بے سکونی کے اسباب
تحریر: عرشیہ خان سروری قادری ۔لاہور
اس کائنات کا خالق و مالک اللہ ہے۔ ہر چیز اسی سے ہے اور اسی کی طرف لوٹ جائے گی۔ وہ ہر اَمر پر غالب ہے۔ پس انسان اس حقیقت کو تسلیم کرلے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اللہ کے اذن اور اس کی منشا سے ہو رہا ہے۔ انسان اس دنیا میں اپنی مرضی سے نہیں بھیجا گیا اور نہ ہی وہ اپنی مرضی سے دنیا سے واپس جا سکتا ہے تو پھر زندگی اپنی مرضی سے کیوں گزارنا چاہتا ہے؟ اللہ پاک نے زندگی گزارنے کا مکمل ضابطہ ہمیں عطا فرما دیا ہے لیکن انسان اپنی ذات اور نفس پرستی کے نشے میں اس قدر چُور ہے کہ لاتعداد نعمتوں اور آسائشوں کے حاصل ہونے کے باوجود مزید خواہشات کی تکمیل اور آسائشوں کے حصول کے لیے خوار ہو رہا ہے اور جب وہ خواہشات اور آرزوئیں پوری نہ ہوں تو ڈپریشن اور بے سکونی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس چکر میں وہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کی بھی ناشکری کر دیتا ہے کیونکہ اللہ نے انسان کو وہ کچھ عطا کیا ہے جو اس کے لیے بہتر ہے مگر انسان وہ حاصل کرنا چاہتا ہے جو وہ خود اپنے لیے بہتر سمجھتا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’ہو سکتا ہے کہ تم ایک چیز کوناگوار سمجھ رہے ہو جب کہ وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور ہو سکتا ہے کہ تم ایک چیز کو اچھا اور پسندیدہ خیال کرو مگر وہ تمہارے لیے بُری ہو۔ چیزوں کے اچھا برا ہونے کو تم نہیں جانتے اللہ جانتا ہے۔‘‘ (البقرہ۔ 216)
انسان اس دنیا سے جس قدر الجھتا ہے اتنا ہی اس کے گھیرے میں آتا چلا جاتا ہے اور جتنا اس سے بچتا اور اس سے پناہ مانگتا ہے اتنا ہی اس کے شر سےمحفوظ رہتا ہے کیونکہ یہ ایک ایسا کنواں ہے جس میں جو گِر گیا کبھی فلاح نہ پا سکا۔ اس لیے قرآنِ کریم، احادیث اور اولیا کرام کے اقوال دنیا سے دوری اختیار کرنے کا درس دیتے ہیں۔
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دنیا حاصل کرنا تو ایک طرف اس کی یاد سے بھی منع فرمایا۔ حدیث ِمبارکہ ہے: ’’دنیا کی یاد میں اپنے دلوں کو مشغول نہ رکھو۔‘‘
ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
دنیا اُس کا گھر ہے جس کا کوئی گھر نہیں اور اُس کا مال ہے جس کا کوئی مال نہیں اور اس کے لیے وہی جمع کرتا ہے جس میں کوئی عقل نہیں اور اس کی وجہ سے وہ دشمنی کرتا ہے جس کو کچھ علم نہیں،اس پر وہی حسد کرتا ہے جس کو کچھ سمجھ نہیں اوراس کے لیے وہی محبت کرتا ہے جس کا کوئی یقین نہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دنیا کے راہی کے لیے فرماتے ہیں:
جس نے اس حالت میں صبح کی کہ اس کی سب سے بڑی فکر دنیا ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے بارے میں کچھ خیرو برکت کی ذمہ داری نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے دل پر چار باتیں لازم کر دیں:
ایسا غم جو اس سے کبھی جدا نہ ہو۔
ایسی مصروفیت کہ کبھی فراغت نہ ملے۔
ایسا فقر وفاقہ کہ کبھی استغنا نہ ہو۔
ایسی امید ہے کہ کبھی بَر نہ آئے۔ (مکا شفتہ القلوب)
آخر دنیا کیا ہے جس کی طلب اور خواہش ہمارے لیے نقصان دہ ہے؟
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو ؒ کے روحانی وارث اور سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ اقدس اس فانی دنیا کے بارے میں فرماتے ہیں:
واضح ہو کہ عام طور پر ما ل و دولت کی فراوانی کو دنیا سمجھا جاتا ہے مگر دنیا کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ ہر وہ چیز دنیا ہے جواللہ تعالیٰ کی یاد سے ہٹا کر اپنی طرف مشغول یا متوجہ کرلے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد مبارک ہے :
مَا شَغَلَکَ عَنِ اللّٰہِ فَھُوَ صَنَمُکَ
ترجمہ: جو چیز تجھے اللہ کی طرف سے ہٹا کر اپنی طرف مشغول کرلے وہی تیرا بت ہے۔
نفسانی خواہشات کے پیچھے بھا گنا نفس پرستی ہے اوریہ بت پرستی کے زمرے میں آتا ہے۔
طالب ِدنیا سبب کوپکڑلیتا ہے اور مسبب کو چھوڑ دیتا ہے اور طالب ِ مولیٰ مسبب کو پکڑ لیتا ہے سبب کو چھوڑ دیتا ہے۔ (بحوالہ کتاب سلطان العاشقین)
بے چینی اور بے سکونی نفسانی خواہشات کا پیچھا کرتے کرتے تھک جانے کی کیفیت ہے۔ یہ دنیا دل لگانے کی جگہ نہیں ہے مگر ہم اس دنیا میں ہی جنت تلاش کرتے رہتے ہیں۔ بھلا انسانوں کی بنائی اور خدا کی بنائی جنت میں کوئی فرق نہیں ہو گا؟ وہ اس جنت کی تگ و دو میں ہیں جو لاحاصل تمناؤں اور ریت کے گھر جیسی ہے۔ جو لہروں کے آ جانے سے بہہ جاتا ہے مگر انسان کبھی باز نہیں آتا ہے اور دوبارہ بنیاد رکھ لیتا ہے حالانکہ جانتا ہے کہ لاحاصل خواہشات کے پیچھے کیونکر اور کب تک بھاگا جا سکتا ہے؟
سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ فرماتے ہیں:
اے دنیا سے ناواقف شخص! اگر تو دنیا کی حقیقت کو پہچان لیتا تو ہرگز اس کا طالب نہ بنتا۔ اگر دنیا تیرے پاس آئے گی تو تجھے مصیبت میں ڈال دے گی اور اگر تجھ سے چلی جائے گی تو تجھے حسرت میں مبتلا کرے گی۔ اگر تو اللہ پاک کو پہچان لیتا تو اس وجہ سے غیراللہ سے واقف ہوجاتا ۔ (الفتح الربانی ۔مجلس 50)
آج کل کے انسان خاص کر ہم مسلمان ظاہر پرستی میں مبتلا ہو چکے ہیں اور ہم نے اپنے باطن کو مکمل طور پر فراموش کر دیا ہے۔ جبکہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے اور اس کی نفی اور مخالفت کرتا ہے تبھی اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ نفس جیسے چور کا علاج سیّد نا غوث ا لاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
تیرا نفس جس طرح اللہ تعالیٰ کے حکم سے راضی ہونے سے منکر ہے اسی طرح تو بھی اپنے نفس کا منکر بن جا۔ جب تو اپنے نفس کا منکر ہو جائے گا تو ماسویٰ اللہ کے انکار پر قدرت حاصل کرلے گا۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 7)
طالب ِدنیا اللہ کی بجائے دنیا کے لوگوں سے امیدیں وابستہ رکھتا ہے ان سے عقیدت و محبت رکھتا ہے۔ خواہ زبان سے لاکھ کہے کہ مجھے صرف اللہ سے امید ہے لیکن دل دنیاوی لوگوں سے ہی جڑا ہوتا ہے۔ اسی لیے کوئی بھی رشتہ یا تعلق جب اس کی تو قعات پر پورا نہیں اُترتا تو بے سکون اور دکھی ہو جاتا ہے۔ امید، یقین اور ایمان صرف اللہ پاک کی ذات پر رکھنا ضروری ہے کہ دل سے ہر غیر اللہ کی محبت کو نکالا جائے کیونکہ یہی محبتیں اور امیدیں دل کی بے سکونی کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ چونکہ یہ دنیا ہمار ے امتحان کے لیے بنی ہے اس لیے ہر مشکل کی بنیادی وجہ ہماری آزمائش ہے۔ اگر کوئی آزمائش اللہ تعالیٰ نازل فرماتا ہے تو کوئی بھی دوسرا ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتا جب تک اللہ نہ چاہے۔
سیّدنا ابراہیم علیہ السلام پر جب آزمائش آئی اور انہیں نمرو د نے آگ میں پھینکوا دیا، اگر ابراہیم علیہ السلام اس آزمائش کے آنے پر خدا سے مایوس ہو جاتے اور آگ سے بچنے کیلئے نمرود کی بات تسلیم کرلیتے تو خدا پر اُس اعتماد، توکل اور یقین سے محروم رہ جاتے جس نے انہیں آگ سے بھی محفوظ رکھا اور نہ وہ مقام انہیں ملتا جس کے متعلق اللہ ربّ العزت نے فرمایا:
وَاِذَابْتَلَیٰٓ اِبْرَاہِیْمَ رَبُّہُ بِکَلِمٰتِ فَاَتَمَّھُنَّ (البقرہ۔124)
ترجمہ: جب ابراہیم ؑ کے ربّ نے اسے کچھ باتوں میں آزمایا تو اس نے ان باتوں کو پورا کر دکھایا۔
واضح ہوا کہ خواہ نبی و رسول ہو یا ولی و فقیر یا عام انسان‘ سب کو آزمایا جاتا ہے کیونکہ یہ اللہ پاک کا اصول ہے۔ مگر مسلمان آزمائش میں ناامیدی اختیار کر لیتے ہیں جس کی بنیادی وجہ توکل کی شدید کمی ہے۔
پس بے سکونی کی ایک وجہ اللہ اور اس کے دین ِ اسلام سے دوری بھی ہے۔ اس ذات کی یادکی بجائے اگر دنیاوی چنریں، رشتے ناطے، مال و دولت اور دیگر خواہشات قلب پر ڈیرہ جما بیٹھی ہیں تو انسان کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ خود کو جان بوجھ کر بے سکونی میں مبتلا کر رہا ہے اور قصور وار دوسروں کو ٹھہرا رہا ہے۔
انسان دنیا کواپنی مٹھی میں لے کر چلنا چاہتا ہے اس لیے دیگر انسانوں کو، لوگوں کے رویوں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے اور اپنی تمام خواہشات کی تکمیل کو پورا کرنا لازم سمجھتا ہے، خود بادشاہ بن بیٹھا ہے مگر حقیقی بادشاہ وہ ہے جو نظامِ کائنات چلا رہا ہے۔ اللہ مناسب وقت پر بہترین چیزوں سے نو ازتا ہے مگر انسان اپنی محدود عقل کی وجہ سے مایوسی میں مبتلا ہو کر ناشکری کرتا ہے۔
مایوسی کی اس کیفیت کو قرآنِ مجید نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
ترجمہ: اور اگر ہم انسان کو اپنی جانب سے رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں پھر ہم اسے (کسی وجہ سے) اس سے واپس لے لیتے ہیں تو وہ نہایت مایوس (اور) ناشکر گزار ہو جاتا ہے۔‘‘ (ھود۔ 9)
حضرت شیخ احمد بن مسروقؓ ارشاد فرماتے ہیں :
جوشخص حق کے علاوہ کسی اور چیز سے مسرور ہو گا اس کا سرور پریشانیاں پیدا کرے گا اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی بندگی کی بجائے کسی اور چیز سے مانوس ہونے کی کوشش کرے گا اس کا یہ لگاؤ اس کیلئے وحشت پیدا کرے گا۔
حضرت داتا علی ہجویریؒ مندرجہ بالا عبارت کی وضاحت میں فرماتے ہیں:
اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز فانی ہے۔ جو شخص فانی چیز کے ساتھ خوش ہو گا تو چیز کے فنا ہونے پر اس شخص کے پاس غم اور حیرت کے علاوہ کچھ بھی نہیں رہے گا اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز کی محبت حقیر چیز ہے اس لیے جب اس کے سامنے مخلوق کا کم تر ہونا ظاہر ہو گا تو اس کے لیے اپنی یہ محبت‘ وحشت اور پریشانی کا باعث بن جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سارے جہاں کے تمام تر غم اور تمام پریشانیاں اسی وجہ سے ہوتی ہیں کہ جب انسان اللہ کے غیر کے ساتھ تعلق قائم کرلیتا ہے ۔ (کشف المحجوب )
اللہ پاک بھی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
’’(اے محبوبؐ) کیا آپ نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی نفسانی خواہشات کو اپنا اِلٰہ (معبود) بنا لیا ہے۔‘‘ (الجاثیہ۔23)
اس نفسا نفسی کے دور میں خواہشات کے پیچھے بھاگنا بے سکونی، اللہ کی نافرمانی بے سکونی ،اللہ پاک کا شریک ٹھہرانے میں بے سکونی غیر اللہ کی محبت اور ان سے امیدیں بے سکونی ہے۔ جب انسان ان سب کی پیروی کرتا ہے تو خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتا ہے۔ جن کاموں سے اللہ پاک اور اس کے محبوب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے منع فرمایا ہم سب کچھ وہی کرتے ہیں پھر سکون کی تلاش کیوں کرتے ہیں۔ فرمانِ الٰہی ہے:
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! تمہارے مال اور اولادیں تم کو ذکر ِاللہ سے غافل نہ کر دیں جو لوگ ایسا کریں وہی خسارہ پانے والے ہیں۔‘‘ (المنافقون ۔9)
یعنی حقیقی سکون اور اطمینان اللہ کی یاد میں ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’جو لوگ اُٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور کائنات کی تخلیق میں غور کرتے ہیں، (یہ کہہ اُٹھتے ہیں کہ) اے مالک آپ نے یہ دنیا بے مقصد نہیں بنائی، آپ (لغو اور بے مقصد کام کرنے سے) پاک اور بلند ہیں۔ چنانچہ (اے اللہ ہمیں اس امتحان میں کامیابی کی راہ پر چلا اور) ہمیں دوزخ سے بچا۔‘‘ (آلِ عمران۔191)
اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ ۔ (الرعد۔28)
ترجمہ: بیشک ذکر ِاللہ سے ہی دلوں کو اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے۔
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی ؒفرماتے ہیں :
اگر تو باطن کا بند قفل کھولنا چاہتا ہے تو اس کی کلید کسی مردِ کامل (مرشد کامل اکمل) سے حاصل کر۔ باطن کے قفل کو کھولنے والی چابی اسم اللہ ذات ہے۔ (سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی ؒ حیات و تعلیمات)
اسی کلید کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :
بہترین طلب اللہ تعالیٰ کی طلب ہے اور بہترین ذکر اللہ (یعنی اسم اللہ ذات ) کا ذکر ہے۔
حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :
ہر کراں با اسم اللہ شد قرار
ہر چہ باشد غیر اللہ زاں فرار
ترجمہ :جس نے اسم اللہ ذات کے ساتھ قرار پکڑا وہ غیر اللہ کے ہر تعلق سے نجات پا گیا۔ (عین الفقر)
مشق تصور اسم اللہ ذات سے دل اس طرح زندہ ہو جاتاہے جس طرح کہ بار انِ رحمت سے خشک گھاس اور خشک زمین زندہ ہو جاتی ہے۔ (شمس العارفین)
پس معلوم ہو ا کہ بے سکونی کی اصل وجہ اللہ سے دوری اور غیر اللہ سے تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دل دیا مگر اس کا سکون ذکر اللہ میں رکھ دیا۔ سکون موجود ہے مگر اس کو صحیح جگہ تلاش کرنا چاہیے۔ سکونِ قلب کا مقام تب آتا ہے جہاں آپ اللہ سے اور اللہ آپ سے راضی ہو جائے۔ کیا ایک دنیادار کو یہ مقام حاصل ہے؟ رضا، توکل، یقین، بھروسہ محض کہنے کی حد تک ہیں۔ کیا کسی دنیادار نے اسے اختیار بھی کیا ہے؟ بلکہ اللہ کی ذات سے دوری نے اسے مایوسیوں میں دھکیل دیا ہے۔
غرضیکہ سکونِ قلب ذکر و تصور اسم ِاللہ ذات اور مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے کیونکہ کامل مرشد نفس کا طبیب ہوتا ہے جو نفس کا تزکیہ کرتاہے اور عشق ِ الٰہی کی بوٹی لگاتا ہے اور انسانی خواہشات کا رُخ اللہ پاک کی محبت اور رضا کی طرف موڑ دیتا ہے ۔
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
علامہ اقبال ؒایسے مردِ مومن کا ذکر فرماتے ہیں جس مرشد کامل اکمل کی نگا ہِ فیض سے قلوب کو تصفیہ، نفس کو تزکیہ، روح کو تجلیہ اور مُردہ دلوں کو حیات نصیب ہوتی ہے۔ مادیت پرستی کے جس دور نے ہمیں گھیرا ہوا ہے وہاں امید اور سکون قلب کا روشن چراغ موجودہ دور کے سلسلہ سروری قادری کے مرشد کامل اکمل اور سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے روحانی وارث مجددِ دین سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ اقدس ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس لاکھوں مریدین کے زنگ آلودہ قلوب کا تزکیہ فرماکر انہیں عشق ِ حقیقی کا جام پلاچکے ہیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ایسے حقیقی مرشد کامل کی پہچان تمام مسلم اُمہ کو نصیب فرمائے۔
آمین