خوف و رجا—Khauf-o-Raja

Spread the love

Rate this post

خوف و رجا

تحریر: محترمہ سونیا سروری قادری (لاہور)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشادِ مبارک ہے:
ترجمہ: ’’ ایمان خوف اور رجا کے درمیان ہے۔ ‘‘
راہِ فقر پر چلتے ہوئے طالب مختلف احوال و کیفیات سے گزرتا ہے جن میں خوف و رجا بھی شامل ہیں۔ سیّدنا غوث الاعظمؓ ان احوال و کیفیات کے بارے میں فرماتے ہیں ’’ اللہ والوں کے دلوں کو اللہ کے ساتھ قرار ہی نہیں ہوتا ، وہ ڈرتے رہتے ہیں۔ اللہ ان میں تغیر و تبدیلی کرتا رہتا ہے کبھی ان کو نزدیک کر لیتا ہے اور کبھی ان کو دور کردیتا ہے، کبھی عزت دیتا ہے‘ کبھی ذلت دیتا ہے ‘ کبھی عطا کرتا ہے اور کبھی ہاتھ روک لیتا ہے۔ اللہ والوں کی حالتیں بدلتی رہتی ہیں اور سچی بندگی اور حسنِ ادب کے ساتھ قدموں پر سر جھکائے آستانہ خداوندی پر جمے رہتے ہیں۔‘‘ (الفتح الربانی مجلس۔ 61 )

خوف

حضرت امام غزالی ؒ خوف کی تعریف یوں بیان فرماتے ہیں کہ مستقبل میں کسی نا پسندیدہ چیز کی توقع کی وجہ سے دل میں جو الم و حزن اور جلن پیدا ہوتی ہے اسے خوف کہتے ہیں اور یہ خوف کبھی تو گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے ہوتا ہے اور کبھی اللہ تعالیٰ کی ان صفات کی معرفت کے سبب جو خوف کا سبب بنتی ہیں ۔ خوف کی یہ قسم اکمل و اُتّم ہے کیو نکہ جس کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے تو یقیناًاس میں خوف کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
ترجمہ: اور صرف مجھ سے ہی ڈرا کرو۔(سورۃ البقرہ۔40 )
اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ اس کا بندہ اُس سے ڈرتا رہے اور انہی ڈرنے والوں کو وہ قرآنِ کریم میں ہدایت کی نوید سناتا ہے ’’ان لوگوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے جو اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں۔‘‘
رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خوف کے بارے میں ارشاد فرمایا ’’حکمت کی بنیاد اور سرچشمہ اللہ کا خوف ہے۔‘‘
سلطان العاشقین حضر ت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں ’’ عقلمند وہ ہے جو اللہ کے حضور اپنا خوف ختم نہیں ہونے دیتا۔‘‘ (شمس الفقرا)
قرآن و حدیث اور اولیا کرام کے احوال میں جب ’’خوف‘‘ کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ خوف نہیں جس کی وجہ سے انسان کسی سے ڈر کر دور ہو جائے ۔ ابو لقاسم الحکیم کا قول ہے کہ خوف دو قسم کا ہے:
(1 ) رھبہ
(2 ) خشیتہ
’’صاحب الرھبہ‘‘ جس کسی شے سے ڈرتا ہے تو بھاگ جاتا ہے اور ’’صاحب الخشیتہ‘‘ جب ڈرتا ہے توا پنے ربّ سے التجا کرتا ہے۔
علما اور صوفیا کرام دونوں کی نظر میں خوف کے معنی مختلف ہیں۔ علما جس خوف کو دلوں میں پیدا کرتے ہیں وہ بنیادی طور پر جسم کو عذاب ملنے کا خوف ہے اور یہ عذاب مختلف اشیا جیسے جہنم، کیڑے مکوڑے، آگ یا کھولتے ہوئے پانی کے ذریعے دیا جائے گا۔ یہ آرام اور عزت چھن جانے کا بھی خوف ہے۔ اس خوف کا تعلق جسم اور ظاہری تباہی سے ہے یوں یہ خوف ایک پست درجے کا خوف ہے۔ لیکن صوفیا کرام جس خوف کا ذکر کرتے ہیں اس میں اشیا یا جسم کی تکلیف کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور نہ ہی اسے کوئی اہمیت حاصل ہے بلکہ اس خوف کا تعلق روح سے ہے۔ یہ خدا سے دوری کا خوف ہے مادی، جسمانی اور فانی لذات سے محرومی یا سزاؤں سے اس خوف کا کوئی تعلق نہیں۔اس کا تعلق اس واحد و یکتا ذات سے ہے جو کمال و حسن اور جمال و جلال کی صفات کا منبع ہے اور تمام نعمتوں کو عطا کرنے والا ہے۔
جو اللہ تعالیٰ کو پہچان لیتا ہے اس میں خوف پیدا ہوجاتا ہے جوں جوں یہ پہچان بڑھتی ہے خوف بھی بڑھتا جاتا ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’میں اللہ تعالیٰ کو تم سے زیادہ پہچاننے والا ہوں اور تم میں سے سب سے زیادہ خوف رکھنے والا ہوں۔ ‘‘
* حضرت ذوالنّون مصری ؒ فرماتے ہیں ’’ جو بندہ اللہ تعالیٰ سے جتنا قریب ہوتا ہے اس پر اسی قدر زیادہ اللہ کی ہیبت چھا جاتی ہے۔‘‘
* شیخ سہل بن عبداللہ تستریؒ نے فرمایا ’’ علم سے ایمان کا کمال ہے اور خوف سے علم کا کمال ہے‘ ایمان علم سے اور خوف خدا شناسی سے حاصل ہوتا ہے۔ ‘‘ ( عوارف المعارف )
جب سالک ذاتِ حق تعالیٰ کی معرفت اور شانِ خداوندی ملاحظہ کرتا ہے تو اس پر اپنے گزشتہ گناہوں کی پشیمانی اور مستقبل میں کسی غلطی کے سرزدّ نہ ہو جانے کا خوف بہت شدت سے طاری ہوتا ہے وہ ہر وقت اسی خوف میں رہتا ہے کہ کہیں اس سے کوئی ایسا عمل نہ سرزدّ ہو جائے جو اس کے ربّ کی ناراضگی کا باعث بنے۔ سورہ الرحمن میں اللہ فرماتا ہے’’اور جو ڈرا اپنے ربّ کے سامنے کھڑا ہونے سے اس کیلئے دو جنتیں ہیں۔ ‘‘ خوف کی اس حالت میں سالک اپنا محاسبہ کرتا ہے اور برائیوں سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے وہ ہر اُس چیز کو ترک کر دیتا ہے جو اس کے ربّ کو ناپسند اور راہِ فقر میں اُس کیلئے رکاوٹ بنتی ہے۔ حضرت شہاب الدین سہروردیؒ ایک بزرگ سے روایت کرتے ہیں ’’خائف وہ نہیں جو خوف سے ڈرتااور اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھتا رہے بلکہ حقیقی خائف وہ ہے جو ہر اس چیز کو ترک کر دے جو اس کیلئے عذاب کا موجب ہو۔‘‘ ( عوارف المعارف)
خوفِ الٰہی وہ آگ ہے جو قلب کی تمام کثافتوں کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے او ر اسے نور کے حصول کے قابل بناتی ہے۔ جو محبتِ الٰہی میں پوشیدہ ہے۔ یہ محبت جتنی گہری ہوتی جائے گی اللہ کا خوف بھی اُتنا ہی گہرا ہوتا جائے گا۔ جس طرح کچی اینٹ کو پختہ کرنے کیلئے اُس کو بھٹی میں رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح حالتِ خوف بھی سالک کیلئے ایک بھٹی کی مانند ہے جس میں سے سالک کو گزار کر پختہ کیا جاتا ہے۔ حضرت ذوالنّون مصری بیان فرماتے ہیں ’’محب کو جامِ محبت اس وقت پلایا جاتا ہے جب اس کا دل خوف کی بھٹی سے گزر کر پختہ ہو جائے۔‘‘
درحقیقت یہ خوف محبت کو جانچنے والے پیمانے کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ انسان ہمیشہ اُس کی ناراضگی کی پرواہ کرتا ہے یا اُس کے ناراض ہونے سے ڈرتا ہے جس سے وہ سب سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ راہِ فقر میں سالک جب خدا تعالیٰ سے عشق کرتا ہے تو یہ جذبہ ہر محبت پر غالب آجاتا ہے اسی حالت میں سالک سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی پرواہ کرتا ہے اور ہر وقت اپنے ربّ کو راضی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لیے ہر وہ عمل اختیار کرتا ہے جس سے اس کا ربّ راضی ہو جائے۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے ’’اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں یہ لوگوں کے لیے ہے جوا للہ سے ڈرتے ہیں۔‘‘(سورۃ البینہ )
طالب ہمیشہ اسی خوف میں مبتلا رہتا ہے کہ کہیں اس کے کسی عمل سے اس کا ربّ اس سے دور نہ ہو جائے۔ یہ خوفِ الٰہی دل میں اسطرح گھر کرتا ہے کہ باقی سارے خوف دل سے نکال باہر کرتا ہے۔ طالب کو نہ تو لوگوں کا کوئی خوف رہتا ہے نہ ہی دنیا کی کسی اور چیز کا۔ اس کے دل میں یہ خوف اپنی باقی ہر چیز پر سبقت لے جاتا ہے اور دل کو ہر غیر اللہ کے خوف سے پاک کردیتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’ پس تم لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔‘‘( المائدہ ۔ 44 )
اللہ تعالیٰ نے خوف کو ایمان کی شرط قرار دیا ہے ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’ مجھ سے ہی ڈرو اگر تم مومن ہو ‘‘(آلِ عمران)۔ بے شک اللہ تعالیٰ کے خوف کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ جو شخص اللہ کے خوف سے رویا وہ دوزخ میں داخل نہ ہوگا جب تک دودھ اپنے تھنوں میں واپس نہ چلا جائے۔‘‘ یعنی اس کا دوزخ میں داخل ہونا مشکل ہے جو دنیا میں اللہ کے خوف سے روتا رہا ہے۔ ہمیں انبیا ؑ اور صحابہ کرامؓ کی سیرت سے بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ کیسے ہر وقت اللہ کے خوف میں مبتلا رہتے تھے ۔ حضرت عمرؓ جب قرآن کی کوئی آیت سنتے تو خوف سے گر پڑتے اور بیہوش ہو جاتے۔ ایک روز آپؓ نے ایک تنکا اٹھایا اور کہا کاش میں ایک تنکا ہوتا اور انسان نہ ہوتا، کاش کہ مجھے ماں نے جنا نہ ہوتا پھر اس قدر زاروقطار روئے کہ آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری ہو گئی اور آنسوؤں کے بہنے سے آپ کے چہرے پر دوسیاہ لکیریں پڑ گئیں۔ (مکاشفتہ القلوب)
حضرت ابراہیم ؑ جب کبھی لغزش کے بارے میں سنتے تو ان کا دل اس قدر جوش مارتا کہ اس کی آواز بہت دور تک سنی جاتی۔ ان کا یہ حال دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل ؑ کو ان کے پاس بھیجا۔ حضرت جبرائیل ؑ نے آپ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کہتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ کیا کبھی دوست بھی دوست سے ڈرتا ہے؟ آپ نے فرمایا ’’اے جبرائیل ؑ جب میں لغزشوں کو یاد کرتا ہوں اور اس کے عذاب پر غور کرتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی دوستی کو بھول جاتا ہوں۔‘‘ (مکاشفتہ القلوب )
راہِ فقر میں خوفِ الٰہی پہلی سیڑھی کی مانند ہے جب سالک اس پر قدم رکھتا ہے تو باقی سیڑھیاں چڑھنا اُس کیلئے آسان ہو جاتا ہے۔ پہلی سیڑھی اسطرح سے کہ اس پر طالب کو پرکھا جاتا ہے کہ اگر وہ خوف کی اس حالت میں اپنے ربّ کے قریب رہتا ہے یا اس کے خوف سے اس سے دوری اختیار کر لیتا ہے۔ جب وہ اس سیڑھی کو پار کر لیتا ہے تو اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ ہر پڑاؤ کو پار کرنے کی اہلیت رکھتا ہے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کافرمان ہے ’’ انسان جب اللہ سے ڈر کر اللہ کی طرف دوڑتا ہے تو اللہ اسے قبول کر لیتا ہے۔ وہ اپنے نفس سے علیحدہ ہو کر اللہ کو پکارتا ہے توا پنی روح اور قلب سے بھی علیحدہ ہو جاتا ہے۔پھر پکارتا ہے’’اللہ ‘‘ پھر جب انسان اللہ کو پکارتا تو اس کی روح نورِ حق تعالیٰ کا سمندر بن جاتی ہے‘‘۔

رجا

شیخ احمد زروقؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان پر اعتماد کرنے سے دل میں جو سکون کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اسے رجا کہتے ہیں لیکن رجا کے ساتھ عمل بھی ضروری ہے کیونکہ عمل کے بغیر رجا خود فریبی ہے۔ رجا وہ مقام ہے جہاں انسان چیخنے چلانے سے باز رہتا ہے اور امیدِ رحمت پر رہتا ہے ۔ حضرت ابنِ عجیبہؒ نے رجا کے تین مراتب بیان فرمائے ہیں:
1 ۔ عام کی رجا: عوم کی رجا یہ ہے کہ وہ حصولِ ثواب کے ساتھ حسنِ خاتمہ کے امیدوار ہوتے ہیں یعنی ایسے سالک جن کی عبادات کا مقصود ثواب پانا اور حسنِ خاتمہ ، عقبیٰ کی طلب اور اس کو پانا ہی مقصود ہو۔
خواص کی رجا: خواص کی رجا یہ ہے کہ وہ رضائے الٰہی اور اس کے قرب کے طالب ہوتے ہیں یعنی اللہ پاک کی رضا ہر کام میں قبول کرتے ہیں ۔
خاص الخواص کی رجا: خاص الخواص وہ لوگ ہیں جن کو نہ تو ثواب سے غرض ہوتی ہے اور نہ عقبیٰ کے طلبگار۔ ان کا مقصود ذاتِ حق ہے اور مشاہدۂ حق تعالیٰ اور اسرارِ خداوندی میں ترقی کے طلبگار ہوتے ہیں۔
شیخ ابو عبداللہ کا فرمان ہے ’’متوقع کرم کے باعث دلوں کی امید کا نام رجا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیشہ یہ چاہتا ہے کہ اس کا طالب اس کے قریب ہو نہ کہ اس سے دور ہوجائے اسلئے وہ ہمیشہ طالب کو اپنی رحمت کا یقین اور فضل کی امید دلاتا ہے۔ ارشادِ بار ی تعالیٰ ہے ’’میری رحمت ہر شے سے وسیع ہے۔‘‘(سورۃ اعراف)
جو طالب راہِ فقر پر اپنے نفسوں کو دباتے ہیں اور اپنی دنیاوی خواہشات کو ترک کرتے ہیں ان کو یہ امید ہوتی ہے کہ اُن کا ربّ اُن سے راضی ہو گا اور انہیں خوب نوازے گا۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرمادیجئے اے میرے بندو! جنہوں نے اپنے نفسوں پر زیادتیاں کی ہیں اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ یقیناًاللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے بلاشبہ وہی بہت بخشے والا ہے۔‘‘ (سورۃ الزمر۔53 )
اسطرح اللہ تعالیٰ اپنی وسعتِ رحمت کی بشارت دیتا ہے ’’ بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا تو یہی لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی اُمید رکھتے ہیں۔ (سورۃ البقرہ۔ 218)
اہلِ رجا کیلئے احادیث طیبہ میں بھی جابجا اللہ تعالیٰ کی وسعتِ رحمت کے بارے میں ارشادات موجود ہیں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؒ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن بعض مسلمان پہاڑوں کی مثل گناہ لے کر آئیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف کر دے گا ۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایک بندے کو اپنے انتہائی قریب کرلے گا اور اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا اس سے کہے گا کہ تم اپنے فلاں فلاں گناہ کو جانتے ہو تو وہ بندہ کہے گا ہاں یاربّ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے دنیا میں تیرے گناہوں کی پردہ پوشی کی اور آج تیرے ان گناہوں کو معاف کرتا ہوں پھر اس کو نیکیوں کا نامہ اعمال عطا کر دیا جائے گا۔‘‘ (بخاری ۔ مسلم)
اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ طالب جان بوجھ کر گناہ پر گناہ کرتا رہے کہ اللہ مجھے معاف فرما دے گا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ گناہ اگر سرزد ہوگیا ہے تو اس سے نہ صرف توبہ کی جائے بلکہ اس گناہ کو یا برائی کو ایسے تر ک کیا جائے کہ آئندہ سرزد نہ ہو۔
طالب کو اس بات کا یقین ہونا چاہئے کہ اگر ربّ تعالیٰ کی صفات جبار اور قہار ہیں تو رحمن ، غفار اور رحیم بھی تو اسی کی صفات ہیں۔ وہ ذات اس کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔ اسے امید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمانِ ذیشان ہے کہ قیامت کے دن ارشاد باری ہوگا ’’جس بندے کے دل میں ذرّہ برابر ایمان ہے اسے دوزخ سے نکال دیا جائے‘‘۔ (عوارف المعارف)
شیخ سہل بن عبداللہ تستریؒ فرماتے ہیں ’’ خوف مذکر اور رجا (امید) مؤنث ہے ان دونوں کے ملنے سے ایمان کے حقائق کی پیدائش ہوتی ہے۔‘‘
خوف اور امید میں توازن رکھنا بہت ضروری ہے ان میں بگاڑ سالک کی ترقی میں رکاوٹ کا باعث بن جاتا ہے ۔حضرت شیخ ابو علی رودباریؒ فرماتے ہیں ’خوف اور امید پرندے کے دو بازوؤں کی طرح ہیں ۔ جب دونوں بازو برابر ہوتے ہیں تو پرندہ اوپر چڑھتا ہے اور اس کی پرواز درست ہوتی ہے‘‘بے شک سالک کو خوف کی حالت میں رہنا چاہیے اس وجہ سے وہ بہت سی کوتاہیوں سے محفوظ رہتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کو امید کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے ان دونوں کا تناسب میں ہونا بہت ضروری ہے۔ سیّدنا غوث الاعظمؒ فرماتے ہیں ’’ جس کی آرزو اور تمنا خوف پر غالب ہوتی ہے وہ بے دین بن جاتا ہے اور جس کا خوف‘ امید اور تمنا پر غالب ہوگیا وہ ناامید ہوجاتا ہے ‘ جو کہ کفر ہے تو سلامتی دونوں کی برابری میں ہے‘‘۔ (الفتح الربانی۔ مجلس25 )
قرآنِ کریم میں بھی اللہ تعالیٰ جہاں اپنے بندوں کو خوف دلاتا ہے ساتھ ہی اپنی رحمت کی امید کا بھی یقین دیتا ہے ارشاد ہے ’’ تم یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ سزا بھی سخت دینے والا ہے اورا للہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ‘‘ ( المائدہ ۔ 98 )
اللہ تعالیٰ کی ذات متضاد صفات کی حامل ہے جب اللہ تعالیٰ سالک پراپنے جلالی اسماء جیسا کہ جبار اور قہار کی تجلیات کا نزول فرماتا ہے تو اُس پر خوف طاری ہو جاتا ہے اور جب وہ اپنی جمالی صفات کی تجلیات نازل فرماتا ہے تو سالک اطمینان حاصل کرتا ہے اور حالتِ امید اختیار کرتا ہے سیّدنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں ’’ جب تو اس کے جلال کی طرف نظر ڈالتا ہے تو خوفِ الٰہی سے پارہ پارہ ہو جاتا ہے اور جب جمال کی طرف نگاہ کرتا ہے تو اطمینان حاصل ہو جاتا ہے۔ جلال کو دیکھتے وقت ڈر جاتا ہے اور جمال کو دیکھتے وقت رحمت کا امیدوار بن جاتا ہے جلال کو دیکھتے وقت محو و فنا ہو جاتا ہے اورجمال کو دیکھ کر موجود ہوتا ہے پس مبارک ہو اس شخص کو جس نے اس کھانے کا مزہ چکھا۔ (سرِّالاسرار)
حضرت فرید الدین گنج شکرؒ فرماتے ہیں ’’ اللہ کا خوف اس کے عدل سے ہے اور ’’ رجا ‘‘ اس کے فضل سے ہے اللہ تعالیٰ کے دربار میں عزیز ترین آدمی وہ ہے جس میں یہ دونوں چیزیں موجود ہوں۔
خوف و رجا مومن کے دو بازوؤں کی طرح ہیں جس طرح انسان کا ایک بازو نہ ہو تو وہ مکمل اور متوازن نہیں ہوتا اسطرح اگر خوف اور امید میں سے ایک بھی مومن میں موجود نہ ہو تو اس میں توازن نہیں رہتا وہ نا مکمل ہوتا ہے یعنی امید کے ساتھ خوف ‘ اور خوف کے ساتھ امید کا ہونا لازم ہے اس لئے کہ خوف کا سبب ایمان ہے اور ایمان ہی خوف اور امید کا سبب ہے اس لیے یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں ۔
حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو خوف و رجا کے بارے میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’اللہ کا ایسے خوف کرو اس کے عذاب سے بے خوف نہ ہو جاؤ ، اور خوف سے زیادہ اس سے (رحمت کی) امید رکھو‘‘ ان کے بیٹے نے کہا ’’ میں بھلا یہ کیسے کر سکتا ہوں جبکہ میرے سینے میں توایک دل ہے۔‘‘ حضرت لقمان ؑ نے فرمایا ’’کیا تمہیں یہ علم نہیں کہ مومن کے سینے میں دو دل ہوتے ہیں ایک دل کے ذریعے وہ خائف رہتا ہے دوسرے دل سے وہ امید رکھتا ہے ‘ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں کا تعلق ایمان سے ہے۔‘‘
راہِ فقر میں وہی طالب کامیاب ہے جواپنے مرشد پر کامل یقین رکھے کہ وہ ہر طرح کی حالت میں اس کے ساتھ ہے اس کی ہر کیفیت کو وہ خوب جانتا ہے اور اس کی راہنمائی کیلئے ہروقت طالب کے ساتھ موجود ہے۔ یہ مرشد پاک کا ہی کمال ہوتا ہے جو سالک کی ہر طرح کی کیفیات کو سمجھانے میں نہ صرف اُس کی مدد فرماتا ہے بلکہ راہِ فقر میں اس کیلئے آسانی پیدا فرماتا ہے۔ پس سالک کا یہ فرض ہے کہ اس کی طلب اور نیت سچی ہو اور حق کو پانے کی ہو جیسا کہ سلطان العا شقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
’’ جو حق کی تلاش میں ہوتا ہے وہ ضرور حق تک پہنچتا ہے۔‘‘


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں