ناشکری | Nashukri


Rate this post

ناشکری

تحریر: مسز فائزہ فہد سروری قادری۔ لاہور

اللہ ربّ العزت قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: 
فَبِاَیِّ اٰلَآئِِ  رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ  (سورۃ الرحمن)
ترجمہ: پس (اے گروہِ جن ّ و انس) تم اپنے ربّ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ 

 یہ سوال اللہ تعالیٰ نے سورہ رحمن میں اکتیس (31) بار تکرار کے ساتھ کیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ جن و انس اپنے ربّ کی ہر ہر نعمت کو جھٹلاتے آئے ہیں یا یوں کہنا درست ہوگا کہ ان میں سرکشی اور نعمتوں کو جھٹلانے کی عادت فطری اور جبلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بارہا انسان کی اس عادت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ سورہ سبا میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ قَلِیْلٌ  مِّنْ عِبَادِیَ  الشَّکُوْرُ (سبا۔13)
ترجمہ: اور میرے بندوں میں شکرگزار کم ہی ہوئے ہیں۔
سورہ یونس میں فرمایا:
اِنَّ  اللّٰہَ  لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ  وَلٰکِنَّ  اَکْثَرَہُمْ لَا یَشْکُرُوْنَ(سورہ یونس۔60)
ترجمہ: بیشک اللہ لوگوں پر فضل فرمانے والا ہے لیکن ان میں سے اکثر (لوگ) شکر گزار نہیں ہیں۔
سورۃ البقرہ میں ارشاد فرمایا:
وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوْنَ (البقرہ۔243)
ترجمہ: مگر اکثر لوگ (اس کا) شکر ادا نہیں کرتے۔ 

ناشکری کو انسان اس وقت تک نہ تو سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی تسلیم کرسکتا ہے جب تک وہ حاصل شدہ نعمتوں پر اپنی نگاہ نہ رکھے کیونکہ نفس، شیطان، دنیا اور دیگر فائدے سب مل کر اُسے ناشکری پر ابھارتے رہتے ہیں لیکن انسان کو احساس تک نہیں ہوتا۔ جب بندہ ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی پوشیدہ حکمت کو دیکھنا شروع کر دیتا ہے تو وہ نفس، شیطان اور دنیا کے حربوں کو پہچاننے لگ جاتا ہے اور ناشکری سے اپنا دامن بچا کر اپنے خالقِ حقیقی کو راضی اور خوش کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اللہ کی حکمت اْس کی معرفت حاصل ہونے کے بعد ہی سمجھ آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے ہر بندے کو اس کی ضرورت کے مطابق آسانیاں، سہولتیں اور سامانِ زندگی فراہم کرتا ہے لیکن انسان اپنی فطری سرکشی کی وجہ سے اور اپنے نفس کو بے لگام چھوڑ نے کی وجہ سے جو نعمتیں اسے حاصل ہوتی ہیں ان کا شکر ادا کرنے کی بجائے ان چیزوں پر نظر کیے رکھتا ہے جو یا تو دوسروں کو حاصل ہوتی ہیں یا اس کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں، نتیجتاً انسان نعمت کے ملنے پر بھی ناشکری کا مرتکب ہوتا ہے اور اس کے چھن جانے پر بھی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی ط کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْط وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُوْنَ  (البقرہ۔57)
ترجمہ: اور (یاد کرو) جب ہم نے تم پر (وادیٔ تِیہ میں) بادل کا سایہ کئے رکھا اور ہم نے تم پر من و سلویٰ اتارا کہ تم ہماری عطا کی ہوئی پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ، سو انہوں نے (نافرمانی اور ناشکری کر کے) ہمارا کچھ نہیں بگاڑا مگر اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے رہے۔ 

روایت ہے کہ کسی نے ایک فقیر سے پوچھا دنیا میں سب دکھی کیوں ہیں؟ فقیر نے ہنس کر جواب دیا خوشیاں سب کے پاس ہیں بس ایک کی خوشی دوسرے کا درد بن جاتی ہے۔

انسان کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک اس کی زندگی کے ہر لمحے میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور رحمتوں کی بارش ہو رہی ہوتی ہے۔ اگر انسان غور کرے تو ہر چیز اس کا شکر ادا کرنے کے لیے کافی ہے۔ ہم ہر روز خطائیں کرتے ہیں، نافرمانیاں اور سرکشی کرتے ہیں لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں اور رحمتیں روکتا نہیں ہے۔ ہمیں ہر روز عطا کرتا ہے۔ کیا یہ تمام چیزیں شکر ادا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں؟ وہ ہمیں معافی کی توفیق بھی عطا کر دیتا ہے کیا یہ شکر ادا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے؟

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (البقرہ۔52)
ترجمہ: پھر ہم نے اس کے بعد (بھی) تمہیں معاف کر دیا تاکہ تم شکرگزار ہو جاؤ۔
پھر فرمایا:
ثُمَّ بَعَثْنٰکُمْ مِّنْم بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ(البقرہ۔56)
ترجمہ: پھر ہم نے تمہارے مرنے کے بعد تمہیں (دوبارہ) زندہ کیا تاکہ تم (ہمارا) شکر ادا کرو۔ 

شکر۔ سیرت النبیؐ کی روشنی میں

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ایک دعا یاد کی جسے میں چھوڑتا نہیں ’’اے اللہ! مجھے ایسا بنا دے کہ میں تیرا بہت زیادہ شکر کروں، تیرا بہت زیادہ ذکر کروں، تیری نصیحت کی بہت اتباع کروں اور تیرے احکام کو بہت زیادہ یاد کروں۔‘‘ (ترمذی )

روایت ہے کہ صحابہ کرامؓ نے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حالاتِ زندگی کے بارے میں دریافت فرمایا تو آپؓ نے فرمایا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نماز میں رات بھر کھڑے رہتے یہاں تک کہ آپؐ کے دونوں پاؤں مبارک سوج جاتے۔‘‘ آپؐ سے عرض کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تو آپؐ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف کر دی ہیں (آپؐ اس قدر مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟‘‘ (صحیح بخاری 4836)

ایک عام مسلمان یقینا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرح عبادت، ریاضت اور شکر کا حق ادا نہیں کر سکتا لیکن کچھ نہ کچھ استطاعت اللہ تعالیٰ نے ہر بندے کو عطا کی ہوئی ہوتی ہے۔ لہٰذا ہر ایک پر فرض ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق اطاعتِ الٰہی اور شکر کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتا رہے۔ جب تک کوئی اپنی حیثیت اور استطاعت کے مطابق حق ادا نہیں کرتا اللہ تعالیٰ بھی اس میں برکت عطا نہیں کرتا اور اسے مزید توفیق عطا نہیں فرماتا کیونکہ وہ خود فرماتا ہے ’’اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں مزید عطا کروں گا۔‘‘ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:

وَ اِذ تَاَذَّنَ  رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکْمْ  وَ لَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْد (سورۃ ابراہیم:7)
ترجمہ: اور (یاد کرو) جب تمہارے ربّ نے آگاہ فرمایا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقینا سخت ہے۔ 

 لہٰذا کوئی یہ گلہ شکوہ نہیں کرسکتا کہ ہم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برابری نہیں کرسکتے یا ہم بہت عاجز ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بندے سے کوشش مانگی ہے نتیجہ اوراجر کا ذمہ اس نے خود لیا ہے لہٰذا اس کی شان یہ ہے کہ وہ بے حساب دیتا ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
 نعمت کا شکر حصولِ نعمت کا باعث ہے۔ (نہج البلاغہ)
 انسان پر شکر واجب ہے۔(نہج البلاغہ)
 شکر نعمتوں کا بیج ہے۔ (نہج البلاغہ)

حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کا ارشاد مبارک ہے:
اللہ تعالیٰ نے نعمت و مال حاصل ہونے پر شکر کا حکم فرما کر اس میں اضافہ کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ (کشف المحجوب)

