مجلس ِمحمدیؐ Majlis e Mohammadi
آخری حصہ تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
کیا شیطان حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صورت اختیار کر سکتا ہے؟
اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کی نشانی کیا ہے؟ یعنی وہ کس طرح جان سکتے ہیں کہ وہ واقعی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں پہنچے ہیں کیونکہ اکثر لوگ شیطانی استدراج کا شکار بھی ہو جاتے ہیں چونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام سراپا ہدایت ہیں، شیطان حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہونے کا گمان یا تاثر نہیں دے سکتا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صورت مبارک اختیار کر سکتاہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
مَنْ رَّأَنِیْ فَقَدْ رَأَلْحَقِّ اِنَّ الشَّیْطَانَ لَا یَتَمَثَّلُ بِیْ وَ لَا بِالْکَعْبَۃِ اَیْ مَنْ رَّأَنِیْ فِی الْمَنَامِ فَقَدْ رَأَنِیْ تَحْقِیْقًا لِاَنَّ الشَّیْطَانَ لَا یَقْدِرُ عَلٰی صُوْرَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ وَ لَا عَلٰی ھَیْئَۃِ شَیْخِ الْکَامِلِ
ترجمہ: جس نے مجھے دیکھا پس تحقیق اس نے حق دیکھاکیونکہ بے شک شیطان میری صورت اختیار نہیں کر سکتا اور نہ ہی کعبہ کی۔ یعنی جس نے مجھے خواب میں دیکھا یقینا اس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان کو یہ قدرت حاصل نہیں کہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صورت اختیار کر سکے اور نہ ہی وہ شیخِ کامل کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں، کلید التوحید کلاں)
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
شیطان کو چند صورتیں اختیار کرنے کی قدرت نہیں ہے اللہ کی صورت، حضرت محمد رسول اللہؐ کی صورت، سورج، چاند، مدینہ منورہ، روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، کعبۃ اللہ اور قرآن کی صورت کہ یہ تمام صورتیں ہادی ہیں اور شیطان ہادی اور ہدایت کی صورت اختیار نہیں کرسکتا۔ شیطان اور اس کی راہ باطل ہے جو حق تک ہرگز نہیں پہنچا سکتی۔ (عین الفقر)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حلیہ مبارک
جو لوگ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچتے ہیں وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حلیہ مبارک مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کسی ایک صورت پر متصور نہیں ہوتے بلکہ مختلف طالبوں کو مختلف طرح کے لباس پہنے ہوئے اور مختلف خدوخال کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مختلف صورتوں میں دیکھنا، دیکھنے والے کی قابلیت کی مناسبت سے جائز ہے اور کوئی بھی حقیقتِ محمدیہ کو نہیں دیکھ سکتا سوائے وہ جو علم، عمل، حال، بصیرت اور نماز کی ایک نہیں بلکہ ظاہری و باطنی دونوں حالتوں کا کامل وارث ہو۔ (سرّ الاسرار)
سیدّ عبدالکریم بن ابراہیم الجیلی رحمتہ اللہ علیہ فقر و تصوف کی شاہکار تصنیف ’’انسانِ کامل‘‘ میں لکھتے ہیں:
محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ قدرت حاصل ہے کہ وہ ہر صورت میں متصور ہوں۔ حتیٰ کہ وہ ان صورتوں میں متجلی ہوتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ دستور جاری ہے کہ وہ ہمیشہ ہر زمانہ میں اس زمانہ کے اکمل کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں تاکہ ان کی شان بلند ہو اور زمانہ کا ان کی طرف میلان درست اور قائم ہو۔ وہ ظاہر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خلیفہ ہوتے ہیں اور باطن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کی حقیقت ہیں۔ (انسانِ کامل۔ صفحہ 389)
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف ’’کلید التوحید کلاں‘‘ میں بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حلیہ مبارک بیان کیا ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا رنگ گندمی سفید،پیشانی کشادہ، دندان مبارک کھلے، ناک مبارک اونچی، آنکھیں سیاہ، دلکش صورت، داڑھی مبارک گھنی، ہاتھ مبارک لمبے، انگلیاں مبارک باریک اور قددرمیانہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بدن مبارک پر بال نہیں تھے صرف سینے سے ناف تک ایک خط بنا ہوا تھا جبکہ پشت مبارک پر مہرِ نبوت تھی۔
