صدقہ Sadqa

Spread the love

Rate this post

صدقہ  ۔Sadqa

تحریر: مسز انیلا یٰسین سروری قادری۔ لاہور

یہ دنیا امتحان گاہ ہے جو اپنی پوری آلائشوں اور زیبائشوں کے ساتھ انسان کو اس کے عظیم مقصدِ حیات قرب و دیدارِ الٰہی سے غافل کرنے کے لیے ہمہ وقت نت نئے طریقوں کے جال بنتی رہتی ہے۔ مال و جان کی محبت اور اس کے کھو جانے کا خوف دنیا اور شیطان کا ایسا ہتھیار ہے جس میں انسان بہت جلد اور آسانی سے پھنس جاتا ہے۔ یہی انسان کی اس امتحان گاہ میں سب سے بڑی آزمائش بھی ہے۔ لہٰذا اس امتحان گاہ میں رہتے ہوئے ابدی کامیابی کے لیے جہدِمسلسل انسان پر فرض ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: (اے مسلمانو!) تمہیں ضرور بالضرور تمہارے اموال اور تمہاری جانوں میں آزمایا جائے گا، اور تمہیں بہر صورت ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور ان لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سے اذیت ناک ( طعنے) سننے ہوں گے، اور اگر تم صبر کرتے رہو اور تقویٰ اختیار کیے رکھو تو یہ بڑی ہمت کے کاموں سے ہے۔(سورۃ آل عمران۔ 186)

مزید فرمایا:
ترجمہ: تم اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) پر (کامل) ایمان رکھو اور اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد کرو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ (سورۃ الصف۔11)

صدقہ کا معنی و مفہوم

اللہ کی راہ میں مالی جہاد کی ایک قسم صدقہ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لیے دینِ حق کی سربلندی اور لوگوں کو راہِ حق کی جانب بلانے کے لیے جو مال خرچ کیا جاتا ہے، صدقہ کہلاتا ہے۔

امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں: 
صدقہ وہ مال ہے جس کا ادا کرنا واجب نہ ہو بلکہ خیرات دینے والا اس سے قربِ الٰہی کا قصد کرے۔ (زکوٰۃ اور صدقات)
صدقہ صدق اور سچائی سے ماخوذ ہے کیونکہ صدقہ رضائے الٰہی کے لیے مال خرچ کرنا ہے لہٰذا یہ خرچ کرنے والے کے ایمان کی سچائی اور صدق کی دلیل ہے۔

فضائلِ صدقہ قرآن و حدیث کی روشنی میں

اللہ پاک نے صدقہ دینے والوں کو عظیم الشان اجردینے کا وعدہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
ترجمہ: جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال (اس) دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اُگیں ( اور پھر ) ہر بالی میں سو دانے ہوں (یعنی سات سو گنا اجر پاتے ہیں)، اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے (اس سے بھی) اضافہ فرما دیتا ہے ، اور اللہ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے۔ (سورۃ البقرہ۔ 261)

ایک اور جگہ ارشادفرمایا:
ترجمہ: اور جو لوگ اپنے مال اللہ کی رضا حاصل کرنے اور اپنے آپ کو (ایمان و اطاعت پر) مضبوط کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک ایسے باغ کی سی ہے جو اونچی سطح پر ہو، اس پر زوردار بارش ہو تو وہ دوگنا پھل لائے، اور اگر اسے زوردار بارش نہ ملے تو (اسے) شبنم (یا ہلکی سی پھوار) بھی کافی ہو ، اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔ (البقرہ۔ 265)

حضرت رافع بن خدیجؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’صدقہ برائی اور بدبختی کے ستر دروازے بند کر دیتا ہے۔ ‘‘ (طبرانی۔4402)
حدیثِ نبویؐ ہے ’’ صدقہ گناہوں کو ایسے مٹا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتاہے۔‘‘ (ترمذی۔2616)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشادفرمایا:
 صدقے نے مال میں کبھی کوئی کمی نہیں کی اور معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کو عزت ہی میں بڑھاتاہے اور کوئی شخص (صرف اور صرف) اللہ کی خاطر تواضع ( انکسار ) اختیار نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ اس کا مقام بلند کر دیتا ہے۔ (صحیح مسلم۔6592)

