خوابوں کی اقسام Khawabon ki Aqsaam


5/5 - (15 votes)

خوابوں کی اقسام Khawabon  ki Aqsaam

تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

سونا آرام و سکون کا اظہار ہے۔ جب انسان دن بھر کی محنت و مشقت سے تھک جاتا ہے تو رات کو آرام و سکون کی خاطر سو جاتا ہے۔ تب اس کا مثالی جسم اس کے نفسانی جسم سے الگ ہو کر عالمِ ملکوت کی سیر کرتا ہے۔ عالمِ ملکوت کو عالمِ مثال بھی کہتے ہیں جہاں یہ جسمانی وجود نہیں بلکہ مثالی وجود ہوتے ہیں۔ اگر کوئی اللہ تعالیٰ کا مقرب بندہ ہو تو اس کی رسائی عالمِ ملکوت سے آگے عالمِ جبروت اور لاھوت تک ہوتی ہے۔ اِسی بنا پر عوام اور خواص کے خواب بھی مختلف ہوتے ہیں۔

خوابوں کی مختلف اقسام ہیں جن میں سے ایک قسم نفس کا خیال ہے۔ انسان کا دماغ دن بھر مختلف سوچوں اور خیالات میں مشغول رہتا ہے۔ یہ سوچیں اور خیالات اس کی خواہشات، طلب، نصب العین اور حالاتِ زندگی کے متعلق ہوسکتی ہیں۔ ان سوچوں کے لیے انسان کو توجہ نہیں کرنی پڑتی کیونکہ یہ سب تفکرات شعور کے ساتھ ساتھ لاشعور میں بھی محفوظ ہوتے ہیں۔بالفرض اگر ایک انسان کی آرزو موبائل فون خریدنا ہے تووہ ہر وقت یہی سوچتا رہے گا کہ موبائل کونسے ماڈل کا خریدنا ہے، کتنی رقم سے خریدنا ہے اور رقم کا انتظام کیسے کرناہے وغیرہ وغیرہ۔ حتیٰ کہ اکثر سوچیں شعور پر اس قدر حاوی ہوتی ہیں کہ انسان کو سوتے میں خواب بھی انہی چیزوں کے متعلق آتے ہیں جن کے متعلق بیداری میں سوچتا رہا تھا۔ 

مختصراً یہ کہ انسان دن بھر جن امور میں مشغول و مصروف رہتا ہے یا جن چیزوں کے متعلق زیادہ سوچتا ہے یا جو اس کے دل و دماغ پر چھائی رہتی ہیں وہی رات کو اس کے خواب میں متشکل ہو کر اس کے سامنے آ جاتی ہیں۔ یہ بے معنی خواب ہیں۔

خواب کی دوسری قسم ڈرائونے خواب ہیں جو کہ شیطانی اثرات کے زیرِ اثر نظر آتے ہیں۔شیطان چونکہ بنی آدم کا ازل سے دشمن ہے اور اس نے ازل سے ہی اس کو گمراہ کرنے اور پریشان کرنے کی قسم کھائی ہوئی ہے اس لیے وہ خواب اور نیند میں بھی انسان کو سکون کا سانس نہیں لینے دیتا اور اس کو ڈرانے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کرتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :
جان لو کہ جب شیطان دیکھتا ہے کہ کوئی اطاعت و بندگی یا ذکرِمعرفت کے ذریعے حق تعالیٰ کے نزدیک پہنچنے والا ہے تو اُسے خواب میں آوازدیتا ہے کہ اے فلاں! کعبہ کی طرف جاؤ اور حاجی بن کر طوافِ حرم کرو اور مدینہ میں روضہ مبارک کی زیارت کرو۔ جو حج پر جاتا ہے اور حاجی بن کر حرم مبارک کا طواف اور روضہ مبارک کی زیارت کرتاہے وہاں بھی ابلیس لعین اس کے خواب میں آکر کہتا ہے اے فلاں! تجھے اجازت ہے کہ ہندوستان یا کسی دوسرے ملک میں فلاں مقام پر فلاں فقیر سے تعلیم و تلقین حاصل کر کہ تیرا نصیب اس کے پاس ہے۔ درحقیقت وہ فقیر شیطان کا تابع اور پریشان حال ہوتا ہے۔ اُسے بھی شیطان کہتا ہے کہ فلاں شخص تیرے پاس آئے گا اُسے گمراہی کی تعلیم و تلقین کرو اور عبادت و معرفت سے دور کر کے شراب نوشی میں مبتلا کر دو۔ (محک الفقر کلاں)

ان پریشان خوابوں یا شیطانی خوابوں سے بعض انسان خوفزدہ ہو جاتے ہیں یا وہم و خطرات میں مبتلا ہو کر پریشان رہنے لگتے ہیں۔  ایسے خواب بے مقصد اور ناقابل ِتعبیر ہوتے ہیں اور انہیں کسی سے بیان نہیں کرنا چاہیے۔ ایسے ہی خوابوں کے متعلق حدیثِ مبارکہ ہے:
عبداللہ بن ابی قتادہؓ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے ہے۔ اس لیے اگر کوئی برا اور ڈرائونا خواب دیکھے تو بائیں طرف تھوک دے اور شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے۔ اس عمل سے شیطان اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا۔‘‘ (صحیح بخاری ۔3292) 

خواب کی تیسری قسم وہ ہے جس میں انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارتیں ہوتی ہیں یا آئندہ وقوع پذیر ہونے والے واقعات کے متعلق اشارے ملتے ہیں یا انسان خواب میں خوشنما چیزیں، باغات یا جنت وغیرہ کو دیکھتا ہے جن سے وہ فرحت و خوشی محسوس کرتا ہے اور اس کے اندر امید و ولولہ جنم لیتا ہے اور وہ مزید تندہی سے اطاعتِ الٰہی میں مشغول ہو جاتا ہے۔ مزید یہ کہ خواص کو خواب میں اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ بعض کو انبیا و اولیا کی زیارت بھی ہوتی ہے۔ ایسے ہی خواب قابلِ تعبیر اور فائدہ مند ہوتے ہیں۔

عوام کے خواب بے مقصد اور ان کی نفسانیت کی بنا پر ہوتے ہیں جبکہ خواص کے خواب ان کے باطنی مرتبہ اور بصیرت کی بنا پر ہوتے ہیں۔ سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ نیند یا اونگھ میں آنے والے قابلِ تعبیر اور سچے خوابوں کے بارے میں اپنی تصنیف سرّالاسرار میں فرماتے ہیں:
نیند اور اونگھ میں جو قابل ِتعبیر واقعات پیش آتے ہیں وہ سچے اور نفع بخش ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ الرُّئْ یَا بِالْحَقِّ ج لَتَدْ خُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ  (سورۃ الفتح۔27)
ترجمہ:بے شک اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا خواب سچ کر دکھایا۔ انشاء اللہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) مسجد الحرام میں امان کے ساتھ داخل ہوں گے۔

جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی زبان سے یہ فرمایا:
اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا (سورۃ یوسف۔4)
ترجمہ:بے شک میں نے گیارہ ستاروں کو دیکھا۔

جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
لَمْ یَبْقَ مِنْ بَعْدِیْ نَبُوَّۃٌ اِلاَّ الْمُبَشِّرَاتُ یَرَاھَا الْمُؤْمِنُ اَوْتُرٰی لَہٗ 
ترجمہ:میرے بعد نبوت میں صرف مبشرات ہی باقی ہیں جو مومن دیکھتا ہے یا کوئی اس کے لیے دیکھتا ہے۔ (سرّالاسرار)

سیدّنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ اپنی کتاب سرّالاسرار میں خوابوں کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
پس جان لو کہ خواب دو طرح کے ہوتے ہیں، آفاقی یا انفسی۔ اور ان میں سے ہر ایک کی دو دو قسمیں ہیں۔

انفسی: یہ خواب یا تو اخلاقِ حمیدہ کے باعث ہوتے ہیں یا اخلاقِ ذمیمہ کے۔ اخلاقِ حمیدہ کے باعث (آنے والے) خواب میں جنت اور اس کی نعمتیں جیسے حوریں، محلات، غلمان اور سفید نورانی صحرا اور جیسے سورج، چاند اور ستارے یا اس سے مشابہ دیگر چیزیں دیکھنا شامل ہے۔ ان سب کا تعلق صفتِ قلب سے ہے اور وہ(خواب) جن میں حیوانات اور پرندوں کا گوشت کھایا ہو، نفسِ مطمئنہ سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ جنت میں نفسِ مطمئنہ کی روزی ان انواع میں سے ہوتی ہے۔

اور جو (خواب) اخلاقِ ذمیمہ کے باعث دکھائی دیتے ہیں وہ امارہ، لوامہ اور ملہمہ کی صفات کے باعث ہیں۔ پس درندے جیسے چیتا، شیر،بھیڑیا، ریچھ، کتا اور خنزیر یا ان جیسے دوسرے جانور مثلاً خرگوش، لومڑی، بلی، تیندوا یا جیسے سانپ، بچھو اور بھِڑ یا دوسرے موذی جانور (خواب میں) دکھائی دیں تو یہ صفاتِ ذمیمہ ہیں جن سے بچنا واجب ہے اور انہیں روح کے راستے سے ہٹانا ضروری ہے۔ 

آفاقی خواب کی اوّل قسم مبشرات ہیںاور دوسری قسم وہ جو (خواب میں) روح کے ساتھ بے ریش نوجوان سے خطاب کرے تو اس پر انوارِ الٰہیہ متجلی ہوں گے کیونکہ تمام اہل ِ جنت اسی (امرد کی) صورت میں ہیں جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اَھْلُ الْجَنَّۃِ جُرْدٌ مُّرْدٌ مَکْحُوْلُوْنَ 
ترجمہ: اہلِ جنت بے ریش، نوعمر اور سرمگیں آنکھوں والے ہوں گے۔ 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مزید ارشاد فرمایا:
رَاَیْتُ رَبِّیْ عَلٰی صُوْرَۃِ شَابٍ اَمْرَدَ 
ترجمہ:میں نے اپنے ربّ کو بے ریش نوجوان کی صورت میں دیکھا۔ (سرّ الاسرار)

جس طرح طالبوں کی تین اقسام ہیں یعنی طالبانِ دنیا، طالبانِ عقبیٰ اور طالبانِ مولیٰ، اسی طرح ان کی طلب کے موافق ان کے خواب بھی مختلف ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا:
طالبِ دنیا، طالبِ عقبیٰ اور طالبِ مولیٰ کے خواب مختلف ہوتے ہیں۔ اگر کوئی خواب میں حیوانات اور سانپ و بچھو کی مثل وحوش و طیور دیکھے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ اس کا دل حب ِدنیا کی کدورت کے باعث سیاہ ہو چکا ہے۔ جو باغ و بوستان، بلند چھت والے محل، حور و قصور اور پھلدار درخت دیکھے تو معلوم ہوا کہ اس کے دل میں طلبِ عقبیٰ ہے۔ جو خواب میں ذکرِاللہ کرے یا کعبتہ اللہ اور حرمِ مدینہ میں نماز پڑھے، آفتاب و ماہتاب، دریا و بادل، مجلسِ انبیا و اولیا اور ذوق و شوق سے تجلیاتِ نورِ الٰہی دیکھے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ طالبِ مولیٰ ہے۔ (محک الفقر کلاں)

نفسانی اور دنیاداروں کے خواب خوفناک اور ڈرائونے ہوتے ہیں جبکہ طالبانِ عقبیٰ اور طالبانِ مولیٰ کے خواب خوشنما ہوتے ہیں۔ اللہ کے نیک بندے بالخصوص اولیا کرام کے خواب اللہ کے قرب کی بدولت مختلف اشاروں اور بشارتوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ اکثر اولیا کو خواب میں اللہ تعالیٰ کا دیدار بھی نصیب ہوا۔ امام ابو حنیفہؒ اور امام احمد بن حنبلؒ سے منقول ہے کہ انہوں نے خواب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے۔ بلکہ امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ انہوں نے 100 مرتبہ خواب میں اللہ کا دیدار کیا۔

مقربین جب سوتے ہیں تو وہ مشاہدئہ حق تعالیٰ میں غرق ہو جاتے ہیں۔ اسی بنا پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
یَنَامُ عَیْنِیْ وَ لَا یَنَامُ قَلْبِیْ 
ترجمہ: میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل نہیں سوتا۔ 

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:

ہک جاگن ہک جاگ نہ جانن، ہک جاگدیاں ہی ستے ھوُ
ہک ستیاں جا واصل ہوئے، ہک جاگدیاں ہی مٹھے ھوُ

مفہوم: ایک تو وہ طالبانِ مولیٰ ہیں جن کے دِل اسمِ  اللہ ذات سے بیدار اور زندہ ہیں انہوں نے نہ صرف دِل کو اسمِ  اللہ ذات کے نور سے منورکر رکھا ہے بلکہ دل کی زمین کو مرشد کی محبت، عشق اور دیدار سے بھی آباد کر رکھا ہے۔ اگر یہ عارف ظاہر میں سوئے ہوئے بھی ہوں مگر باطن میں بیدار ہوتے ہیں۔ دوسری طرف وہ طالبانِ خام ہیں جو حقیقتِ اسمِ اللہ ذات سے بے خبر ہیں اور ظاہری اشغال کے ذریعے معرفتِ الٰہی میں سرگردان ہیں۔ ظاہر میں یہ بیدار بھی ہوں تو ایسے بدنصیب ہیں جو حقیقت سے بے بہرہ ہیں۔ (ابیاتِ باھوؒکامل)

سیدّنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’میرے پاس سو جا،عوام کی نیند کی طرح نہیں بلکہ تو نیند میں بھی میرا دیدار کرے گا۔‘‘ (الرسالۃ الغوثیہ)

اس فرمان کا یہی مطلب ہے کہ سیدّنا غوث الاعظمؓ کا سونا عوام کی طرح سونا نہیں ہوگا بلکہ انہیں اللہ کا دیدار حاصل ہوگا۔ 

محترم قارئین! اگر آپ بھی چاہتے ہیں کہ آپ کے خواب پریشان کن اور ڈرائونے نہ ہوں، آپ کو بھی خواب میں اولیا اللہ، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور اللہ تعالیٰ کا دیدار عطا ہو تو یہ سب اسم اللہ ذات کے ذکر اور تصور کی مشق سے ممکن ہے۔ اسمِ اللہ ذات جسے اسمِ اعظم بھی کہتے ہیں، اس کا فیض سلسلہ سروری قادری کے موجودہ شیخِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس نے ہر کسی کے لیے بلاتفریق عام فرما دیا ہے۔ اسمِ اللہ ذات کے حصول کے لیے خانقاہ سلطان العاشقین براستہ رنگیل پور سندر اڈا ملتان روڈ لاہور تشریف لائیں۔

 استفادہ کتب:
۱۔ سرّ الاسرار: تصنیفِ لطیف سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ
۲۔ الرسالۃ الغوثیہ:ایضاً
۳۔ محک الفقر کلاں:تصنیفِ لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ 


اپنا تبصرہ بھیجیں