پس جس نے اس حلیہ مبارک کے موافق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دیدار کا انکار کیا تحقیق اس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حدیث مبارکہ کا انکار کیا اور جس نے حدیث مبارکہ کا انکار کیا اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا انکار کیا اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا انکار کیا یقینا اس نے کفر کیا۔ (کلید التوحید کلاں)
کتبِ احادیث میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حلیہ مبارک پر کثیر روایات موجود ہیں جن میں سے چند پیش کیا جارہی ہیں۔
چہرۂ انور
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ حبیبِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرۂ انور میں تدویر اور گولائی تھی (چودھویں کے چاند کی طرح)۔ (الوفا)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہٗ سے ایک شخص نے دریافت فرمایا ’’کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا چہرہ مبارک تلوار کی مانند (لمبا پتلا) تھا؟‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’نہیں بلکہ چاند کی طرح (گول اور چمکدار) تھا۔‘‘ (بخاری 3552)
سرِاقدس
حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سرِاقدس موزونیت کے ساتھ بڑا تھا۔‘‘ (مسند احمد 1300)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بڑے سر اور موٹے (مضبوط) جوڑوں والے تھے۔‘‘ (ترمذی3637)
موئے مبارک
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زلفیں نہ تو مکمل طور پر خمدار تھیں اور نہ بالکل سیدھی اکڑی ہوئی بلکہ درمیانہ نوعیت کی تھیں۔‘‘ (مسلم6067)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بال جمہ سے کم اور وفرہ سے زیادہ تھے (یعنی کانوں اور کندھوں کے درمیان)۔‘‘ (ترمذی 1755۔ ابودائود 4187۔ ابنِ ماجہ 3635)
ابرومبارک
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دونوں ابروؤں کے درمیان فاصلہ بہت کم تھا، اس کا اندازہ روئے منور کو بغور دیکھنے سے ہی ہوتا تھا ورنہ عام حالت میں یوں لگتا تھا کہ اُن کے درمیان سرے سے کوئی فاصلہ ہی نہیں جیساکہ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
رسولِ اکرم کے ابرو مقدس آپس میں متصل تھے۔(ابنِ عساکر ۔ حاکم۔ابنِ سعد)
جبین انور
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت فرماتے ہیں ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیشانی کشادہ تھی۔‘‘ (الوفا۔ ترمذی۔ طبرانی۔ بیہقی۔ سیوطی)
چشمانِ مبارک
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آنکھیں کشادہ او رسیاہ تھیں۔‘‘ (بیہقی۔ ابنِ سعد)
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی چشمانِ مقدسہ میں سرخ رنگ کے ڈورے دکھائی دیتے تھے۔‘‘ (مسلم6070)
ناک مبارک
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بینی مبارک حسن اور تناسب کے ساتھ باریک تھی۔‘‘ (سیوطی)
رخسار مبارک
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے ’’حضور کے رخسار مبارک ہموار تھے۔‘‘ (ترمذی۔ سیوطی۔ بیہقی۔ طبری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے رخسار مبارک نہایت سفید رنگ کے تھے۔‘‘ (طبرانی18655)
دہن مبارک
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دہن مبارک فراخ، موزوں اور اعتدال کے ساتھ بڑا تھا۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دہن مبارک فراخ (مگر انتہائی مناسب انداز میں) تھا۔‘‘ (مسند احمد21297)
دندانِ اقدس
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے کے دو دانت کشادہ تھے۔جب آپ گفتگو فرماتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپ کے دو دانتوں سے نور برس رہا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح 5797)
آواز مبارک
خطبۂ حجۃ الوداع کے موقع پر صحابہ کرامؓ کی تعداد سوا لاکھ کے قریب تھی، اس اجتماعِ عظیم سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خطاب فرمایا تو اجتماع میں شریک ہر شخص نے خطبہ سنا۔
حضرت عبدالرحمن بن معاذ تمیمی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں ’’ہم اپنی اپنی جگہ پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خطبہ سن رہے تھے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم لوگوں کو مناسکِ حج کی تعلیم دے رہے تھے۔‘‘ (ابوداؤد1957)
ریش مبارک
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اعتدال کے ساتھ بڑے سر اور گھنی داڑھی والے تھے۔‘‘ (مسند احمد947)
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ریش مبارک کو طول و عرض میں برابر تراشا کرتے تھے۔‘‘ (ترمذی2762)
کان مبارک
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیاہ زلفوں کے درمیان دو سفید کان یوں لگتا جیسے تاریکی میں دو چمکدار ستارے چمک رہے ہوں۔‘‘ (ابنِ عساکر۔ ابنِ کثیر)
گردنِ اقدس
حضرت اُمِ معبد رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی گردنِ اقدس قدرے لمبی تھی۔‘‘ (المستدرک)
دوش مبارک
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مضبوط کندھوں کے بارے میں فرماتے ہیں ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کندھوں کے جوڑ توانا اور بڑے تھے۔‘‘ (بیہقی۔ سیوطی۔ ابنِ کثیر)
بازوئے مقدس
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بازو مبارک اور کلائیاں موزوں ساخت کی تھیں۔‘‘ (طبرانی۔ بیہقی)
دستِ اقدس
حضرت انس رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے’’میں نے کسی ایسے ریشم یا دیباج کو نہیں چھوا جو نرمی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاتھ مبارک سے بڑھ کر ہو۔‘‘ (مسلم 6054)
انگشتانِ مبارک
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی انگشتانِ مبارک لمبی اور خوبصورت تھیں۔‘‘ (طبرانی۔ بیہقی۔ سیوطی)
ہتھیلیاں مبارک
حضرت علی کرم اللہ وجہہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہتھیلیاں اور پاؤں مبارک بھرے ہوئے تھے۔ (مسند احمد684،947، 1300)
حضرت انس رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے ’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہتھیلیاں کشادہ تھیں۔‘‘ (بخاری5907)
سینہ اقدس
حضرت علی کرم اللہ وجہہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سینۂ انور سے لے کر ناف تک بالوں کی ایک لمبی سی دھاری تھی۔ (ترمذی 3637۔مسند احمد 947)
بطن اقدس
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا شکم مبارک اور سینۂ انور برابر تھے۔‘‘ (ترمذی۔ بیہقی۔ سیوطی)
پشت مبارک
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پشت مبارک کشادہ تھی۔‘‘ (بیہقی)
مہرنبوت
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان مہرِنبوت تھی جو کبوتر کے انڈے کی مقدار سرخ ابھرا ہوا گوشت کا ٹکڑا تھا۔‘‘ (ترمذی3644)
قد مبارک
سیدّنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے ساتھ چلنے والے سے بلند قامت نظر آتے تھے۔‘‘ (امام سیوطی)
بعض طالبوں کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کے شیخ کی صورت میں نظر آتے ہیں لیکن وہ لوگ اس پر یقین نہیں کرتے کہ ایسا کس طرح ہو سکتا ہے! مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
بشکلِ شیخ دیدم مصطفیؐ را
ندیدم مصطفیؐ را بل خدا را
یعنی میں نے اپنے شیخ کی صورت میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دیدار کیا اور نہ صرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دیدار کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا۔
اگر اللہ ربّ العالمین ہے تو اس نے اپنے محبوب کو رحمتہ اللعالمین قرار دیا۔ اگر اللہ اپنی ہر مخلوق کی پکار سنتا ہے، ہر قوم و نسل کی ہر زبان سے واقف ہے بلکہ وہ تو ان کیفیات سے بھی بخوبی آگاہ ہے جو ابھی دل کے نہاں خانہ میں پوشیدہ ہیں۔اسی طرح محبوبِ الٰہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی اپنے عشاق کی ہر التجا کو سنتے اور منظور فرماتے ہیں، ان کی مشکل کشائی اور داد رَسی کرتے ہیں۔
قائد اعظمؒ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ایک الگ ریاست کی ذمہ داری انہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جانب سے تفویض کی گئی۔
قائد اعظمؒ فرماتے ہیں:
’’میں ایک رات لندن میں اپنے کمرے میں سو رہا تھا کہ ایک جھٹکے سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں پھر سو گیا۔ دوسرا جھٹکا تیز تھا۔ میں اٹھا اور دروازہ کھو ل کر باہر کا جائزہ لیااور یہ اطمینان کر کے کہ سب ٹھیک ہے، میں پھر سو گیا۔ تیسرے جھٹکے نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ میں اٹھ کر بستر پر بیٹھ گیا۔ میرا کمرہ خوشبو سے مہک رہا تھا اور میں کسی کی موجودگی محسوس کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا:
Who are you?
جواب ملا:
I am your Prophet Mohammad.
I have come to ordain you to leave for India and guide Muslims there in their Freedom Movement. I am with you. Finally you will emerge successful. Insha Allah
اس واقعہ کے بعد میں جتنی جلدی ممکن ہو سکتا تھا مستقل طور پر بمبئی آگیا۔‘‘
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام انگلش تو کیا ہر زبان بول اور سمجھ سکتے ہیں۔
مجلسِ محمدیؐ کی حضوری کے فیوض و برکات
کہا جاتا ہے کہ انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔
صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالح ترا طالح کند
یعنی نیک کی صحبت تمہیں نیک بنا دے گی اور بدکار کی صحبت تمہیں بدکار بنا دے گی۔
مجلسِ محمدیؐ کی حضوری میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت پانے والا آفتاب کی مانند روشن ہو جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت طالب کے زنگ آلود نفس کو آئینہ کی مانند شفاف بنا دیتی ہے، آپؐ کے وجود مبارک کی خوشبو روح کو معطر کر دیتی ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحبت یافتہ طالب کی شخصیت میں ایسا نکھار پیدا ہوتا ہے کہ وہ طالب جس جگہ بھی موجود ہوتا ہے ماحول کو منور کر دیتا ہے۔ اس کی سیرت و گفتار حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اخلاق کی آئینہ دار بن جاتی ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت سے حاصل ہونے والے فیوض و برکات لامحدودہیں۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کی شرح و تحقیق یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت کی سات نشانیاں ہیں: اوّل یہ کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وجود کی خوشبو مشک سے بھی زیادہ معطر ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کا راز یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وجود میں نفسِ امارہ نہیں ہے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وجود مبارک میں طمع، حرص، حسد اور خواہشِ نفس ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فنا فی اللہ اور ہمیشہ سے اللہ کے ساتھ ہیں۔ آپؐ اپنے والد کے آبِ منی سے پیدا نہیں ہوئے۔ آپؐکی پیدائش اس طرح ہوئی کہ بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا کے لیے جبرائیل علیہ السلام جنت سے ایک پھل لائے تھے جو شجرۃ النور کا پھل تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وجود کی خوشبو اس شجرۃ النور کی بدولت ہے کہ سر سے قدم تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وجود مبارک سے یہ خوشبو آتی ہے اور وہ تمام عالم میں مشہور ہے۔ کسی دوسرے وجود کو یہ قدرت حاصل نہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وجود مبارک کی مثل خوشبو دے سکے اگرچہ وہ تمام عمر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی حضوری سے مشرف رہے۔ دوم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت کی تاثیر یہ ہے کہ جو دائمی طور پر مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضر رہے ظاہر و باطن میں اس کا دل غنی ہوتا ہے۔ سوم یہ کہ وہ جو کچھ بھی بولتا ہے آیاتِ قرآن و حدیث کے مطابق بولتا ہے۔ چہارم یہ کہ وہ شریعت کا لبادہ اوڑھے ہوتا ہے۔ پنجم یہ کہ سنت جماعت کی پیروی خود پر لازم سمجھتا ہے۔ ششم یہ کہ وہ نافع المسلمین ہوتاہے۔ ہفتم یہ کہ وہ بے مثال سخاوت کا حامل ہوتاہے۔ ظاہر میں لوگوں سے ہم کلام ہوتا ہے جبکہ باطن میں وہ غرق فنا فی اللہ ہوتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
جب مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ان احوال کی تاثیر طالب کے وجود پر ہوتی ہے تو اس کا خام وجود مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی برکت سے اکسیر ہو جاتا ہے اور ذوق اور شوقِ محمدیؐ، معرفت اور وصالِ محمدیؐ،جمعیت اور حالِ محمدیؐ جیسے نیک خصائل اس کے تمام وجود کو اپنے قبضہ اور تصرف میں لے آتے ہیں اور اسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رضا حاصل ہوجاتی ہے۔ ہر طرح کے ناشائستہ افعال اس کے وجود سے نکل جاتے ہیں۔ اس پر ظاہر اور پوشیدہ تمام مراتب ظاہر ہو جاتے ہیں اور وہ بذریعہ کشف ان سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ (شمس العارفین)
حاصلِ تحریر:
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں لیکن یہ نعمت تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کے بعد میسر آتی ہے اور تزکیۂ نفس و تصفیۂ قلب کے لیے مرشد کامل اکمل کی صحبت اور ظاہری و باطنی تربیت بے حد ضروری ہے۔ دورِ حاضر میں مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں جو سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل ہیں۔ آپ کی نگاہِ کامل کی بدولت کثیر مرد و خواتین طالبانِ مولیٰ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری اور معرفتِ الٰہی پا چکے ہیں۔ طالبانِ مولیٰ کے لیے دعوتِ عام ہے کہ خانقاہ سلطان العاشقین میں حاضر ہو کر سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس سے ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات حاصل کریں اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری پا کر اپنی دنیا و عاقبت سنواریں۔
استفادہ کتب:
۱۔سرّ الاسرار: تصنیف سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ
۲۔نور الہدیٰ کلاں: تصنیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۳۔کلید التوحید کلاں: ایضاً
۴۔شمس العارفین،:ایضاً
۵۔انسانِ کامل: تصنیف سیدّ عبدالکریم بن ابراہیم الجیلیؒ
Very beautiful ❤️ and informative article
Behtreen article
SubhanAllah very nice
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہٗ سے ایک شخص نے دریافت فرمایا ’’کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا چہرہ مبارک تلوار کی مانند (لمبا پتلا) تھا؟‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’نہیں بلکہ چاند کی طرح (گول اور چمکدار) تھا۔‘‘ (بخاری 3552)
مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
بشکلِ شیخ دیدم مصطفیؐ را
ندیدم مصطفیؐ را بل خدا را
یعنی میں نے اپنے شیخ کی صورت میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دیدار کیا اور نہ صرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دیدار کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا۔
Behtreen mazmoon
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
شیطان کو چند صورتیں اختیار کرنے کی قدرت نہیں ہے اللہ کی صورت، حضرت محمد رسول اللہؐ کی صورت، سورج، چاند، مدینہ منورہ، روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، کعبۃ اللہ اور قرآن کی صورت کہ یہ تمام صورتیں ہادی ہیں اور شیطان ہادی اور ہدایت کی صورت اختیار نہیں کرسکتا۔ شیطان اور اس کی راہ باطل ہے جو حق تک ہرگز نہیں پہنچا سکتی۔ (عین الفقر)
اللہ پاک ہم سب کو دیدارِ مصطفیٰؐ عطا کرے۔
This is very informative article
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت فرماتے ہیں ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیشانی کشادہ تھی۔‘‘ (الوفا۔ ترمذی۔ طبرانی۔ بیہقی۔ سیوطی)
دورِ حاضر میں مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں جو سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل ہیں۔ آپ کی نگاہِ کامل کی بدولت کثیر مرد و خواتین طالبانِ مولیٰ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری اور معرفتِ الٰہی پا چکے ہیں۔
مجلسِ محمدیؐ کی حضوری میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت پانے والا آفتاب کی مانند روشن ہو جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت طالب کے زنگ آلود نفس کو آئینہ کی مانند شفاف بنا دیتی ہے، آپؐ کے وجود مبارک کی خوشبو روح کو معطر کر دیتی ہے۔
ماشاءاللہ بہت ہی بہترین مضمون لکھا ہے
بہترین آرٹیکل ہے