حدیثِ نبویؐ ہے: مسلمان کا صدقہ عمر میں اضافہ کرتا ہے، برُی موت کو روکتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے تکبر اور فخر کو ختم کر دیتا ہے۔(طبرانی)
حضرت لقمانؓ کی اپنے بیٹے کو نصیحت ہی یہی تھی کہ اے میرے بیٹے! جب کبھی تجھ سے کوئی خطا سرزد ہو جائے تو صدقہ کر۔(کیمیائے سعادت)
پس تزکیۂ نفس اور قربِ الٰہی کے حصول کے لیے اخلاصِ نیت سے صدقہ کرنا بارگاہِ الٰہی میں ایک نہایت ہی پسندیدہ عمل ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
ترجمہ: بیشک صدقہ و خیرات دینے والے مرد اور صدقہ و خیرات دینے والی عورتیں اور جنہوں نے اللہ کو قرضِ حسنہ کے طور پر قرض دیا ان کے لئے (صدقہ و قرضہ کا اجر) کئی گنا بڑھا دیا جائے گا اور اُن کے لئے بڑی عزت والا ثواب ہوگا۔ (سورۃ الحدید۔18)

صدقہ نہ دینے پر وعید

صدقہ بلاؤں کو ٹالنے، قلب سے مال کی محبت نکالنے اور وصالِ الٰہی پانے کا ذریعہ بنتاہے اور صدقہ نہ دینے والا اللہ پاک کے غضب و غصے کا باعث بنتا ہے۔ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی اور نہ کوئی دوستی (کار آمد) ہوگی اور نہ (کوئی)  سفارش ، اور یہ کفار ہی ظالم ہیں۔ (سورۃالبقرہ۔254)

ترجمہ: اور تم اس ( مال) میں سے جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو قبل اِس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے پھر وہ کہنے لگے:اے میرے ربّ! تو نے مجھے تھوڑی مدت تک کی  مہلت اور کیوں نہ دے دی کہ میں صدقہ و خیرات کرلیتا اور نیکوکاروں میں سے ہو جاتا۔ (سورۃالمنافقون۔ 10)

آدابِ صدقہ

اخلاصِ نیت سے ادا کیا گیا صدقہ ہی قلب کو روحانی بیماریوں کی نجاست سے پاک کرنے کا سبب بنتا ہے اس لیے صدقہ کی ادائیگی کے وقت قلب کا خالص اللہ کی طرف رجوع ہونا ضروری ہے تب ہی صدقہ کی کنہ کو پایا جا سکتا ہے کیونکہ تنگدلی، دکھاوے و ریاکاری اور نمود و نمائش کرکے دیا گیا صدقہ ہلاکت اور بربادی کا سبب بنتا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: اے ایمان والو!اپنے صدقات (بعد ازاں) احسان جتا کر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح برباد نہ کر لیا کرو جو مال لوگوں کے دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ روزِ قیامت پر، اس کی مثال ایک ایسے چکنے پتھر کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو پھر اس پر زوردار بارش ہو تو وہ اسے (پھر وہی) سخت اور صاف (پتھر) کر کے ہی چھوڑ دے، سو اپنی کمائی میں سے ان (ریاکاروں) کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔ (سورۃالبقرہ۔264)

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ایک طویل حدیث مبارکہ میں درج ہے کہ سب سے پہلے جن تین اشخاص کو جہنم میں پھینکا جائے گا ان میں سے ایک ریاکار سخی شخص ہوگا جو لوگوں کو دکھانے کے لیے صدقہ و خیرات کرتا ہوگا۔

 رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :
قیامت کے روز وہ آدمی جس پر اللہ نے وسعت کی اور ہر قسم کا مال عطا کیا، اسے لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا ، وہ پہچان لے گا۔ اللہ فرمائے گا: تم نے ان میں کیا کیا؟ کہے گا: میں نے کوئی راہ نہیں چھوڑی جس میں تمہیں پسند ہے کہ مال خرچ کیا جائے مگر ہر ایسی راہ میں خرچ کیا۔ اللہ فرمائے گا: تم نے جھوٹ بولا ہے، تم نے (یہ سب) اس لیے کیا تاکہ کہا جائے وہ سخی ہے، ایسا ہی کہا گیا۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا، پھر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم۔4923)