شکر کی حقیقت

حقیقی شکر ادا کرنے کے لئے یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ شکر کی حقیقت کیا ہے؟
کیا صرف زبان سے الحمدللہ کہنے سے اور شکریہ کلمات ادا کرنے سے شکر کا حق ادا ہوجاتا ہے؟
بزرگانِ دین، صوفیا کرام اور فقرائے کاملین نے شکر کے آداب اور حقیقت سے امت ِ محمدیہ کو گاہے بہ گاہے آگاہ فرمایا ہے۔
روایت ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی: اے پروردگار! میں کیسے تیرا شکر ادا کروں جب کہ خود شکر ہی تیری نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی:
اے داؤد! بے شک تو نے شکر کا حق ادا کردیا۔

شیخ یحییٰ بن معاذ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
 اگر تم شکر ادا کرتے ہو تو حقیقی معنوں میں شکر ادا نہیں کرتے اس لئے کہ شکر کی انتہا حیرت ہے۔ بہرحال اللہ کا شکر ادا کرنا بھی اللہ کی ایک نعمت ہے اور اس نعمت پر شکر کرنا واجب ہے۔

 ایک بزرگ کا قول ہے کہ شکر یہ ہے کہ بندہ نعمت کو احسان سمجھے استحقاق نہ سمجھے۔ اور یہ بھی شکر ہے کہ نعمت منعم (نعمت عطا کرنے والے یعنی اللہ تعالیٰ) سے پیاری نہ ہوجائے۔

اگر نعمت حاصل ہو جانے کے بعد بندہ نعمتوں میں کھو جائے تو ایسا ہی ہے کہ بندہ دنیا میں آ کر دنیا کی رنگینیوں میں کھو جائے اور بالآخر خالی ہاتھ اور راندۂ درگاہ بن جائے۔ شکر کی حقیقت یہ بھی ہے کہ بندہ اپنے خالق و مالک کی رضا جاننے کی کوشش کرے اور اس چیز میں غور و فکر کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے نعمت کیونکر عطا فرمائی ہے۔

شہاب الدین سہروردیؒ ’’عوارف المعارف‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’نعمتوں کا تذکرہ کرنا، نعمتوں کی شہرت کرنا، نعمتوں کا پھیلانا اور نعمت کا زبان سے شمار کرنا ظاہری شکر ہے اور باطنی شکر یہ ہے کہ نعمتوں سے فائدہ اٹھا کر منعم حقیقی کی اطاعت کی جائے۔ نعمت عطا کرنے والے کی نافرمانی سے بچا جائے یہی نعمت کا شکر ہے۔‘‘ 

جب بندہ شکر کی حقیقت سمجھنا شروع ہو جاتا ہے تو اس میں عاجزی و انکساری، اللہ تعالیٰ، اس کے محبوب سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور صالحین (جو کہ اللہ اور اس کے محبوب کے محبوبین ہیں) کی محبت و اطاعت کے جذبات پیدا ہونے لگتے ہیں اور وہ اللہ کے قرب و وصال میں ترقی کرنے لگتا ہے۔

حضرت دقوقی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
عالم کے سارے تغیرات گردشِ زمانہ کی وجہ سے ہیں جو شخص اس گردش سے باہر ہوگا وہ کم یا زیادہ کے شکوہ سے بالاتر ہو جاتا ہے۔ جو انسان چون و چرا سے آزاد ہوجائے وہ خدائی بھیدوں کا ہمراز بن جاتا ہے۔ جو لوگ زمانہ کے مقید ہیں وہ لازماً ذاتِ باری تعالیٰ کی طرف راہ نہیں پا سکتے۔

سیدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ فرماتے ہیں:
اللہ کی ذات پر بندے کا اعتراض کرنا جو کہ عزت و جلال والا ہے، نزولِ تقدیر کے وقت دین اور توحید کی موت ہے اور توکل و اخلاص کی موت ہے۔ مومن بندہ چون و چرا کو نہیں جانتا بلکہ وہ صرف ہاں کہتا ہے اور سر جھکا دیتا ہے۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 1)

صحیحین میں ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: تعجب ہے کہ مومن کے لئے خدا تعالیٰ کی ہر قضا بھلائی کے لئے ہی ہوتی ہے۔ اگر اسے راحت پہنچتی ہے تو شکر کرکے بھلائی حاصل کرتا ہے۔ اگر برائی اور غم پہنچتا ہے تو یہ صبر کرتا ہے اور بدلہ حاصل کرتا ہے۔ یہ نعمت تو صرف مومن کو ہی حاصل ہے کہ جس کی ہر حالت بہتری و بھلائی والی ہے۔ بقول شاعر

چاند چھپتا ہے تو احساسِ ضیا ہوتا ہے

ورنہ تاروں سے فلک روز بھرا ہوتا ہے

شکر کی اہمیت

شکر اور شکرگزاری اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند ہے کہ قرآنِ مجید میں تقریبا 137 سے زائد آیات شکر کی اہمیت و فضیلت اور شاکرین پر انعامات کے متعلق ہیں۔ شکر اللہ کے برگزیدہ بندوں اور پیغمبروں کی اہم صفت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّہٗ  کَانَ عَبْدًا شَکُوْرًا  (بنی اسرائیل۔ 3)
ترجمہ: بیشک (نوحؑ) بڑے شکر گزار بندے تھے۔

اسی طرح بہت سے مقامات پر دیگر پیغمبروں کی صفات بھی بیان کی گئی ہیں۔ دیگر اخلاقِ حسنہ مثلا صبر، خوف، زہد، محاسبہ وغیرہ اللہ تک پہنچنے کی راہ میں وسیلہ ہیں جبکہ شکر ایک اہم اور بلند مقام ہے اس پر ہر کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ راہِ فقر کا طالب دیگر اہم مقامات کی طرح مقامِ شکر پر بھی درجہ بدرجہ ترقی پاتا ہے۔ ہر مقام اور ہر منزل ایک حد تک عبادت و ریاضت اور ورد و وظائف سے حاصل ہوجاتی ہے لیکن کسی بھی مقام کی انتہا تک پہنچنے کے لئے فقرا کاملین صرف ایک ہی کنجی کی نشاندہی فرماتے ہیں اور وہ کنجی مرشد کامل اکمل کی راہبری میں ذکر و تصور اسم ِاللہ ذات اور مرشد کامل اکمل کی صحبت و خدمت ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ کسی ایک کی کمی طالب کو نہ شکر کی انتہا پر پہنچا سکتی ہے اور نہ راہِ فقر پر چلا سکتی ہے۔ نتیجتاً طالب اپنے مقصد ِ حیات اور اللہ کے دیدار اور قرب و وصال کی نعمت سے محروم ہی اس دنیا سے لوٹ جائے گا۔ اور ناکامی اور پچھتاوے کے علاوہ کچھ بھی اس کے ہاتھ نہیں آئے گا۔ پس سمجھ گیا جو سمجھ گیا۔

 

36 تبصرے “ناشکری | Nashukri

    1. ناشکری کو انسان اس وقت تک نہ تو سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی تسلیم کرسکتا ہے جب تک وہ حاصل شدہ نعمتوں پر اپنی نگاہ نہ رکھے کیونکہ نفس، شیطان، دنیا اور دیگر فائدے سب مل کر اُسے ناشکری پر ابھارتے رہتے ہیں لیکن انسان کو احساس تک نہیں ہوتا۔ مزید پڑھنے کے لئے نیچے دیئے گئے لنک کو وزٹ کریں۔

      https://bit.ly/2GIOoRu
      #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #islam #nashukri

  1. اللہ کا شکر ادا کرو اور اس کی ناشکری نہ کرو

  2. سبحان اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #islam #nashukri

  3. ماشائ اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #islam #nashukri

  4. سبحان اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #islam #nashukri

  5. ماشائ اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #islam #nashukri

  6. سبحان اللہ
    بے شک انسان پر شکر واجب ہے

  7. MashaAllah 🥰🥰
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #islam #nashukri

    1. اللہ تعالٰی ہمیں اللہ کا شکر گزار بننے کی توفیق عطا فرمائے!(آمین )

اپنا تبصرہ بھیجیں