کربلا
بابِ ستم یا داستانِ وفا؟
مسز عنبرین مغیث سروری قادری ایم۔اے( ابلاغیات)
40ھ میں امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کے بعد اہلِ عراق نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ کو خلیفہ مقرر کیا اور تقریباً چالیس افراد نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ کے ہاتھ پر بیعت کی لیکن اہلِ شام نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہٗ کو خلیفہ تسلیم کرتے ہوئے ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ ان دونوں گروہوں میں جب تصادم کی صورتحال پیدا ہونے لگی تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہٗ نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ کے پاس پیغام بھیجا کہ ’’صلح جنگ سے بہتر ہے اور مناسب یہی ہے کہ آپؓ مجھے خلیفہ تسلیم کر لیں اور میرے ہاتھ پر بیعت کر لیں۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ پیش گوئی روایت کرتے ہیں ’’میرا یہ بیٹا سیّد ہے اس کی وجہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں اختلافات ختم ہوں گے اور مسلمانوں میں صلح ہو گی‘‘۔ (بخاری شریف)
چنانچہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ نے امت کو ایک بڑی جنگ سے بچانے کے لیے چند شرائط پر امیر معاویہ رضی اللہ عنہٗ کی بیعت کر لی۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ کے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہٗ کے حق میں دستبردار ہونے میں مندرجہ ذیل چند حکمتیں بھی پوشیدہ تھیں:
1) حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعد ان کے فرزند خلیفہ بن جاتے تو خلافت میں وراثت کی رسم چل پڑتی۔
2) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہٗ اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے، کاتبِ وحی اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قریبی عزیز بھی تھے۔ ان سے بہت سی احادیث مروی ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی ان کے مناقب و فضائل بیان کیے ہیں ۔ ان کی خلافت سے انکار کرنے کی بظاہر کوئی وجہ نہ تھی۔ اگر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ ایسا کرتے تو خدانخواستہ یہ احتمال پیدا ہو جاتا کہ آپؓ کو (نعوذ باللہ) خلافت کا لالچ تھا۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہٗ نے بیس برس تک کامیابی سے خلافت سنبھالی۔ آپؓ نے اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد مقرر کر دیا اور اپنے سامنے لوگوں سے یزید کی بیعت بھی لے لی۔ یزید عادتاً و طبعاً کسی بھی طرح نیک طینت نہیں تھا۔ سر کشی اور تکبر اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہٗ نے اپنے آخری وقت میں یزید کو بلایا اور اسے اہلِ بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین سے حسنِ سلوک کی خصوصی تاکید کی۔ 60 ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہٗ کی وفات کے بعد یزید تخت پر بیٹھا۔ اہلِ شام سے بیعت لینے کے بعد یزید نے اطراف و جوانب میں عمال کو خطوط بھیجے تاکہ جن لوگوں نے اب تک اس کی بیعت نہیں کی تھی ان سے بیعت لی جائے۔ مدینہ طیبہ کے عامل ولیدؓ بن عتبہ کو خصوصی طور پر خط لکھا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ سے بیعت لینے میں سختی کرو کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہ حضرات ضرور اس کی خلاف شرع بیعت سے گریز کریں گے اور اگر ان میں سے کسی ایک نے بھی خلافت کا دعویٰ کیا توحجاز اور عراق کی اکثریت لازماً ان کا ساتھ دے گی۔ مروان نے اس ضمن میں مشورہ دیا کہ فوراً ان لوگوں کو بلا بھیجو۔ اگر وہ بیعت سے انکار کر دیں تو سب کی گردنیں مار دو۔ ولید کے بلانے پر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے حضرت ابنِ زبیر رضی اللہ عنہٗ سے مشورہ کیا۔ آپؓ سمجھ گئے تھے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہٗ انتقال کرگئے ہیں اور بلاوے کا مقصد یزید کی بیعت ہے۔ چنانچہ جب ولید بن عتبہ نے آپؓ کو یزید کی بیعت کا کہا تو آپؓ نے جواب دیا ’’میرے جیسا شخص چھپ کر بیعت نہیں کر سکتا اور نہ ہی چھپ کر بیعت کرنا مناسب ہے۔ آپ اس مقصد کے لیے عام لوگوں کو جمع کریں میں بھی ان کے ساتھ آؤں گا جو سب کی رائے ہو گی وہی کروں گا‘‘۔ ولید کا مزاج امن پسند تھا۔ کہنے لگا ’’بسم اللہ آپؓ تشریف لے جایئے۔ سب لوگوں کے مجمع میں ہی ہم سے ملےۂ گا‘‘۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے جانے کے بعد مروان نے ولید بن عتبہ سے کہا ’’تم نے میرا مشورہ نہ مانا اور حضرت حسین (رضی اللہ عنہٗ) کو جانے دیا اب جب تک تمہارے اور ان کے درمیان اچھی طرح خونریزی نہ ہولے تم ان پر قابو نہ پاسکو گے۔‘‘
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ جانتے تھے کہ اگر وہ مدینہ طیبہ میں رکے تو انہیں بیعت کے لیے مجبور کیا جائے گا اور اس غیر شرعی بیعت کو وہ کسی قیمت پر قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ اس لیے آپؓ نے اپنے تمام خاندان سمیت، جن میں آپؓ کے بھائی محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہٗ شامل نہ تھے، مکہ مکرمہ کی طرف ہجرت کی۔
کوفہ والے اہلِ بیتؓ کو خلافت کا حقدار سمجھتے تھے۔ جب انہیں خبر ملی کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا ہے تو انہوں نے صلاح مشورے کے بعد آپؓ کو بلاوے کے خطوط لکھنا شروع کیے جن میں آپؓ کو اپنا امام تسلیم کرنے اور بیعت کرنے کے وعدے کیے گئے۔ اس پر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ کو حقیقتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے کوفہ بھیجا اور کہا اگر حالات سازگار ہوں اور کوفہ کے تمام رؤسا اور شرفاء میری بیعت پر متفق ہوں تو مجھے اطلاع کر دینا، میں وہاں آ جاؤں گا۔ حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ اپنے کچھ ساتھیوں اور اپنے دو بیٹوں کے ہمراہ کوفہ روانہ ہوئے۔ کوفہ پہنچ کر آپؓ نے مختار بن عبید کے ہاں قیام فرمایا۔ کوفہ والوں نے آپؓ کا شاندار استقبا ل کیا اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے نمائندہ کے طور پر جوق در جوق آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے۔پہلے ہی دن بارہ ہزار لوگوں نے بیعت کر لی۔ پھر اس تعداد میں اضافہ ہوتا گیا حتی کہ ان کی تعدا اٹھارہ ہزار تک پہنچ گئی۔ حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ نے لوگوں کا شوق، عقیدت و محبت، جوش اور ولولہ دیکھ کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کو خط لکھا ’’حالات دعوتِ حق اور امر بالمعروف کے لیے سازگار ہیں آپؓ بلا تامل اور بلا جھجک تشریف لے آئیں۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کو کچھ جلیل القدر صحابہؓ نے کوفہ جانے سے باز رکھنے کی کوشش کی اور سمجھایا کہ کوفہ والوں نے آپؓ کے والد کے ساتھ بے وفائی کی تھی اور انہیں غربت، پردیس اور کسمپرسی کی حالت میں شہید کر دیا تھا۔ پھر یہ لوگ یزید کو تخت سے ہٹا کر آپؓ کی بیعت نہیں کر رہے، اس کی اطاعت کا طوق اب بھی ان کی گلے میں ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ حسبِ سابق آپؓ سے بے وفائی کر جائیں۔
امام عالی مقام رضی اللہ عنہٗ نے سب کچھ سنا اور فرمایا کہ اب مجھ پر امر بالمعروف و نہی عن المنکر اوردعوتِ حق کی خاطر جہاد فرض ہو چکا ہے۔ وہ لوگ بے وفا ہیں یا وفادار مجھے اس سے کوئی سرو کار نہیں۔ میں قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں پیشی کے وقت اس سوال سے ڈرتا ہوں کہ تجھے دعوتِ حق ایسے وقت میں دی گئی تھی جب ظلم و بربریت کا بازار گرم تھا، سنتِ نبوی کے خلاف سرکشی ہو رہی تھی، دینِ اسلام میں بدعات و خرافات کو رواج دیا جا رہا تھا، لوگوں کے حقوق سلب ہو رہے تھے، اسلامی شعار نشانۂ تضحیک بن رہے تھے، اسلامی حکومت و قانون کا تصور مذاق بن کر رہ گیا تھا، ایسے وقت میں تُو نے اس ظلم کے خلاف جہاد کا عَلم بلند کیوں نہ کیا؟؟
ظاہری صورتحال تو یہ تھی لیکن حقیقت میں قضا و قدر کے فرمان نافذ ہو چکے تھے۔ جس عالی شان شہادت کے تذکرے بچپن سے سن رکھے تھے اس سے ہمکنار ہونے کا وقت آچکا تھا۔ محبوب سے وصال کا جذبۂ شوق دل کو کھینچ رہا تھا۔ فدا کاری کے ولولوں نے دل کو بے تاب کر دیا تھا۔ چنانچہ حضرت امام عالی مقامؓ نے سفرِ عراق کا ارادہ فرمایا اور اسبابِ سفر درست ہونے لگا۔ 3 ذوالحجہ 60ھ کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے اپنے اہلِ بیتؓ، خدام اور اصحابؓ کُل بہتر (72) نفوس کے ہمراہ عراق کی راہ اختیار کی۔
جب یزید کے حامیوں نے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ کی جانب کوفہ والوں کا بڑھتا ہوا رحجان دیکھا تو فوراً یزید کو خط کے ذریعے تمام صورتحال کی اطلاع کی اور اسے اپنی خلافت محفوظ رکھنے کے لیے سخت اقدام کرنے کا مشورہ دیا۔ یزید نے سب سے پہلے کوفہ پر قبضہ کرنے کے لیے وہاں کے حاکم حضرت نعمانؓ بن بشیر کو تبدیل کر کے عبد اللہ ابنِ زیاد کو کوفہ کا حاکم مقرر کیا اور اسے حکم دیا کہ کوفہ میں جو ہنگامہ عقید تمندانِ امام حسینؓ نے برپا کر رکھا ہے اسے فوراً ختم کر دو اور مسلم (رضی اللہ عنہٗ) کا سر کاٹ کر میرے دربار میں بھیج دو۔ ابنِ زیاد کی آمد پر حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ مختار بن عبید کے گھر سے ہانی بن عروہ کے گھر منتقل ہو گئے۔ ابنِ زیاد کو ایک غلام کے ذریعے اس بات کا علم ہو گیا۔ اس نے ہانی بن عروہ کو بلوا کر اس کو قید کر دیا۔ جب یہ خبر حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ تک پہنچی تو آپؓ نے ایک اعلان کے ذریعے ان تمام لوگوں کو طلب کیا جنہوں نے آپؓ کی بیعت کی تھی اور ہر حال میں ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا تا کہ ابنِ زیاد پر واضح ہوجائے کہ اہلِ کوفہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے ساتھ ہیں۔ اس اعلان پر چالیس ہزار کوفی جمع ہو گئے۔سماں ایسا بندھ گیا کہ آپؓ کے ایک حکم پر گورنر ہاؤس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی لیکن آپؓ نے تحمل سے کام لیا تا کہ پہلے گفتگو سے اتمامِ حجت کر لیا جائے۔ ادھر ابنِ زیاد نے یہ چال چلی کہ کوفہ کے سرکردہ افراد کو محل میں بلوایا اور انہیں کہا کہ حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ کے حامیوں کو انعام و اکرام کا لالچ دے کر یا یزیدی فوج کا خوف دلا کر ان کی حمایت سے روکو۔ چنانچہ اشرافِ شہر بلند جگہ پر چڑھ کر لوگوں کو واپس جانے کے لیے آمادہ کرنے لگے۔ ان کی تقاریر سن کر لوگ کھسکنے لگے۔ مغرب تک حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ کے ساتھ تیس لوگ رہ گئے۔ آپؓ نے انہی تیس لوگوں کے ساتھ شہر چھوڑنے کا قصد کیا۔ جب روانہ ہونے لگے تو صرف دس آدمی رہ گئے اور جب تھوڑا سا فاصلہ طے کیا تو وہ بھی آپؓ کو تنہا چھوڑ گئے۔ اب صورتحال یہ تھی کہ کوئی راہ بتانے والا اور ہمدردی جتانے والا بھی نہ تھا۔ کوفیوں نے اپنی ازلی بے وفا فطرت کا مظاہرہ کر دیا تھا۔ حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ چلتے چلتے ایک بڑھیا کے دروازے پر پہنچے اور پناہ طلب کی۔ بڑھیا نے اجازت دے دی۔ اس عورت کے بیٹے کی مخبری پر محمد بن اشعت حضرت مسلم بن عقیل کو گرفتار کر کے ابنِ زیاد کے پاس لے آیا جس نے انہیں محل کی چھت سے گِرا کر شہید کر دیا۔ آپؓ کو پناہ دینے والے، ہانی بن عروہ کو بھی شہید کر دیا گیا۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ ابھی راہ میں ہی تھے کہ انہیں کوفیوں کی بدعہدی اور حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ کی شہادت کی خبر مل گئی۔ خبر پہنچانے والوں نے آپؓ سے کہا کہ ہم آپؓ کو خدا کا واسطہ دیتے ہیں کہ آپؓ اپنی اور اپنے گھر والوں کی فکر کریں اور یہیں سے واپس لوٹ جائیں کیونکہ کوفہ میں کوئی بھی آپؓ کا حامی اور مددگار نہیں ہے بلکہ ہمیں اندیشہ ہے کہ جو لوگ آپؓ کو دعوت دینے والے ہیں وہی آپؓ کے دشمن ہو جائیں گے۔ اس پر آپؓ کے ایک ساتھی نے جوش میں آکر کہا’’خدا کی قسم ہم سرزمینِ کوفہ کو اس وقت تک نہ چھوڑیں گے جب تک اپنے بھائی مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ کے خون کا بدلہ نہ لے لیں یا ان کی طرح شہید نہ ہو جائیں‘‘۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا ’’ان لوگوں کے بعد زندہ رہنے میں کوئی بھلائی نہیں‘‘۔ (البدایہ والنھایہ)
چنانچہ حالات سازگار نہ ہونے کے باوجود سفر جاری رکھا گیا۔ جب امام پاک رضی اللہ عنہٗ ’’کوہ ذی حشم‘‘ کے مقام پر پہنچے تو ابنِ زیاد کی طرف سے آپؓ کو گرفتار کرنے کے لیے حر بن یزید ایک ہزار مسلح سواروں کے ساتھ آن پہنچا۔ حر نے جناب امام رضی اللہ عنہٗ کی خدمت میں اوّل معذرت پیش کی کہ وہ مجبور ہے اور اس جرأت پر شرمسار ہے پھر یزید کے پاس چلنے کی درخواست کی۔ حضرت امام رضی اللہ عنہٗ نے حر سے فرمایا ’’میں تمہارے پاس خود نہیں آیا بلکہ مجھے بلانے کے لیے اہلِ کوفہ کے متواتر پیغام پہنچتے رہے ہیں‘‘۔ حر نے کہا ’’بخدا مجھے ان کا علم نہیں ہے لیکن اس وقت میں آپؓ کو گرفتار کیے بغیر واپس نہیں لوٹ سکتا‘‘۔ حر کے دل میں خاندانِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور اہلِ بیتؓ کی عظمت موجود تھی لیکن وہ ابنِ زیاد کے حکم سے مجبور تھا۔ اس نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ سے درخواست کی کہ اگر آپؓ میرے ساتھ چلنے کو تیارنہیں تو پھر ایسا راستہ اختیار کیجئے کہ جو نہ تو کوفہ جاتا ہو اور نہ ہی مدینے کو۔ چنانچہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کوفہ کی راہ تبدیل کر کے کربلا کی طرف گامزن ہوئے۔ حر آپؓ کے ساتھ ساتھ تھا۔ جب آپؓ کربلا کے مقام پر پہنچے تو اہلِ قافلہ کو وہیں قیام کا حکم فرمایا۔ آپؓ جانتے تھے کہ یہی وہ مقام ہے جہاں اہلِ بیتؓ کو راہِ حق میں اپنے خون کی ندیاں بہانا ہونگی۔ یہ محرم 61ھ کی دوسری تاریخ تھی۔
قافلہ حسینی غریب الوطنی میں کربلا کے میدان میں خیمہ زن تھا کہ محرم کی تیسری تاریخ کو ابنِ زیاد نے عمرو بن سعد کو چار ہزار کے لشکر کے ساتھ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ سے مقابلہ کے لیے بھیجا۔ عمر و بن سعد پہلے تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے مقابلہ کے لیے تیار نہ تھا مگر ابنِ زیاد کے ڈرانے دھمکانے پر مان گیا۔ عمرو بن سعد نے آتے ہی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے پاس قاصد بھیجا کہ آپؓ کیوں تشریف لائے ہیں؟ آپؓ نے فرمایا کہ اہلِ کوفہ نے مجھے خط لکھا تھا کہ میں ان کے پاس آؤں۔ اب اگر وہ مجھ سے بیزار ہیں تو میں واپس چلا جاتا ہوں۔ چنانچہ ابنِ سعد نے ابنِ زیاد کو یہ بات لکھ بھیجی کہ امام حسین (رضی اللہ عنہٗ) اہلِ کوفہ کی بیزاری پر واپس جانا چاہتے ہیں۔ لیکن ابنِ زیاد نے جواب دیا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کو یزید کی بیعت کے لیے مجبور کرو اور اگر نہ مانیں تو ان پر سختی کرو اور پہلے قدم کے طور پر ان کے ساتھیوں پر پانی بند کر دو۔ ابنِ سعد نے ایسا ہی کیا اور عمر بن حجاج کی قیادت میں سپاہیوں کو دریائے فرات پر پہرے کے لیے بٹھا دیا۔ ابنِ زیاد مسلسل ابنِ سعد کی مدد کے لیے سپاہی بھیجتا رہا یہاں تک کہ ابنِ سعد کے پاس بائیس ہزار سوار و پیادہ جمع ہو گئے۔ حیرت ناک بات ہے کہ صرف بہتر انسانوں، جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں جن کے پاس سامانِ جنگ بھی نہیں اور جن کا جنگ کا ارادہ بھی نہیں، سے مقابلہ کے لیے بائیس ہزار کی فوج جمع ہو۔ یقیناًابنِ زیاد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ اور اہلِ بیتؓ کی شجاعت و عظمت سے واقف تھا۔ اس نے ایک شیر کو قابو میں لانے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں چوہوں کی فوج کو بھیجا۔ اس فوج پر بھی اس کو اعتماد نہ تھا اس لیے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ اور ان کے ساتھیوں کو ضعیف و نڈھال کرنے کے لیے کھانا اور پانی بند کرنے کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے پر اتر آیا۔
اس طرح بے آب و دانہ تین دن گزر گئے۔ چھوٹے بچے اور پاک بیبیاں سب بھوک و پیاس سے بے حال ہو گئیں۔ فرات کا پانی چرند و پرند اور چوپائے بے تکلف پی سکتے تھے مگر آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ایک بوند لینے کی اجازت نہ تھی۔ اس دوران حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ اور ابنِ سعد کے درمیان بات چیت کا سلسلہ جاری رہا، ان پر دباؤ ڈالا جاتا رہا کہ وہ کسی طرح یزید کی بیعت کر لیں۔ اگر وہ بیعت کر لیتے تو یزید کا تمام لشکر آپؓ کے جلو میں ہوتا، آپؓ کا کمال احترام کیا جاتا، خزانوں کے منہ کھول دیئے جاتے۔ مگر جس کا دل حُبِّ دنیا سے خالی ہو گیا ہو اور دنیا کی بے ثباتی کا راز جس پر منکشف ہو وہ اس کے طلسم میں کب آتا ہے، جس آنکھ نے حسنِ حقیقی کے جلوے دیکھ لیے ہوں وہ نمائشی رنگ و روپ پر کیا نظر ڈالے۔
حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہٗ نے اس قدر آفتوں اور بلاؤں کے باوجود ناجائز بیعت کا خیال اپنے قلب مبارک میں نہ آنے دیا۔ اپنا گھرانہ لٹانا اور اپنا خون بہانا منظور کر لیا مگر مسلمانوں کی تباہی بربادی اوراسلام کی عزت میں فرق آنا برداشت نہ کیا۔
بالآخر جب مصالحت کی کوئی صورت نہ نکلی تو جنگ کے سوا کوئی راستہ باقی نہ رہ گیا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے اپنی قیام گاہ کے گرد خندق کھودنے کا حکم دیا۔صرف ایک راستہ رہنے دیا گیا جہاں سے نکل کر دشمنوں کا مقابلہ کیا جائے۔ خندق میں آگ جلا دی گئی تاکہ اہلِ خیمہ دشمنوں کی ایذا سے محفوظ رہیں۔
جنگ سے ایک رات قبل آپؓ نے اپنے تمام رفقاء کو اجازت دی کہ اگر کوئی جنگ سے بچنے کے لیے آپؓ کا ساتھ چھوڑ کر جانا چاہتا ہے تو جا سکتا ہے۔ مگر ان وفا شعار ساتھیوں نے اگر ساتھ چھوڑنا ہوتا تو مکہ سے آپؓ کے ساتھ نکلتے ہی کیوں اور اتنے دن بھوک پیاس کی سختی برداشت کیوں کرتے؟
تاریخ کے اوراق میں لکھا ہے کہ 10 محرم الحرام 61ھ کی صبح خون آلود افق کے ساتھ نمودار ہوئی۔ نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے اپنے ساتھیوں کی صف بندی کی۔ لڑائی سے قبل اپنے خیمہ میں تشریف لائے۔ عمامۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے سر پر باندھا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا پٹکا کمر سے باندھا۔ ذوالفقارِ حیدری حمائل کی۔ سوار ہو کر میدان میں آئے اور دشمنوں کے لشکر سے مخاطب ہوکر انہیں آخری بار آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خونِ نا حق سے روکنے کی کوشش کی مگر جن بدبختوں کے سر پر خون سوار تھا اور جنہیں حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہٗ کو شہید کر دینے کی صورت میں بڑی بڑی جاگیریں انعام کے روپ میں نظر آرہی تھیں، انہوں نے آپؓ کی بات کا کچھ اثر نہ لیا اور آپؓ سے جلد جنگ شروع کرنے کا کہا۔
پہلے انفرادی جنگ شروع ہوئی۔ شجاعت و دلیری کی وجہ سے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے ساتھیوں کا پلہ بھاری رہا۔ اس پر عمر و بن سعد نے عام حملے کا حکم دے دیا۔ اس کے ساتھ ہی چاروں طرف سے یزیدی لشکر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے ساتھیوں پر ٹوٹ پڑا۔ امام عالی مقامؓ کے ساتھ کل بتیس سوار تھے۔ تاہم انہوں نے بے مثال شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ کیا اور کچھ ہی دیر میں دشمن کے سوار دستے کا منہ پھیر دیا۔ ابنِ سعد نے تمام زرہ پوش سوار اور پانچ سو تیر اندازوں کو بھیجا۔ ان تیر اندازوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے ساتھیوں پر تیروں کی بارش کر دی اور تھوڑی ہی دیر میں ان کے گھوڑوں کو زخمی کر دیا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے ساتھیوں کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی۔ وہ گھوڑوں سے اتر پڑے اور بڑی دیر تک پیادہ پاہی اس بہادری اور بے جگری سے لڑے کہ کوفیوں کے دانت کھٹے کر دیئے۔ دوپہر ہو چکی تھی مگر عمرو بن سعد اس قدر فوج ہونے کے باوجود ان پر غلبہ نہ پاسکا تھا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے اصحابؓ اور اہلِ بیتؓ کے نوجوانوں نے خاکِ کربلا کے صفحات پر اپنے خون اور شجاعت و جوانمردی کے وہ بے مثال نقوش ثبت فرمائے جن کو زمانہ محو کرنے سے قاصر ہے۔ ابنِ سعد نے اعتراف کیا کہ اگر فریب کاریوں سے کام نہ لیا جاتا تو اہلِ بیتؓ کا ایک ایک نوجوان تمام لشکر کو برباد کر ڈالتا۔ ایک ایک کر کے خاندانِ عالی مقامؓ کے نوجوان اپنے اپنے جوہر دکھا کر امام عالی مقامؓ پر اپنی جان قربان کرتے چلے گئے۔ آخر کار وہ وقت بھی آگیا جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ اپنے بیمار فرزند حضرت زین العابدینؓ کے ہمراہ تنہا رہ گئے۔ امام زین العابدینؓ نے میدانِ جنگ میں جانے کی اجازت مانگی لیکن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے انہیں یہ کہہ کر میدانِ جنگ سے روک دیا ’’تمہاری ذات سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ بیکسانِ اہلِ بیتؓ کو کون وطن تک پہنچائے گا، بیبیوں کی نگہداشت کون کرے گا، جد و پدر کی جو امانتیں میرے پاس ہیں کس کو سپرد کی جائیں گی، قرآنِ کریم کی محافظت اور حقائقِ عرفانیہ کی تبلیغ کا فرض کس کے سر پر رکھا جائے گا، حسینی سیّدوں کا سلسلہ کس سے جاری ہو گا؟یہ سب توقعات تمہاری ذات سے وابستہ ہیں‘‘۔
چنانچہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ امام زین العابدینؓ اور تمام خواتین اہلِ بیتؓ کو روتا چھوڑ کر، صبر و رضا کی تلقین کرتے ہوئے خود میدانِ کربلا میں اترے۔ مقابلہ میں آپؓ دیر تک یزیدیوں کو جہنم واصل کرتے رہے۔ پورے یزیدی لشکر میں کہرام مچا ہوا تھا۔ حضرت علیؓ شیرِ خدا کا یہ بیٹا تلوار لے کر جس طرف نکل جاتا یزیدی لشکر خوف زدہ بھیڑوں کی طرح آگے بھاگنے لگتا۔ آپؓ اپنی شمشیرِ تشنہ لب کی پیاس بے وفا کوفیوں کے خون سے بجھاتے رہے۔ دشمن نے تھک ہار کر چاروں طرف سے تیروں کی بوچھاڑ کر دی۔ اس بوچھاڑ سے آپؓ اور آپؓ کا گھوڑا شدید زخمی ہو گیا۔ زخموں سے چُور گھوڑے میں چلنے کی سکت بھی باقی نہ رہی۔ آپؓ گھوڑے سے اتر آئے اور برابر تلوار چلاتے رہے ۔ پیکرِ نازنین جو کبھی زہرہؓ کی گود میں کھیلا تھا، کبھی دوشِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر سوار ہوا تھا، زخموں سے لہولہان تھا۔ بالآخر اس عالی شان شہادت کا وقت بھی آن پہنچا جس کا چرچا آپؓ کے گوشِ مبارک بچپن سے سنتے آئے تھے، جس کی آرزو عرصے سے دل میں پل رہی تھی اور جس کے شوق میں یہ سفر اختیار کیا تھا۔ نمازِ عصر کا وقت تھا جس کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں انسانوں کو ڈرایا ہے کہ وہ خسارے میں ہیں لیکن اس وقت نامراد کوفیوں کو آخرت کا خسارہ نہیں بلکہ دنیا کا فائدہ نظر آرہا تھا ۔ چاروں طرف سے محبوبِ الٰہی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لاڈلے کو گھیر لیا گیا اور تلواریں چلنے لگیں۔ آپؓ زخمی ہو کر زمین پر گر پڑے۔ وقتِ شہادت قریب دیکھ کر شکرانے کے طور پر سر آخری سجدے میں جھکا دیا۔ یزیدیوں نے چاہا کہ سر مبارک تن سے جدا کیا جائے لیکن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی شجاعت نے ان کے دل ہیبت زدہ کر دیئے تھے۔ کسی کو قریب جانے کی جرأت نہ ہوئی۔ بالآخر بدبخت خولی بن یزید یا شمر بن یزید نے بڑھ کر سرِ اقدس کو تن مبارک سے جدا کر دیا۔
محرم 61ھ کی دسویں تاریخ جمعہ کے روز چھپن سال پانچ دن کی عمر میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے اس ناپائیدار دنیا سے رحلت فرمائی۔ ابنِ زیاد بدنہاد نے سر مبارک کو نیزے کی نوک پر رکھ کر کوفہ کے کوچہ و بازار میں پھرایا اور اس طرح اپنی بے حیائی اور بے حمیتی کا ثبوت دیا۔ حضرت سیّد الشہداء رضی اللہ عنہٗ اور ان کے تمام جانباز شہداء کے مبارک سروں کو اسیرانِ اہلِ بیتؓ کے ساتھ شمرناپاک کی ہمراہی میںیزید کے پاس دمشق لایا گیا۔ یزید نے حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہٗ کے ساتھ سر مبارک اور خواتینِ اہلِ بیت کو مدینہ واپس بھجوا دیا۔
جان نثارانِ امام حسینؓ
سرفروشی کی اس داستان کے ہرہر نفس کا کردار لائقِ صد تحسین و آفرین ہے۔ اگر ترازو کے ایک پلڑے میں چالیس ہزار کوفیوں کی بے وفائی رکھی جائے اور دوسرے پلڑے میں بہتر (72) نفوس کی وفاداری، تو بخدا اس وفاداری کا وزن اور اہمیت اس بے وفائی سے کہیں بھاری اور قیمتی ہو گی۔ جانثارانِ حسین رضی اللہ عنہٗ نے اپنی وفا اور صدق و جانبازی میں پروانہ و بلبل کے افسانے ہیچ کر دیئے۔
حضرت مسلم بن عقیلؓ
ان یارانِ باوفا میں جس نے سب سے پہلے اپنی جان اپنے امام رضی اللہ عنہٗ پر قربان کی وہ حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ تھے۔
حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے چچا زاد بھائی اور انتہائی قابلِ اعتماد ساتھی تھے۔ اسی اعتماد کی وجہ سے امام عالی مقام نے آپؓ کو کوفہ کے حالات معلوم کرنے کے لیے کوفہ بھیجا۔ آپؓ اپنے دو بیٹوں محمد اور ابراہیم کو بھی ساتھ لے گئے۔ کوفہ والوں نے پہلے تو آپؓ کا بھر پور ساتھ دیا اور ہزاروں کی تعداد میں آپؓ کے ہاتھ پر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے لیے بیعت کی لیکن بعد میں کوفہ کے گورنر ابنِ زیاداور کوفہ کے دیگر شرفاء کے ڈرانے دھمکانے اور لالچ دلانے پر آپؓ کو تنہا چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ اتنے بڑے شہر میں آپؓ کو کوئی پناہ دینے والا بھی نہ رہا۔ آپؓ اکیلے شہر سے باہر نکلے اور چلتے چلتے قبیلہ کندہ کی ایک عورت طوعہ کے مکان پر پہنچے جو اشعت بن قیس کی آزاد کردہ لونڈی تھی۔ آپؓ نے طوعہ سے اپنا تعارف کرایا اور پناہ طلب کی۔ اس عورت نے آپؓ کو پہچان کر بڑے احترام کے ساتھ اپنے گھر میں رہنے کی اجازت دے دی۔ طوعہ کا ایک بیٹا محمد بن اشعت کا غلام تھا۔ جب وہ گھر آیا تو اس نے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ کے متعلق آگاہ کیا اور راز داری برتنے کے لیے کہا۔ اس نے ماں کے سامنے تو حامی بھر لی لیکن اگلے دن صبح ہوتے ہی محمد بن اشعت سے جا کر تمام بات بیان کر دی۔ محمدبن اشعت نے فوراً یہ خبر ابنِ زیاد کو دی۔ ابنِ زیاد نے ساٹھ ستر آدمی اس کے ساتھ روانہ کئے تاکہ حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ کو گرفتار کر کے لائے۔
حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ طوعہ کے گھر میں ابھی نمازِ فجر سے فارغ ہوئے تھے کہ گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز سنائی دی۔ آپؓ سمجھ گئے کہ ابنِ زیاد کا لشکر گرفتاری کے لیے آیا ہے، رگِ حمیت و شجاعت میں جوش آیا۔ چھپ کر بیٹھ رہنا ہاشمی ہمت کے خلاف پایا۔ جسم پر ہتھیار سجا کر تن تنہا خدا کے بھروسہ پر طوعہ کے گھر سے باہر آگئے۔ ایک نعرۂ تکبیر بلند کیا اور حملہ کر دیا۔ پہلے ہی حملے میں بہت سے سواروں کو گرا کر خاک و خون میں ملا دیا۔ محمد بن اشعت نے جب آپؓ کی شجاعت اور اپنے ساتھیوں کی کمزوری دیکھی تو ایک چال چلی اور آگے بڑھ کر کہا کہ آپؓ کیوں جان گنواتے ہیں میں آپؓ کو امان دیتا ہوں۔ آپؓ برابر تلوار چلاتے رہے اوریہ رجز پڑھتے رہے:
اخاف ان اکذاب اواغرا
یعنی مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ مجھ سے جھوٹ بولیں گے یا مجھے دھوکہ دیں گے۔ محمد بن اشعت نے کہا نہیں ہم آپؓ کو دھوکہ نہ دیں گے۔ آپؓ تنہا لڑتے لڑتے زخموں سے چور ہو چکے تھے۔ آپؓ نے محمد بن اشعت کی امان اس خیال سے قبول کر لی کہ شاید شہادت سے قبل ایسی کوئی صورتحال پیدا ہو جائے جس کے ذریعے وہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کو کوفیوں کی بد عہدی سے آگاہ کر کے کوفہ آنے سے روک پائیں۔
حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ کے امان قبول کرتے ہی آپؓ سے تلوار چھین لی گئی۔ یہ دیکھ کر آپؓ کو یقین ہو گیا کہ آپؓ کے ساتھ دھوکہ ہو گیا ہے۔ آپؓ محمدبن اشعت کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا ’’میں دیکھتا ہوں کہ تھوڑی دیر بعد تم اپنی دی ہوئی امان کو پورا کرنے میں عاجز آجاؤ گے۔ میرے ساتھ اتنا سلوک کرو کہ کسی طرح امام حسین رضی اللہ عنہٗ کو میرے حالات کی تفصیل اور پیغام لکھ کر بھیج دو کہ اہلِ کوفہ نے میرے ساتھ غداری کی ہے ۔ یہ وہی اہلِ کوفہ ہیں جو آپؓ کے والد سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش اور آرزو کرتے رہے اور کہہ دینا کہ اہلِ کوفہ آپؓ کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں اس لیے آپؓ اپنے اہل و عیال کو لے کر وطن واپس لوٹ جائیں۔ محمد بن اشعت نے یہ ساری باتیں ایک خط پر لکھ کر ایک شخص کو سواری کا جانور اور زادِ راہ دے کر روانہ کیا تاکہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ تک خط پہنچا دے۔ یہ شخص کوفہ سے چار راتوں کی مسافت طے کر کے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ سے ملا اور خط دیا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے خط پڑھ کر فرمایا ’’جو مقدر ہو چکا وہ نازل ہو کر رہے گا۔ ہمارا اور ہمارے حمائیتیوں کا فیصلہ خدا کے حضور ہو گا‘‘۔
حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ کو رخمی حالت میں خون آلودہ چہرے اور لباس کے ساتھ تشنہ لب ابنِ زیاد کے محل لے جایا گیا۔ وہاں شہر کے امرا اور حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ کی جان پہچان کے کچھ لوگ موجود تھے۔ دربار میں ٹھنڈے پانی کا ایک مٹکہ تھا۔ آپؓ نے پانی طلب کیا تو ایک بدبخت کہنے لگا ’’دیکھتے ہی رہو کیسا ٹھنڈا پانی ہے مگر خدا کی قسم تمہیں ایک بوند نہ ملے گی اب تو تمہاری قسمت میں جہنم کا کھولتا ہوا پانی ہے‘‘ (معاذ اللہ)۔ اس پر آپؓ کی پہچان والے ایک شخص عمارہ بن عقبہ نے اپنے گھر سے پانی منگوا کر آپؓ کو دیا۔ آپؓ پانی پینا چاہتے تو چہرے کا خون اس میں شامل ہو جاتا۔ بمشکل دو تین گھونٹ ہی لیے تھے کہ سامنے کے دو دانت کٹورے میں گِر گئے۔ آپؓ نے پانی یہ کہتے ہوئے واپس کر دیا ’’الحمدللہ اب میری قسمت میں دنیا کا پانی نہیں‘‘۔
اس کے بعد حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ اور ابنِ زیاد کے درمیان طویل گفتگو ہوئی جس میں وہ آپؓ پر مختلف الزام لگاتا رہا ’’اے ابنِ عقیلؓ لوگوں میں اتفاق و یکجہتی تھی، تم آئے اور ان میں پھوٹ ڈال دی‘‘۔ آپؓ نے کہا ’’ہرگز نہیں! میں اس کام کے لیے نہیں آیا بلکہ میرا آنا تو اس لیے تھا کہ عدل و انصاف قائم ہو اور اللہ کی کتاب کا حکم نافذ ہو‘‘۔ بالآخر آپؓ نے جان لیا کہ ابنِ زیاد آپؓ کو قتل کر کے رہے گا۔ آپؓ نے اس سے کہا کہ مجھے وصیت کرنے کی مہلت دو، پھر دربار میں موجود عمرو بن سعد بن ابی وقاصؓ کو وصیت کی کہ مجھ پر فلاں شخص کا سات سو درہم کا قرضہ ہے۔ میری تلوار اور زرہ بیچ کر یہ رقم ادا کر دینا۔ میری لاش کو دفن کر دینا اور سب سے ضروری یہ کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے پاس کسی کو بھیج کر میرے پورے حالات کی خبر دے دینا تاکہ وہ واپس چلے جائیں‘‘۔ پھر ابنِ زیاد نے حکم دیا کہ حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ کو چھت سے گِرا کر شہید کر دیا جائے۔ ایک شخص بکیر بن عمران، جس کا باپ حضرت مسلمؓ کے ہاتھوں جہنم واصل ہو چکا تھا، اپنے باپ کا بدلہ لینے کے لیے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ کو لے کر چھت پر پہنچا۔ مسلم بن عقیلؓ نے اس سے دو رکعت نفل ادا کرنے کی اجازت مانگی لیکن اس بدبخت نے نہ دی اور پیشانی کے بل آپؓ کو چھت سے گِرا دیا۔ آپؓ کی روح پُر فتوح کلمہ شہادت پڑھتی ہوئی قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ آپؓ کی شہادت 9ذوالحجہ 60ھ بدھ کے دن ہوئی۔
ان تمام واقعات و حالات سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ کو اللہ تعالیٰ نے جرأت و بہادری کا بے مثال خزانہ ودیعت کیا۔ آپؓ ابنِ زیاد کے دربار میں پیش ہوتے ہیں، ایک شخص بھی آپؓ کا حامی نہیں لیکن آپؓ کی کسی بات سے خوف کا اظہار نہیں ہوتا۔ امام عالی مقام رضی اللہ عنہٗ سے محبت کا یہ عالم ہے کہ سر پر موت منڈلا رہی ہے لیکن آپؓ کو اپنی جان کی کوئی پرواہ نہیں۔ اگر فکر ہے تو صرف اس بات کی کہ حضرت امام رضی اللہ عنہٗ کو کسی طرح کوفیوں کی بدعہدی سے آگاہ کر کے کوفہ آنے سے روک دیں تاکہ وہ اور ان کے اہلِ بیتؓ یزید کے ظلم سے محفوظ رہ سکیں۔
حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ کے ذمہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے جو ڈیوٹی لگائی تھی وہ آپؓ نے اس طرح نبھائی کہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال ملنا مشکل ہے۔ جرأت، ہمت، شجاعت اور ثابت قدمی کے ساتھ آپؓ نے جابر و ظالم حکمران کے سامنے جس طرح کلمۂ حق کہا اورحضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے موقف کی ترجمانی کی وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔
حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ نے بگڑتے ہوئے حالات کے پیشِ نظر اپنے بیٹوں محمد اور ابراہیم کو قاضی شریح کے ہاں حفاظت کی غرض سے بھیج دیا تھا۔ حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ کی شہادت کے بعد قاضی شریح نے انہیں بحفاظت مدینہ پہنچانے کے لیے اپنے بیٹے کے ہمراہ مدینے جانے والے قافلے کی طرف رات کی تاریکی میں بھیج دیا لیکن ابنِ زیاد کے آدمیوں نے راستے میں ہی ان معصوموں کو پکڑ لیا اور گرفتار کر کے اندھیری کوٹھری میں ڈال دیا۔ سہمے ہوئے معصوم بچے کئی روز کال کوٹھڑی میں قید رہے۔ جیل کا داروغہ نیک آدمی اور اہلِ بیتؓ کا عقیدت مند تھا۔ اس نے کسی طرح بچوں کو جیل سے نکالا اور اپنی انگوٹھی اور کچھ سامان دے کر قادسیہ کی طرف رہنمائی کر دی کہ وہاں کا کوتوال تمہیں مدینہ پہنچا دے گا۔ ابنِ زیاد کو جب معلوم ہوا کہ داروغہ نے بچوں کو رہا کر دیا ہے تو اس کا سر تن سے جدا کردیا اور بچوں کی تلاش پر انعام وکرام رکھ دیا۔ بچے رات کے اندھیرے میں بھوکے پیاسے بھٹک رہے تھے۔ کبھی باپ کو یاد کرتے کبھی ماں کو۔ اتنے میں ایک نیک دل عورت انہیں دیکھ کر پہچان گئی کہ ہو نہ ہو اس حالت میں اتنی رات گئے بھٹکنے والے یہ معصوم بچے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ کے یتیم ہیں۔ وہ انہیں اپنے ساتھ گھر لے آئی۔ انہیں نہلا دھلا کر کھانا کھلایا لیکن اس عورت کا بدبخت لالچی شوہر حارث انعام واکرام کے لالچ میں زبردستی ان بچوں کو عورت سے چھین کر لے گیا اور تلوار سے بے گناہ یتیموں کے سر تن سے جدا کر دیئے۔ جب سر لے کر ابنِ زیاد کے دربارمیں پیش ہوا تو اس نے اس کو سخت بُرا بھلا کہا کہ میں نے انہیں زندہ گرفتار کرنے کو کہا تھا اور تم نے انہیں قتل کر کے ظلم کیا۔ ابنِ زیاد نے مقاتل نامی جلاد سے کہہ کر حارث کو بھی قتل کرا دیا۔
حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ اور ان کے دونوں شہزادوں کی شہادتیں شہیدانِ کربلا کی قربانیوں کا آغاز ہیں۔یہیں سے اس ہنگامۂ محشر خیز کی بنیاد پڑی جس کا ذکر قیامت تک خون آلود لفظوں سے کیا جائے گا۔
محشرِ عاشورہ
10محرم کے روز جب میدانِ کار زار سجا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے تمام رفقا جانثاری کے لیے بے تاب تھے انہیں شہادت کی صورت میں ساقئ کوثر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہاتھوں میں جامِ کوثر لیے نظر آتے تھے۔ ہر کوئی اس انتظار میں تھا کہ کب موقع ملے اور دشمن کو نیست ونابود کر کے اسے اس کے ظلم کا مزا بھی چکھائے اور بالآخر جامِ شہادت نوش کر کے اپنے امام اور آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے سرخرو ہو۔ ابھی جنگ شروع ہی ہوئی تھی کہ قریب کے گاؤں والے جنہیں اس ہنگامے کی خبر ملی تھی، بے چین ہو کر حاضرِ خدمت ہوئے اور انتہائی اصرار کیا کہ جب تک ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ ہے خاندانِ اہلِ بیتؓ میں سے کوئی میدانِ جنگ میں نہیں جائے گا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کو ان اخلاص کیشوں کی سرفروشانہ التجائیں منظور فرمانا پڑیں۔ ان لوگوں نے میدان میں پہنچ کر دشمنانِ اہلِ بیتؓ کے ساتھ دلیرانہ مقابلے کئے اور اپنی بہادری کے سکے جما دیئے۔ ایک ایک نے اعداء کی کثیر تعداد کو ہلاک کر کے راہِ جنت اختیار کرنا شروع کی۔ ان گاؤں والوں کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے رفقاء نے جانیں نثار کرنے کی سعادت حاصل کرنا شروع کی۔ آپؓ کے ساتھی جان توڑ کر لڑے۔ جو آدمی جدھرکا رخ کرتا دشمن کی صفیں الٹ دیتا۔ یزید بن کندی جو کہ عمرو بن سعد کے ساتھ کوفہ آیا تھا لیکن جب ابنِ سعد نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی شرائط کو مسترد کر دیا تو وہ امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی جماعت کی طرف چلا گیا۔ وہ اپنے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا اور دشمنوں پر تیر چلانے لگا۔ سو تیر چلائے جن میں سے صرف پانچ خطا گئے۔ جب وہ تیر چلاتا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ اس کے حق میں دعا فرماتے ’’اے اللہ! اس کے تیروں کو نشانہ پر بٹھا اور اس کے بدلے میں اسے جنت عطا فرما‘‘۔
حضرت اما م حسین رضی اللہ عنہٗ کے ساتھیوں کی بے جگری دیکھ کر عمرو بن سعد کے ساتھیوں نے چاروں طرف سے حملہ کر دیا لیکن جانباز رفقاء نے یہ حملہ بھی پسپا کر دیا تو سوار دستے کے سردار عروہ بن قیس نے عمر و بن سعد کو اپنا پیغام بھیجا کہ ان گنتی کے چند لوگوں نے ہمارا حال بُرا کر دیا ہے‘ تم ہماری مدد کے لیے کچھ پیادہ اور کچھ تیر اندازوں کو بھیجو۔ ادھر یزیدی لشکریوں کا یہ حال تھا کہ ہیبت کے مارے میدانِ جنگ میں آنے سے گھبرا رہے تھے۔ شمر اور ابنِ سعد مال و زر کا لالچ دلا دلا کر ان کا دل بڑھاتے، ان کے منصب بڑھوانے کے وعدے کرتے، ان کی ہمتوں میں یزید کے انعامات کی خواہش سے اضافہ کرتے اور میدانِ جنگ میں بھیجتے۔ جب کبھی لشکر میں ہزیمت کے آثار نظر آتے تو فوراً مرنے والوں کے نام لے لے کر زندہ لوگوں کو غیرت دلائی جاتی تھی کہ اے لوگوں تمہارا جینا حیف ہے۔ دیکھو حسین (رضی اللہ عنہٗ) کے ساتھیوں نے تمہارے باپ، بھائی، عزیزوں کو قتل کر دیا ہے، بڑھو اور ان کے خون کا بدلہ لو۔ان میں عارضی جوش اٹھتا تھا لیکن امام عالی مقام رضی اللہ عنہٗ کے وفا شعار عاشقوں کے جذبہ سرفروشی کے سامنے ان کا جوش کسی کام نہ آتا۔ ایک ایک حسینی سپاہی سینکڑوں یزیدیوں کا کام پل میں تمام کرتا تھا، جسم پر زخموں کے پھول سجاتا، لہو کا کفن اوڑھتا اور اپنے امام پر جان لٹا کر راہِ وفا میں ایک نئی ہی داستان رقم کر کے ابدی زندگی کو گلے لگا لیتا۔
حر بن یزید رباحیؓ
اس سلسلے میں حر بن یزید رباحی رضی اللہ عنہٗ کی جانثاری قابلِ ذکر ہے جو پہلے یزید کے لشکر میں شامل تھے۔ جنگ کے وقت حر کا دل بہت مضطرب تھا۔ کبھی وہ عمر و بن سعد سے جا کر کہتے کہ تم امام عالی مقام رضی اللہ عنہٗ سے جنگ کرو گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کیا جواب دو گے؟ عمرو بن سعد کو اس کا جواب بن نہ آتا، وہاں سے ہٹ کر میدان میں آتے ہیں، بدن کانپ رہا ہے، چہرہ زرد ہے، ان کے بھائی مصعب بن زبیر نے ان کا یہ حال دیکھ کر پوچھا ’’اے برادر آپ مشہور جنگ آزما اور دلاور شجاع ہیں۔ آپ کے لیے یہ پہلا معرکہ نہیں۔ بارہا خونی مناظر آپ کی نظروں سے گزرے ہیں، آپ پر اس قدر خوف و ہراس کیوں غالب ہے؟‘‘ حر نے جواب دیا ’’اے برادر! یہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فرزند سے جنگ ہے۔ اپنی عاقبت سے لڑائی ہے، بہشت و دوزخ کے درمیان کھڑا ہوں۔ دنیا پوری قوت کے ساتھ مجھ کو جہنم کی طرف کھینچ رہی ہے اور میرا دل اس کی ہیبت سے کانپ رہا ہے‘‘۔ اسی اثنا میں حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہٗ کی آوا ز آئی۔ فرماتے ہیں ’’ہے کوئی جو آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر جان نثار کرے اور سیّدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حضور میں سرخروئی پائے‘‘۔ یہ صدا تھی جس نے پاؤں کی بیڑیاں کاٹ دیں، دلِ بے تاب کو قرار بخشا اور اطمینان ہواکہ شہزادۂ کونین میری پچھلی گستاخی سے چشم پوشی فرمائیں تو عجب نہیں۔ جان فدا کرنے کے ارادے سے چل پڑے، امام عالی مقام رضی اللہ عنہٗ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی ’’اے ابنِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، فرزندِ بتول رضی اللہ عنہٗ میں وہی حر ہوں جس نے آپؓ کو اس میدانِ بیابان میں روکا۔ اپنی اس جسارت پر نادم و شرمندہ ہوں۔ آپؓ کی کریمانہ صدا سن کر امیدوں نے ہمت بندھائی تو حاضرِ خدمت ہوا ہوں۔ آپؓ کے کرم سے امید ہے کہ میرا جرم معاف فرمائیں گے اور اہلِ بیتؓ پر جان قربان کرنے کی اجازت فرمائیں گے‘‘۔ امام عالی مقام رضی اللہ عنہٗ نے حر کے سر پر دستِ شفقت رکھا اور فرمایا ’’اے حر بارگاہِ الٰہی میں اخلاص مندوں کی استغفار قبول ہے اور خلوصِ نیت سے توبہ کرنے والے مایوس نہیں لوٹائے جاتے۔ میں نے تیری تقصیر معاف کی اور اس سعادت کے حصول کی اجازت دی‘‘۔ حر کے بھائی نے جب دیکھا کہ حر نے سعادت پائی اور نعمتِ آخرت سے بہرہ مندہوا تو اس کے دل میں بھی ولولہ اٹھا اور حر کے ساتھ آکر لشکرِ حسین رضی اللہ عنہٗ میں شامل ہو گیا۔ عمرو بن سعد نے یہ دیکھ کر ایک شخص کو بھیجا کہ ان کو سمجھا بجا کر اپنے موافق کرنے کی کوشش کرو اگر نہ مانیں تو سر کاٹ کر لے آؤ۔ اس شخص نے حر اور مصعب بن یزید کو بہتیرا دنیا کا لالچ اور یزید کے انعام کا لالچ دیا مگر اہلِ بیتؓ کی محبت ایمان بن کر ان کے دلوں میں اتر چکی تھی۔ جب کوئی مکر اور فریب کام نہ آیا تو اس شخص نے ایک تیر حر کے سینہ پر کھینچ کے مارا۔ حر نے زخم کھا کر ایک نیزہ کا وار کیا جو اس کے سینہ سے پار ہو گیا، پھر زین سے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا۔ اس شخص کے تین بھائی تھے۔ تینوں یکبارگی حر پر دوڑ پڑے، حر نے آگے بڑھ کر ایک کا سر تلوار سے اڑاد یا، دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈال کر زمین پر اس زور سے پھینکا کہ گردن ٹوٹ گئی۔ تیسرا بھاگ نکلا۔ حر نے اس کا تعاقب کیا، قریب پہنچ کر اس کی پشت پر نیزہ مارا، جو سینہ سے نکل گیا۔ اب حر نے لشکرِ ابنِ سعد کے میمنہ پر حملہ کیا اور خوب زور کی جنگ ہوئی لشکرِ ابنِ سعد کو حر کی جنگی صلاحیتوں کا اعتراف کرنا پڑا۔ اچانک حر کو فوجوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ نیزوں، تلواروں، تیروں کی برسات ہونے لگی اور وہ صادق جانباز دادِ شجاعت دے کر فرزندِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر جان فدا کر گیا۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ حر کو اٹھا کر لائے۔ سر کو زانو مبارک پر رکھ کر اپنے پاک دامن سے چہرے کا گردوغبار صاف کرنے لگے۔ ابھی رمقِ جان باقی تھی۔ حر نے بمشکل زبان کو حرکت دی ’’یا ابنِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! آپؓ مجھ سے خوش ہیں؟‘‘ آپؓ نے فرمایا ’’اے حر تجھ سے نہ صرف میں خوش ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی خوش ہوں گے۔‘‘ حر یہ جواب سن کر مسکرائے اور زانوئے حسین رضی اللہ عنہٗ پر اپنے مقدر پر ناز کرتے ہوئے اللہ سے ملاقات کے لیے روانہ ہوئے۔
حر کی شہادت کے بعد ان کے بھائی مصعب، ان کے بیٹے اور غلام عروہ تینوں نکلے اور امام عالی مقامؓ سے اجازتِ رزم چاہی، آپؓنے اجازت دے دی۔ چنانچہ یہ میدان میں نکلے اور بہت سے دشمنوں کو قتل کر کے بالآخر یہ تینوں بھی شہید ہو گئے۔
اب تک پچاس سے زیادہ آدمی شہید ہو چکے تھے۔اب صرف اہلِ بیتؓ کے افراد باقی تھے۔دشمنانِ بد باطن کی انہی پر نظر تھی ۔اب تک نیاز مندوں اور عقیدت کیشوں کی معرکہ آرائیاں تھیں جنہوں نے دشمنوں کے دعویدارانِ شجاعت کو خاک و خون میں لٹا کر اپنی بہادری کے غلغلے دکھائے تھے۔ اب اسد اللہ کے شیرانِ حق کا موقع آیا۔ ان حضرات کا میدان میں آنا تھا کہ بہادروں کے دل سینوں میں لرزنے لگے اور ان کے حملوں سے شیر دل بہادر بھی چیخ اٹھے۔
حضرت عبداللہ بن مسلم بن عقیلؓ
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے ساتھیوں کی جانثاری، بے جگری اور ثابت قدمی دیکھ کر دشمنوں کے دل دہل گئے تھے اور کہا جاتا ہے کہ اگر دشمنوں کے لشکر میں عمرو بن سعد جیسا سردار اور شمر ذی الجوشن جیسا آزمودہ کار شخص نہ ہوتا تو یقیناًکوفی تابِ مقابلہ نہ لاتے ہوئے بھاگ جاتے۔ حجازی سورماؤں نے ذرا سی ہی دیر میں اس کا ثبوت دے دیا کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں وہ بڑے بڑے تجربہ کار مبارزین کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ ان حجازی سورماؤں کی قوت ان کے ہتھیاروں یا جسما نی طاقت کی وجہ سے نہیں بلکہ شوقِ شہادت اور ایمان کی قوت کی بدولت تھی جس کا دنیا میں کوئی مقابلہ نہیں۔
شوقِ شہادت اور اپنے امام پر جان نثار کرنے کے جذبے سے سرشار ان سرفروشوں میں حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ کے بڑے صاحبزادے حضرت عبداللہ بھی شامل تھے۔ آپؓ نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ سے یہ کہتے ہوئے اجازت طلب کی ’’یا ابنِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سب سے پہلے جس نے آپؓ پر جان نثار کی وہ میرا باپ تھا او رباقی ماندہ رفیقوں میں سب سے پہلے جو آپؓ پر نثار ہونا چاہتا ہے وہ میں ہوں‘‘۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے آپؓ کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے اجازت دی۔ حضرت عبد اللہؓ گھوڑے پر سوار ہو کر رجز پڑھتے ہوئے میدان میں تشریف لائے۔ ایک تو شوقِ شہادت آپؓ کو مشتاقِ فردوس بنا رہا تھا دوسرا باپ کے خون کا انتقام آپؓ کو جوش دلا رہا تھا۔ عمرو بن سعد کی طر ف سے ایک شخص جس کا نام قدامہ ابنِ فرازی تھا، مقابلہ کے لیے بڑھا۔ کچھ دیر مقابلہ کے بعد آپؓ نے قدامہ کو کمر بند سے پکڑ کر زور سے زمین پر پٹخا اور دوسرا مبارز طلب کیا۔ جب قدامہ نے جان دے دی تو سلامہ بن قدامہ مقابلہ میں آیا اور مارا گیا۔ پھر سپاہِ دشمن کے دل کاپننے لگے۔ بڑی دیر ہو گئی اور کوئی سورما لشکر سے نکل کر مقابلے کے لیے نہیں آیا۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہٗ نے دیکھا کہ اس وقت حملہ کرنے کا اچھا موقع ہے، تلوار لے کر فوج کے میمنہ پر پل پڑے اور بیسیوں آدمی قتل کر ڈالے۔ پھر قلب پر جھکے اور جو سامنے آیا اسی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ آپؓ اسی طرح قتل و خون کر رہے تھے کہ ایک دشمن نے آپؓ کے گھوڑے کے دونوں پاؤں کاٹ دیئے۔ آپؓ جست لگا کر زمین پر گِرے۔ گِرتے ہی چاروں طرف سے شقی القلب لوگوں نے گھیر لیا اور نوفل بن حمیری نے آپؓ کو شہید کر ڈالا۔
حضرت عبداللہ بن مسلم رضی اللہ عنہٗ کے بعد حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہٗ کے بھائی جعفر بن عقیل رضی اللہ عنہٗ اور حضرت عبدالرحمن بن عقیل رضی اللہ عنہٗ بھی دادِ شجاعت دیتے ہوئے اپنے امام پاک رضی اللہ عنہٗ پر قربان ہو گئے۔ امام عالی مقام رضی اللہ عنہٗ اپنے جان نثاروں کی خون میں لت پت لاشیں اٹھا اٹھا کر خیموں میں لاتے رہے۔ بیبیاں ایک پیارے کی شہادت کے دکھ سے فراغت نہ پاتیں کہ دوسری لاش آجاتی۔ دن تھا یا قیامت تھی۔ سینوں سے خون اور آنکھوں سے اشکوں کے دریا جاری تھے لیکن مجال ہے کسی نے ہمت ہاری ہو یا کسی کو بھی اپنی جان پیاری معلوم ہوئی ہو، ساتھیوں میں ایک بھی ایسا نہ تھا جو اپنی جان بچا کر بھاگنا یا دشمن کی پناہ لینا چاہتا ہو۔
حضرت عباس علمدارؓ
حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ جناب فاطمہؓ بنتِ حزام سے حضرت علی رضی اللہ عنہٗ کے بیٹے اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے بھائی تھے لیکن آپ دونوں اصحاب رضی اللہ عنہم کا حقیقی رشتہ طالب و مطلوب کا تھا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کو کبھی بھائی کہہ کر مخاطب نہ کیا تھا بلکہ ہمیشہ آقا یا سیّد کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے۔
جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے الفت گاہِ شہادت کی طرف قدم اٹھائے تو حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ بھی اپنا تمام گھر بار، مال و اسباب چھوڑ کر ساتھ ہو لیے۔ تمام راہ اپنے امام عالی مقام رضی اللہ عنہٗ کی دیکھ بھال اور خدمت میں مصروف رہے اور ان کے سب احکام اور فیصلوں کو بلاچوں و چرا مانتے رہے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ صفاتِ جلال و کمال، شجاعت و بہادری، زہد و تقویٰ میں کامل تھے۔ یزیدی فوج پر آپؓ کا اس قدر خوف و رعب تھا کہ عمرو بن سعد نے ابنِ زیاد کو باربار لکھا کہ جب تک عباس (رضی اللہ عنہٗ) حسین (رضی اللہ عنہٗ) کے ساتھ موجود ہیں ہماری لاکھوں کی فوج بھی انہیں گزند نہیں پہنچا سکتی۔ اس پیکرِ وفا کو امام عالی مقامؓ سے جدا کرنے کی ایک چال چلی گئی۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ کی والدہ فاطمہؓ بنت حزام کا چچازاد بھائی جریر بن عبداللہ کلابی یزید کے درباریوں میں سے تھا۔ اس نے یزید سے اپنی چچازاد بہن کے چاروں بیٹوں حضرت عباسؓ، حضرت عبداللہؓ، حضرت جعفرؓ، حضرت عثمانؓ جو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے ساتھ تھے،کے لیے امان طلب کی۔ شمر بھی اسی جریر کے خاندان میں سے تھا۔ اس نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔ یزید نے امان نامہ لکھ دیا۔ جریر نے اپنے غلام کے ہاتھ یہ امان نامہ حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ کو بھجوا دیا تاکہ وہ اپنی جان بچانے کی خاطر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کو چھوڑ کر ان سے آ ملیں لیکن عشق کی بساط کے آگے عقل کی مکارانہ چالیں کہاں کامیاب ہوتی ہیں۔ جب غلام امان نامہ لے کر حضرت عباسؓ کے پاس کربلا پہنچا تو حضرت عباسؓ نے جواب دیا ’’ہمارے مہربان جریر بن عبداللہ سے کہہ دو کہ ہم ایسے نہیں ہیں کہ ابنِ زیاد کے زیرِ سایہ امان کی چھاؤں میں بیٹھیں۔ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی امان ہی کافی ہے اور ہم وہی چاہتے ہیں جو خدا چاہتا ہے‘‘۔ جب اس بات کا پتہ سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا کو چلا تو انہوں نے آپؓ کو بلا بھیجا اور پوچھا کہ کیا وہ واقعی شمر کی امان چاہتے ہیں تو عباسؓ نے جواب دیا ’’ہمشیرہ محترمہ وہ پاؤں ٹوٹ جائیں جو جمالِ حسین رضی اللہ عنہٗ کے علاوہ کسی اور کی طرف بڑھیں۔ میں نے ان کو جواب دے دیا ہے کہ میرے لیے امام حسین رضی اللہ عنہٗ کا سایہ، دامن اور وجود تیری امان سے بہتر ہیں‘‘۔
آخر کار روزِ عاشورہ زندگی کا سب سے بڑا امتحان شروع ہوا۔ یکے بعد دیگرے قربانیاں پیش ہونے لگیں۔ جان نثارانِ حسینؓ میں سے ہر ایک کی تمنا تھی کہ پہلے اسے جان نثاری کا موقع دیا جائے۔ محبت و عشق کے متوالے شوقِ شہادت میں سرشار تھے۔ سروں کا تن سے جدا ہونا اور راہِ خدا میں شہادت پانا ان پر وجد کی کیفیت طاری کرتا تھا۔ ایک کو شہید ہوتا دیکھ کر دوسرے کے دل میں شہادت کی امنگیں جوش مارتی تھیں۔ حضرت امام حسینؓ نے حضرت عباسؓ کو ان کی شجاعت اور جلال کی وجہ سے لشکر کا عَلم بردار بنایا تھا۔ لشکر کا پرچم عموماً اس شجاع کے حوالے کیا جاتا ہے جو ہر حال میں اس پرچم کو سر بلند رکھے اور اپنی جان پر کھیل کر بھی اسے نیچا نہ ہونے دے۔ لیکن حضرت عباسؓ کا دل اپنے آقا پر قربان ہونے اور جسم میں کھولتا ہوا خون دشمن کو نیست و نابود کرنے کو بے تاب تھا۔ ہر جانباز کی شہادت کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ اپنے امام کی جانب حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے کہ انہیں بھی جان نثاری کا موقع دیا جائے۔آخر حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ نے انتہائی ملتجیانہ لہجے میں کہا ’’آقا میرا سینہ زندگی سے تنگ آ چکا ہے مجھے لڑنے کی نہیں تو مرنے کی اجازت دے دیجےء۔‘‘ امام حسینؓ نے بھائی کا ماتھا چوما۔ اتنی دیر میں زوجہ عباسؓ نے آواز دی ’’آقا سکینہ رو رہی ہے‘‘۔ حضرت عباسؓ خیموں کی طرف بھاگے۔ اپنے آقا کی دختر کو روتے دیکھ کر نثار ہوتے ہوئے پوچھا ’’چچا قربان سکینہ میری زندگی میں تو کیوں روئے‘‘۔ کہا ’’چچا پیاس لگی ہے، بچے پانی مانگتے ہیں، علی اصغرؓ پیاسے ہیں‘‘۔ حضرت عباسؓ نے ایک ہاتھ میں مشکیزہ لیا اور دوسرے ہاتھ میں عَلم تھاما اور حضرت اما م حسین رضی اللہ عنہٗ کے پاس آئے۔ آخر امام نے حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ کو اجازت دے دی جاؤ پیاسوں کے لیے پانی لے آؤ۔ اتنا سننا تھا کہ دل کی کلی کھل اٹھی کہ شکر ہے اجازت تو ملی۔ سب سے ملنے کے بعد عباسؓ رخصت ہوئے۔ امامؓ نے فرمایا ’’عباس جنگ نہیں کرنی‘‘ اور ایک نیزہ تھمایا۔
فاتحِ خیبر کا بیٹا کربلا کی خاک اڑاتے ہوئے جارہا ہے میدانِ کربلامیں ہلچل مچ گئی۔ شامی فوج گھبرا گئی۔ ایک نیزے سے کئی شامیوں کو جہنم واصل کیا۔ اگر جنگ کی اجازت ہوتی تو میدان خالی کرنا مشکل نہ تھا۔ فرات کا کنارہ خالی ہو گیا۔ آپؓ نے مشکیزہ بھرا۔ خود بھی کئی دن سے پیاسے تھے مگر ایک گھونٹ بھی خود نہ پیا کہ جب تک آقا اور آقا زادیاں پیاسی ہیں پانی حلق سے اترے بھی تو کیسے؟ مشکیزہ لیے گھوڑے کو ایڑھ لگائی۔شامی فوج نے تہیہ کیا کہ چاروں طرف سے گھیر لو۔ آپؓ نے حکمِ امام کے مطابق جنگ کرنے کی بجائے گھوڑے کا رخ خیموں کی جانب کیا اور مانندِ طوفان اڑتے چلے گئے۔ اچانک راہ میں نوفل ملعون نے داہنے شانے پر تلوار کا وار کیا اور آپؓ کا بازو قلم ہو گیا۔ آپؓ نے مشکیزہ ایک ہاتھ اور عَلم بغل میں لیا اتنے میں حکم بن طفیل نے دوسرے بازو پر وار کیا۔ دوسرا بازو بھی قلم ہوا۔ آپؓ نے مشکیزہ دانتوں میں پکڑا اورمنہ آسمان کی طرف کر کے کہا ’’میرے اللہ تیرے نبی کی اولاد پیاسی ہے میں تیرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اولاد کے لیے پانی لیے جا رہا ہوں‘‘۔ اتنے میں حرمل ملعون نے ایسا تیر مارا کہ سیدھا مشک پر لگا۔ پانی بہہ گیا۔ پانی کیا بہہ گیا عباسؓ کی زندگی رک گئی، دل کی دھڑکن بند ہو گئی، جینے کی آس مٹ گئی۔ ٹھہر گئے کہ اچانک ایک شقی نے آپؓ کے سر اقدس پر گرز سے وار کیا بازو قطع تھے وار نہ سہہ سکے۔ آپؓ کی شہادت کی خبر سن کر امام عالی مقامؓ نے کہا ’’آج میری کمر ٹوٹ گئی‘‘۔
حضرت علی اکبرؓ
جب اہلِ بیتؓ کے علاوہ باقی افراد ایک ایک کر کے شہادت کا جام نوش کر چکے تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ خود میدانِ جنگ میں جانے کی تیاری کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر آپؓ کے سب سے بڑے صاحبزادے آگے بڑھ کر کہنے لگے کہ ابا جان یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں زندہ ہوں او رآپؓ میری آنکھوں کے سامنے زخم کھانے اور تکلیف اٹھانے کے لیے جا رہے ہیں۔
حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہٗ اٹھارہ سال کے خوبرو جوان تھے اور شکل و صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مشابہ تھے۔ میدانِ جنگ میں جانے کی اجازت ملنے پر آپؓ تلوار لہراتے ہوئے آئے اور یہ رجز پڑھ کر دشمن پر حملہ کر دیا:
انا علی ابن الحسینؓ بن علیؓ
نحن و بیت اللّٰہ اولٰی بالبنی
تاللّٰہ یحکم فینا ابن الداعی
کیف ترون الیوم ستری عن ابی
ترجمہ: میں علیؓ بن حسینؓ بن علیؓ ہوں۔ بیت اللہ کی قسم! ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سب سے زیادہ قرابت دار ہیں۔ خدا کی قسم! یہ بدبخت کی اولاد (ابنِ زیاد) ہم پر حکومت نہ کر سکے گا۔ تم دیکھو گے آج میں اپنے باپ کا کیسے دفاع کرتا ہوں۔
حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہٗ نے یزیدی سپاہیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنا شروع کیا۔ حضرت امام حسینؓ چاہتے تھے کہ اپنے جوان بیٹے، شباب کے پیکرِ کامل اور حُسن کے ماہِ تمام کو اپنی آنکھوں سے جوہرِ شجاعت دکھاتے ہوئے دیکھیں لیکن میدانِ کربلا کی گرد نے ان کو چھپا لیا تھا۔ کچھ خبر نہ تھی کہ وہ کہاں ہیں اور کیا بیت رہی ہے۔ بس اتنا اندازہ ہوتا تھا کہ جس سمت یزیدی بھیڑوں کا لشکر بھاگتا تھا حضرت علی اکبر ؓ اسی سمت جا رہے تھے۔ حضرت علی حیدرِ کراررضی اللہ عنہٗ کا پوتا دیر تک یزیدیوں کو واصلِ جہنم کرتا رہا۔ اگرچہ جسم پر بیسیوں زخم آئے لیکن لڑائی سے ہاتھ نہ روکا۔ لڑتے لڑتے جب پیاس کی شدت نے نڈھال کر دیا تو حضرت امام حسینؓ کے پاس آئے او رفرمایا ’’ابا جان اگر ایک گھونٹ پانی مل جاتا تو تازہ دم ہو جاتا۔‘‘ پانی وہاں کہاں تھا۔ عزیز از جان والد رضی اللہ عنہٗ نے حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا ’’جانِ پدر میدان میں جا کر شانِ حیدری دکھاؤ اور منزلِ مقصود پر پہنچ جاؤ۔ تمہارے جدِ امجد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جامِ کوثر ہاتھ میں لیے تمہارا انتظار کر رہے ہیں‘‘۔ آپؓ سوکھی زبان لیے دوبارہ میدانِ جنگ میں آ گئے اور اپنی تیغ کے جوہر دکھانے لگے۔ ابنِ سعد آپؓ سے مقابلے کے لیے اپنے بڑے بڑے جرنیل بھیجتا رہا لیکن آپؓ اپنی چٹکی میں انہیں مسلتے رہے۔ چاروں طرف سے نیزوں، تیروں اور تلواروں کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ ایک نیزہ سینۂ اقدس کے پار ہو گیا۔ حضرت علی اکبرؓ نے گھوڑے کی زین سے گرتے ہوئے آواز دی ’’یا اباہ ادرکنی‘‘ (اباجان مجھے سنبھالیے)۔ حضرت امام حسینؓ بے ساختہ دوڑ کر اپنے بیٹے کے پاس پہنچے۔ ان کا سر مبارک اپنی گود مبارک میں لیا تو شجاعت کے پیکر، شہادت کے دیوانے، دشمن کو نیست و نابود کرنے کے جذبے سے سرشار حضر ت علی اکبر رضی اللہ عنہٗ کہنے لگے ’’ابا جان آپؓ نیزے کا یہ پھل جسم سے نکال دیں تو میں ایک بار پھر میدان میں جانے کو تیار ہوں۔ آپؓ کا بیٹا کثرت سے زخم خوردہ ہونے کے باوجود ہمت ہارنے والا نہیں۔‘‘ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے اپنے جوان بیٹے، حسن و جمال کے پیکر پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ نازوں سے پلا بیٹا سر سے پاؤں تک زخموں سے چور ہے۔ آپؓ نے نیزے کا پھل حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہٗ کے جسم مبارک سے نکالا تو خون کا فوارہ ابل پڑا اور لاڈلے بیٹے کی روح شفیق باپ کے ہاتھوں میں قفس عنصری سے پرواز کر کے گلشنِ فردوس کی طرف راہی ہوئی۔
عونؓ ومحمدؓ
حضرت عون رضی اللہ عنہٗ و محمد رضی اللہ عنہٗ حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہٗ کی پیاری بہن سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کے لختِ جگر ہیں۔ سیّدہ زینبؓ تو خود پیارے بھائی پر جان نثار کرنے کو تیار تھیں لیکن خاتون ہونے کے ناطے میدانِ جنگ میں نہ جا سکتی تھیں چنانچہ اپنے بھائی پر قربان کرنے کے لیے اپنے جگر کے ٹکڑے لے آئیں اور عرض گزار ہوئیں ’’بھائی جان! میرے دونوں بیٹے اپنے ماموں پر قربان ہونے کو بیتاب ہیں، میں ان کی سفارش کو حاضر ہوئیں ہوں۔ میرے ان دونوں معصوموں کو میدانِ کار زار میں جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں‘‘۔ حضرت عون رضی اللہ عنہٗ کی عمر صرف تیرہ برس اور حضرت محمد رضی اللہ عنہٗ کی عمر پندرہ برس تھی۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ ان کمسنوں کو میدانِ جنگ میں بھیجنے پر تھوڑا سا ہچکچائے لیکن سیّدہ زینبؓ نے اصرار کیا اور عونؓ و محمدؓ کا جذبہ بھی دیدنی تھا۔ آخر کار حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے اجازت دے دی۔ یہ دونوں کم سن تلواریں ہاتھ میں لیے شیر کی طرح اپنے شکار پر حملہ آور ہوئے اور نہایت بے خوفی سے دشمنوں کی صفوں میں جا گھسے۔ اس قدر زبردست حملہ کیا کہ آنِ واحد میں بہت سے یزیدیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور بہت سے زخمی کر دئیے۔ یہ دیکھ کر یزیدی لشکر میں کھلبلی مچ گئی۔ بچوں کی ہمت و بہادری دیکھ کر ان کے حوصلے پست ہو رہے تھے۔
صورتحال دیکھتے ہوئے شمر اور ابنِ سعد نے پچاس پچاس کے دستے میں شہسوار ان دونوں کا سر قلم کرنے کے لیے بھیجے۔ جب یزیدی لشکر کو اپنی جانب بڑھتا دیکھا تو ان کے حوصلے اور بڑھ گئے، جامِ کوثر پینے کے آرزو مند دونوں بھائی شانے سے شانہ جوڑے آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ بدن زخموں سے چور ہو چکا تھا۔ خون سے شرابو ر تھے۔ زبان پر پیاس سے کانٹے پڑ چکے تھے۔ ایک ظالم کا تیر محمدؓ کی پیشانی میں پیوست ہو گیا۔ ایک چیخ نکلی، گھوڑے سے نیچے گِر پڑے۔ اتنے میں پچھلی جانب سے کسی نے عونؓ کی کمر میں نیزہ مارا۔ وہ بھی گھوڑے سے گِر گئے۔ ان کے گِرتے ہی دشمن ان پر ٹوٹ پڑا اور شہزادوں کے جسموں کے لاتعداد ٹکڑے کر دیئے۔ بے حیا کوفی ننھے ننھے سروں کو نیزوں پر اٹھا کر لے گئے۔ حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہٗ مظلومیت کی تصویر بنے آئے، معصوموں کی لاشوں کے بکھرے ہوئے ٹکڑے اکٹھے کئے اور اپنی چادر مبارک میں باندھ کر خیمے میں لے گئے۔ حضرت زینبؓ کے سامنے رکھ کر کہنے لگے ’’اے میری مظلومہ بہن! میدانِ کربلا میں تیری کمائی لٹ گئی۔ تیرے دونوں معصوم ماموں پر قربان ہو گئے۔‘‘ اس صبر و رضا کی پتلی پر جان فدا ہو کہ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا، سربسجود ہو کر کہنے لگیں ’’یااللہ تیرا شکر ہے! آج میرے بیٹوں نے میرے خون کا حق ادا کر دیا اور اسلام کی عظمت کو چار چاند لگا دیئے۔‘‘
حضرت علی اصغرؓ
کربلا کے میدان کے سب سے کم سن شہید اور جان کا پاکیزہ ترین نذرانہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے شیر خوار بیٹے حضرت علی اصغرؓ کا ہے۔ شاید جوانوں کے لہو پی کر بھی کربلا کی خاک کی پیاس میں کچھ کمی رہ گئی تھی جسے پورا کرنے کے لیے اس ننھی سی پیاس سے بلکتی جان کی قربانی بھی مانگ لی گئی ۔ حضرت علی اصغررضی اللہ عنہٗ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی گود میں تھے۔ پیاس سے نڈھال بچے نے پانی کی طلب میں منہ کھولا۔ اسی اثنا میں دشمنوں کا ایک تیر آکر حلق سے پار ہو گیا اوریہ ننھی جان بھی جامِ کوثر سے سیراب ہونے راہی ملکِ عدم ہوئی۔
حضرت قاسم بن حسنؓ
حضرت قاسم رضی اللہ عنہٗ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ کے بیٹے اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے ہونے والے داماد تھے۔ آپؓ کے ساتھ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی لختِ جگر حضرت سکینہؓ کا مستقبل وابستہ تھا۔ جب اہلِ بیتؓ کے افراد یکے بعد دیگرے شہید ہونا شروع ہوئے تو حضرت قاسم رضی اللہ عنہٗ نے بھی میدانِ جنگ میں جانے کی اجازت طلب کرتے ہوئے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ سے عرض کی ’’چچا جان مجھے بھی اجازت مرحمت ہو۔ میں بھی راہِ حق میں سر کٹانے کے لیے بیتاب ہوں‘‘۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا ’’بیٹے میں تمہیں کس دل سے اجازت دوں؟ تم تو میرے بھائی حسن مجتبیٰؓ کی نشانی اور یادگار ہو‘‘۔ حضرت قاسمؓ نے اصرار کرتے ہوئے کہا ’’چچا جان! خدا کے لیے مجھے ان دشمنوں سے لڑنے کی اجازت دیجئے اور اپنے اوپر نثار ہو نے کی سعادت سے محروم نہ کیجئے۔‘‘ چنانچہ امام عالی مقام رضی اللہ عنہٗ نے اشک بار آنکھوں سے اپنے بھتیجے کو سینے سے لگا کر رخصت کیا۔
حضرت قاسم رضی اللہ عنہٗ نے میدانِ جنگ میں خوب شجاعتِ حیدری کا مظاہرہ کیا اور بے شمار یزیدیوں کو واصلِ جہنم کیا۔ حمید بن مسلم جو ابنِ سعد کی فوج میں تھا، حضرت قاسمؓ کے میدانِ جنگ میں آنے کی منظر کشی یوں کرتا ہے کہ اچانک میدانِ جنگ میں ایک خوبصورت لڑکا نکلا کہ اس کا چہرہ چاند کا ٹکڑا معلوم ہوتا تھا۔ یہ لڑکا شیر کی مانند بپھرا ہوا آیا اور دشمن پر ٹوٹ پڑا۔
ان کے جسم پر زرہ بھی نہ تھی صرف ایک پیرا ہن پہنے ہوئے شوقِ شہادت کے جوش میں میدان میں آ گئے۔ دشمن چونکہ پہلے ہی عونؓ و محمدؓ کی بہادری اور شجاعت سے ہیبت زدہ تھے جب انہوں نے بائیس سالہ قاسمؓ کو آتے دیکھا تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ ابنِ سعد نے اپنے سب سے بڑے جنگجو ارزق کو ان سے مقابلے کے لیے بھیجا لیکن وہ تکبر سے کہنے لگا کہ میں اتنا بڑا جنگجو اس لڑکے سے کیا مقابلہ کروں اس کے لیے میں اپنے بیٹے کو بھیج دیتا ہوں وہ ہی کافی ہے۔ جب ارزق کا بیٹا حضرت قاسمؓ کے سامنے آیا تو آپؓ نے اسے جھپٹ کر بالوں سے پکڑ کر اوپر اٹھایا اور اپنے سر کے اوپر سے گھماتے ہوئے زور سے زمین پر دے مارا۔ زمین پر گِرتے ہی اس کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔ ارزق نے باری باری اپنے چار بیٹے حضرت قاسمؓ کے مقابلے میں بھیجے لیکن آپؓ نے نہایت آسانی سے چاروں کا صفایا کر دیا۔ جب ارزق نے اپنے چار جوان بیٹوں کے لاشے تڑپتے دیکھے تو خود غصے میں لال پیلا گھوڑے پر سوار مقابلے کے لیے میدان میں آیا۔ حضرت قاسمؓ نے غصے سے بپھرے ارزق کو بھی حملے کا موقع دیئے بغیر دو ٹکڑے کر دیئے۔ ابنِ سعد نے چلا کر کہا ’’اس نوجوان کو گھیرے میں لے کر قتل کر دو‘‘۔ چنانچہ گھمسان کی جنگ شروع ہو گئی۔ آپؓ تلوار چلاتے جاتے اور دشمنوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتے رہے۔ آخر کار شیث بن سعد نے آپؓ کے سینہ پر ایسا نیزہ مارا کہ آپؓ گھوڑے سے گِر پڑے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ آپؓ کی طرف دوڑے لیکن آپؓ کے پہنچنے تک حضرت قاسم رضی اللہ عنہٗ شہید ہو چکے تھے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے لاش کو بانہوں میں اٹھا لیا اور یہ کہتے ہوئے دوسرے شہدا کے پاس لا کر لٹا دیا ’’اس قوم کے لیے ہلاکت ہو جس نے تجھے قتل کیا۔ قیامت کے دن وہ تیرے جدِامجد کو تیرے قتل کا کیا جواب دیں گے۔‘‘
10 محرم 61ھ نمازِ فجر سے لے کر نمازِ عصر تک حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے 73 ساتھیوں نے جامِ شہادت نوش کیا جن میں 19 افراد اہلِ بیتؓ میں سے تھے اور باقی لوگوں میں مدینہ سے ساتھ چلنے والے رفقاء کے علاوہ پاس والے گاؤں کے کچھ لوگ اور ابنِ سعد کا لشکر چھوڑ کر ساتھ ملنے والے حر بن رباحیؓ، ان کے بھائی، بیٹے اور ان کے غلام بھی شامل ہیں۔ آخر ی شہید حضرت محمد بن علیؓ تھے جن کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ اور امام زین العابدینؓ بیبیوں کے ہمراہ تنہا رہ گئے۔ امام زین العابدینؓ بیمار تھے لیکن پھر بھی جان نثاری کی اجازت مانگی۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے بیبیوں کی بحفاظت مدینہ واپسی اور سادات کے نسب کی حفاظت کی غرض سے آپؓ کو میدانِ جنگ میں جانے کی اجازت نہ دی اور خود ہتھیار سجا کر میدان میں آئے۔ آپؓ کے آتے ہی دشمن کی صفوں میں کہرام مچ گیا۔ آپؓ کی تلوار دشمن کے خون میں ڈوب ڈوب کر نکلتی رہی۔ آپؓ نے ان ظالموں کو ان کے ظلم، ضد،ہٹ دھرمی، مکر وفریب کا بدلہ دینے کے لیے نیزوں پر اٹھا اٹھا کر زمین پر پٹکا۔لڑتے ہوئے کبھی علی اکبرؓ کا لہولہان چہرہ نظروں کے سامنے آتا‘ تو کبھی علی اصغرؓ کا پیاسا حلق‘ کبھی بھائی عباسؓ کا بے بازو لاشہ تو کبھی عونؓ و محمدؓ کی ٹکڑے ٹکڑے لاش۔ جن بازوؤں سے لاشے اٹھا اٹھا کرخیمے میں لاتے رہے وہ اب قہرِ خدا بن کر دشمن پر ٹوٹ رہے تھے۔ غیض و غضب کا وہ عالم تھا کہ ہزاروں دشمنوں میں سے کسی کی قریب آنے کی ہمت نہ ہو رہی تھی۔ جب شمر بن ذی الجوش نے یہ دیکھا تو پیدل فوج کے پیچھے سوار لا کر کھڑے کر دیئے اور تیر اندازوں کو حکم دیا کہ وہ تیر چلائیں، ساتھ ہی چلا کر کہا ’’تمہارا بُرا ہو کس کا انتظار کر رہے ہو؟ حسینؓ کو قتل کیوں نہیں کر چکتے؟‘‘
چنانچہ چاروں طرف سے آپؓ پر حملہ کر دیا گیا۔ آپؓ گھوڑے سے اتر گئے۔ سنان بن انس نے نیزہ جناب عالی مقامؓ کے پیچھے سے آکر پیٹھ پر مارا۔ آپؓ سربسجود ہو گئے۔ ایک شخص ارادہِ قتل سے آگے بڑھا تو جناب عالی مقامؓ نے اس سے فرمایا ’’اے شخص تو میرا قاتل نہیں ہے تو میرے خون سے اپنے ہاتھ نہ رنگ مبادا قیامت کے دن عذابِ دوزخ میں گرفتار ہو‘‘۔ وہ شخص رو کرکہنے لگا ’’یاابنِ رسول گو آپؓ اس حال کو پہنچ گئے ہیں مگر پھر بھی ہماری غمخواری آپؓ کو منظور ہے‘‘۔ خولی بن یزید پلید یا شمر ذی الجوشن جس کے حصہ میں شقاوت ازل سے لکھی تھی آگے بڑھا اور آپؓ کا سر تن سے جدا کر دیا۔شہادت کے بعد دیکھا گیا کہ آپؓ کے جسم مبارک پر تلواروں کے چونتیس اور تیروں کے تینتیس زخم آئے ہیں۔ اس قدر ظلم و ستم ڈھانے کے بعد بھی یزیدیوں کا جذبۂ بغض و عناد ختم نہ ہوا۔ انہوں نے حضرت امام حسینؓ کے جسمِ اطہر کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کر کے ریزہ ریزہ کر دیا۔ اس سفاکی کے بعد بدبختوں نے اہلِ بیتؓ کے خیموں میں داخل ہو کر اہلِ بیتؓ کا سارا سامان لوٹ لیا۔
گیارہ محرم کی صبح کو عمر وبن سعد نے اپنی فوج کے تمام ہلاک شدگان کی لاشوں کو ایک جگہ جمع کیا اور ان کی نمازِ جنازہ پڑھا کر دفن کر دیا لیکن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ اور ان کے ساتھی شہدا کی لاشوں کو ایسے ہی بے گورو کفن رہنے دیا گیا اور مبارک سروں کو کوفہ پہنچا دیا گیا۔
ابنِ سعد نے اہلِ بیتؓ کی خواتین کو ہووجوں میں سوار کرا کے کوفے بھیج دیا۔ یہ قافلہ جب میدانِ کار زار سے گزرا اور انہوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ اور آپؓ کے ساتھیوں کی بے گورو کفن لاشیں دیکھیں تو ان کی چیخیں نکل گئیں۔ ان کے رونے میں اتنا درد تھا کہ کلیجے پھٹے جاتے تھے۔ حضرت زینبؓ نے انتہائی درد و کرب کے ساتھ روتے ہوئے کہا ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! دہائی ہے، دہائی ہے۔ دیکھیئ یہ حسین رضی اللہ عنہٗ چٹیل میدان میں خون سے لتھڑے ہوئے اعضا بریدہ پڑے ہیں۔ اے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آپ کی بیٹیاں اسیر ہیں، آپ کی اولاد کے لاشے بے گورو کفن پڑے ہیں اور ہوائیں ان پر خاک اڑا رہی ہیں۔‘‘ حضرت زینبؓ کی یہ دلدوز فریاد سن کر دوست دشمن سب رو پڑے۔
جب یزیدی لشکر کربلا سے کچھ دور چلا گیا تو قبیلہ بنو اسد کے لوگ آئے جو دریائے فرات کے کنارے غاضریہ میں رہتے تھے۔ ان لوگوں نے آکر نمازِ جنازہ ادا کی اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے تنِ بے سر کو ایک جگہ اور باقی شہدا کو دوسری جگہ دفن کر دیا گیا۔
حضرت زینبؓ
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے وفا شعاروں کا ذکر ادھورا ہے اگر ان میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نام شامل نہ ہو۔ آپؓ وہ محسنۂ اسلام شیر دل خاتون ہیں جنہوں نے میدانِ کربلا میں حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہٗ کے حوصلے بڑھائے، اپنے دو بیٹے عونؓ و محمدؓ خوشی خوشی اپنے بھائی اور اسلام کی سربلندی کے لیے قربان کر دیئے۔ آپؓ نے ہی سانحہ کربلا کے بعد خاندانِ نبوت کی سرپرستی فرمائی، اہلِ بیتؓ کے باقی افراد پر کوئی آنچ نہ آنے دی اور واقعۂ کربلا میں ڈھائی گئی قیامت کی تمام تفصیلات سے لوگوں کو آگاہ کر کے یزید، ابنِ زیاد اور ابنِ سعد کے ناپاک کرتوتوں سے پردہ اٹھایا۔
جب اہلِ بیتؓ کی خواتین کا قافلہ کوفہ میں داخل ہوا تو کوفی ہزاروں کی تعداد میں انہیں دیکھنے کے لیے جمع ہو گئے۔ بے وفا کوفیوں کو دیکھ کر شیرِ خدا کی بیٹی بے اختیار ہو گئیں۔ ان لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’لوگو! اپنی نظریں نیچی رکھو۔ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیٹیاں اور اولاد ہے۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے اہلِ کوفہ کے سامنے ایک عبرت ناک خطبہ دیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حیدرِ کرار رضی اللہ عنہٗ تقریر فرما رہے ہیں۔ اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا ’’اے کوفیو! اے مکارو، اے عہد شکنو، اپنی زبان سے پھر جانے والو، خدا کرے تمہاری آنکھیں ہمیشہ روتی رہیں۔ تمہاری مثال ان عورتوں کی سی ہے جو خود ہی سوت کاتتی ہے اور پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہیں۔ تم نے خود ہی میرے بھائی سے رشتۂ بیعت جوڑا اور پھر خود ہی اسے توڑ ڈالا۔ تمہارے دلوں میں کھوٹ اور کینہ ہے۔ تمہاری فطرت میں جھوٹ دغا اور منافقت ہے۔ خوشامد، شیخی خوری اور عہدشکنی تمہارے خمیر میں ہے۔ تم نے جو کچھ آگے بھیجا ہے وہ بہت برا ہے۔ تم نے خیر البشر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بیٹے، جو جنت کے جوانوں کے سرادر ہیں، کو شہید کیا ہے خدا کا قہر تمہارا انتظار کر رہا ہے۔ اے کوفہ والو! تم نے ایک بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے جو منہ بگاڑ دینے والا او رمصیبت میں مبتلا کرنے والا ہے۔ یاد رکھو تمہارا ربّ نافرمانوں کی تاک میں رہتا ہے، اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں‘‘۔ اس خطبہ کو سن کر کوفیوں کو اس قدر ندامت ہوئی کہ روتے روتے ان میں سے اکثر کی گھگھی بندھ گئی۔
دوسرے دن کوفہ کے گورنر ابنِ زیاد نے اپنے زعمِ باطل میں اپنے رعب وجلال کے مظاہرہ کے لیے دربار آراستہ کیا۔ شہدا کے کٹے ہوئے سر اپنے سامنے منگوائے اور ہیبت وشکوہ کا مظہر بن کر خود تخت پر بیٹھا۔ اس کا گمان تھا کہ اسیرانِ اہلِ بیتؓ اس کے سامنے پیش ہو کر اس کی تعظیم بجا لائیں گے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس نکلی۔ شہزادی زینبؓ اپنے مخصوص وقار اور حیدری رعب و جلال کے ساتھ کمال بے اعتنائی برتتے ہوئے اس کی اجازت کے بغیر دربار کے ایک گوشہ میں بالکل خاموشی سے تشریف فرما ہو گئیں۔ ملعون نے اپنی خفت مٹانے کے لیے پوچھا ’’یہ عورت کون ہے؟ ایک لونڈی نے کہا زینب بنتِ علی رضی اللہ عنہٗ ہیں۔ ابنِ زیاد نے حضرت زینبؓ سے کہا ’’خدا کا شکر ہے جس نے تمہیں رسوا کیا اور تمہارے دعوؤں کو جھٹلایا‘‘۔ سیّدہ زینبؓ نے نہایت بے باکی سے جواب دیا ’’خدا کا شکر ہے جس نے ہمیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعے عزت بخشی۔ انشااللہ فاسق رسوا ہوں گے اور جھٹلائے جائیں گے۔‘‘ ابنِ زیاد نے کہا ’’تم نے دیکھا تمہارے بھائی اور تمہارے ساتھیوں کا کیا حشر ہوا؟‘‘ سیّدہ زینبؓ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے انہیں درجہ شہادت پر فائز کیا۔ عنقریب وہ اور تم داورِ محشر کے سامنے جمع ہو گے۔ اس وقت تمہیں پتہ چل جائے گا کہ کس کا کیا حشر ہوتا ہے۔‘‘ اس پر ابنِ زیاد کھسیانا ہو گیا۔
چند دنوں بعد ابنِ زیاد نے شہداء کے سروں اور اسیرانِ اہلِ بیتؓ کو فوج کے پہرے میں دمشق روانہ کر دیا۔ یزید کے دربار میں بھی حضرت زینبؓ کے رعب وجلال کا یہی عالم تھا۔ آپؓ ایک لمحہ نہ جھجکی، نہ خوف کھایا اور انتہائی بے باکی سے یزیدؓ کو اس کے تمام درباریوں کے سامنے اس کی سفاکی اور ظلم پر سخت بُرا بھلا کہا۔ آپؓ نے فرمایا:
* اے یزید! گردشِ افلاک اور ہجومِ آفات نے مجھے تجھ سے مخاطب ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ یاد رکھ! ربّ العزت ہم کو زیادہ عرصہ تک اس حال میں نہ رکھے گا۔ ہمارے مقاصد کو ضائع نہ کرے گا۔ تُو نے ہمیں نقصان نہیں پہنچایا اپنے آپ کو پہنچایا ہے۔ آہ تیرے آدمیوں نے دوشِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سوار اور اس کے بھائیوں، فرزندوں اور رفقاء کو نہایت بے دردی سے ذبح کر دیا۔ انہوں نے پردہ نشینانِ اہلِ بیتؓ کی بے حرمتی کی۔ اے کاش تو اِس وقت شہیدانِ کربلا کو دیکھ سکتا تو اپنی ساری دولت و حشمت کے بدلے ان کے پہلو میں کھڑا ہونا پسند کرتا۔ ہم عنقریب اپنے نانا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ان مصائب کو بیان کریں گے جو تیرے بے درد ہاتھوں سے ہمیں پہنچے ہیں اور یہ اُس جگہ ہو گا جہاں اولادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے ساتھی جمع ہوں گے۔ ان کے چہروں کا خون اور جسموں کی خاک صاف کی جائے گی۔ وہاں ظالموں سے بدلہ لیا جائے گا۔ حسین رضی اللہ عنہٗ اور ان کے ساتھی مرے نہیں اپنے خالق کے پاس زندہ ہیں اور وہی ان کے لیے کافی ہے۔ وہ ہماری امید گاہ ہے اور اسی سے ہم فریاد کرتے ہیں۔ اے یزید تو اپنی پوری لڑائی لڑ لے۔ سارا مکر و فریب کر لے۔ اپنی پوری دوڑ لگا لے اورتو ساری طاقت ہماری دشمنی میں جھونک دے (لیکن یہ بات جان لے) کہ خدا کی قسم! تو ہمارے ذکر کو نہ مٹا سکے گا۔‘‘
سیّدہ زینبؓ کا خطبہ سن کر یزید اور اس کے درباری سکتے میں آگئے۔ یزید کو خوف محسوس ہوا کہ لوگ کہیں خاندانِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حمایت میں میرے خلاف نہ اٹھ کھڑے ہوں۔ اس نے خواتینِ اہلِ بیتؓ کو حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہٗ کی زیرِ حفاظت مدینہ منورہ روانہ کر دیا۔
میدانِ کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ پر جان نثار کرنے والے جانبازوں کی تعداد تو 72 یا 73 تھی اور ہر ایک نے بڑھ چڑھ کر عشق و قربانی کا مظاہرہ کیا لیکن صفحات کی کمی کے باعث صرف چند یارانِ باوفا کا ذکر کیا جا سکا ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے ہر جانثار کی جانثاری کی داستان اس لائق ہے کہ اس کا تذکرہ سنہری حروف میں کیا جا سکے اور اس سے عشق، وفا و جانثاری کا سبق حاصل کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے قرب کے اعلیٰ ترین درجات سے نوازے۔ (آمین)