پس اگر صدقہ دینے والااعلانیہ صدقہ و خیرات کرے اور مقصود رضائے الٰہی نہ ہو بلکہ دنیاوی شان و شوکت اور عزت و منصب کا حصول ہو تو ایسا صدقہ باطنی و ظاہری دونوں اعمال کو مٹا کر ریاکاری کے دفتر میں لکھ دیا جاتا ہے کیونکہ بخیل شخص اللہ کی راہ میں خوش دلی سے مال خرچ نہیں کرتا۔ البتہ ادائیگی صدقہ کے وقت اس کے قلب میں ریاکاری پھوٹنے لگے تو بخیل خود کو اس سے بچا نہیں پاتا اور ریاکاری کرتے ہوئے اپنا مال ضرور اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے لیکن ایسا کرنا اسے کوئی فائدہ نہیں دیتا الٹا بربادی کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
بخیلی اگر بچھو ہے تو ریاکاری سانپ کی طرح ہے جو بچھو سے زیادہ طاقتور ہے۔ اگر بچھو کو مار کر سانپ کو کھلا دیا جائے تو سانپ مزید زیادہ زہریلا اور خطرناک صورت اختیار کرلے گا۔ پس اعلانیہ اور ظاہراً صدقہ دینے میں اس کی منفعت سے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ (کیمیائے سعادت)

ادائیگی صدقہ کے آداب میں یہ بات بھی لازم ہے کہ صدقہ دینے میں ہرگز تاخیر سے کام نہ لیا جائے چونکہ صدقہ اللہ کی بارگاہ میں پسندیدہ عمل ہے اس لیے نفس و شیطان اس کی ادائیگی میں معذوری پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

حکایت: ایک بزرگ طہارت خانے میں گئے اور ان کے دل میں خیال آیاکیوں نہ میں اپنا کرتہ کسی درویش کو دے دوں۔ یہ خیال آتے ہی وہیں سے اپنے ایک مرید کو آواز دی اور کرتہ اتار کر اسے دے دیا۔ مرید نے عرض کیا حضرت! باہرآکر دے دیتے تو کیا حرج تھا؟ بزرگ نے فرمایا: اس خوف کے باعث مبادا کہ میرے دل میں کوئی اور خیال آجائے میں اس نیک کام سے محروم نہ ہو جاؤں! (کیمیائے سعادت)

صدقہ کی اقسام 

صدقات دو طرح کے ہوتے ہیں ایک صدقہ واجبہ جس میں زکوٰۃ، صدقہ فطر، نذرانہ، کفارہ اور فدیہ کی رقوم شامل ہیں۔جبکہ دوسرے صدقاتِ نافلہ ہیں ان میں عام صدقہ و خیرات اور عطیات کی رقوم شامل ہوتی ہیں۔ 

صدقہ واجبہ یعنی زکوٰۃ و فطر کی ادائیگی کے لیے شرائط ہیں مثلاً مقررہ نصاب کا ہونا اورمعینہ مدت کا مکمل ہونا وغیرہ۔ صدقاتِ واجبہ کی ادائیگی لازم ہے اور نہ ادا کرنے پر گناہ ہوگا۔ جبکہ صدقہ نافلہ کی ادائیگی کے لیے کوئی شرط نہیں ہے یعنی اس کی ادائیگی میں مقررہ نصاب کی حد اور وقت کا تعین مقرر نہیں ہے۔ ارشادِ نبویؐ ہے:
ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے۔ لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)! اگر کسی کے پاس کچھ نہ ہو؟ آپؐ نے فرمایا: پھر اپنے ہاتھ سے کچھ کما کر خود کو بھی نفع پہنچائے اور صدقہ بھی کرے۔ لوگوں نے کہا: اگر اس کی طاقت نہ ہو؟ فرمایا: پھر کسی حاجت مند فریادی کی مدد کرے۔ لوگوں نے کہا اگر اس کی بھی سکت نہ ہو۔ فرمایا: پھر اچھی بات پر عمل کرے اور بری باتوں سے باز رہے۔ اس کا یہی صدقہ ہے۔(مسلم۔ 2333)

ایک اور حدیثِ مبارکہ میں ارشاد فرمایا:
اپنے بھائی کے سامنے تمہارا مسکرانا تمہارے لیے صدقہ ہے، تمہارا بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے، بھٹک جانے والی جگہ میں کسی آدمی کو تمہارا راستہ دکھانا تمہارے لیے صدقہ ہے، نابینا اور کم دیکھنے والے آدمی کو راستہ دکھانا تمہارے لیے صدقہ ہے، پتھر، کانٹا اور ہڈی کو راستے سے ہٹانا تمہارے لیے صدقہ ہے، اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں تمہارا پانی ڈالنا تمہارے لیے صدقہ ہے۔ (ترمذی۔ 1956)

صدقہ و خیرات کا اصل حقدار

صدقہ و خیرات خالص اللہ کی رضا کے لیے دئیے جاتے ہیں۔ یہ جاننے کے بعد اس بات کا علم رکھنا بھی ضروری ہے کہ ان کا اصل حقدار کون ہے؟ عام طور پر یہ نظریہ پایا جاتا ہے کہ اپنے صدقات و خیرات بھیگ مانگنے والے راہ گیروں، بھکاریوں اور گداگروں کو دے دینے چاہئیں جو کہ سراسر کبیرہ گناہ ہے کیونکہ اللہ کے نام پر لوگوں کے آگے بھیک مانگنا نہایت ہی مذموم عمل ہے۔ یہ لوگ اللہ کے حکم ’’توکل علی اللّٰہ‘‘ سے منہ موڑے حرصِ دنیا میں اندھے، مال و دولت کے پجاری اور دنیا کو جمع کرنے میں مصروفِ عمل رہتے ہیں اور یوں اللہ کے احکامات کی نافرمانی کرتے ہوئے اللہ کے نزدیک ملعون گروہ قرار پاتے ہیں۔ اس لیے ایسے لوگوں کو صدقہ و خیرات دینا حقیقتاً مال کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ دوسری جانب ان کے اس نہایت قبیح عمل کی حوصلہ افزائی کرنا بھی درست نہیں۔ 

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: آدمی لوگوں سے ہمیشہ سوال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قیامت والے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہ ہوگا۔(مسلم۔2398) (زکوٰۃ و صدقات)

حضرت سمرہ بن جندبؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: بھیک مانگنا ایک زخم ہے جس کے ساتھ آدمی اپنا چہرہ زخمی کرتا ہے، سوائے اس کے کہ کوئی شخص حکمران سے یا کسی ضروری امر سے اِعانت طلب کرے (تو جائز ہے)۔ (مسنداحمد بن حنبل۔20366)

زکوٰۃ، فطرانہ،صدقہ و عطیات کے اصل حقدار کون لوگ ہیں؟ اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں واضح بیان فرما دیا ہے:
ترجمہ: بے شک صدقات تو فقرا، مساکین اور عاملین (زکوٰۃ اکٹھا کرنے والے)، قلوب کی تالیف، گردنیں چھڑانے،قرض داروں کے قرض ادا کرنے میں، اللہ کی راہ اور مسافروں کے لیے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے فرض کیے گئے ہیں اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔ (سورۃ التوبہ۔ 60)

اس حکم کے مطابق صدقات کے اوّلین حقدار تو فقرائے کاملین ہیں۔ یہ جاننا بھی نہایت ضروری ہے کہ عام طور پر گداگروں، بھکاریوں اور راہگیروں کو فقیر کہا جاتاہے جو کہ سراسر غلط نظریہ ہے۔ گداگروں اور بھکاریوں کے بارے میں پہلے تحریر ہو چکا ہے جبکہ فقرا ’’فقیر‘‘ کی جمع ہے اور اس سے مراد وہ ولیٔ کامل ہے جو فنا فی اللہ ہو چکا ہو جیسا کہ سورۃ البقرہ میں اسکی وضاحت میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: صدقات تو ان فقرا کے لیے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی اللہ کی راہ میں وقف کر دی اور زمین میں چل پھر کر کسبِ معاش نہیں کرتے تم نادان ہو جو انہیں صورت دیکھ کر پہچان نہیں سکتے (یعنی تمہارے پاس نورِ بصیرت نہیں ہے جس سے انہیں پہچان سکو) کہ وہ خوشحال ہیں۔ لوگوں سے لپٹ کر اور گڑگڑا کر سوال نہیں کرتے۔ دراصل صدقات و خیرات کے مستحق یہی لوگ ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے۔ (سورۃ البقرہ۔ 273)

سیدّنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا: میرے نزدیک فقیر (فقیر ِ کامل،انسانِ کامل) وہ نہیں کہ جس کے پاس کچھ نہ ہو بلکہ فقیر وہ ہے جس کا امر ہر شے پر نافذ ہو اور جب وہ کسی شے کے لیے کہے ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہو جائے۔ (الرسالتہ الغوثیہ)

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:  (اپنے مال و دولت سے) فقرا کی خدمت کرو اس سے پہلے کہ تمہاری دولت فنا ہو جائے۔ (محکم الفقرا)

سیدّناابوذرؓ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے متعدد سوالات کئے، ان میں سے ایک سوال صدقہ کے بارے میں تھا۔ وہ کہتے ہیں: میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)!کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: کم سرمائے والے آدمی کی محنت کا صدقہ یا فقیر کو پوشیدہ انداز میں صدقہ دینا افضل ہے۔ (مسند احمد ۔ 21885 )

فقرا کاملین کو صدقہ و زکوٰۃ پیش کرنے والا کبھی بھی فاقہ و تنگدستی میں مبتلا نہیں ہوتا۔
حکایت: حضرت جنید بغدادیؒ کے زمانہ میں ایک سبزی فروش عالم تھے۔ان کا یہ معمول تھا کہ وہ صدقہ دیتے وقت فقرا کو دوسروں پر ترجیح دیتے تھے۔ جب ان سے کہا گیا کہ آپ اپنے صدقات میں دوسروں کا بھی خیال رکھا کریں تو زیادہ افضل ہوگا۔ انہوں نے کہا: یہ (فقرا) وہ لوگ ہیں جن کا دھیان صرف اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اگر ان پر فاقہ آگیا تو ان کا دھیان بٹ جائے گا۔ اگر میں کسی بندے کا دھیان اللہ کی طرف لگا دوں تو میرے لیے یہ بات اس بندے کو ایک ہزار درہم دینے سے زیادہ پسندیدہ ہے جس بندے کا مقصد صرف دنیا ہو۔ جب حضرت جنید بغدادیؒ کے سامنے اس بات کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: وہ اولیا اللہ میں سے ایک ولی ہے اور کہا اس سے اچھی بات میں نے اب تک نہیں سنی۔ رفتہ رفتہ اس کے حالات بدلنا شروع ہوئے اور وہ مفلس ہو گیا اور دکان چھوڑنے کا ارادہ کیا۔جب حضرت جنید بغدادیؒ کو اس کی نازک حالت کا علم ہوا تو آپؒ نے اسے بہت سا مال بھیج دیا اور کہا’’اس کو اپنا سرمایہ بنا اور دکان نہ چھوڑ کیونکہ تیرے جیسے شخص کو تجارت نقصان نہیں پہنچاتی(یعنی بظاہر دنیاوی تجارت میں امتحان کا سامنا ہے تو فکر نہ کرو، اخروی تجارت تمہارے لیے نفع بخش ثابت ہوگی)۔ (مکاشفتہ القلوب)

بے شک صدقہ و خیرات کرنے کا دنیا اور آخرت میں بے شمار اجر و ثواب ہے۔ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں عبادات کے ساتھ ساتھ صدقہ و خیرات کا شوق بھی بڑھ جاتا ہے کیونکہ اس ماہ میں ہر نیکی کا ثواب ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔
حضرت انس بن مالکؓ بیان فرماتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پوچھا گیا: کون سا صدقہ افضل ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: رمضان میں صدقہ کرنا افضل ہے۔ (سنن ترمذی۔663)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ کسی کے مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کے مال نے۔ صحابہ کرامؓ نے کثرت سے اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے یہ جانثار اس بات کے منتظر رہتے کہ کب آپؐ حکم فرمائیں تو وہ اپنا مال آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں پیش کر کے سرخرو ہوں۔ سیدّنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں: تمہارے درمیان صورتاً کوئی نبی موجود نہیں ہے تاکہ تم اس کی اتباع کرو۔ پس جب تم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متبعین (مرشد کامل، فقیرِ کامل) کی اتباع کرو گے جو کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقی اتباع کرنے والے اور اتباع میں ثابت قدم ہیں توگویا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اتباع کی۔ جب تم ان کی زیارت کرو گے توگویا تم نے نبی کریمؐ کی زیارت کی۔ (الفتح الربانی مجلس۔14)

عصرِ حاضر میں وہ فقیر مالک الملکی، مجددِین سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی ذاتِ بابرکات ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے اپنی تمام تر زندگی و صلاحیتیں بحکمِ الٰہی مخلوقِ خدا کو خدا شناسی کی جانب راغب کرنے میں مصروف رکھیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کے مریدین اس بات کے شاہد ہیں کہ انہوں نے آپ مدظلہ الاقدس کو ایک لمحہ بھی دینِ محمدیؐ کے فروغ کے امور کی ادائیگی سے فراغت میں نہیں پایا۔ 

کتاب ’’شان سلطان العاشقین‘‘ میں تحریر ہے:
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے دینِ محمدیؐ کو ازسرِ نو حیات بخشی اور راہِ تصوف میں آپ کی تعلیمات 24کتب کی صورت میں اُمتِ محمدیہ کے لیے مینارۂ نور ثابت ہوئیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ خداوند تعالیٰ اپنی مخلوق کی بھلائی کے لیے اولیا کاملین کو آج بھی دنیا میں بھیجتا ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے لاکھوں لوگوں کے قلوب کو علمِ لدنیّ کے نور سے منور فرمایااور معراجِ انسانی کا راستہ دکھایاکیونکہ وہاں تک پہنچنا ہی حقیقی سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے۔(شان سلطان العاشقین)

پیغامِ حق تعالیٰ کو منظم انداز میں متلاشیانِ حق تک پہنچانے کے لیے آپ مدظلہ الاقدس نے 23 اکتوبر 2009ء کو تحریک دعوتِ فقرقائم فرمائی۔ اس جماعت کا پیغام ہی فَفِرُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ    ’’پس دوڑو اللہ کی طرف‘‘ (سورۃ الذاریات۔50) ہے۔ اس طرح تحریک کے زیرِسایہ مختلف شعبہ جات مثلاً سلطان الفقر پبلکیشنز، ماہنامہ سلطان الفقر لاہور، شعبہ ویب سائٹ ڈویلپمنٹ ،شعبہ سوشل میڈیا، شعبہ دعوت و تبلیغ، شعبہ اطلاعات ونشریات اور دیگر کئی شعبہ جات قائم کیے گئے ہیں۔ یہ تمام شعبہ جات دن رات دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فروغ کے لیے سرگرمِ عمل رہتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: جو لوگ ہماری طرف آنے کی جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں ہم ان کو اپنی طرف آنے کے راستے دکھا دیتے ہیں۔ (سورۃ العنکبوت۔ 69)

مرشد کامل اکمل شمع کی مانند ہوتاہے اور متلاشیانِ حق پروانے، جو شمع کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس بھی متلاشیانِ حق کے لیے شمع کی مانندہیں۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے مریدین کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اسی ضرورت کے پیش نظر آپ مدظلہ الاقدس نے یکم دسمبر2017ء (12ربیع الاوّل 1439ھ) بروز جمعتہ المبارک عید میلاد النبیؐ کے بابرکت موقع پر مسجدِ زہراؓ اور خانقاہ سلطان العاشقین کی تعمیر کا بھی اعلان فرمایا۔ 

 حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :
 مومن کو وفات کے بعد جو نیک عمل پہنچتے ہیں، ان میں یہ بھی ہیں: جس نے علم کی تعلیم دی اور اسے پھیلایا، نیک اولاد جو پیچھے چھوڑی، قرآنِ مجید کا نسخہ جو کسی کو وراثت میں ملا، مسجد جو اس نے تعمیر کی، مسافر خانہ جو اس نے قائم کیا ، نہر جو اس نے جاری کی یاوہ صدقہ جو اس نے اپنی زندگی میں صحت کی حالت میں نکالا، ان سب کا ثواب اس کی موت کے بعد اسے ملتا رہتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ۔ 242)

مسجدِ زہراؓ اور خانقاہ سلطان العاشقین کی تعمیر کا مقصد دینِ محمدیؐ کے فروغ کے لیے ایسا مرکز بنانا ہے جہاں اُمتِ مسلمہ کو اخلاقی و روحانی اصلاح کے لیے جمع کیا جائے۔ بے شک رمضان المبارک میں خالص اللہ کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لیے درست جگہ خرچ کیے گئے مال کی بڑی اہمیت و اجر ہے۔ آپ سے پرزور اپیل ہے کہ آپ اپنے عطیات و صدقات خانقاہ سلطان العاشقین کی تعمیر و توسیع کے لیے یا تحریک دعوتِ فقر کے دیگر شعبہ جات کے لیے فقیر کامل سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں پیش کر کے خوشنودی و رضائے حق تعالیٰ کی نعمت پائیں۔ بے شک فقیرِکامل اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کو دونوں جہانوں میں کبھی فراموش نہیں کرتا۔

استفادہ کتب
۱۔ شان سلطان العاشقین:  تصنیف سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری
۲۔ کیمیائے سعادت : تصنیف امام الغزالیؒ
۳۔ مکاشفۃ القلوب:  امام محمد غزالیؒ
۴۔ زکوٰ ۃو صدقات :  تصنیف ڈاکٹر طاہر القادری

 
 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں