف تھانہ کہ خوفِ خدا۔
اللہ تعالیٰ کو وہ خوف پسند ہے جو اس کی عظمت اور محبت کی بنا پر ہو۔ ایسا خوف خدا رکھنے والے انسان کی خوبیاں یہ ہوتی ہیں کہ وہ اللہ پر پختہ ایمان رکھتا ہے۔معمولی معمولی باتوں میں بھی مخلوق کے بجائے خالق سے ڈرتا ہے۔ یہ انسان محض یہ سوچ کر کہ لوگ کیا کہیں گے، فضول خرچی نہیں کرتا۔ کیونکہ اسے مخلوق کا نہیں خالق کا خوف ہے۔ پھر یہ انسان حرام مال کمانے کی دوڑ میں شامل ہونے کے بجائے حلال مال پر قناعت کرتاہے۔ خوف ِخدا رکھنے والے انسان میں ایک اہم خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے حقوق حاصل کرنے کی فکر کے بجائے دوسروں کے حقوق ادا کرنے کے لیے بے چین رہتا ہے۔ دوسرے انسان سے اس پر زیادتی ہو جائے تو انتقام کے بجائے عفو و درگزر سے کام لیتا ہے۔ دوسروں کے پاس نعمتیں دیکھ کر دل میں جلن اور کڑھن کے بجائے انہیں مبارک باد دیتا ہے، اس پر خوش ہوتا ہے۔ دوسرے کا دل توڑنا اس کے نزدیک بڑا گناہ ہوتا ہے اس لیے کہ خوف خدا رکھنے والے شخص کی ایک بنیادی صفت یہ ہوتی ہے کہ اسے اپنے خالق و مالک کی معمولی سی نافرمانی بھی پہاڑ نظر آتی ہے۔جس قدر اللہ کی معرفت حاصل ہوتی جائے گی اسی قدر خشیتِ الٰہی نصیب ہو گی ۔
قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَ تْھُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ۔(سورۃالانفال۔ 2)
ترجمہ: ایمان والے صرف وہی لوگ ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے)خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ (کلامِ محبوب کی لذت انگیز اور حلاوت آفریں باتیں) ان کے ایمان میں اضافہ کر دیتی ہیں اور وہ (ہر حال میں) اپنے ربّ پر توکل (قائم) رکھتے ہیں۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی۔ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی۔ (سورۃ النازعات۔ 40-41)
ترجمہ: اور جو شخص اپنے ربّ کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اس نے (اپنے) نفس کو (برُی) خواہشات و شہوات سے باز رکھا تو بے شک جنت ہی اسکا ٹھکانہ ہوگا۔
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ ۔ (سورۃ الرحمن۔ 46)
ترجمہ: اور جو شخص اپنے ربّ کے حضور (پیشی کے لیے) کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔
احادیثِ مبارکہ میں بھی بارہا خشیتِ الٰہی کی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
جس شخص نے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا اور پھر خشیتِ الٰہی کی بنا پر اس کی آنکھوں سے اس قدر اشک رواں ہوئے کہ وہ زمین تک پہنچ گئے تو اسے روزِ قیامت عذاب نہیں دیا جائے گا۔(امام حاکم، ابنِ ابی شیبہ ، طبرانی)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ان باتوں میں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے روایت کی ہیں،سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’مجھے میری عزت کی قسم ہے میں اپنے بندے میں دو خوف اور دو امن اکٹھے نہیں کروں گا اگر اس نے دنیا میں مجھ سے خوف رکھا تو میں اسے قیامت کے دن امن دوں گا اور اگر دنیا میں مجھ سے بے خوف رہا تو میں اسے قیامت کے دن خوف دوں گا‘‘۔(طبرانی۔ بیہقی)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ جب اللہ ربّ العزت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر یہ آیت نازل فرمائی ’’اے ایمان والو!اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں‘‘ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک دن صحابہؓ میں یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ایک نوجوان یہ آیت سن کر بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کے دل پر ہاتھ رکھا تو وہ دھڑک رہا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اے نوجوان کہو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اس نے یہ کلمہ پڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسے جنت کی بشارت سنائی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! کیا وہ ہم میں سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا ’’یہ (وعدہ) ہر اس شخص کے لیے ہے جو میرے حضور کھڑا ہونے سے ڈرا اور میرے وعدہ(عذاب) سے خائف ہوا۔‘‘ (سورۃ ابراہیم۔14)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے آیت ’’والذی یوتون ما اتواو قلوبھم
وجلۃ‘‘ (اور جو لوگ دیتے ہیں جو کچھ وہ دے سکتے ہیں اور ان کے دل کپکپاتے ہیں) کے بارے میں پوچھا کہ کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے اور چوری کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اے صدیق کی بیٹی! نہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور صدقہ کرتے ہیں اور اس کے باوجود ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی نیکیاں قبول نہ ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جوبھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں۔‘‘ (ترمذی، ابنِ ماجہ)
ضروری ہے کہ آدمی کسی بھی حال میں بے خوف اور مطمئن نہ بیٹھا رہے۔ اسے اللہ تعالیٰ سے اچھی اُمید بھی ہو مگر وہ اللہ کی بے نیازی کی صفت سے لرزاں بھی رہے۔ ایسے ہی لوگ دین کی راہ میں آگے بڑھتے ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بڑھ کر کیا کوئی پاکیزہ، معصوم اور محبوب ہستی ہوگی، وہ جن میں اپنی ہی جھلک دیکھنے کے بعد اللہ کو اتنا پیار آیا کہ اس نے ساری کائنات تخلیق فرما دی۔ جن کی شان میں قرآن اتارا اور ہر جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اے محبوب کہہ کہ مخاطب کیاگیا یعنی جو محبوبیت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز تھے مگر اُنؐ کا دل بھی خشیتِ الٰہی سے لبریز تھا۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہٗ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم گھبرا کر اس طرح خوف سے کھڑے ہوگئے کہ جیسے قیامت آگئی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مسجد میں آئے اور نماز میں طویل قیام، رکوع اور سجدہ کیا۔ میں نے اس سے پہلے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس طرح نماز پڑھتے نہیں دیکھا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جنہیں اللہ بھیجتا ہے یہ کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرانے کے لیے ان نشانیوں کو بھیجتا ہے جب تم اس قسم کی کوئی چیز دیکھو تو اللہ تعالیٰ کے ذکر، اس سے دعا اور استغفار کی پناہ میں آؤ۔‘‘ (متفقہ علیہ)
خشیتِ الٰہی کے بارے میں اولیا اللہ کے اقوال
سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ فرماتے ہیں:
اہلِ اللہ ہر حالت میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں، جو کام بھی کرتے ہیں ان کے دل خوف زدہ ہی رہتے ہیں اور اس سے ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں وہ اچانک نہ پکڑ لیے جائیں اس سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کا ایمان ان کے پاس عاریت نہ ہو۔ (الفتح الربانی۔ مجلس61)
خوفِ خداوندی دل کا کوتوال ہے اور دل کو نور بخشنے والا، وضاحت و شرح کرنے والا ہے اگر تو اسی حالت پر قائم رہا تو یقیناتو نے دنیا اور آخرت میں سلامتی کو رخصت کردیا۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 56)
اولیا کرام بڑے خطرے میں رہتے ہیں۔ ان کا خوف اس وقت تک ختم نہیں ہوتا جب تک وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کر کے سکون حاصل نہ کر لیں۔ اس لیے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کو پہچان لیا اس کا خوف اور زیادہ بڑھ گیا اور اس لیے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’میں اللہ تعالیٰ کو تم سے زیادہ پہچاننے والا اور تم میں سب سے زیادہ خوف کرنے والا ہوں۔‘‘ (الفتح الربانی۔ مجلس۔49)
’’خدا کا خوف لازم رکھ! خدا کے سوا کسی سے نہ ڈر اور نہ ہی اس کے سوا کسی سے امید رکھ۔‘‘
حضرت ذوالنون مصریؒ فرماتے ہیں:
عاشق کو محبت کا جام اس وقت پلایا جاتا ہے جب خوف اس کے دل کو پختہ اور مضبوط بنا دیتا ہے۔
حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا:
پانچ چیزیں تزکیہ قلب کا ذریعہ ہیں خوفِ الٰہی، اللہ سے امید وابستہ رکھنا، صرف اللہ سے حیا رکھنا، صرف اللہ سے محبت رکھنا اورانس باللہ۔
مزید فرمایا’’جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اس سے ہر چیز ڈرتی ہے۔‘‘
حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
ایماندار شخص وہ ہوتا ہے جو اپنے تمام اعضا کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے خوفزدہ رہے۔ (مکاشفۃ القلوب)
حضرت علامہ ابواللیث رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ساتویں آسمان پر ایسے فرشتے موجود ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جس وقت سے ان کی تخلیق فرمائی ہے وہ سجدہ میں پڑے ہیں اور تا قیامت سجدہ میں ہی رہیں گے۔ ان کے پہلو خوفِ الٰہی کے باعث کانپتے ہیں۔ وہ روزِ قیامت اپنے سر سجدے سے اُٹھا کر اللہ تعالیٰ سے عرض کریںگے ’’اے اللہ تو پاک ہے ہم ایسی عبادت نہیں کر سکے جیسا تیرا حق تھا۔‘‘ تواللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ’’وہ خوفزدہ ہیں اپنے ربّ سے اور وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیا جاتا ہے‘‘ یعنی وہ اللہ سے بے خوف نہیں ہیں (بلکہ ہر وقت ڈرتے رہتے ہیں) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے ’’جب بوجہ خوفِ الٰہی بندے کا بدن کانپ اُٹھتا ہے تو اس کے گناہ اس کے بدن سے یوں جھڑ جاتے ہیں جیسے درخت کو ہلانے سے اس کے پتے جھڑ جاتے ہیں۔‘‘ (مکاشفتہ القلوب)
آفتابِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس خشیتِ الٰہی کے بارے میں فرماتے ہیں:
خشیتِ الٰہی مومن کا زیور ہے۔ جس کی آنکھوں میں اللہ تعالیٰ کے خوف سے آنسو نہ آئے وہ اپنے آپ کو طالبِ مولیٰ نہ سمجھے۔ پھر ایک حدیثِ مبارکہ بیان فرمائی کہ ’’اللہ کو دو ہی قطرے پسند ہیں۔ ایک شہید کے خون کا اور دوسرا اللہ کے خوف سے گرا آنسو۔‘‘
آپ مدظلہ الاقدس نے فرمایا’’اللہ کو مضطرب دل پسند ہے۔ وہ مضطرب دل جو کہ خشیتِ الٰہی سے لبریز ہو، اللہ ایسے دل کی دعا بہت جلد قبول فرماتا ہے۔ مومن کے لیے لازم ہے کہ وہ ہر وقت اللہ سے ڈرتا رہے اسی ڈر کی وجہ سے وہ ہر برُے کام سے بچا رہے گا‘‘۔
آپ مدظلہ الاقدس مزید فرماتے ہیں :
مومن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اپنی نیکیوں پر کبھی فخر نہیں کرتا کیونکہ نیکیوں پر فخر کرنا تو منافق کی نشانی ہے۔ مومن تو ہر کام اللہ کے حکم کے مطابق کرنے کے باوجود اسی خوف میں رہتا ہے کہ میں ویسے نہیں کر پایا جیسے اللہ چاہتا تھا اور پتہ نہیں بارگاہِ الٰہی میں اس کام کی قبولیت ہوگی بھی یا نہیں۔لہٰذا جتنا زیادہ خوفِ الٰہی دل میں ہوگا اتنی ہی عاجزی پیدا ہوگی۔(سلطان العاشقین)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
بے شک اللہ کے بندوں میں سے وہی اس سے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(سورۃ فاطر۔28)
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا:یہاں ’علم والے‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کی معرفت رکھتے ہیں۔ جو اللہ کو جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں وہی اس کی ناراضی سے ڈرتے ہیں۔
حضرت علی بن عثمان ہجویری رحمتہ اللہ علیہ (المعروف حضرت داتا گنج بخشؒ) فرماتے ہیں:
صحیح فقر کی علامت یہ ہے کہ بندہ فقر کے چھن جانے سے ڈرتا رہے۔ (کشف المحجوب )
اور فقر کیا ہے خود ذاتِ باری تعالیٰ۔ تو حقیقی خوف اللہ سے دوری کاخوف ہے۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دلِ مرتضیٰؓ سوزِ صدیقؓ دے
حضرت رابعہ بصریؒ خوفِ الٰہی کے باعث ہر وقت روتی رہتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں :’’ میں اللہ کے فراق سے خوفزدہ ہوں جس کو محفوظ تصور کرتی ہوں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ دمِ نزاع یہ ندا آئے کہ تو لائق بارگاہ ِالٰہی نہیں۔‘‘
کامل ایمان والوں کے تین قلبی و باطنی اوصاف
سچے مومنوں کا پہلا وصف یہ ہے کہ جب اللہ عزوجل کویاد کیا جائے تو اُن کے دل ڈر جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کاخوف دو طرح کا ہوتا ہے:
(1)اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا
(2)اللہ عزوجل کے جلال، اس کی عظمت اور اس کی بے نیازی سے ڈرنا۔
پہلی قسم کاخوف عام مسلمانوں اور عام پرہیز گاروں کو ہوتا ہے اور دوسری قسم کا خوف انبیا و مرسلین، اولیائے کاملین اور مقرب فرشتوں کو ہوتا ہے اور جس کا اللہ تعالیٰ سے جتنا زیادہ قرب ہوتاہے اسے اتنا ہی زیادہ خوف ہوتاہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
میں تم سب سے زیادہ اللہ عزوجل سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ اللہ عزوجل کی معرفت(پہچان)رکھنے والا ہوں۔ (بخاری،1/18، حدیث:20)
مقربین کی عظمت الٰہی کے سبب خوفِ خدا کی کیفیت کے لیے یہ روایات بھی ملاحظہ ہوں۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے ایک مرتبہ درخت پر پرندے کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو فرمایا’’ اے پرندے! تیرے لیے کتنی بھلائی ہے کہ تو پھل کھاتا اور درخت پر بیٹھتا ہے۔ کاش! میں بھی ایک پھل ہوتا جسے پرندے کھا لیتے۔‘‘ (الزھد لابن مبارک، ص81، رقم:240)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہٗ نے ایک مرتبہ زمین سے ایک تنکا اٹھا کر فرمایا’’کاش! میں ایک تنکا ہوتا۔ کاش! میں کچھ بھی نہ ہوتا۔ کاش! میں پیدا نہ ہوا ہوتا۔ کاش! میں بھولا بسرا ہوتا۔‘‘ (الزھد لابن مبارک، ص79، رقم:234)
سچے مومنوں کا دوسرا وصف یہ بیان ہوا ہے کہ اللہ پاک کی آیات سن کر اُن کی ایمانی قوت و نورانیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ قرآن کلامِ خدا، منبع انوار، معدنِ روحانیت، سرچشمہ کمالات ہے۔ اس لیے جن کے دلوں کے دروازے بند نہیں بلکہ کھلے ہیں نورِ قرآن ان میں داخل ہوکر روشنی بکھیر دیتا ہے اور جن کی دلوں کی زمین بنجر نہیں وہاں انوارِ قرآنی کی برسات سے ایمان کے پھول لہلہانے لگتے ہیں اور باطن کی دنیا مہک اٹھتی ہے۔ اسی لیے اولیا ، صلحا اور علماکی صحبت میں بیٹھنے سے دلوں کی حالتیں بدلتی ہیں۔ یہاں ایمان میں زیادتی سے ایمان کی مقدار میں زیادتی مراد نہیں بلکہ اس سے مراد ایمان کی کیفیت میں زیادتی ہے۔
سچے مومنوں کا تیسرا وصف یہ بیان ہو اہے کہ وہ اپنے ربّ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ یعنی وہ اپنے تمام کام اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیتے ہیں اوراُس کے علاوہ کسی سے امید رکھتے ہیں اور نہ کسی سے ڈرتے ہیں۔
انسانی زندگی میں خشیتِ الٰہی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے کیونکہ یہی وہ صفت ہے جو اسے تنہائی میں بھی گناہ سے باز رکھتی ہے۔ اللہ ربّ العز ت کا سامنا کرنے اور دیکھنے کا خوف مومن کی زندگی میں اس قدر شامل ہوتا ہے کہ وہ ہر ہر لمحہ خوفِ خدا میں گزارتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سلف الصالحین بہترین طریقے سے عمل کرنے اور اپنی دنیاوی خواہشات سے رک جانے کے باوجود خشیتِ الٰہی سے کانپتے تھے۔ لہٰذا ہمیں قبرو حشر کی سختیوں اور دوزخ سے ڈرنے کی بجائے اللہ رب العزت کی ناراضی اور دوری سے ڈرنا چاہیے۔
یوں تو رحمت ہے تیری تیرے غضب پر حاوی
پھر بھی محشر میں میرا رکھنا خدایا پردہ
(واصف علی واصف)
اللہ تعالیٰ ایک انسان کو اس مقام پر دیکھنا چاہتا ہے جو اشرف المخلوقات کے معنی و مفہوم پر پورا اترتا ہو اسی لیے اس نے عبادات میں تقویٰ، اخلاص اور خشیتِ الٰہی کو بنیادی اہمیت دے کر مسلمان کو ان کے مطابق زندگی گزارنے کا پابند بنایا اور یہاں آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حدیث مبارکہ نے یہ بات سمجھنے میں مزید آسانی فرما دی۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ہے:
دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔
تو اس دنیاوی قید میں رہتے ہوئے اگر ہم اپنی زندگیاں تقویٰ، اخلاص اور خشیتِ الٰہی کی بنیاد پر گزاریںگے تو یقینا اُخروی کامیابی بھی ہمارے ہی لیے ہے۔خشیتِ الٰہی معرفتِ الٰہی سے نصیب ہوتی ہے اور معرفتِ الٰہی مرشد کامل اکمل کے بغیر ناممکن ہے۔
آج کے اس پر فتن دور میں مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہی وہ عظیم ہستی ہیں جو تزکیہ نفس کر کے اللہ پاک کا قرب عطا فرماتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الر حمن مدظلہ الاقدس کی تعلیمات کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
استفادہ کتب:
الفتح الربانی: تصنیف سیدّنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؓ
مکاشفۃ القلوب: تصنیف امام محمد غزالیؒ
کشف المحجوب: تصنیف حضرت داتاگنج بخشؒ
سلطان العاشقین: ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
اللہ تعالیٰ کو وہ خوف پسند ہے جو اس کی عظمت اور محبت کی بنا پر ہو۔
عمدہ مضمون
یہ مضمون حق ہے۔🌷
اللہ پاک ہمیں حضور مرشد کریم کے صدقہ سے منزل مقصود تک پہنچائے آمین 🌷
آفتابِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس خشیتِ الٰہی کے بارے میں فرماتے ہیں:
خشیتِ الٰہی مومن کا زیور ہے۔ جس کی آنکھوں میں اللہ تعالیٰ کے خوف سے آنسو نہ آئے وہ اپنے آپ کو طالبِ مولیٰ نہ سمجھے۔ پھر ایک حدیثِ مبارکہ بیان فرمائی کہ ’’اللہ کو دو ہی قطرے پسند ہیں۔ ایک شہید کے خون کا اور دوسرا اللہ کے خوف سے گرا آنسو۔‘‘
ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت مضمون ہے اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین ❤️
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا’’خشیتِ الٰہی سے جس بندہ مومن کی آنکھوں سے کچھ آنسو نکلیں اگرچہ وہ (مقدار میں اتنے کم ہوں کہ) مکھی کے سر کے برابر ہوں پھر وہ آنسو بہہ کر اس کے چہرے پرپہنچ جائیں تو اللہ تعالیٰ اس چہرے کو جہنم کی آگ کے لیے حرام کر دے گا۔‘‘(ابنِ ماجہ)
یوں تو رحمت ہے تیری تیرے غضب پر حاوی
پھر بھی محشر میں میرا رکھنا خدایا پردہ
حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
ایماندار شخص وہ ہوتا ہے جو اپنے تمام اعضا کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے خوفزدہ رہے۔ (مکاشفۃ القلوب)
آپ مدظلہ الاقدس نے فرمایا’’اللہ کو مضطرب دل پسند ہے۔ وہ مضطرب دل جو کہ خشیتِ الٰہی سے لبریز ہو، اللہ ایسے دل کی دعا بہت جلد قبول فرماتا ہے۔ مومن کے لیے لازم ہے کہ وہ ہر وقت اللہ سے ڈرتا رہے اسی ڈر کی وجہ سے وہ ہر برُے کام سے بچا رہے گا‘‘۔
سبحان اللہ
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دلِ مرتضیٰؓ سوزِ صدیقؓ دے
SubhanAllah
Bohat alla
اللہ پاک ہمیں حضور مرشد کریم کے صدقہ سے منزل مقصود تک پہنچائے آمین 🌷
Behtareen must read
یوں تو رحمت ہے تیری تیرے غضب پر حاوی
پھر بھی محشر میں میرا رکھنا خدایا پردہ
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
بے شک اللہ کے بندوں میں سے وہی اس سے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(سورۃ فاطر۔28)
آمین
اللہ پاک ہمیں بھی حشیتِ الٰہی عطا کرے اور صرف آپنی ذات کا خوف دے
سورہ فاطر کی آیت نمبر28 میں ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:
اللہ تعالیٰ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔ (سورۃ فاطر۔28)
اور دوسری طرف سورہ یونس کی آیت نمبر 62 میں فرمایا:
یاد رکھو جو لوگ اللہ کے دوست ہیں ان پر کوئی خوف نہیں۔
حضرت ذوالنون مصریؒ فرماتے ہیں:
عاشق کو محبت کا جام اس وقت پلایا جاتا ہے جب خوف اس کے دل کو پختہ اور مضبوط بنا دیتا ہے۔
بہترین تحریر ہے
بہت خوبصورت تحریر
ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت مضمون
بہت ہی بہترین مضمون ہے
بہترین آرٹیکل
اللہ تعالیٰ کو وہ خوف پسند ہے جو اس کی عظمت اور محبت کی بنا پر ہو۔
جس شخص نے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا اور پھر خشیتِ الٰہی کی بنا پر اس کی آنکھوں سے اس قدر اشک رواں ہوئے کہ وہ زمین تک پہنچ گئے تو اسے روزِ قیامت عذاب نہیں دیا جائے گا۔
بہترین بلاگ ہے 👍
دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